Asrar-ut-Tanzil - An-Nahl : 41
وَ الَّذِیْنَ هَاجَرُوْا فِی اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً١ؕ وَ لَاَجْرُ الْاٰخِرَةِ اَكْبَرُ١ۘ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَۙ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو هَاجَرُوْا : انہوں نے ہجرت کی فِي اللّٰهِ : اللہ کے لیے مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا ظُلِمُوْا : کہ ان پر ظلم کیا گیا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ : ضرور ہم انہیں جگہ دیں گے فِي الدُّنْيَا : دنیا میں حَسَنَةً : اچھی وَلَاَجْرُ : اور بیشک اجر الْاٰخِرَةِ : آخرت اَكْبَرُ : بہت بڑا لَوْ : کاش كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ : وہ جانتے
اور جن لوگوں نے ظلم سہنے کے بعد اللہ کے لئے اپنا وطن چھوڑا ہم ان کو دنیا میں ضرور اچھا ٹھکانہ دیں گے اور آخرت کا اجر تو بہت بڑا ہے کاش ان کو خبر ہوتی
(رکوع نمبر 6) اسرارومعارف ایسے لوگ جنہوں نے اللہ کریم کے لیے وطن چھوڑا کہ وہاں ان پر ظلم ہوتا تھا انہیں ہم دنیا میں بھی بہترین ٹھکانہ دین گے اور آخرت کا انعام تو بہت ہی بڑا ہے ایسے لوگوں کے لیے جو ثابت قدم رہے اور جملہ اسباب اختیار کرکے بھروسہ اللہ پر رکھا یعنی کوئی ایسا سبب اختیار نہ کیا جس میں اللہ جل جلالہ کی نافرمانی ہو اس آیہ مبارکہ میں ہجرت کی فضیلت اور مہاجرین دنیا وآخرت میں انعامات کا وعدہ ہے ہجرت کیا ہے ۔ (ہجرت اور اس پر انعامات کا وعدہ) ہجرت سے مراد ترک وطن ہے اور یہاں فی اللہ کی شرط لگا کر ایسی حالت متعین فرما دی کہ یہ ترک وطن اللہ جل جلالہ کی رضا کے لیے اور دین کے تحفظ کے لیے ہو ، اس میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین کا وہ حال ارشاد فرمایا ہے کہ اہل مکہ کے مظالم سے تنگ آکر بحکم الہی انہوں نے حبشہ کو ہجرت کی اور پھر مدینہ منورہ کو ہجرت کی تو اس پر خلوص کی شرط لگا کر دو وعدے فرمائے اول انہیں دنیا میں بہترین ٹھکانہ دینے کا اور دوم آخرت کے بہت بڑے انعام کا لہذا مدینہ منورہ کا قیام نصیب ہونا جس میں ایک اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی گئی اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین کفار کے ظلم وستم سے نہ صرف مامون ہوگئے بلکہ انہیں کفار پر غلبہ نصیب ہوا مکہ مکرمہ فتح ہوا پھر سارا عرب فتح ہوا اور پھر عہد صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین میں ہی روئے زمین پر تاریخ انسانی میں سب سے بڑی ریاست منصہ شہود پر آئی جس کی حدود چین سے ہسپانیہ تک اور سائبریا سے افریقہ تک پھیلی ہوئی تھیں نیز غریب اور فقیر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین بھی بہت دولت مند ہوگئے اور اللہ کریم نے انہیں فراخی بخشی یہ سب کے سب تاریخی واقعات ان کے خلوص کی گہرائی پر شاہد ہیں اور ہر انسان کے روبرو موجود ہیں رہی بات آخرت کی تو اہل ایمان جانتے ہیں کہ یہ شرف بھی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین ہی کا ہے کہ اللہ نے رضی اللہ عنھم فرما کر آخرت میں سب صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین سے اپنی رضا مندی کا اعلان فرما دیا اور یوں انہیں امن سکون عزت وشان حکومت وسلطنت اور فراخی رزق کے ساتھ وہ عظمت نصیب ہوئی کہ جب تک معمورہ عالم آباد ہے لوگ ان کی عظمت کے گیت گاتے رہیں گے آیہ کریمہ میں صبر اور توکل علی اللہ کا بیان اس بات کا اشارہ ہے کہ اگرچہ ہجرت کرتے ہوئے یا چندے بعد تک بھی تکالیف کا سامنا کرنا پڑے وہ اپنی بات پر اللہ جل جلالہ کے بھروسے جمے رہتے ہیں اور اگر مشکلات نہ ہوتیں صبر اور توکل کی ضرورت نہ ہوتی تو ہر کوئی ہجرت کرتا یہی ابتدائی مشکلات ہی تو امتحان کا سبب اور خلوص کی پرکھ بن گئیں ، (ترک وطن اور ہجرت کی اقسام) امام قرطبی (رح) نے ان کو تحریر فرمایا ہے جس میں مندرجہ ذیل اقسام اور ان کے احکام دیئے گئے ہیں ، (اول) دارالکفر سے دارالاسلام کو ہجرت جب کہ دارالکفر میں امن وسلامتی نہ ہو یا آبرو کو خطرہ ہو یا دینی فرائض ادا کرنا مشکل ہوں تو وہاں سے ہجرت فرض ہے اور یہ ہجرت عہد رسالت میں فرض ہوئی جو بشرط استطاعت قیام قیامت تک فرض ہے نہ جانے جو لوگ پاکستان ریاست چھوڑ کر برطانیہ یورپ امریکہ منتقل ہوتے ہیں ان کے پاس کونسی دلیل ہے جب کہ وہاں نہ ایمان ہے نہ امن ہے نہ غذا حلال دستیاب نہ عزت کی حفاظت اور نہ ہی فرائض کی ادئیگی آسان ہے ۔ (دوم) ایسی جگہ سے نکل جانا جہاں بدعات رواج پالیں خصوصا جہاں متقدمین اور سلف صالحین کی توہین کی جاتی ہو وہاں سے ہجرت کرنا ضروری ہوگا یا پھر ایسے منکرات کو روک سکے ۔ (سوم) ایسی جگہ سے ہجرت کرنا جہاں حرام کا غلبہ ہو کہ طلب حلال ہر مسلمان پر فرض ہے ۔ (چہارم) جہاں دشمن سے جسمانی اذیت کا خطرہ ہو۔ (پنجم) اگر صحت کو خطرہ یا آب وہوا راس نہ آئے تو سفر کرنے کی اجازت ہے ۔ (ششم) ایسی جگہ جہاں چوروں اور ڈاکوؤں سے امن نہ ہو اور مال لٹنے کا خطرہ ہو یہ سب سفر ہجرت میں داخل ہوں گے علاوہ ازیں سفر کرنے کی مختلف اقسام مذکورہ ہیں جو باعث ثواب ہیں جیسے حصول عبرت کے لیے حج کے لیے تجارت کے لیے یا جہاد وغیرہ کے لیے بلکہ عزیزوں سے ملاقات کے لیے سفر بھی باعث ثواب ہے جب یہ سارے حدود شرعی کے مطابق ہوں کفار کا یہ اعتراض کہ بھلا ایک انسان جو کھاتا پیتا سوتا جاگتا ہے کیسے اللہ جل جلالہ کا نبی اور رسول ہو سکتا ہے یہ کام تو کوئی ایسی مخلوق ہی کرسکتی ہے جو انسان سے بہت بلند مقام رکھتی ہو ان کے خیال میں جیسے فرشتہ یا اسی خیال کو آج کل جہلا نے الٹ لیا ہے ۔ (بشریت انبیائ) کہ وہ بشریت کا اقرار کرکے نبوت کا انکار کرتے تھے اور یہ نبوت کا اقرار کرتے ہیں جبکہ بشریت کا انکار کردیتے ہیں العیاذ باللہ ، تو فرمایا کہ محض جاہلانہ باتیں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں تم کسی بھی صاحب علم سے پوچھ کر دیکھو جو ملل سابقہ کا علم رکھتا ہو کہ ہر عہد اور ہر قوم میں انسانوں ہی کو نبی بنایا گیا اور بشر پر ہی یہ انعام ہوا کہ اللہ کی کتاب نازل ہوئی اور واضح معجزات عطا ہوئے جب تم نہیں جانتے تو جن کے پاس علم ہے ان سے دریافت کرلو ، ایسی آیہ کریمہ پر تقلید پر اثبات کیا گیا ہے کہ نہ جاننے والوں کیلئے ضروری ہے کہ ان لوگوں سے پوچھیں جو جانتے ہیں اور یہی طریقہ ان لوگوں کا بھی ہے تقلید کا انکار کرتے ہیں ۔ (تقلید) تقلید کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ جو لوگ خود عالم نہیں ہیں وہ علماء سے فتوی حاصل کرکے اس پر عمل کریں اور ظاہر ہے کہ انہیں عالم پر اعتماد ہی کرنا ہوگا ورنہ اگر انہیں دلائل بیان بھی کئے جائیں تو وہ سمجھ نہیں سکتے ہاں ایسے لوگ جو قرآن وحدیث سے دلائل کو سمجھنے کو اہلیت رکھتے ہیں اور متقدمین کی آراء سے واقف ہیں وہ اپنی صوابدید پر عمل کریں مگر جہاں ضرورت اجتہاد کی ہوگی وہاں انہیں بھی کسی مجتہد کی طرف متوجہ ہونا پڑیگا ، رہا یہ سوال کہ ایک ہی شخص کی تقلید کیوں کی جائے تو معاملہ انتظامی ہے ۔ ّ (شخصی تقلید) کہ اگر ہر شخص ہر عالم کی تقلید میں آزاد ہوگا تو ہر طرف سے ایسے احکام تلاش کرے گا جو اس کی خواہش کے مطابق ہوں اور شریعت کے نام پر خواہشات کی تکمیل تو ویسے ہی حرام ہے یہی وجہ ہے کہ کسی بھی ایک مجتہد کی تقلید کرنے کو کہا جاتا ہے اس سے زیادہ تقلید کی کوئی حیثیت ہے نہ حاجت اور نہ اس کے سبب گروہ بندی کی ضرورت ۔ (قرآن حکیم کو سمجھنے کیلئے ارشادات رسالت کی ضرورت ہے) پھر فرمایا کہ آپ پر بھی کتاب نازل فرمائی کہ آپ لوگوں پر اسے بیان کریں گویا جس طرح الفاظ صرف آپ سے سب کو پہنچے ایسے معانی بیان فرمانا یہ آپ ﷺ کا مقام ومنصب ہے اور ہر عربی دان محض قواعد عربی سے قرآن حکیم کے معانی متعین نہیں کرسکتا ، لہذا آج بھی اگر وہی معانی لیے جائیں جو آپ ﷺ نے ارشاد فرمائے تو گروہ بندی نہ رہے آپ ﷺ کا ہر قول وفعل قرآن ہی کی تفسیر ہے جیسے علامہ شاطبی (رح) نے موافقات میں ثابت فرمایا ہے کہ ارشاد ہے (آیت) ” انک لعلی خلق عظیم “۔ اور سیدہ عائشہ الصدیقہ ؓ نے فرمایا ” کان خلقہ القرآن “ کہ آپ کے تمام افعال بھی قرآن ہی کی تعبیرات تھیں اور بعض احکام کا قرآن میں ذکر تک نہیں مگر آپ کے قلب اطہر پر اتارے گئے اور آپ ﷺ نے ارشاد فرمائے یا جہاں آپ ﷺ نے اجتہاد فرمایا تو وحی نے تردید کردی یا تبدیلی کردی گئی تو حاصل یہ کہ حدیث رسول بھی قرآن کریم ہی جیسی عظمت رکھتی ہے اور اس کا انکار کتاب اللہ کے انکار کے برابر ہے لہذٓ ارشاد ہوا کہ لوگوں کو ان امور میں پوری طرح غور وفکر سے کام لینا چاہئے اور آپ ﷺ کی اس حیثیت کو قبول کرنا خود ان کے لیے بہت ضروری ہے ورنہ کیا یہ اپنے برے کرتوتوں کے نتائج سے بےفکر ہوگئے ہیں اس بات سے نہیں ڈرتے کہ اللہ کریم انہیں زمین میں دھنسا دے یا کوئی ایسی وبا بھیج دے جو ان کے گمان میں بھی نہ ہو جیسے پچھلے برسوں میں امریکہ میں شہروں کے شہر زمین میں دھنس گئے اور آج کل لاکھوں افراد ایڈز کا شکار ہو رہے ہیں جسے کوئی سمجھ ہی نہیں پارہا ۔ یا اللہ جل جلالہ کا عذاب انہیں چلتے پھرتے اپنی گرفت میں لے لے جسے روکنا ان کے بس میں نہ ہو ، یا انہیں طرح طرح سے خوفزدہ کیا جائے کہ آپ کا رب بہت درگزر کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے گویا خوف سے بھی توبہ کرلیں تو اللہ کریم کی رحمت کو پالیں یہ بھی اس کا بہت بڑا احسان ہے ۔ ورنہ یہ سب تو سامنے ہے کہ اللہ کی ساری تخلیق کے سائے درختوں اور پہاڑوں کی چھاؤں کس طرح دائیں بائیں ڈھل کر اللہ جل جلالہ کے نظام میں اپنی اطاعت اور اپنے سجدوں کا ثبوت پیش کر رہی ہے اور جو کوئی جاندار زمینوں میں ہے یا آسمانوں میں جانور ہے یا نوری مخلوق فرشتے سب اللہ کریم ہی کو سجدہ کرتے ہیں فرشتے اپنی ساری شان اور عظمت کے باوجود اس کی بارگاہ میں لرزاں وترساں رہتے ہیں اور ہر حال میں ہر بات میں اس کی اطاعت کرتے ہیں ۔
Top