Asrar-ut-Tanzil - Ibrahim : 35
وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهِیْمُ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا وَّ اجْنُبْنِیْ وَ بَنِیَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَؕ
وَاِذْ : اور جب قَالَ : کہا اِبْرٰهِيْمُ : ابراہیم رَبِّ : اے میرے رب اجْعَلْ : بنا دے هٰذَا الْبَلَدَ : یہ شہر اٰمِنًا : امن کی جگہ وَّاجْنُبْنِيْ : اور مجھے دور رکھ وَبَنِيَّ : اور میری اولاد اَنْ : کہ نَّعْبُدَ : ہم پرستش کریں الْاَصْنَامَ : بت (جمع)
اور جب ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا کی کہ اے میرے پروردگار ! اس شہر کو امن کی جگہ بنادیجئے اور مجھے اور میری اولاد کو اس بات سے کہ ہم بتوں کی پرستش کرنے لگیں بچائے رکھیے
(رکوع نمبر 6) اسرارومعارف جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اہل مکہ اپنے کو اپنے آباؤ اجداد کا پیرو کہتے ہیں تو سب سے محترم ہستی ان میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی تھی اور اہل مکہ کو بھی انہی کی پیروی کا دعوی تھا تو ان کا حال تو یہ تھا کہ مکہ مکرمہ کا وجود نہ تھا جب اس بیابان ویرانے میں انہوں نے اپنے ننھے منے لخت جگر اور عمر بھر کی وفا شعار بیوی کو یہاں چھوڑا تھا تو دعا کی تھی کہ اے اللہ اس شہر کو امن کا شہر بنا اور مجھے اور میری اولاد کو بتوں کی پوجا سے بچا کر رکھئے ۔ (دعا کا طریقہ) حضرت سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا میں مقدم دنیا کا حال ہے اور وہ بھی بہت عجیب انداز ہے کہ پہلے تو اس ویرانے کی نہ صرف آبادی کی دعا کی بلکہ انداز یہ تھا کہ جیسے یہ شہر بس گیا ہو یہ آپ کی نگاہ نبوت دیکھ رہی تھی کہ اس عفیفہ اور ننھے اسمعیل کا قیام یقینا ایک بہت بڑے شہر کی بنیاد ہے تو دعا کی کہ اے پروردگار اس شہر کو شہر امن بنا دے کہ انسانی ضروریات میں سب سے مقدم امن ہے ، اسی کے حصول کی خاطر حکومت تشکیل پاتی ہے اور اسی کے لیے مجرم کو سزا دی جاتی ہے یا قصاص اور بدلہ دلوایا جاتا ہے کہ امن قائم رہے ، یہی صورت حال اطمینان سے زندگی بسر کرنے کے لیے بھی ضروری ہے اور اتنی ہی اس کی ضرورت میں سب سے مقدم امن ہے اسی کے حصول کی خاطر حکومت تشکیل پاتی ہے اور اسی کے لیے مجرم کو سزا دی جاتی ہے یا قصاص اور بدلہ دلوایا جاتا ہے کہ امن قائم رہے ، یہی صورت حال اطمینان سے زندگی بسر کرنے کے لیے بھی ضروری ہے اور اتنی ہی اس کی ضرورت دین کے قیام کے لیے ہے کہ جہاں سے امن اٹھ جائے وہاں دین کا قیام بھی ممکن نہیں رہتا ، لہذا کسی شہر یا ملک یا قوم یا معاشرے کی دینی اور دنیوی خوشحالی کا ضامن امن ہے جب تک امن قائم نہ ہو کوئی بھی اصلاحی اور فلاحی کام ہونا ممکن نہیں رہتا لہذا ایک شے طلب فرمائی اور وہ امن تھا دوسری شے سے بچنے کی دعا کی وہ بھی بہت جامع کہ مجھے اور میری اولاد کو بتوں کی پرستش سے بچا اور محفوظ رکھ یہ دعا فرما کر ہر طرح کی گمراہی اور اللہ جل جلالہ کی نافرمانی سے اور اس کی بنیادی سبب سے بچنے کی استدعا فرمائی ، ظاہر ہے کہ نبی تو معصوم ہوتا ہے لہذا آپ کو اپنے سے تو بتوں کی پوجا کا ڈر نہ تھا ، مگر دعا کا یہ قاعدہ بھی ارشاد فرما دیا کہ نیک لوگوں کو دعا میں شامل کرلینا اس کی قبولیت کا باعث ہوتا ہے اللہ کریم کی عظمت سے یہ بعید ہے کہ آدھی بات مان لیں اور باقی رد کردیں ، دوسری حکمت اس میں یہ بھی ہے کہ اہل اللہ کے نزدیک ہر وہ شے بت ہے جو اللہ جل جلالہ کی اطاعت سے روک دے جیسا کہ مولانا رومی (رح) کا ارشاد ہے ” ہر خیال شہوتے در رہ بتے ست “ کہ ہر ہو شہوانی خیال جو اللہ جل جلالہ کی راہ سے روکے بت ہے تو آپ نے ہر طرح کے بتوں کا اہتمام کرنے کا ذمہ دار بھی ہے ارشاد ہوا کہ بتوں سے بچنے کی استدعا اس لیے کر رہا ہوں کہ بیشتر انسانوں کو انہوں نے گمراہ کردیا آپ نے اپنی قوم کا حال بھی دیکھ رکھا تھا تو بت پرستی کے باعث گمراہی کا شکار ہوئی تھی نیز شرک اور غیر اللہ سے امید باندھنا ہی بخشش سے محرومی کا سبب بھی ہیں ورنہ بھول چوک یا چھوٹی موٹی خطا کا صدور تو انسان سے ہوجانا عجیب بات نہیں کہ انسان کبھی بھی فرشتہ نہیں ہوتا اور اگر اس کا رشتہ اپنے مالک سے قائم رہے تو غلطی پر نادم بھی ہوتا ہے اور اس کی اصلاح کے لیے کوشش بھی کرتا ہے ، لہذا آپ نے دو مختصر جملوں میں دنیا وآخرت کی ہر نعمت نہ صرف اپنے لیے بلکہ اپنی اولاد تک کے لیے اور شہر مکہ کے لیے طلب فرما لی مگر اس سب کے باوجود چونکہ انسان راستہ اختیار کرنے میں اپنی پسند کا مالک ہے ، لہذا یہ امکان تو اپنی جگہ پر تھا کہ کچھ لوگ میرا راستہ چھوڑ بھی دیں گے تو عرض کیا کہ جو لوگ تو میری پیروی کریں گے بارالہ وہ تو میرے ہی ہوئے مگر وہ بھی جو میری پیروی چھوڑ دیں تیرے بندے تو ہیں اور تو بخشنے والا بھی ہے اور مہربان بھی ، اگرچہ کافر کے لیے بخشش کی دعا کرنے کی اجازت نہیں مگر پیغمبرانہ شفقت کا کمال دیکھئے کہ اگرچہ بخشش کی دعا نہ کی مگر یہ ضرور عرض کردیا کہ اللہ تیری رحمت بھی تو ناپیدا کنار ہے لہذا طریق نبوت انسانیت سے شفقت اور ہمدردی ہے ۔ (دعا کو بار بار پیش کرنا چاہیے) آپ نے پھر سے وہی دعا دہرائی اور اسی حکیمانہ انداز میں پیش فرمائی کہ دعا کا سب سے پہلا قدم اطاعت الہی ہے یہ وطیرہ درست نہیں کہ آجکل کی طرح آدمی عملا تو نافرمانی کر رہا ہو اور دعائیں بڑے لمبی لمبی کرے بلکہ مقدم یہ ہے کہ اللہ جل جلالہ کی اطاعت اختیار کرے جیسا کہ آپ نے زوجہ محترمہ اور بچے کو اس لق ودق صحرا میں چھوڑا اور واپس چل دیئے ، حدیث شریف کے مطابق جب وہ نظروں سے اوجھل ہوئے تو دعا کی کہ اے ہمارے رب اے ہماری سب ضروریات کے جاننے اور پورا کرنے والے میں نے تیرے ارشاد کی تعمیل میں اپنی اولاد کو ایک ویرانے میں چھوڑ دیا ہے ، تیرے حرمت و عظمت والے گھر کے پاس کہ بیت اللہ تو پہلے سے تھا حضرت آدم (علیہ السلام) نے تعمیر فرمایا تھا ، مدتوں اس کا طواف ہوتا رہا ، طوفان نوح (علیہ السلام) میں اٹھا لیا گیا مگر بنیادیں باقی رہیں اور جن قوموں میں پر عذاب آتا تھا ان کے بیشتر نبی بھی یہاں پہنچتے اور اس ٹیکری کا طواف کرتے رہے جن میں بیت اللہ کی بنیادیں تھیں ، اکثر کا وصال یہاں ہوا اور مرور زمانہ سے زمین میں دفن ہوگئے ، حضرت شیخنا المکرم (رح) فرمایا کرتے تھے کہ مطاف کے نیچے کم وبیش ننانوے انبیاء کشفا نظر آتے ہیں جو اسی طرح دفن ہوئے ، بہرحال اسی ٹیکری کے پاس آپ نے چھوڑا تھا ، لہذا عرض گذار ہوئے کہ میں اپنی اولاد کو تیرے گھر کے پاس تیری عبادت کے لیے چھوڑے جا رہا ہوں لہذا تو اس ویرانے کو یوں آباد فرما کر اپنے بندوں میں سے کچھ کے قلوب اس کی طرف پھیر دے کہ یہ جگہ ہمیشہ آباد رہے اور ان کو پھلوں سے رزق دے کہ وہ تیرا شکر کریں ، اب دیکھئے دعا اور اس کے انداز میں کس قدر حکمتیں ہیں اول تو اللہ کے حکم کی تعمیل فرمائی اور تب دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے پھر اللہ جل جلالہ سے تعلق اور بتوں سے اجتناب طلب فرمایا اللہ جل جلالہ کی عبادت پر قائم رہنے کی دعا کی تو ان کی دنیا کو نہ بھولے آبادی کے لیے سب انسانوں کے آنے کی دعا نہ کی ورنہ تو اچھا برا ، مومن کافر سب لوگ وہاں ٹوٹ پڑتے ، فرمایا من الناس یعنی کچھ لوگوں کے قلوب پھیر دے کہ کچھ سے مراد ہے اللہ جل جلالہ جن کو چاہے گا یقینا نہ چاہے جانے والوں کی نسبت بہتر ہوں گے تو یوں یہاں اچھے لوگ جمع ہوں گے پھر کوئی انہیں زبردستی نہ لائے گا بلکہ ان کے قلوب پھیر دیئے جائیں گے تو ان کا یہاں آنا اس شہر اور بیت اللہ سے محبت کا ہوگا جس میں فساد کا اندیشہ نہ ہوگا اور ان کے لیے رزق کی دعا کی تو پھل مانگے چشمہ یا زراعت نہ مانگی ورنہ تو اللہ قادر تھا ان پہاڑوں کو سر سبز کردیتا وہاں کھیتی باڑی ذرائع پیدا کردیتا مگر آپ نے تیار پھل مانگے کہ اب تک دنیا کا ہر پھل ہر موسم میں دستیاب ہے اور پھل ایسی جنس ہے کہ جس جگہ پر پھل تک دستیاب ہوں اور باہر سے آتے ہوں وہاں ضرورت زندگی کی دوسری چیزوں کی فراوانی ہوتی ہے اور ظاہر ہے جہاں اللہ جل جلالہ نعمتیں اس طرح آسانی سے اور فراوانی سے نصیب ہوں وہاں شکر ادا کرنا بھی ضروری ہے تو شاید وہ شکر ادا کرسکیں ۔ سوائے ہمارے پروردگار تو خود بہتر جانتا ہے نہ صرف ان امور کو جو ہم عرض کرتے ہیں بلکہ ان کیفیات سے بھی خوب واقف ہے جو ہمارے دلوں پر وارد ہوتی ہیں وہ فطری غم واندوہ جو ایک ننھے منے لخت جگر اور وفا شعار صابر وشاکر اہلیہ کو اس لق ودق صحرا اور سنگلاخ پہاڑوں میں چھوڑنے اور ان کی جدائی سے جو دل پہ طاری ہے وہ تیرے علم میں ہے اور جو کلمات عرض کر رہا ہوں یا حضرت ہاجرہ ؓ نے عرض کیا کہ ” پھر وہ ہمیں ضائع نہ کرے گا “ ۔ تو سب سے واقف ہے یہ عرض معروض تو تجھ سے شرف ہمکلامی کا باعث ہے ورنہ ہمیں کیا چاہئے اور ہم کس حال میں ہیں تو ہم سے بھی زیادہ جانتا ہے نہ صرف ہماری ذوات و کیفیات کو بلکہ زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے وہ سب تیرے علم میں ہے اور میں تو تیرا شکر ادا کرتا ہوں کہ تو نے بڑھاپے میں اور ایسی عمر میں جب اولاد کی بظاہر کوئی امید نہ تھی ، مجھے اسمعیل اور اسحاق جیسے فرزندوں سے نوازا بیشک میرا پروردگار دعائیں قبول فرماتا ہے یعنی آداب دعا میں سے ہے کہ اللہ جل جلالہ کی حمد بیان کی جائے پھر اپنی ضرورت عرض کی جائے اور پھر اس کے احسانات کا تذکرہ کیا جائے کہ پہلے سے حاصل شدہ نعمت کا تذکرہ کرنا شکر ادا کرنا ہوتا ہے جو قبولیت دعا کا باعث ہے ۔ اور پھر انجام کی طرف متوجہ ہوگئے گویا صرف دنیا ہی کے لیے دعا نہ کی جائے بلکہ ہر دعا میں اخروی فلاح اور نجات ضرور مانگنا چاہیے اور اس کا مدار چونکہ دنیا کی زندگی میں اطاعت پر ہے ، لہذا عرض کیا کہ اے مالک مجھے بھی اور میری اولاد کو بھی اپنی عبادت پہ کار بند رہنے کی توفیق عطا فرما کہ یہ کام بھی تیری عطا کردہ توفیق ہی سے ممکن ہے اور اس دعا کو ضرور شرف قبولیت عطا کر نیز مجھے بخش دے میرے والدین کو اور ہر اس فرد کو جیسے ایمان نصیب ہوا محشر کی گھڑی میں اپنی بخشش سے ڈھانپ لے ، یہاں نجات طلب فرمائی تو ساتھ ایمان کی شرط بڑھا دی کہ جن لوگوں کا خاتمہ ایمان پر نہ ہو ان کے لیے نجات طلب کرنا جائز نہ تھا ۔
Top