Asrar-ut-Tanzil - An-Nahl : 51
وَ قَالَ اللّٰهُ لَا تَتَّخِذُوْۤا اِلٰهَیْنِ اثْنَیْنِ١ۚ اِنَّمَا هُوَ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ١ۚ فَاِیَّایَ فَارْهَبُوْنِ
وَقَالَ : اور کہا اللّٰهُ : اللہ لَا تَتَّخِذُوْٓا : نہ تم بناؤ اِلٰهَيْنِ : دو معبود اثْنَيْنِ : دو اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں هُوَ : وہ اِلٰهٌ : معبود وَّاحِدٌ : یکتا فَاِيَّايَ : پس مجھ ہی سے فَارْهَبُوْنِ : تم مجھ سے ڈرو
اور اللہ نے فرمایا ہے کہ دو دو معبود نہ بناؤ بیشک وہی اکیلا معبود ہے پس مجھ ہی سے ڈرتے رہو
(رکوع نمبر 7) اسرارومعارف اور اللہ کریم کا ارشاد ہے کہ متعدد معبود اختیار نہ کرو بلکہ عبادت کا مستحق اللہ کریم اکیلا ہے لہذا اللہ ہی سے ڈرنا چاہئے کہ نفع کی امید پر یا کسی کے خوف سے اس کی ایسی اطاعت جس میں اللہ جل جلالہ کی نافرمانی ہو عبادت کہلائے گی خواہ ایسا کرنے والا اسے معبود نہ ہی کہتا ہو ، حالانکہ ارض وسماء میں جو کچھ بھی ہے وہ سب اللہ جل جلالہ ہی کا ہے اور سارے اسباب اسی کے پیدا کردہ ہیں جن میں بعض کو کبھی اللہ جل جلالہ کے سوا کسی اور کی طرف منسوب کردیا جاتا ہے یا بعض اوقات اسباب ہی کو سب کچھ سمجھ لیا جاتا ہے مگر یہ درست نہیں بلکہ ہمیشہ اور ہر حال میں عبادت کا مل وغیر مشروط اطاعت صرف اللہ کریم ہی کی درست ہوگی یہ درست نہیں کہ نام تو اللہ جل جلالہ کا لیا جائے اور دوسروں سے ڈر کر اطاعت ان کی جائے ، کسی سے ڈرنے کی بھلا بات کیا ہے جبکہ ہر وہ نعمت جو تمہیں نصیب ہے اللہ جل جلالہ ہی کی عطا کردہ ہے اس پر خود تمہارا عمل بھی بہت بڑی دلیل ہے کہ جب کوئی نعمت ضائع ہوتی ہے یا مصیب ٹوٹتی ہے تو پھر اسی کے حضور چلا چلا کر دعائیں مانگتے ہو مگر انسانی مزاج بھی عجیب ہے کہ جب مصیبت ٹل جاتی ہے تو پھر دوسروں کا احسان اور عطا مان کر انہیں اللہ کریم کا شریک بنانے لگتا ہے اس کا یہ فعل ہماری عطا وکرم سے صریح کفر ہے لیکن خیر دنیا کی چند روزہ زندگی میں موج اڑالے عنقریب سب پتہ چل جائے گا کہ یہ کتنا بڑا ظلم ہے ۔ ایسی ہستیوں کو جن سے واقف بھی نہیں جن کے وجود بھی محض مفروضے اور سنی سنائی بات سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے ان کو ہماری عطا کردہ نعمتوں میں شریک کرتے ہیں یعنی ان کی نذریں مانتے ہیں اللہ جل جلالہ کی عظمت کی قسم تم سے ایسی بہتان تراشی کی بڑی سخت پرسش ہوگی ، ذرا انہیں دیکھو یہ کہتے ہیں فرشتے اللہ جل جلالہ کی بیٹیاں ہیں وہ تو ان باتوں سے بہت بلند اور پاک ہے مگر یہ اپنے لیے بیٹی پسند نہیں کرتے بلکہ اولاد بھی نرینہ یعنی اپنی پسند کی چاہتے ہیں اگر کسی مشرک کو پتہ چلے کہ اس کے گھر بیٹی ہوئی ہے تو اس کا منہ لٹک جاتا ہے رنگ سیاہ ہوجاتا ہے اور اندر ہی اندر دکھ سے بھر جاتا ہے بہت زیادہ افسوس محسوس کرتا ہے حتی کہ لوگوں سے منہ چھپاتا پھرتا ہے کہ یہ خبر تو بہت بدنامی کی بات ہے پھر سوچتا ہے کہ اسے زندہ رہنے دے اور بیٹی کا باپ ہونے کی ذلت قبول کرے یا اسے زمین میں گاڑ دے ان کا یہ فیصلہ بہت ہی برا ہے کہ تخلیق باری پر اعتراض ہے جیسے آجکل بھی اگر کسی کو اولاد نہ ملے تو دیوانہ ہوا پھرتا ہے یا صرف بیٹیاں ہوں تو بھی خود کو بڑی مصیبت میں مبتلا جانتا ہے حالانکہ خود بھی تو کسی کی بیٹی ہی سے پیدا ہوا یہ تو اللہ جل جلالہ کا قانون جیسے چاہے تخلیق فرمائے ہاں بیٹے کی خواہش کرنا تو عیب نہیں مگر خواہش کی حد تک اور بیٹی کو برا جاننا یا مصیبت سمجھنا تو بہت بڑا گناہ بلکہ ان کی پرورش تو جنت کی ضمانت ہے یہ کردار تو ایسے لوگوں کا ہے جنہیں آخرت پر یقین ہی نہیں اور ایسے لوگوں کا حال تو بہت ہی ناگفتہ بہ ہے جب کہ سب بڑائی اور عظمت اللہ کے لیے ہے جو زبردست اور غالب بھی ہے اور حکمت کا مالک بھی ، کہ قادر ہے بیٹے بیٹیاں جو چاہے پیدا کرے یا کسی کو اولاد نہ ہی دے اور اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں جہاں جو پیدا فرماتا ہے وہی اس کی حکمت کا تقاضا ہوتا ہے ۔
Top