Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 91
اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَآءَ فِی الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ وَ یَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَ عَنِ الصَّلٰوةِ١ۚ فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ
اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں يُرِيْدُ : چاہتا ہے الشَّيْطٰنُ : شیطان اَنْ يُّوْقِعَ : کہ دالے وہ بَيْنَكُمُ : تمہارے درمیان الْعَدَاوَةَ : دشمنی وَالْبَغْضَآءَ : اور بیر فِي : میں۔ سے الْخَمْرِ : شراب وَالْمَيْسِرِ : اور جوا وَيَصُدَّكُمْ : اور تمہیں روکے عَنْ : سے ذِكْرِ اللّٰهِ : اللہ کی یاد وَ : اور عَنِ الصَّلٰوةِ : نماز سے فَهَلْ : پس کیا اَنْتُمْ : تم مُّنْتَهُوْنَ : باز آؤگے
شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان عداوت اور کینہ ڈلوا دے اور تمہیں اللہ کے ذکر اور نماز سے باز رکھے ، پھر کیا تم باز رہنے والے ہو
شراب ، جوئے اور دوسرے اعمال کی حرمت کی اصل وجہ کیا ہے ؟ : 217: زیر نظر آیت میں شراب اور جوئے کی حرمت کی حکمت بیان فرمائی جا رہی ہے اس کی حکمت یہ ہے کہ اس کی ” خرابیاں اور نقصان ایسے ہیں جن کی قباحت روز روشن کی طرح واضح ہے جس میں سے ایک یہ ہے کہ اس سے عداوت اور دشمنی کی تخم ریزی ہوئی ہے جس سے گہرے دوست ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوجاتے ہیں۔ حقیقی بھائی ایک دوسرے کے دشمن ہوجاتے ہیں اور دوسرے یہ کہ دونوں چیزیں اللہ کی یاد سے روک دینے والی ہے حتیٰ کہ نماز جیسے فریضہ کی بھی پروا نہیں رہتی ۔ پھر تم ہی بتاؤ کہ تم اس فریضہ سے باز رہنا چاہتے ہو ؟ مطلب یہ ہے کہ ان نقصانات کے باوجود تم ان سے اجتناب نہیں چاہتے۔ اس جگہ جو دو نقصانات بیان کئے گئے دراصل یہ دونوں ہی تمام برائیوں کی جڑ ہیں اور ہر طرح کی برائیاں انہیں دونوں سے پھوٹتی ہیں گویا یہ برائیوں کے دو منبع ہیں جن کو اس جگہ بیان کردیا گیا۔ شرابی شراب پی کر کیا کیا حرکتیں کرتا ہے آج بھی سب پر روشن ہے اور اس طرح جوئے میں ہارنے والا جس غیض و غضب اور بغض و عداوت کا مرتکب ہوتا ہے وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔ نماز بھی ذکر اللہ میں شامل تھی لیکن اس کے باوجود اس کو دوبارہ ذکر کردیا اس لئے کہ یہ خرابی وہ خرابی ہے جو روحانی بھی ہے اور روحانی بیماری بہر حال جسمانی بیماری سے زیادہ خطرناک ہے اس لئے کہ جسم تو ایک عارضی چیز ہے جس کی خرابی بھی ظاہر ہے کہ عارضی ہی ہو سکتی ہے کہ کتنی دیر کوئی شخص زندہ رہے گا لیکن روحانی بیماری تو وہ بیماری ہے جس کا سلسلہ کبھی منقطع ہونے والا نہیں اور ظاہر ہے کہ پھر وہ بیماری بھی اتنی لمبی اور نہ ختم ہونے والی ہوگی۔ اللہ کی یاد سے غافل کی آخرت تباہ اور روح مردہ ہوجاتی ہے اور اس طرح اللہ کی یاد سے غافل کی دنیا بھی وبال جان ہوتی ہے کہ جب اللہ سے غافل ہو کر اس کا انتہائی مقصود مال و دولت اور عزت و جاہ ہوجائے تو اتنے بکھیڑے اپنے ساتھ لاتا ہے کہ وہ خود ایک مستقل غم ہوتا ہے جس میں مبتلا ہو کر انسان اپنے مقصود المقاصد یعنی راحت و آرام اور اطمینان و سکون سے محروم ہوجاتا ہے اور ان اسباب راحت میں ایسا مست ہوجاتا ہے کہ خود راحت کو بیے بھول جاتا ہے اور پھر جب کسی وقت یہ مال و دولت یا عزت و جاہ جاتے رہیں یا ان میں کسی طرح کی کمی آجائے تو اس کے غم و رنج کی انتہا نہیں رہتی۔ غرض یہ خالص دنیا دار انسان دونوں حالتوں میں رنج و غم اور فکر وانذوزہ میں گھرارہتا ہے ۔ ” رجس من عمل ال شیطان “ سے خالص اخروی اور روحانی مضرت بیان کرنا مقصود ہے اور ” یوفع بینکم العداوۃ والبغضائ “ سے خالص دنوری اور جسمانی خراب بتلانا مقصود ہے۔ ” ویصد کم عن ذکر اللہ “ سے دین و دنیا کی مشترک تباہی و بربادی کا ذکر کرنا مقصود ہے اور پچھلی آیت میں جو دوسرے اعمال کا ذکر کیا تھا جن کا عقائد سے تعلق قائم ہونے کے باعث اعمال کا سرزد ہونا ہے وہ بھی سارے کے سارے شیطانی اعمال ہیں کیونکہ عقیدہ عمل کی اصل ہے۔ عقیدہ غلط ہوگا تو عمل کبھی درست ہو ہی نہیں سکتا۔ اس لئے کہ اس کا جو قدم اٹھے گا شیطان کی طرف ہی اٹھے گا ۔ پھر شیطان کا کام ہی کیا ہے ؟ یہی کہ ہر برے کام کو کرنے والے کی نظر میں اچھا کر دکھانا تاکہ نہ اس کو وہ برائی کی نگاہ سے دیکھے اور نہ اس سے بچنے کی کوشش کرے بلکہ وہ اس برے عمل کو ثواب اور اچھا کام سمجھ کر کرے تاکہ وہ اس کو کرتا ہی رہے۔
Top