بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Asrar-ut-Tanzil - Al-Hijr : 1
الٓرٰ١۫ تِلْكَ اٰیٰتُ الْكِتٰبِ وَ قُرْاٰنٍ مُّبِیْنٍ
الٓرٰ : الف لام را تِلْكَ : یہ اٰيٰتُ : آیتیں الْكِتٰبِ : کتاب وَ : اور قُرْاٰنٍ : قرآن مُّبِيْنٍ : واضح۔ روشن
الٓرٰ ۔ یہ (اللہ کی) کتاب اور واضح قرآن کی آیتیں ہیں
(رکوع نمبر 1) اسرارومعارف الر حروف مقطعات ہیں جن کے معنی جاننا ضروری نہیں اور تلاوت سے ہی برکات حاصل ہوتی ہیں یہ اللہ جل جلالہ اور اس کے رسول کے درمیان بھید ہیں ، ارشاد ہوا یہ آیات ایک کامل ومکمل کتاب اور واضح قرآن کی ہیں ایک ایسی کتاب جو ہر موضوع پر حتمی اور یقینی بات کرتی ہے اور جو قرآن ہے یعنی اپنے پڑھنے والے کو تجلیات باری سے مستفید کرتی ہے نیز مبین ہے کہ ہر بات کھول کر بیان کردیتی ہے ۔ ایک وقت آرہا ہے جب عقائد و اعمال کے نتائج سامنے آئیں گے تو کافر بھی آرزو کریں گے کہ کاش انہیں اسلام نصیب ہوا ہوتا مگر آج انہیں پیٹ بھرنے ، عیش کرنے اور لمبی لمبی آرزوئیں کرنے سے فرصت نہیں ، گویا یہی طرز حیات ان کی گمراہی کا اصل سبب ہے کھانا تو ہر متنفس کھاتا ہے لہذا مومن بھی کھاتا ہے آرام بھی کرتا ہے اور دنیا میں وقت بسر کرنے کے لیے منصوبہ بندی بھی مگر فرق یہ ہے کہ کافر انہیں چیزوں کو مقصد حیات بنا لیتا ہے اور کھانے پینے ، لذات دنیا اور خواہشات کی تکمیل کے لیے منصوبہ بندی میں ایسا غرق ہوتا ہے کہ اسے نہ فکر آخرت رہتی ہے اور نہ اپنے پروردگار کے احسانات کا خیال آتا ہے مگر نور ایمان نصیب ہو تو کھانا زندہ رہنے کے لیے کھایا جاتا ہے کمانے اور کھانے میں اللہ جل جلالہ کی اطاعت کو مقدم رکھا جاتا ہے حتی کہ مومن بھوکا رہ لیتا ہے مگر لقمہ حرام سے اجتناب کرتا ہے کافر کو لقمہ تر چاہئے اسے حلال و حرام سے غرض نہیں ہوتی ایسے ہی آرام زندگی کی ضرورت ہے مومن بھی کرتا ہے لباس آرام دہ بستر ، گھر پر شئے سے مستفید ضرور ہوتا مگر اللہ جل جلالہ کی اطاعت کرتے ہوئے اگر چھوڑنا پڑے تو آرام چھوڑتا ہے اطاعت الہی کو نہیں چھوڑتا گھر قربان کرتا ہے ایمان ترک نہیں کرتا بلکہ کافر محض دنیا کی لذات پہ جان دیتا ہے مومن جو منصوبہ بندی کرتا ہے ذاتی امور کیلئے خاندانی یا قومی وملکی ضروریات سے مقدم اطاعت الہی ہوتی ہے مگر کافر عظمت باری کے احساس سے بیگانہ ہو کر محض اپنے عیش و آرام کی فکر کرتا ہے لہذا جو بھی شخص محض لذیذ کھانے کا طالب ہو حلال و حرام کی تمیز نہ کرے محض عیش کرنا مقصد ہو جائز وناجائز کی فکر نہ ہو اور طول امل میں گرفتار طول امل سے مراد لذات دنیا اور حرص وہوا کی ماری ہوئی خواہشات کی تکمیل کی منصوبہ بندی سے ہے تو ایسے انسان کا ایمان خطرہ میں ہے آج اگر ہم اپنا اور اپنے ماحول کا جائزہ لیں تو یہی مرض ہمیں دین سے دور لے جا رہا ہے اور کافر معاشرہ کو دیکھیں تو یہی بیماری انہیں کفر کی دلدل میں نیچے ہی نیچے لے جا رہی ہے ” یہ کب تک ” موج اڑائیں گے “ اس کی فکر نہ کریں کہ دنیا کا ایک طے شدہ نظام ہے اور ہر آبادہ کا ایک طے شدہ وقت اگر سنبھل گئے تو خیر ورنہ ان سے پہلے بھی کتنی آبادیاں اپنا مقررہ وقت آنے پر تباہ وبرباد ہوئیں یہ بھی اپنے انجام کو پالیں گے کہ کوئی قوم یا طبقہ اللہ جل جلالہ کی طرف سے مقررہ وقت سے نہ تو پہلے گذر سکتا ہے اور نہ اس وقت کو پیچھے کرسکتا ہے ۔ دنیا کی لذات نے انہیں اس قدر اندھا کردیا ہے کہ جب اللہ جل جلالہ کا کلام سنتے ہیں جس میں لذات کے مقابلے میں اللہ جل جلالہ کی اطاعت کا حکم ہوتا ہے اور کھانا پینا عیش و آرام مقصد حیات نہیں بلکہ ضرورت زندگی کی حد میں آکر اللہ جل جلالہ کی مقرر حدود کے اندر رکھنا پڑتا ہے تو انہیں یہ بات عقل کے خلاف نظر آتی ہے اور کہتے ہیں کہ اگر آپ پر یہ قرآن اترا ہے جس میں اس طرح کے احکام ہیں تو معاذ اللہ آپ پاگل ہیں کہ کفار کا تو دین بھی دنیا ہی ہوتی ہے اور ہر عبادت ، رسم یا پوجا پاٹ کے ساتھ دنیا اور لذات دنیا کو بطور نتیجہ جوڑ رکھا ہوتا ہے بھلا دنیا قربان کرنا اور آخرت کی آرزو کب ان کی عقل میں آسکتی ہے لہذا کہتے ہیں اگر آپ کے پاس فرشتہ اللہ جل جلالہ کا کلام لاتے ہیں تو انہیں آپ ہمارے پاس کیوں نہیں لے آتے کہ ہم ان سے تصدیق کرلیں ۔ (فرشتہ سے کلام) یہ تک سمجھنے سے قاصر ہیں کہ فرشتہ سے کلام کے لیے تو نور نبوت شرط ہے قلب کی وہ پاکیزگی اور تزکیہ کی وہ کیفیت شرط ہے اگرچہ وحی الہی کے لیے تو نبوت شرط ہے مگر نور نبوت سے روشن قلوب فرشتوں تک سے کلام کرسکتے ہیں اور یہ کمال اہل اللہ میں پایا جاتا ہے جیسا عہد نبوی ﷺ کے غزوات اور مختلف واقعات میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین کا فرشتوں سے کلام کرنا ثابت ہے مگر یہ نہ صرف حصول ایمان کے بعد بلکہ تزکیہ کے بعد نصیب ہوتا ہے اور جب فرشتے اس حال میں نازل ہوں گے کہ ہر انسان انہیں دیکھ سکے بات کرسکے تو کام ختم ہوچکا ہوگا دنیا کی بساط لپٹ چکی ہوگی اور ہر ایک کو پورا پورا انصاف میسر ہوگا پھر عمل کی مہلت نہ ہوگی کہ یہ ان سے تصدیق حاصل کرکے عمل کرنے جائیں گے ، ان کا یہ کہنا کہ بھلا کب تک یہ بات رہے گی چند ایسے لوگ ہی تو جمع ہو رہے ہیں جو پڑے لکھے بھی نہیں تو وقت کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی قصہ پارینہ بن جائے گی مگر یاد رکھو یہ قرآن ہم نے نازل کیا ہے اور ہم اس کی حفاظت کریں گے ۔ (قرآن حکیم کا ایک اعجاز) قرآن حکیم کا ایک یہ بھی بہت بڑا عجاز ہے کہ جس طرح سے نازل ہوا بالکل اسی طرح بغیر ایک نقطے تک کی تبدیلی کے موجود ہے اور انشاء اللہ ہمیشہ ایسے ہی رہے گا اگرچہ یہود نے ایک ایسا فرقہ بھی ترتیب دیا جس نے یہ کہا کہ معاذ اللہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین نے قرآن بدل دیا اور اس میں کمی بیشی کردی مگر یہی بات ان کی تردید کرتی ہے کہ کیا وہ کلام جو رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوا بدل گیا مگر جسے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین نے شائع کیا اسے پندرہ صدیاں بیت گئیں اور کوئی نہ بدل سکا یہ عقلا محال ہے اور قرآن کے اس وعدہ کا انکار کہ اللہ جل جلالہ خود اس کی حفاظت فرمانے والا ہے یہ جزو ایمان ہے کہ یہ وہی قرآن ہے جو آپ ﷺ پر نازل ہوا اس میں تبدیلی وتحریف کا عقیدہ رکھنا کفر ہے اور ایسے لوگ قطعی کافر ہیں ۔ اللہ کریم نے اس کی حفاظت مومنین کے قلوب تک میں سمو کر کی ہے اور حفاظ اللہ کریم کے وہ سپاہی ہیں جو اس کی کتاب پہ اس نے مامور کردیئے ہیں ۔ (یہ وعدہ حفاظت حدیث کو بھی شامل ہے) قرآن حکیم اپنے معانی اور مفاہیم سے مکمل ہوتا ہے چونکہ یہ بنی نوع انسان کی اصلاح وہدایت کے لیے نازل ہوا اور اس کے ساتھ ایک معلم ﷺ مبعوث فرمایا گیا جس کا منصب عالی انسانوں کو اس کے اصل الفاظ کے ساتھ ان کے معانی کا سمجھانا تھا وہی ارشادات نبوی حدیث کہلائے لہذا حدیث شریف کو بھی اللہ جل جلالہ کی حفاظت حاصل ہے کیا یہ اللہ جل جلالہ کی حفاظت کا کرشمہ نہیں کہ کفار نے ہر دور میں حدیثیں گھڑنے اور غلط تاویلات کرنے کی پوری کوشش کی مگر اللہ جل جلالہ نے ایسے بندے پیدا کردیئے جنہوں نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردیا آج بھی ارشادات رسول ﷺ ہر آمیزش سے پاک روشن ستاروں کی مانند آسمان ہدایت پہ چمک رہے ہیں اور اکیلی حدیث نبوی ﷺ کی پہچان کے لیے مسلمانوں نے کم وبیش سترہ علوم ترتیب دیئے جن میں ہر ایک عقل انسانی کو دنگ کردیتا ہے اور سچ کو جھوٹ سے الگ اور واضح کرتا ہے صرف اسماء الرجال ہی کا فن اتنا حیران کن ہے کہ ہر روای کے پورے حالات سامنے آجاتے ہیں ، اور یہ کہنا کہ حدیث بعد میں لکھی گئی یہ کتابیں تیسری چوتھی صدی کی ہیں لہذا قابل اعتبار نہیں ایک بہت بڑا دھوکا ہے حدیث نبوی ﷺ عہد نبوی ہی میں لکھی گئی اگر کتابوں کی تدوین بعد میں ہوئی تو ان میں انہیں احادیث کو ترتیب دیا گیا جو آپ ﷺ کے مبارک ارشادات تھے ، لہذا حدیث شریف کا مطلق انکار تو خود کتاب اللہ ہی کا انکار ہے ۔ یہ نئی بات نہیں اس سے پہلے بھی مختلف فرقوں (شیعوں) کے پاس رسول بھیجے گئے قرآن حکیم نے لفظ شیعہ کا اطلاق ایسے گروہ پر کیا ہے جو گمراہ ہو اور اپنی گمراہی کو ہدایت اور حق ثابت کرنے پر مصر ہو تو انہوں نے اللہ کریم اور نبیوں کا مذاق اڑایا کہ انہیں دیکھو یہ کبھی حصول زر کے طریقوں پر پابندی لگاتے ہیں اور کبھی کھانے پینے میں حرام و حلال کی حدود مقرر کرتے ہیں اور جو لذتیں سامنے ہیں انہیں چھوڑ کر کسی اور جہاں کی بات کرتے ہیں ۔ دل کا یہ حال کہ اللہ جل جلالہ کی طرف دعوت مذاق معلوم ہو ایک عذاب ہے جو کفار کے دلوں میں دھنسا دیا جاتا ہے ان کے گناہوں اور کفر کے باعث ان کے قلوب کی یہ حالت کردی جاتی ہے کہ انہیں ارشادات رسول پر مذاق سوجھتا ہے ایسے لوگوں کو کبھی ایمان نصیب نہیں ہوتا ، یہ قانون آپ کو پہلی تمام امتوں میں نظر آئے گا کہ دین کا مذاق اڑانے والوں کو کبھی دین نصیب نہ ہوا ، ان کا حال تو ایسا ہوجاتا ہے کہ اگر ان پر آسمان کا دروازہ تک کھول دیا جائے اور یہ دن بھر اس میں سے آتے جاتے رہیں تو بھی ایمان نہ لائیں گے بلکہ الٹا کہہ دیں گے ہماری نظر بندی کردی گئی ہے یا ہم پر جادو کردیا گیا ہے جو ہم کو اس طرح سے نظر آتا ہے ورنہ یہ حقیقت نہیں ہے یہاں سے اندازہ ہوتا ہے کہ قبول دین وایمان کا مدار قلب کی کیفیات اور اس کی حالت پر ہے صد افسوس کہ آج عموما مسلم معاشرہ اس طرف سے غفلت کا شکار ہے ۔
Top