Asrar-ut-Tanzil - Ar-Ra'd : 32
وَ لَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَاَمْلَیْتُ لِلَّذِیْنَ كَفَرُوْا ثُمَّ اَخَذْتُهُمْ١۫ فَكَیْفَ كَانَ عِقَابِ
وَلَقَدِ : اور البتہ اسْتُهْزِئَ : مذاق اڑایا گیا بِرُسُلٍ : رسولوں کا مِّنْ قَبْلِكَ : تم سے پہلے فَاَمْلَيْتُ : تو میں نے ڈھیل دی لِلَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جنہوں نے کفر کیا (کافر) ثُمَّ : پھر اَخَذْتُهُمْ : میں نے ان کی پکڑ کی فَكَيْفَ : سو کیسا كَانَ : تھا عِقَابِ : میرا بدلہ
اور بیشک بہت سے پیغمبروں سے جو آپ سے پہلے ہوئے ، تمسخر ہوتے رہے ہیں۔ پس ہم نے کافروں کو مہلت دی پھر ان کو پکڑ لیا سو (دیکھ لیں) ہمارا عذاب کیسا تھا
(رکوع نمبر 5) اسرارومعارف کفر اور معصیت کا اثر دل کو ویران کردیتا ہے اور انسان نبی اور رسول کی عظمت کو پانے سے محروم ہوجاتا ہے ، چناچہ انبیاء کی تعلیمات کا مذاق اڑاتا ہے جو اس کے فہم سے بالاتر ہوتی ہیں کہ اس نے کفر پر ضد اور اصرار کرکے اپنی فراست تباہ کرلی ہوتی ہے اور یہ آپ سے پہلے آنے والے انبیاء ورسل سے بھی ہوتا رہا ۔ اللہ جل جلالہ نے ان کفار کو بھی مہلت دی فورا گرفت نہ فرمائی ، انہوں نے دعوت حق کو سنا مگر مذاق ہی اڑاتے رہے حتی کہ اپنے انجام کو پہنچے مہلت ختم ہوگئی اور اللہ جل جلالہ کے عذاب کی لپیٹ میں آگئے اور ایسے آئے کہ پھر ان کی سزا مثال بن گئی ، اگرچہ تعلیمات رسالت کا مذاق اڑانا بہت بڑی حماقت ہے مگر یہ لوگ تو اس سے بڑی حماقت میں گرفتار ہیں کہ اللہ جل جلالہ کی اس عظیم ذات کے ساتھ جو ہر شخص کے ہر عمل سے ہر آن آگاہ ہے پتھر کی بےجان اور بےحس مورتیوں اور بتوں کو شریک ٹھہراتے ہیں ذرا ان سے کہیئے کسی ایسی ہستی کا نام تو لو جو ذات میں یا صفات میں اس کی برابری کرسکتی ہو ایسی سرے سے کوئی ہستی ہے ہی نہیں یا تمہارا کیا خیال ہے کہ معاذ اللہ اللہ جل جلالہ کا علم ناقص ہے اور وہ نہیں جانتا بلکہ تم اس ذات علیم و خیبر کو بتانا چاہتے ہو یہ کس قدر حماقت اور کتنی بودی بات ہے تو ان کے ایسے اعمال کی بنیاد یہ ہے کہ اللہ جل جلالہ سے طلب تک کا رشتہ توڑ کر یہ شیطان کی راہ پر چل نکلے ہیں اور وہ انہیں ان کی ہر برائی اور حماقت خوب سجا کر دکھاتا ہے حتی کہ ان کے فریب اور نہ صرف گمراہ ہونا بلکہ دوسروں کو گمراہ کرنے کی کوششیں انہیں بھلی لگتی ہیں سچ یہ ہے کہ اللہ جل جلالہ سے جس کا رشتہ طلب تک ٹوٹ جائے اور اللہ جل جلالہ کی طرف سے اس کے سبب اسے ہدایت نہ ملے تو ایسے لوگوں کو کوئی دوسرا ہدایت نہیں دے سکتا ۔ تعلیمات نبوت کا مذاق اڑانے والے لوگوں کی دنیا کی زندگی بھی عذاب الہی بن جاتی ہے اور کبھی کوئی لمحہ چین کا انہیں نصیب نہیں ہوتا اور آخرت کا عذاب تو بہت ہی شدید اور سخت ہے اور یہ قانون قدرت ہے لہذا اس سے بھاگ نہیں سکتے نہ کوئی انہیں اللہ جل جلالہ کی گرفت سے بچا سکتا ہے ۔ (دنیا کا سکون) لہذا ثابت ہے کہ دار دنیا کا سکون بھی اتباع رسالت ﷺ میں مضمر ہے اور کتنے سادہ ہیں وہ لوگ جو اتباع سنت تو اختیار نہیں کرتے مگر مختلف دروازوں پہ سکون کی خاطر دھکے کھاتے رہتے ہیں ، اور جن لوگوں کو یہ نعمت یعنی اتباع رسالت ﷺ جسے تقوی کا عظیم نام دیا گیا ہے نصیب ہوتی ہے ان کا گھر تو جنت ہے جس کے نیچے سدا نہریں جاری ہیں جس کے پھل ابدی اور سائے ہمیشہ کے لیے ہیں یہی جنت ان کی دنیا کی زندگی میں بھی رس گھولتی رہتی ہے اور انہیں سکون و اطمینان کی لازوال دولت نصیب ہوتی ہے اور دنیا سے جانے کے بعد تو یہی نیک بندوں کا مسکن ہے اور کفار کا ٹھکانہ جہنم ہے جس کی چنگاریاں ان کی دنیا کی زندگی کو بھی زخم زخم کرتی رہتی ہیں آپ ﷺ سے پہلے جو اہل کتاب تھے اور واقعی کتاب پہ ایمان تھا انہیں تو آپ ﷺ کی تعلیمات سے از حد مسرت ہوئی اور فورا ایمان لے آئے مگر بعض فرقے ان میں بھی ایسے نکلے جن کو بعض امور پر ایمان لانے میں تردد ہے کہ ان کی کتاب کے مطابق نہیں تو فرما دیجئے کہ اصول میں تو اختلاف نہیں جیسے توحید کہ مجھے بھی یہی حکم ہے کہ اللہ جل جلالہ کی عبادت کروں جس کا کوئی شریک نہیں ، دوسرا رکن رسالت ہے جس کے لیے مجھے بھی دعوت الی اللہ ہی کا حکم ہے اور میں وہی کچھ کر رہا ہوں جو پہلے نبی کرتے تھے تیسرا رکن معاد اور آخرت ہے جس میں میرا ایمان بھی وہی ہے ، دعوت بھی وہی کہ سب کو لوٹ کر اس کی بارگاہ میں جانا ہے جہاں جواب دینا ہوگا تو مذاہب حقہ میں اصول تو ایک ہی ہیں ، فروعات ہر زمانے اور ہر امت کی رعایت اور ضرورت کے مطابق ہیں جیسے تمہاری کتب دوسری زبانوں میں تھیں مگر یہ کتاب عربی زبان میں ہے تو اسے اختلاف کی بنیاد بنانا درست نہیں ہاں یہ حق ہے کہ آپ کے پاس تو علوم حقہ ہیں اللہ جل جلالہ کی وحی ہے لہذا انہیں آپ ﷺ کا اتباع کرنا چاہئے ۔ (رواداری) یہ درست نہیں کہ آپ وحی الہی کو چھوڑ کر انکی باتوں پہ کان دھریں اگر ایسا ہو جو کہ ناممکن ہے تو پھر آپ کو کوئی بھی اللہ جل جلالہ کی گرفت سے بچانے والا نہ مل سکے گا نہ کوئی حمایتی یہ حکم جب آپ ﷺ کے لیے ہے تو واضح ہوگیا کہ کفر کے ساتھ سمجھوتہ دین پر یعنی اسلام کے مقابل ان کی بعض باتیں قبول کرکے اسے رواداری کہنا سراسر ظلم ہے اور حق وہی ہے جس کی دعوت اسلام دیتا ہے اس پر کوئی سمجھوتہ ممکن نہیں ۔
Top