Asrar-ut-Tanzil - Ar-Ra'd : 27
وَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْهِ اٰیَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ١ؕ قُلْ اِنَّ اللّٰهَ یُضِلُّ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَهْدِیْۤ اِلَیْهِ مَنْ اَنَابَۖۚ
وَيَقُوْلُ : اور کہتے ہیں الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا (کافر) لَوْ : کیوں لَآ اُنْزِلَ : نہ اتاری گئی عَلَيْهِ : اس پر اٰيَةٌ : کوئی نشانی مِّنْ : سے رَّبِّهٖ : اس کا رب قُلْ : آپ کہ دیں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يُضِلُّ : گمراہ کرتا ہے مَنْ يَّشَآءُ : جس کو چاہتا ہے وَيَهْدِيْٓ : اور راہ دکھاتا ہے اِلَيْهِ : اپنی طرف مَنْ : جو اَنَابَ : رجوع کرے
اور کافر کہتے ہیں ان پر (ہمارے فرمائشی معجزوں میں سے) کوئی معجزہ ان کے پروردگار کی طرف سے کیوں نازل نہیں کیا گیا آپ فرمادیجئے کہ بیشک اللہ جس کو چاہتے ہیں گمراہ کردیتے ہیں اور جو ان کی طرف رجوع کرتا (متوجہ ہوتا) ہے اس کو اپنی طرف راستہ دکھادیتے ہیں
(رکوع نمبر 4) اسرارومعارف پ 13 ع 10 ” ویقول الذین کفروا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 27 تا 31۔ کفار کا یہ کہنا کہ جو معجزہ ہم طلب کرتے ہیں وہ ان سے کیوں صادر نہیں ہوتا اور ان کا پروردگار ایسی نشانی ان پر نازل کیوں نہیں فرماتا حالانکہ آپ کی پوری حیات مبارکہ بہت بڑا معجزہ ہے ، قرآن حکیم بہت بڑا معجزہ ہے اور اس کے علاوہ اس قدر معجزات کا ظہور ہوا کہ انسانی شمار سے باہر ہیں ، ان سب کو یہ کوئی اہمیت نہیں دے رہے تو جس بات کا یہ مطالبہ کرتے ہیں اس کے پورا ہونے پر کب ایمان لائیں گے ، ان کا ایمان نہ لانا کسی معجزے کا محتاج نہیں بلکہ ان کے گناہوں کے سبب اللہ جل جلالہ نے ان پر ہدایت کا دروازہ بند کردیا ہے اور ہمیشہ کی گمراہی ان کا مقدر ہے کہ اللہ جل جلالہ ہدایت اسی کو عطا فرماتے ہیں جس کے دل میں انابت یعنی طلب پیدا ہوجائے جو ہدایت اور صداقت کو اپنانے کی آرزو تو کرے ورنہ تو زبردستی ہوگی پھر حساب کیسا ہاں انسان کائنات کو دیکھ اللہ جل جلالہ کے بندوں کو دیکھ کر ان کی دعوت سن کر از خود کم از کم یہ فیصلہ تو کرے کہ مجھے حق کو اختیار کرنا چاہئے تو اس کی تمنا پر اللہ جل جلالہ ہدایت کے اسباب مہیا فرما دیتے ہیں عقل و شعور اور قلب ونظر کی راہیں واہو جاتی ہے ۔ (قلب کا اطمینان کیا ہے) جیسے مومنین کو دیکھ لیجئے کہ پہلے اسی معاشرے کا حصہ تھے مگر ان کے دلوں کا قرار اللہ جل جلالہ کی یاد میں ہے اور یہ بات یقینی ہے کہ دل اللہ جل جلالہ کی یاد ہی سے قرار پاتے ہیں مفسرین کرام کے مطابق ذکر اللہ سے مراد قرآن حکیم بھی ہے جسے کافر اور منکرین کوئی اہمیت دینے کو تیار نہ تھے بلکہ اپنے تجویز کردہ معجزات کے طالب تھے جن کا تذکرہ آگے آرہا ہے مگر دیاد رہے کہ نزول قرآن کو تو مسلسل تئیس برس لگے مگر اعلان نبوت کے ساتھ ہی اطمینان قلب اور ذکر اللہ کی دولت تقسیم ہونے لگ گئی بعثت عالی کے روز جسے ایمان نصیب ہوا جیسے حضرت خدیجۃ الکبری ؓ تو وہ شرف صحابیت سے مشرف ہوا اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین کا وصف قرآن حکیم میں بیان ہوا ہے کہ (آیت) ” ثم تلین جلودھم وقلوبھم الی ذکر اللہ “۔ کہ پھر کھال سے لے کر ان کے نہاں خانہ دل تک ذکر اللہ سے روشن ہوجاتے ہیں اور یہاں بھی صرف ایمان کو بنیاد قرار دے کر اس نعمت کا بیان ہے اور ایمان درحقیقت رسول اللہ ﷺ کی معرفت کا نام ہے جو آپ ﷺ پر اعتبار ویقین کی دولت عطا کرے تو یہ نسبت فیضان وبرکات نبوت کے حصول کا سبب بنتی ہے اور برکات نبوت شرف صحابیت عطا کرتی ہیں اور یوں نہ صرف دل بلکہ سارا وجود ذاکر ہوجاتا ہے اور دل کو اطمینان نصیب ہوتا جو اللہ جل جلالہ کی واحد ذات پر اعتماد کا نام ہے کہ دل فرد کی ذاتی ضروریات و خواہشات کے لیے بیقرار رہتا ہے کبھی کسی سبب کے پیچھے لپکتا ہے تو کبھی کسی دروازے پہ جبہ سائی کرتا ہے ، مگر جب اسے اللہ جل جلالہ کی معرفت نصیب ہوتی ہے تو اسی ایک ذات کو اور اس کی تجلیات کو خود میں بسا لیتا ہے ، پھر کسی دوسرے دروازے کی حاجت نہیں رہتی اسی کو دل کا اطمینان کہا جاتا ہے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین نے آپ ﷺ سے براہ راست حاصل کیا ، تابعین نے ان سے اور بعد والوں نے ان سے ان برکات کو پانا ہی صحبت شیخ کا حاصل اور اسی کا نام توجہ ہے اور اسی پر سلاسل تصوف کی بنیاد استوار ہے یاد رہے جنہیں یہ توجہ نصیب نہ ہوئی اور محض ایمان کی دولت ملی قرآن بھی پڑھا کئے عبادات ومجاہدات بھی کئے اطمینان پایا بھی مگر اس درجے کا نہ پا سکے جو حاملین صحبت کو نصیب ہوا۔ اس اطمینان کا پھل پھر ایمان ویقین کامل ہے کہ وہی اس کا تخم بھی ہے اور پھل بھی اسی سے ذکر الہی نصیب ہوتا ہے اور ذکر کرنے سے ایمان میں کمال حاصل ہوتا ہے جس کا اثر اعمال پر پڑتا ہے تو انہیں اتباع سنت کے سانچے میں ڈھال کر عمل صالح بنا دیتا ہے ارشاد ہوتا ہے مبارک ہیں ایسے لوگ اور مبارک ہے ایسے لوگوں کے لیے اور بہترین انجام اور شاندار دائمی ٹھکانہ ان کے لیے ہے ۔ کہ نہ آپ ﷺ کی بعثت کوئی نئی بات نہیں کہ نہ ماننے والوں کو بہت عجیب لگی ہو بلکہ آپ ﷺ سے پہلے بہت سے انبیاء مختلف امتوں میں مبعوث ہوتے رہے جن کے حالات سے یہ لوگ بھی آگاہ ہیں ایسے ہی آپ ﷺ کو اس امت میں مبعوث فرما دیا ۔ (وحی سننا بھی صرف نبی کا منصب ہے اور اس کا معنی بیان کرنا بھی فریضہ نبوت ہے) اللہ جل جلالہ کی طرف سے جو کلام بذریعہ وحی آپ ﷺ پر نازل ہوتا ہے وہ ان تک پہنچائیں بھی اور ان کو اس کا معنی ومفہوم سمجھائیں بھی کہ بغیر معنی بتائے محض کتاب پڑھنا تو وہ مقصد پورا نہیں کرتا جو نزول کتاب کا ہے ، لہذا معنی وہی معتبر ہوگا جو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ، صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین نے سمجھا اس پر عمل کر کے آپ ﷺ سے اپنے عمل کی تصدیق حاصل کی اور یہ اللہ جل جلالہ کا بہت بڑا احسان تھا یوں بھی وہ بہت بڑا رحم کرنے والا ہے اور اس کے انعامات شمار وقطار سے باہر ہیں پھر آپ ﷺ کا مبعوث فرمانا اپنا ذاتی کلام نازل کرنا اور اس کی طرف دعوت عام یہ صرف اسی کی رحمت کی وسعت کو سزا وار ہے مگر یہ بدبخت اتنے بڑے رحم کرنے والے پر ایمان لانے کو تیار نہیں ہوتے الٹا کفر کرتے ہیں تو انہیں کہہ دیجئے کہ تم یا تمہارا کفر مجھے کوئی گزند نہیں پہنچا سکتے اس لیے کہ یہی عظیم ہستی میری نگہبان ہے میرا پروردگار ہے اور میری ساری حاجات پوری کرنا اسی کا کام ہے وہ جو اکیلا عبادت کے لائق ہے اور جس کے علاوہ کوئی بھی عبادت کا مستحق نہیں میں اسی پر بھروسہ کرتا ہوں کہ بالاخر اسی کی طرف سب کو پلٹنا ہے لہذا میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں ۔ مشرکین کا یہ مطالبہ کہ اگر قرآن حکیم اللہ کا کلام ہے اور آپ ﷺ برحق رسول تو ذرا ان پہاڑوں کو مکہ سے پرے دھکیل دیں کہ جگہ کھلی ہوجائے یا حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی طرح ہوا پر چل کر تھوڑے وقت میں بہت فاصلہ طے ہو کہ ہم دور دراز تجارت کرسکیں یا عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرح مردوں کو زندہ کریں اور قصی بن کلاب کو اٹھائیں کہ ہم ان سے پوچھیں تو ارشاد ہوا کہ اگر قرآن حکیم سے یہ سب ہو بھی جائے پہاڑ ٹل جائیں یا فاصلے سمٹ جائیں یا مردے زندہ ہوجائیں تب کیا یہ مان لیں گے ہرگز نہیں کہ ماننے نہ ماننے کا مدار تو اللہ جل جلالہ کے حکم پر ہے کہ سب کام اسی کے حکم کے تابع ہیں اور اس نے انسان کو شعور عطا فرما کر اور دنیا کو اس کے گرد سجا دیا ہے اور ہدایت کی شرط وہ تمنا اور وہ تڑپ قرار دی ہے جو اس کی بارگاہ کے علاوہ انسان کے دست طلب کو کہیں رکنے نہ دے جب ان میں وہ طلب ہی نہیں تو یہ عجائبات انہیں نور ایمان کیسے عطا کردیں گے ، صاحب مظہری لکھتے ہیں کہ پہاڑوں کے ٹلنے سے بڑا معجزہ تو چاند کا شق ہونا تھا یا مردہ کے کلام کرنے سے بڑا معجزہ کنکریوں کا کلام کرنا تھا پھر کیوں ایمان نہ لائے کیونکہ اسباب کبھی موثر حقیقی نہیں ہوتے اختیار تو اللہ جل جلالہ کے پاس ہے ان کی اس بےجا ضد کو دیکھ کر بھی مسلمانوں کو ان سے خیر کی امید کیوں ہے کہ چاہتے ہیں یہ معجزات ظاہر ہوں تو شاید سارا مکہ مسلمان ہوجائے ہاں ! اللہ قادر ہے جو چاہے کرسکتا ہے اور اس نے زبردستی ہدایت نہ دینے کا فیصلہ فرمایا ہے لہذا ان کی اصلاح سے امیدیں نہ جوڑیں بلکہ کفر کے سبب ان پر کیا عذاب آتے ہیں وہ دیکھیں کہ کبھی ان پر کوئی وبا پڑتی ہے تو کبھی جنگ میں ہلاک اور تباہ ہوتے ہیں ، کبھی کسی قریبی بستی پہ مصیبت ٹوٹتی ہے جس سے ان پر خوف طاری ہوجاتا ہے یونہی لرزاں وترساں رہیں گے کہ اللہ جل جلالہ کا وعدہ پورا ہوگا یعنی مکہ مکرمہ فتح ہو کر اسلام کا قلعہ بن جائے گا جس کا اللہ جل جلالہ نے اپنے نبی سے وعدہ فرمایا ہے اور اللہ جل جلالہ کبھی اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا نہ ایفائے عہد کے لیے وہ کسی کا محتاج ہے کہ یہ ایمان ہی لائیں تو وعدہ پورا کرسکے گا ۔
Top