Asrar-ut-Tanzil - An-Nahl : 111
یَوْمَ تَاْتِیْ كُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَنْ نَّفْسِهَا وَ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ
يَوْمَ : جس دن تَاْتِيْ : آئے گا كُلُّ : ہر نَفْسٍ : شخص تُجَادِلُ : جھگڑا کرتا عَنْ : سے نَّفْسِهَا : اپنی طرف وَتُوَفّٰى : اور پورا دیا جائیگا كُلُّ : ہر نَفْسٍ : شخص مَّا : جو عَمِلَتْ : اس نے کیا وَهُمْ : اور وہ لَا يُظْلَمُوْنَ : ظلم نہ کیے جائیں گے
اسدن ہر شخص اپنی طرف داری میں گفتگو کرے گا اور ہر شخص کو اس کے عمل کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر زیادتی نہیں کی جائے گی
(رکوع نمبر 15) اسرارومعارف قیامت کا روز ایسا کٹھن ہوگا کہ ہر شخص اپنی جان کی فکر میں اپنے اور صرف اپنے لیے شور کر رہا ہوگا دنیا کے رشتے ناطے اور دنیا داری کی محبتیں سب کچھ کسی کو ذرہ برابر متاثر نہ کرسکے گا ، لیکن یہ شور بھی کس کام کا جبکہ بدلہ پورے انصاف اور عدل سے ملے گا اور کسی پر ذرہ برابر زیادتی نہ کی جائے گی بلکہ اللہ جل جلالہ کی رحمت و بخشش سے احسان تو کیا جائے گا کہ تھوڑے عمل کا اجر زیادہ عطا کردیا جائے ، مگر گناہ اور جرم کی سزا اسی قدر ملے گی جو اس جرم پر مرتب ہوگی ، یہ الگ بات ہے کہ اللہ جل جلالہ کی نافرمانی نہ معمولی جرم ہے اور نہ اس کی سزا معمولی ہوگی ، دنیا میں بھی اس کی مثالیں موجود ہیں کہ کتنے ایسے شہر تھے جو بڑے مزے سے رہتے تھے اور ہر جانب سے روزی وہاں کچھی چلی آتی تھی مگر انہوں نے انعامات الہی سے کفر کیا تو اللہ جل جلالہ نے ان پر بھوک اور خوف جیسی بلائیں مسلط کردی جو ان کے کردار کا پھل تھا خود اہل مکہ اس کی بہترین مثال تھے کہ آپ ﷺ کی ہجرت کے بعد وہاں قحط پڑگیا ، حتی کہ لوگوں نے کتے بلیاں اور مردار کیا غلاظت تک کھائی پھر ابو سفیان نے ایمان لانے سے قبل آپ ﷺ سے درخواست کی کہ آپ ﷺ تو صلہ رحمی کرنے والے ہیں اور یہ آپ ﷺ کی قوم تباہ ہو رہی ہے جس پر آپ ﷺ نے مدینہ منور سے کھانے کا سامان بھی بھجوایا اور دعا فرمائی تو انہیں قحط سے نجات نصیب ہوئی ۔ (کفر اور نافرمانی سے افلاس مسلط ہوتا ہے) یہ بات ثابت ہوئی کہ کفر اور نافرمانی سے قحط اور افلاس مسلط ہوتا ہے اور خوف کی سزا دی جاتی ہے ، ہمارے انگریزی خواں طبقے کو خصوصا یہ خیال رہتا ہے کہ پھر یہ سزا مغرب کے کافر اور بدکار معاشرے کو کیوں نہیں دی جاتی لیکن شاید وہ مغرب کی محض ظاہری چمک دیکھتے ہیں اندر سے واقف نہیں ، یورپ وامری کہ میں لوگ مہمان تک برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے ، بوڑھے والدین کو کھانے کے لیے کچھ دے نہیں سکتے ، بچوں کو سرکاری وظیفہ نہ ملے تو پال نہیں سکتے ، باوجود اس کے کہ اکثر لوگ دو دو جگہ نوکری کرتے ہیں اور رات دن بھاگ دوڑ لگی رہتی ہے ، یہ تو ان کا معاشی حال ہے رہا خوف تو کافر معاشرے کی سب سے خطرناک اور لاعلاج بیماری ہی خوف ہے ، اور یہ عجیب بات ہے کہ وہ یہ تک نہیں جانتے کہ یہ خوف کس شے کا ہے یا کیسا ہے ، اس کا نام ہی انجانا خوف (FEAE OF THW UNK NOWN) رکھا گیا ہے بلکہ خود یہاں اپنے معاشرے میں بدکار کو دیکھ لیں کروڑ پتی ہے تو بھی مقروض ہی ہوگا اور خوف زدہ بھی حکومت اس کا علاج ہر طرح سے کرنے کی کوشش کرتی ہے ، کاش اس معاشرے میں حکما اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے روک دیا جائے تو یہ سارا مسئلہ خود بخود حل ہوجائے ، کہ جب بھی کسی کو ایسی سزا ملی تو اس کا سبب یہی بنا کہ ان کے پاس اللہ جل جلالہ کا رسول ﷺ آیا یا اس کی تعلیمات پہنچیں ، انہوں نے ان کا انکار کیا تو گرفتار بلا ہوگئے ان پر کسی نے کوئی زیادتی نہ کی بلکہ وہ خود اپنے لیے ظالم ثابت ہوئے ۔ لہذا ضرور کھاؤ پیو کھانے پینے سے ممانعت نہیں کی گئی کہ اللہ جل جلالہ نے یہ نعمتیں اسی لیے تو پیدا فرمائی مگر حلال یعنی جائز طریقے سے حاصل کرکے اور پاکیزہ صاف ستھری اور اللہ جل جلالہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرو ، اگر تمہیں اس کی عظمت کا اقرار ہے اور تم اسی کی عبادت کرنے والے ہو تو ، (حلال کھانا) یہاں غذا اور کھانے کا مزاج پر اثر ہوتا ہے کہ حلال اور طیب کھانے سے شکر اور عبادت کرنے کی توفیق ارزاں ہوتی ہے اور حدیث شریف کے مفہوم کے مطابق پیٹ میں حرام ہو تو نہ تو دعا قبول ہوتی ہے اور نہ گوشت کا حصہ جو حرام سے بنا دوزخ کی آگ سے بچ سکے گا ۔ اب بڑے بڑے حرام کھانے یہ ہیں کہ اللہ جل جلالہ نے ہر مردار کو حرام کردیا خواہ ویسے وہ جانور حلال بھی ہو مگر بغیر ذبح کے مر گیا تو حرام ہوگا اور خون حرام ہے ، خنزیر حرام ہے اور ایسا ذبح بھی حرام ہے جس پر بوقت ذبح اللہ جل جلالہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو ، اور ان حرام اشیاء میں سے بھی مجبور ہو کر کوئی جان بچانے کے لیے کسی قدر کھالے کہ نہ تو لذت کی طلب ہو اور نہ محض پیٹ بھرنے کی تو اسے گناہ نہ ہوگا کہ اللہ جل جلالہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے یعنی مشرکین نے جو بہت سی اشیاء اپنی طرف سے حرام قرار دے رکھی تھیں ، ان میں تو صرف یہ چار چیزیں ایسی ہیں جو واقعی اللہ جل جلالہ کی طرف سے حرام ہیں باقی انہوں نے اپنی طرف سے گھڑ لی ہیں اور اپنی طرف سے یہ گھڑ لینا کہ فلاں چیز حلال یا حرام ہے ، اللہ جل جلالہ پر جھوٹ اور بہتان باندھنے والی بات ہے جو اتنا بڑا جرم ہے کہ اللہ جل جلالہ پر بہتان باندھنے والے کبھی بھی فلاح یعنی کامیابی کا منہ نہیں دیکھتے ، اگر چند روز دنیا کی مہلت کو وہ اپنی نادانی سے کامیابی سمجھتے ہیں تو یہ کوئی بات نہیں ، محض چند روزہ اور بہت کم فرصت ہے جس کے بعد ایسے لوگوں کے لیے بہت دردناک عذاب ہے ، اگرچہ قرآن وحدیث میں اور چیزیں حرام ہونا بھی ثابت ہے مگر مولانا اشرف علی تھانوی (رح) کی تفسیر کے مطابق جو چیزیں مشرکین نے حرام قرار دے رکھی تھیں ان میں سے واقعتا صرف یہ چار چیزیں ہی حرام تھیں ، ہاں یہودیوں پر بعض اور چیزیں بھی حرام تھیں جن کا بیان قبل ازیں ہوچکا اور آپ ﷺ کو بتا دیا گیا وہ بھی اللہ کریم نے زیادتی نہیں کی تھی بلکہ ان کی اپنی زیادتیوں کا نتیجہ تھا ۔ اللہ کریم تو بہت بڑی رحمت و بخشش والا ہے کہ اگر عہد جہالت میں کوئی ایسی قباحتوں میں مبتلا بھی رہا ہو یا اپنی جہالت کے باعث گناہ اور نافرمانی میں مبتلا ہو بھی جائے اور پھر توبہ کرلے نیز توبہ یہ ہے کہ اپنے کردار کی اصلاح کرلے تو اللہ جل جلالہ کی بخشش کو پالے گا ۔
Top