Asrar-ut-Tanzil - Ibrahim : 7
وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَئِنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ
وَاِذْ تَاَذَّنَ : اور جب آگاہ کیا رَبُّكُمْ : تمہارا رب لَئِنْ : البتہ اگر شَكَرْتُمْ : تم شکر کرو گے لَاَزِيْدَنَّكُمْ : میں ضرور تمہیں اور زیادہ دوں گا وَلَئِنْ : اور البتہ اگر كَفَرْتُمْ : تم نے ناشکری کی اِنَّ : بیشک عَذَابِيْ : میرا عذاب لَشَدِيْدٌ : بڑا سخت
اور جب تمہارے پروردگار نے تم کو آگاہ فرمایا تھا کہ اگر تم شکر کرو گے تو میں تم کو زیادہ (نعمت) عطا کروں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو بیشک میرا عذاب بڑا سخت ہے
(رکوع نمبر 2) اسرارومعارف اور تمہیں یہ بھی خبر ہے کہ تمہارے پروردگار نے اس بات کا اعلان فرمایا ہے کہ اگر تم اس کا شکر ادا کرو گے تو وہ تمہیں مزید نعمتیں عطا فرمائے گا ، (شکر کی حقیقت) شکر کی حقیقت یہ ہے کہ اپنے اعمال وکردار میں اللہ جل جلالہ کی اطاعت کے لیے بھر پور کر شش کرے ، فرائض وسنن اور واجبات یعنی عبادات کے ساتھ معاملات پر کڑی نگاہ رکھے ، کمانے کا طریقہ شرعی ہو تو خرچ میں بھی شرعی حدود ملحوظ رکھے ، اس سارے عمل کے ساتھ زبان سے بھی شکر ادا کرے تو یقینا نعمتوں میں زیادتی ہوگی اور یہ زیادتی مقدار کی بھی ہو سکتی ہے اور وقت کی بھی اور اس کو تاکیدا فرمایا کہ ” لازیدنکم “ کہ یقینا میں زیادہ کر دوں گا لیکن اگر تم لوگوں نے ناشکری کا راستہ اپنایا جب میں سب سے بڑی ناشکری عقیدے کی خرابی ہے اور پھر وہی عمل کی خرابی تو یاد رکھ لو میرے عذاب بھی بہت سخت ہیں اور یہ ناشکری اگر عقائد میں نہ بھی ہو تو اعمال کی سستی یا کجی گرفتار بلا کرسکتی ہے ، خواہ نعمت کے زوال کا سبب بن جائے یا اس کے استعمال میں رکاوٹ آجائے اور آخرت کے عذاب کا باعث بھی بن سکتی ہے ، مگر اس سب کے باوجود یہاں تاکیدا نہیں فرمایا گیا کہ چاہے تو معاف بھی کر دے یہ اس کی اپنی مرضی ہے ۔ اور موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ بھی واضح فرما دیا کہ تمہارے شکر کرنے یا نہ کرنے سے اس کی عظمت پہ ذرہ برابر اثر نہ ہوگا نہ صرف تم اگر ساری مخلوقات ہی ناشکری کرنے لگے تو بھی وہ سب سے بےنیاز ہے اور سب اپنا نقصان کریں گے ، اللہ جل جلالہ کی عظمت اور شان میں کوئی فرق نہ آئے گا ۔ تم لوگوں نے پہلی اقوام کے حالات تو سن ہی رکھے ہیں جیسے نوح (علیہ السلام) کی قوم یا عاد وثمود یا اور دوسری اقوام جن کے حالات سے اللہ جل جلالہ ہی واقف ہیں تاریخ میں ان کا تذکرہ تک نہیں ملتا اور آج انسان ان کے نام تک سے آشنا نہیں ، ان سب لوگوں کے پاس اللہ جل جلالہ کی طرف سے رسول اور نبی مبعوث ہوئے اور بڑے بڑے معجزات سے تو ان بدنصیب افراد نے نہ صرف یہ کہ ایمان قبول کرنے سے انکار کیا بلکہ اپنی پوری محنت اس پر صرف کردی کہ یہ اللہ جل جلالہ کی بات ہی دوسروں تک پہنچا نہ سکیں اور بڑے تکبر سے کہا کہ بھئی ہم آپ کی بات نہیں مانتے ، ماننا تو دور کی بات ہے ہم تو آپ کی بات کو درست جانتے بھی نہیں بلکہ ہمیں تو تمہاری دعوت ہی مشکوک نظر آتی ہے اور تمہارے دعوے نے تو ہمیں پریشان کردیا ہے بھلا یہ بھی کوئی بات ہے جو آپ کرتے ہیں اور جس طرح کا نظریہ آپ پیش کرتے ہیں کہ ایک ہستی یہ سارا نظام نہ صرف تخلیق کرتی ہے بلکہ اسے رواں دواں رکھنا بھی اسی کی رحمت کے سبب سے ہے یہ سب ہماری دانست میں عجیب و غریب لگتا ہے ۔ ان کے انبیاء ورسل نے فرمایا کہ جہالت کی بھی حد ہوتی ہے تمہیں اللہ جل جلالہ کی ذات اور اس کی قدرت کاملہ میں بھی شک ہے جبکہ یہ زمین وآسمان اور ان کی نیرنگیاں گوناگوں مخلوقات اور ان کا نظام کار یہ سب کائنات اس کی خالقیت اور قدرت کاملہ پہ پکار پکار کر گواہی دے رہی ہے ، اس کے ہونے میں تو شک کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا ، رہا معاملہ نبوت و رسالت کا تو ہمیں مبعوث فرما کر بھی تو تمہیں اپنی رحمت سے نوازنے کا سبب بنایا ہے اور تمہیں اس لیے پکار رہا ہے کہ تم نے آج تک اس کی کائنات میں اپنی پسند اپنا کر اور اس کی ذات وصفات کا انکار کرکے یا ان میں دوسروں کو شریک کرکے جو جرائم کا پہاڑ کھڑا کیا ہے اسے معاف کر دے تم اس کی اطاعت اختیار کرو اور وہ تمہیں اپنی بخشش کے سایہ میں لے لے ، ورنہ تمہارے گناہ تو تم پر قضائے معلق کو مسلط کردیں گے اور تم طبعی عمر پوری کرنے سے پہلے ہی سب کے سب تباہ ہوجاؤ گے مگر اس کی رحمت عامہ تمہیں محروم نہیں محروم نہیں رکھنا چاہتی ، لہذا سے پہلے ہی سب کے سب تباہ ہوجاؤ گے ، مگر اس کی رحمت عامہ تمہیں محروم نہیں رکھنا چاہتی ، لہذا ہمیں مبعوث فرما کر اپنی اطاعت کی دعوت دے رہا ہے کہ تم اپنا طبعی وقت تو پورا کرسکو اور پھر جب دنیا سے رخصت ہو کر اس کی بارگاہ میں پہنچو تو تمہیں نجات نصیب ہو ، لیکن وہ بدنصیب قومیں یہ بات نہ پا سکیں اور وہ لوگ کہنے لگے بھئی تم لوگ بھی تو ہماری طرح بشر ہو ، سونا ، جاگنا ، کھانا ، پینا ، گھر بار سب ضروریات بشریت رسول زندگی تمہارے ساتھ بھی ہیں ، پھر تمہیں کیوں اللہ جل جلالہ کا بھیجا ہوا رسول مان لیں بلکہ ہمارا اندازہ تو یہ ہے کہ تم ہمیں محض باپ دادا کی پیروی سے ہٹا کر اپنے پیچھے لگانا چاہتے ہو کہ اس طرح قوم کی قیادت وسیادت تمہیں مل جائے گی اگر تم اللہ کے رسول ہوتے تو بشری ضروریات سے بالاتر ہوتے یہ بحث پہلے گذر چکی کہ رسالت بنی آدم ہی کو عطا ہوئی ہے اور نبی اور رسول بھی بشر ضرور ہوتے ہیں مگر ان کی بشریت کامل ہوتی ہے جبکہ ہم ناقص ہیں اور اپنی بشریت کے معیار پر دیکھ کر انکار کردیتے ہیں ایک انکار رسالت اس لیے کرتا ہے کہ بشر رسول نہیں ہوسکتا تو دوسرا رسالت کا اقرار کرکے بشریت کا انکار کردیتا ہے کہ جب اللہ جل جلالہ کا رسول ہے تو بشر نہیں ہو سکتا ، دونوں طرف گمراہی ہے ، اللہ جل جلالہ پناہ دے ۔ یہی حال صوفیا اور اولیاء کی پہچان میں ہے کہ جاہلوں کے خیال میں ولی اللہ کوئی دوسری ہی مخلوق ہوتے ہیں بہرحال انہوں نے نے مطالبہ کیا کہ اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو کوئی واضح دلیل پیش کرو ، اللہ کے رسولوں نے فرمایا کہ پھر وہی بات دہراتے ہو کہ ہم کوئی مافوق الفطرت مظاہرہ کریں تب بات ہے ۔ (معجزہ و کرامت) ارے نادانو تم انسان ہو تو ہم بھی انسان ہیں اور تخلیق طور پر ہم میں بھی وہی انسانی طاقت ہے ، ہاں یہ الگ بات ہے کہ اللہ جل جلالہ جس پر چاہے اپنا احسان فرما دے ، لہذا اس نے ہمیں نور نبوت عطا فرما کر تقدس اور اپنے قرب کا وہ اعلی مقام بخشا ہے جہاں فرشتہ کا سمند خیال بھی قدم رکھنے کی جرات نہیں کرسکتا اور اس کے اس احسان نے ہمیں مزید بندہ اور اطاعت شعار بنا دیا ہے ، رہی بات معجزہ دکھانے کی تو یہ ہم اپنی پسند سے نہیں کیا کرتے یہ تو اس کی پسند ہے کہ چاہے تو ہمارے ہاتھ پر ظاہر کر دے کہ معجزہ و کرامت فعل اللہ جل جلالہ کا ہوتا ہے صادر نبی یا ولی کے ہاتھ پر ہوتا ہے ، رہی یہ بات کہ ہم گھبرا کر کہیں کہ ایسا ضرور ہو ورنہ ہماری بات نہ رہ سکے گی تو تم نے ایمان کی عظمت کو پہچانا نہیں ایمان کا تقاضا اپنی بڑائی ثابت کرنا نہیں ہوتا رہی یہ بات کہ ہم گھبرا کر کہیں کہ ایسا ضرور ہو ورنہ ہماری بات نہ رہ سکے گی تو تم نے ایمان کی عظمت کو پہچانا نہیں ایمان کا تقاضا اپنی بڑائی ثابت کرنا نہیں ہوتا بلکہ کمال اطاعت ہوتا ہے اور ۔ (توکل) یہی توکل ہے کہ ہر کام کے لیے وہ اسباب پوری محنت سے اختیار کئے جائیں مگر نتیجہ اللہ جل جلالہ کی پسند پہ چھوڑ دیا جائے یہ مطالبہ نہ رہے کہ جو میں چاہتا ہوں وہی ہو ۔ اور بھلا ہم اس پر بھروسہ نہ کریں یہ کیسے ممکن ہے کہ تم شک کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہو ، لہذا کرسکتے ہو مگر ہمیں تو اس نے اپنی بارگاہ کی راہوں کا آشنا کردیا ہے دن میں متعدد بار اس کی ذات کے حضور حاضری سے مشرف ہوتے ہیں اور یہی قرب کی لذتیں ہی تو ہیں کہ تمہاری اذیتوں کی ہمیں پرواہ تک نہیں ہوتی ورنہ پوری پوری قوم کے مظالم کے سامنے ایک ہستی کا یا چند افراد کا کھڑا رہنا ہرگز ممکن نہ تھا یہ لذت دیدار نے ممکن کردیا اور یاد رکھو جسے بھی یہ لذت نصیب ہوگی پھر وہ صرف اللہ جل جلالہ ہی پہ بھروسہ کرے گا ماسوا کی پرواہ نہ کرے گا ۔
Top