Asrar-ut-Tanzil - Ibrahim : 42
وَ لَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ١ؕ۬ اِنَّمَا یُؤَخِّرُهُمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیْهِ الْاَبْصَارُۙ
وَلَا : اور نہ تَحْسَبَنَّ : تم ہرگز گمان کرنا اللّٰهَ : اللہ غَافِلًا : بیخبر عَمَّا : اس سے جو يَعْمَلُ : وہ کرتے ہیں الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع) اِنَّمَا : صرف يُؤَخِّرُهُمْ : انہیں مہلت دیتا ہے لِيَوْمٍ : اس دن تک تَشْخَصُ : کھلی رہ جائیں گی فِيْهِ : اس میں الْاَبْصَارُ : آنکھیں
اور یہ خیال نہ کرو کہ یہ ظالم جو کچھ کر رہے ہیں اللہ اس سے باخبر نہیں۔ بیشک ان کو صرف اس روزتک مہلت دے رکھی ہے جس روز (ان کی) نگاہیں پھٹی رہ جائیں گی
(رکوع نمبر 7) اسرارومعارف یہ نہ سمجھا جائے کہ جو لوگ کفر وشرک میں مبتلا ہیں آخر ان کا وقت بھی تو بسر ہو رہا ہے پھر اطاعت کرنے یا اطاعت کی توفیق طلب کرنے کی کیا ضرورت بلکہ یہ اچھی طرح جان لینا چاہئے کہ جو لوگ ظلم میں مبتلا ہیں اللہ جل جلالہ ان کے حال سے بھی خوب واقف ہے ، انہیں صرف چند روزہ زندگی کی مہلت نصیب ہے جو اطاعت کے لیے بخشی گئی مگر وہ نافرمانی پہ ضائع کر رہے ہیں انہیں تب خبر ہوگی جب قیامت کا دن آجائے گا جو اتنا ہیبت ناک ہوگا کہ کفار کی آنکھیں پتھرا جائیں گی ، پلکیں تک جھپکنے سے رک جائیں گی اور سر اٹھائے ہوئے دوڑ رہے ہوں گے حساب کتاب کی طرف جبکہ حیرت اور خوف سے آنکھ تک نہ جھپک سکیں گے اور دل سے ہول اٹھتے ہوں گے گویا دل میں دھواں بن کر اڑے جا رہے ہوں ، دنیا میں اگرچہ یہ لوگ خود کو بڑی عیش میں محسوس کرتے ہیں مگر حقیقتا یہ اپنے آپ کو بہت ہی ہیبت ناک عذاب کی طرف لے جا رہے ہیں ، آپ ان لوگوں کو اس دن کی سختی سے ضرور متنبہ فرمائے کہ جس روز یہ کہہ اٹھیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہمیں ایک بار دنیا میں لوٹا دے اور دیکھ ہم کس طرح تیری دعوت قبول کرتے ہیں ، ہم تیرے رسولوں کی غلامی کا حق ادا کردیں گے تو ارشاد ہوگا تم دنیا سے گذر چکے تمہیں مہلت دی گئی تمہارے پاس اللہ جل جلالہ کے رسول آئے مگر تم اسی بات پہ اصرار کرتے رہے کہ ہمارا کچھ نہ بگڑے گا اور ہم مال و دولت اور دنیا میں مگن عیش ہی کرتے رہیں گے ، تمہیں یہ بھی خیال نہ گذرا کہ آخر جن بسیتوں میں تم بستے ہو یا جس دنیا میں تم رہتے ہو اس میں تم پہلے لوگ تو نہیں ہو تم سے پہلے یہاں لوگ آباد رہے اور ان میں بھی بڑے بڑے طاقتور اور نافرمان تھے پھر تم خوب جانتے ہو کہ ان کا انجام کیا ہوا اور اللہ جل جلالہ کے عذاب نے انہیں کس طرح نابود کردیا بلکہ تمہارے لیے مثال اور عبرت کا سبب بنا دیا ۔ یہ نہ سمجھو کہ انہوں نے کوئی تدبیر نہ کی وہ گی بلکہ انہوں نے بہت تدبیریں کیں ، حتی کہ پہاڑ تک اپنی جگہ سے ٹل جاتے مگر اللہ جل جلالہ کے سامنے ان کی نہ چل سکی یا یہ کہ تم اے کفار کیسی کیسی چالیں اسلام کو روکنے اور مسلمانوں کو ستانے کے لیے کرتے ہو کہ پہاڑ تک اپنی جگہ سے ٹل جائیں مگر جن قلوب میں اللہ جل جلالہ کا نام سما گیا ہے ان پر کوئی حیلہ کارگر نہیں ہوتا کہ اللہ جل جلالہ تمہیں ناکام کرنے پر قادر ہے ۔ اس غلط فہمی میں بھی نہ رہو کہ اللہ جل جلالہ نے جو وعدہ اپنے رسولوں سے کیا ہے کہ قیامت قائم کروں گا اور کفر کا انجام بہت برا ہوگا شاید اس طرح نہ ہو بلکہ ضرور ایسا ہی ہوگا کہ اللہ جل جلالہ بہت طاقت والا اور غالب ہے اور بدلہ لینے والا ہے بلکہ اس روز زمین وآسمان تک بدل دیئے جائیں گے یہ زمین ایسی نہ رہے گی کہ انسان کے لیے آرام ، پناہ یا غذا مہیا کرے بلکہ حدیث شریف کے مطابق اسے کھینچ کر برابر کردیا جائے گا جیسے ایک چٹیل میدان نہ آسمان اس طرح روشنیاں بکھیرنے والے یا بارش برسانے والے ہوں گے بلکہ دونوں کے اوصاف ایسے بدلیں گے کہ کفار کے لیے باعث عذاب اور مومنین کے لیے باعث راحت بن جائیں گے اور یہ بھی مراد ہو سکتی ہے کہ ان کی ذات ہی بدل دی جائے اور نئی زمین پیدا کردی جائے جس میں یہ نئی خصوصیات ہوں اور لوگ صرف اور صرف اللہ جل جلالہ کی بارگاہ میں حاضری کے لیے نکل کھڑے ہوں گے جو واحد ہے اور بہت زبردست ہے ۔ اے مخاطب تم اس روز مجرموں کو زنجیروں میں جکڑا ہوا دیکھو گے کہ جن اطوار کا مجرم ہوگا اس طرح کے دوسرے مجرموں کے ساتھ زنجیروں میں بندھا ہوگا ان کے لباس ایک آتش گیر مادے سے بنے ہوں گے اور آگ کے شعلوں نے ان کے چہروں تک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہوگا (العیاذا باللہ) ۔ یہ سب مجمع اس لیے ہوگا کہ ہر شخص کو اس کے اعمال کا بدلہ دیا جائے بلاشبہ اللہ جل جلالہ بہت جلد حساب کرنے والا ہے ۔ یہ سب حالات جو پیش آنے والے ہیں لوگوں کو سنا دیجئے کہ ان کی آنکھیں کھل جائیں اور وہ جان لیں وہ اکیلا ہی معبود برحق ہے اور اسی کی اطاعت میں بہتری ہے تاکہ عقلمند لوگ ان حالات کو سن کر نصیحت حاصل کریں ۔
Top