Asrar-ut-Tanzil - An-Nahl : 66
وَ اِنَّ لَكُمْ فِی الْاَنْعَامِ لَعِبْرَةً١ؕ نُسْقِیْكُمْ مِّمَّا فِیْ بُطُوْنِهٖ مِنْۢ بَیْنِ فَرْثٍ وَّ دَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَآئِغًا لِّلشّٰرِبِیْنَ
وَاِنَّ : اور بیشک لَكُمْ : تمہارے لیے فِي : میں الْاَنْعَامِ : چوپائے لَعِبْرَةً : البتہ عبرت نُسْقِيْكُمْ : ہم پلاتے ہیں تم کو مِّمَّا : اس سے جو فِيْ : میں بُطُوْنِهٖ : ان کے پیٹ (جمع) مِنْ : سے بَيْنِ : درمیان فَرْثٍ : گوبر وَّدَمٍ : اور خون لَّبَنًا : دودھ خَالِصًا : خالص سَآئِغًا : خوشگوار لِّلشّٰرِبِيْنَ : پینے والوں کے لیے
اور بیشک تمہارے لئے (تمہارے) چوپایوں میں بھی عبرت (غوردرکار) ہے کہ ان کے پیٹوں میں جو گوبر اور لہو ہے اس کے درمیان سے تم کو خالص دودھ پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لئے خوشگوار (آسانی سے حلق سے اترنے والا) ہے۔
(رکوع نمبر 9) اسرارومعارف ذرا جانوروں ہی کی تخلیق پر غور کرلو کہ ان کے معدے گوبر اور خون سے بھرے ہوتے ہیں مگر انہیں مادوں میں سے ایک حصے کو دودھ بنا دیتا ہے ان کے اندر ایسا نظام بنا دیا ہے کہ خون اور فضلات میں سے صاف ستھرا اور خوشگوار دودھ الگ ہو ، پینے والوں کے لیے ایک بہترین نعمت کی صورت میں نکلتا ہے یعنی ایسی عجیب شئے کہ بہترین غذا بھی ہے اور دوا بھی کہ قدرت نے ہر حیوان کی پہلی غذا یہی مقرر کردی ہے اس لیے حدیث شریف میں ارشاد ہے کہ دودھ پیو دعا کرو ” اللھم بارک لنا فیہ وزدنامنہ “۔ کہ اے اللہ ہمارے لیے اس میں برکت دے اور یہ نعمت اور زیادہ عطا فرما ، (اچھا اور لذیذ کھانا) اور اس آیہ مبارکہ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ لذیذ اور اچھا کھانا زہد کیخلاف نہیں جب کہ حلال طریقے سے حاصل کیا جائے اور فضول خرچی نہ کی جائے ، اسی طرح پھلوں کو دیکھ لو صرف انگور اور کھجور سے کیا کچھ نشہ آور مشروب اور کھانے کی بہترین چیزیں بناتے ہو ، یعنی انسان کو نہ صرف بہترین چیزیں کھانے کو دین بلکہ قدرتی چیزوں کو مختلف طرح ملا کر یا پکا کر طرح طرح کے لذیذ کھانے اور صحت بخش اغذیہ و ادویہ بنانے کا شعور بھی عطا فرمایا کہ بجز انسان یہ نعمت کسی جاندار کو حاصل نہیں سب قدرتی پیدا کردہ غذا ہی استعمال کرتے ہیں یہ آیات مکی دور میں نازل ہوئیں جبکہ شراب کی حرمت کا حکم نازل نہ ہوا تھا مگر اس کے باوجود ان سے شراب کا حلال ہونا ثابت نہیں ہوتا بلکہ دلیل یہ ہے کہ اللہ کریم کی نعمتوں کو لذت حاصل کرنے کے لیے غلط یا ناجائز طور پر بھی استعمال کرلیتے ہو اور کسی نعمت کا غلط استعمال اس کے نعمت ہونے سے انکار کا باعث تو نہیں بن سکتا نیز اگرچہ ابھی شراب حرام نہ ہوئی تھی مگر یہاں بھی نشہ آور مشروب کے مقابل رزق حسن ارشاد فرما کر ارشاد فرما دیا کہ بہترین رزق یا کھانے وہی ہیں جو نشہ آور نہیں اب ذرا شہد کی مکھی پر غور کرو کہ رب جلیل نے اس کے دل میں کیسی خوبصورت بات ڈال دی کہ پہاڑوں کی چٹانوں میں یا بلند درختوں پر یا بلند عمارتوں میں صاف ستھری فضا میں اور گرد و غبار سے بلند جگہ پر چھتہ بناتی ہے تاکہ شہد نہایت صاف ستھرے اور محفوظ طریقے سے تیار ہو ، بلکہ اوحی فرما کر یہ اشارہ بھی فرمایا کہ اس میں فہم و شعور دوسرے حیوانات کی نسبت کہیں زیادہ ہے اور اس کے نظام کا مطالعہ کیا جائے تو ایک بہترین نظام حکومت سامنے آتا ہے تمام امور ملکہ کے ہاتھ میں ہوتے ہیں جو ایک نسبتا بہت بڑی مکھی ہوتی ہے یہی مختصر مدت یعنی چند ہفتوں میں ہزاروں انڈے دیتی ہے اور پھر پیدا ہونے والی مکھیوں کے فرائض اور ذمہ داریاں تقسیم کرتی ہے جن میں بعض محافظ ہوتی ہیں اور دوسری کارکن اور کچھ نر مکھیاں غالبا محض آبادی کی زینت ہوتی ہیں کام کرنے والی مکھیوں میں بعض نباتات پر سے مختلف مادے جمع کرکے موم بنا کر فراہم کرتی ہیں تو دوسری خوبصورت مسدس گھر بناتی ہیں اور عموما بیس سے تیس ہزار گھر ایک چھتے میں پائے جاتے ہیں جو پیمائش سے لے کر حسن وصفائی تک بالکل ایک جیسے ہوتے ہیں بعض انڈوں کی حفاظت اور ان سے نکلنے والے بچوں کی پرورش کرتی ہیں تو دوسری مختلف پھلوں اور پھولوں سے رس حاصل کرکے لاتی ہیں جو ان کے پیٹ میں پہنچ کر شہد کی صورت میں تبدیل ہوتا جاتا ہے یہ خود ان کی اور ان کے بچوں کی غذا بنتا ہے مگر اسی میں رب کریم نے انسانوں کے لیے بھی لذت وشفا بھر دی ہے کہ بہترین اور لذیذ غذا بھی ہے اور اعلی درجے کی دوا بھی محافظ مکھیاں نہ صرف دوسروں سے چھتے کی حفاظت کرتی ہیں ، بلکہ خود چھتے کی مکھی بھی اگر کسی گندگی پر بیٹھ جائے تو اسے اندر داخل نہیں ہونے دیتیں بلکہ ملکہ کے روبرو پیش کرتی ہیں جو اسے قتل کردیتی ہے یہ تو ایک سرسری تذکرہ تھا جو کچھ تحقیق میں سامنے آچکا ہے عقل انسانی کو دنگ کردیتا ہے کہ اللہ کریم نے اس حقیر سی مخلوق کے شعور میں کیسی عجیب بات ڈال دی کہ رنگ برنگے پھولوں اور طرح طرح کے پھلوں سے اس کو حاصل کرکے ایسے الجھے ہوئے راستوں پر چلتی ہے جو اللہ جل جلالہ نے اس کے لیے آسان کردیئے ہیں مگر دوسروں کو اس کا پیچھا کرنا دشوار ہے کہ ایک پھول سے چھتے تک اندازا اسی (000 ، 80) ہزار چکر لگاتی ہے اور کمال یہ ہے کہ دوسرے چھتے پر نہیں جاتی اگر کبھی غلطی سے کوئی ایسا کر گزرے تو محافظ اسے گھسنے نہیں دیتے پھر یہ اس کے پیٹ میں محض اس کی غذا نہیں بننے دیتے بلکہ مختلف رنگوں اور اقسام کے شہد کی صورت میں باہر آتے ہیں جس میں انسانوں کے لیے شفا ہے ۔ (مختلف رنگوں سے مراد) شہد کے مختلف رنگوں کا شفا ہونے یہ مراد بھی ہوسکتی ہے کہ جس قسم کے پھولوں کا شہد تیار ہوتا ہے جس مرض میں وہ پھول مفید ہوں اس مرض کا بہترین علاج بنتا ہے ، طب کی کتب میں ایک فاضل طبیب کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے انسانی امراض کو آٹھ حصوں میں تقسیم کرکے ان کا علاج آٹھ قسم کی جڑی بوٹیوں سے تجویز کیا اور انہوں نے ہر بوٹی کا باغیچہ لگایا جیسے بلغمی امراض کے لیے بنفشہ کھانسی کے لیے ملٹھی وغیرہ جب ان پودوں پر پھول آتے تو ان کے باغیچہ میں شہد کی مکھیاں پالتے جو ان پھولوں سے شہد تیار کرتی تھیں اور وہ اس مرض کا کامیاب ترین علاج ہوتا تھا ۔ (ایک بہترین طریق علاج) جدید تحقیق کے مطابق روس کے ماہرین نے ایک رسالہ شائع کیا تھا کہ شہد کو دودھ کے گلاس میں ڈال کر پیا جائے اور شہد والا نیم گرم دودھ پی کر بستر میں کچھ دیر لیٹ جانا چاہئے رات کو سوتے وقت پی لے یا دن کو پیئے تو بستر میں گھس جائے تو قلب کے تمام امراض کا بہترین علاج ہے ساتھ دوسرے امراض سے بھی شفا بخشتا ہے ۔ شہد آنکھ کا بھی بہترین علاج ہے اور پھوڑے پھنسی پر لیپ کیا جائے تو ٹھیک ہوجاتے ہیں درد کرتے ہوئے دانت پر روئی پر لگا کر رکھیں شفا ہوتی ہے غرض رب کریم نے اسے امراض سے شفا کا سبب بنا دیا ہے اور اس میں غور وفکر کرنے والوں کے لیے بہت بڑی عبرت اور اللہ کریم کی عظمت کی دلیل موجود ہے اور شہد کی مکھی کو یہ شرف نصیب ہے کہ حدیث شریف کے مطابق مکھیاں جہنم میں جا کر اہل جہنم کے لیے عذاب کا باعث بنیں گی مگر شہد کی مکھی نہ جائے گی ، (دوا اور علاج) نیز یہ بھی ثابت ہو ا کہ مرض کیلئے دوا کرنا ہی قدرتی طریقہ ہے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین نے آپ ﷺ سے پوچھا تھا کہ دوا یا جھاڑ پھونک جو ہم کرتے ہیں تو کیا یہ تقدیر کو بدل دیتے ہیں یعنی بیماری سے شفا ہوجاتی ہے تو فرمایا یہ بھی تو تقدیر الہی ہی کی صورت ہیں اور بعض صوفیا سے جو مشہور ہے کہ وہ علاج پسند نہ کرتے تھے تو یہ سکر اور مدہوشی کی باتیں ہیں ، بلکہ شرعا تو علاج نہ صرف جائز بلکہ واجب ہے ۔ (وحی والقاوکشف وغیرہ) اور یہ بھی ثابت ہوا کہ اللہ کریم جب عطا فرمانا چاہیں تو علوم کے قدرتی طریقوں سے بھی نوازا کرتے ہیں یہاں وحی کا لفظ القا کے معنوں میں استعمال ہوا ہے مطلب دل میں چپکے سے باٹ ڈال دینا ہے اصطلاح میں نبی کریم پر کلام کے نازل ہونے کو وحی کہا گیا ہے مگر علم عطا کرنے کی یہ صورتیں جانوروں میں موجود ہیں اور انسان جو شعوری اعتبار سے سب سے افضل واعلی ہے اسے نبوت سے سرفراز فرما کر وحی نبوت سے نوازا اور دوسرے انسانوں تک علم پہنچانے کا باعث بنایا پھر ان سے جنہیں پسند فرمایا نبی کے اتباع کے ذریعے ان میں علم کے حصول کی قوت پیدا کردی اور علم لدنی سے نوازا کہ جس کی مختلف صورتیں الہام والقا اور کشف ہیں نبی کو وحی میں کبھی غلطی نہیں لگتی تو ولی کا کشف یا اس پر ہونے والا الہام والقا بھی چونکہ اللہ جل جلالہ کی طرف سے ہوتا ہے کبھی غلط نہیں ہوتا ہاں ولی میں سمجھنے کی وہ قوت نہیں ہوتی جو نبی میں ہوتی ہے لہذا ولی کا کشف صحت کے لیے نبی کے ارشاد کا محتاج ہوتا ہے اگر اس سے ٹکرا جائے تو چھوڑ دیا جائے گا کہ ولی کو سمجھنے میں غلطی لگی اسی اللہ جل جلالہ نے تمہیں بھی پیدا فرمایا صحت جوانی قوت اقتدار سب کچھ دیتا ہے اور پھر موت دے دیتا ہے نیز تم سے بعض تو بڑھانے کی ان سرحدوں کو چھو لیتے ہیں جہاں زندگی باقی ہوتی ہے مگر یہ سب اوصاف معدو م ہوجاتے ہیں اور علم کے بعد انسان کچھ جاننے والا بن جاتا ہے خوب جان لو کہ اللہ جل جلالہ ہی علم والا بھی ہے اور طاقت والا بھی ۔
Top