Asrar-ut-Tanzil - An-Nahl : 26
قَدْ مَكَرَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَاَتَى اللّٰهُ بُنْیَانَهُمْ مِّنَ الْقَوَاعِدِ فَخَرَّ عَلَیْهِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَ اَتٰىهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لَا یَشْعُرُوْنَ
قَدْ مَكَرَ : تحقیق مکاری کی الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے پہلے فَاَتَى : پس آیا اللّٰهُ : اللہ بُنْيَانَهُمْ : ان کی عمارت مِّنَ : سے الْقَوَاعِدِ : بنیاد (جمع) فَخَرَّ : پس گر پڑی عَلَيْهِمُ : ان پر السَّقْفُ : چھت مِنْ : سے فَوْقِهِمْ : ان کے اوپر وَاَتٰىهُمُ : اور آیا ان پر الْعَذَابُ : عذاب مِنْ : سے حَيْثُ : جہاں سے لَا يَشْعُرُوْنَ : انہیں خیال نہ تھا
بیشک ان سے پہلے لوگوں نے بھی (اسی ہی) مکاریاں کی تھیں سو اللہ نے ان کا گھر بنیادوں سے ڈھا دیا پھر اوپر سے ان پر چھت گر پڑی اور ان پر عذاب ایسی طرف سے آیا کہ ان کو خیال بھی نہ تھا
(رکوع نمبر 4) اسرارومعارف جہاں تک اپنی حفاظت اقتدار اور غلبے کا تعلق ہے جس کے خاطر یہ دوسروں کو بھی گمراہ کرنے سے نہیں چوکتے تو اس کی مثالیں سامنے ہیں کہ ان سے پہلی کافر قوموں نے بہت تدبیریں کی تھیں اور بڑے دنیاوی اسباب جمع کئے تھے مگر تقدیر باری کے سامنے پیش نہ گئی اللہ کریم نے انہیں ایسے برباد کیا کہ بنیادوں تک سے اکھیڑ دیا اور ان کی چھتیں انہی پر گر گئیں یعنی جو تدبیریں حفاظت کیلئے کی تھیں وہی تباہی کا باعث بن گئیں اور عذاب الہی نے ایسا پکڑا کہ وہ سمجھ ہی نہ پائے کہ یہ مصیبت کدھر سے آرہی ہے یہ تو دنیا کا حال تھا اصل خرابی تو میدان حشر میں ہوگی جب انہیں تمام عالم کے روبرو رسوا کیا جائے گا اور پوچھا جائے گا کہ وہ معبودان باطلہ کیا ہوئے کہاں گئے وہ عہدے اور مال منال جن کی خاطر اللہ کریم کی نافرمانی اور کفر کو اختیار کرلیا تھا اور اسی پر مصر تھے کہ ٹلنے کا نام نہیں لیتے تھے ان کا یہ حال دیکھ کر اہل حق کہہ اٹھیں گے کہ آج رسوائی اور عذاب کی حد ہوگئی اور کفار اپنے اصلی ٹھکانے پر پہنچے ، ایسے لوگ جن کی موت ہی کفر پر آتی ہے تب وہ بھی اطاعت کریں گے اور کہیں گے کہ ہم نے تو جو بھلا جانا وہی کیا کوئی برائی نہیں کی اب بھی بات ماننے اور اطاعت کے لیے تیار ہیں تو ارشاد ہوگا کیوں نہی بہت خوب کہتے ہو مگر جان لو تمہارا کوئی عمل ایسا نہیں جو اللہ کریم کے ذاتی علم میں نہ ہو لہذا دھوکا نہ دے سکو گے چلو جاؤ دوزخ کے دروازوں میں سے اپنی سزا کے مطابق داخل ہوجاؤ جہاں سے تمہیں کبھی باہر نہیں آنا بلکہ ہمیشہ وہیں رہو گے اور کتنا ہی برا ٹھکانہ ہے جہاں انہیں ان کا تکبر لے گیا ، (تبلیغ دین پر انعامات کا وعدہ) یہی بات جب اہل حق سے پوچھی جائے کہ تمہارے پروردگار نے کیا نازل فرمایا تو کہتے ہیں بہترین بات کو دو عالم کی بھلائی اور کامیابی کی بات ہے لہذا ایسی نیکی کرنے والوں کے لیے یا اللہ کی بات اللہ کے بندوں تک پہچاننے والوں کیلئے دار دنیا میں بھی بھلائی ہے اللہ جل جلالہ کی رضا اور سکون قلبی جیسی دولت ہے اور آخرت تو ہے ہی ایسے لوگوں کی بہترین اور اہل تقوی کا گھر آخرت میں کتنا ہی بہترین ہے یا رہے یہاں تبلیغ دین سے مراد دین پر عمل کرتے ہوئے اسے اللہ کریم کی مخلوق تک پہچانا ہے ورنہ تبلیغ کے نام پر رسومات کا رواج نہ درست ہے نہ انعامات کے وعدہ کا سزاوار وہ ٹھکانہ خوبصورت اور ہمیشہ رہنے والے باغ ہیں جن کے تابع ہیں بہنے والی نہریں اور ایسے عجیب باغ کہ اہل جنت جس چیز کی خواہش کریں گے ان میں موجود پائیں گے ، اللہ کریم پرہیزگاروں کو ایسے ہی انعامات سے نوازے گا ، ایسے لوگ جن کی موت حق پر آتی ہے اور فرشتے اسلام کی پاکیزگی اور ایمان کی طہارت پر ان کی ارواح قبض کرتے ہیں انہیں فرشتے کہتے ہیں کہ تم پر سلامتی ہو ، ہماری تو ذمہ داری ہے کہ تمہارا تعلق حیات ۔ (موت کے فورا بعد داخلے سے قبر کی وہ حالت مراد ہے جو اہل جنت کی ہوگی جس میں قبر کو جنت کا باغ فرمایا گیا ہے) دنیا کا قطع کرتے ہیں مگر جنت تمہاری راہ دیکھ رہی ہے لہذا سیدھے جنت میں داخل ہوجاؤ یہ تمہاری اطاعت کا انعام ہے ، یہ کفار فرشتوں کی آمد کے منتظر ہیں یا اللہ جل جلالہ کا فیصلہ سننے کا انتظار کر رہے ہیں کہ توجہ کرکے ایمان قبول نہیں کرتے یہی حال ان سے پہلے کفار کا تھا کہ کفر پر ہی مر گئے مگر توبہ کی توفیق نہ ہوئی تو ایسا کرکے خود اپنے اوپر ظلم کر رہے ہیں اللہ جل جلالہ نے تو ان سے کوئی زیادتی نہیں کی عقل و شعور بخشا نبی اور کتاب بھیجی حق کی طرف دعوت دی مگر ان کی اپنی بداعمالی ان کے راستے کی دیوار بن گئی بالآخر ان کے گناہوں کا نتیجہ ان کے سامنے آیا اور جس عذاب کا مذاق اڑایا کرتے تھے اسی کے شکار ہوئے ،
Top