بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Asrar-ut-Tanzil - Al-Israa : 1
سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَا١ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ
سُبْحٰنَ : پاک الَّذِيْٓ : وہ جو اَسْرٰى : لے گیا بِعَبْدِهٖ : اپنے بندہ کو لَيْلًا : راتوں رات مِّنَ : سے الْمَسْجِدِ : مسجد الْحَرَامِ : حرام اِلَى : تک الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا : مسجد اقصا الَّذِيْ : جس کو بٰرَكْنَا : برکت دی ہم نے حَوْلَهٗ : اس کے ارد گرد لِنُرِيَهٗ : تاکہ دکھا دیں ہم اس کو مِنْ اٰيٰتِنَا : اپنی نشانیاں اِنَّهٗ : بیشک وہ هُوَ : وہ السَّمِيْعُ : سننے والا الْبَصِيْرُ : دیکھنے والا
پاک ہے وہ (ذات) جو اپنے بندے (حضرت محمد ﷺ کو ایک رات میں مسجد حرام (مسجد کعبہ) سے مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) تک جس کے گرداگرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں ، لے کر گیا تاکہ ہم انہیں اپنی (قدرت کی) نشانیاں دکھائیں۔ بیشک وہی (اللہ) سننے والا دیکھنے والا ہے
سورة بنی اسرائیل : (رکوع نمبر 1) اسرارومعارف یہ سورة بھی نزول کے اعتبار سے مکی ہے ، دعوت کی اہمیت بیان کرنے کے بعد داعی کی عظمت اور علو مرتبت کے تذکرہ سے شروع ہو کر بنی اسرائیل کے مختلف ادوار کو بطور نتائج زیر بحث لاتی ہے کہ زمانہ قریب میں بنی اسرائیل ہی بہترین مثال ہے ، جب انہوں نے دعوت الی اللہ قبول کی تو کیا اثرات مرتب ہوئے اور جب اس سے منہ پھیرا تو کیا نتیجہ سامنے آیا سب سے پہلے عظمت نبوی ﷺ کا ایک انوکھا واقعہ بیان ہوتا ہے ، انوکھا اس اعتبار سے بھی ہے کہ تمام انبیاء ورسل پر اللہ جل جلالہ کا پیغام بذریعہ وحی زمین پر ہی نازل ہوا یا اللہ جل جلالہ کے ذاتی کلام سے نوازے گئے تو بھی زمین پر آسمانوں کی دنیا یا آخرت کا مشاہدہ نصیب ہوا تو کشفا مردوں میں زندگی کیسے لوٹائی جائے گی ، یہ صورت حال بھی زمین ہی پر دکھائی گئی مگر آپ ﷺ کا عجیب معجزہ یہ بھی ہے کہ باوجودیکہ وحی سے زمین پر مشرف ہوئے آسمان بالا سے آسمان اور آخرت کو کشفا بھی ملاحظہ فرماتے مگر جو واقعہ بیان ہورہا ہے جسے واقعہ معراج سے موسوم کیا گیا ہے اس میں آپ ﷺ جسد عنصری کے ساتھ آسمانوں پر اور آسمانوں سے بہت آگے جہاں تک اللہ جل جلالہ نے چاہا تشریف لے گئے ، اس عالم میں اور اس مقام پر اللہ جل جلالہ سے شرف ہم کلامی نصیب ہوا ، اور جنت و دوزخ کو بنفس نفیس ملاحظہ فرمایا یہ ایسی عجیب بات ہے جو تمام عالم انسانیت میں اور سب نبیوں اور رسولوں میں صرف آپ ﷺ کا معجزہ ہے ، علماء اہل سنت کے نزدیک معراج جسمانی پر قرآن وحدیث کے دلائل موجود ہیں اور اس پر اجماع ہے ، اس کا انکار کرنے والا زندیق وملحد ہے جیسے علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں ، ” ’ فحدیث الاسراء اجمع علیہ المسلمون واعراض عنہ الزنادقۃ والملحدون “۔ کہ واقعہ معراج کی احادیث پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے اور ملحد وزندیق اس کا انکار کرتے ہیں ۔ “ ارشاد ہوتا ہے کہ پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے یعنی حضرت محمد ﷺ کو لے گئی رات کو مسجد حرام یعنی مکہ مکرمہ سے مسجد اقصی یعنی بیت المقدس جس کے گرد ہم نے برکات رکھی ہیں کہ اسے عجائبات قدرت دکھائیں بیشک اللہ جل جلالہ ہی بڑے دیکھنے والے اور سننے والے ہیں ۔ (واقعہ معراج) سب سے پہلی بات یہ ہے کہ واقعہ معراج جسمانی تھا اور یہ محض روحانی سفر نہ تھا یہ سب قرآن کریم سے ثابت ہے اور احادیث متواترہ سے ثابت ہے اس کا بیان ہی لفظ سبحان سے شروع فرمایا کہ اللہ جل جلالہ پاک ہے ہر کمزوری سے اور جو بھی چاہے کرنے پہ قادر ہے ، جس نے یہ عظیم الشان کام اپنی قدرت کاملہ سے کیا کہ اپنے بندے کو راتوں رات مکہ مکرمہ سے بیت المقدس لے گیا ، پھر اسے بیشمار عجائبات کا مشاہدہ کروایا مثلا انبیاء سابقہ سے ملاقات ، آسمانوں پر تشریف لے جانا ، وہاں سے آگے جہاں تک اللہ جل جلالہ نے چاہا جانا اللہ کریم سے شرف ہمکلامی اور دار آخرت وجنت و دوزخ کا دیکھنا اور پھر رات ختم ہونے سے قبل مکہ مکرمہ میں پہنچ جانا ۔ اگر یہ سفر محض روحانی ہوتا تو اس کی مثال خواب کی سی ہوتی جس کا انکار اس شدت سے کرنے کی کوئی وجہ نہ تھی کہ کفار مکہ نے نہ صرف انکار کیا بلکہ مذاق اڑایا اور یہاں تک کہ بعض نومسلم جو ایمان میں پختہ نہ تھے مرتد ہوگئے ، جیسے آج بھی بعض لوگ انکار کرکے ہو رہے ہیں مشرکین مکہ کو تو حیرت اس بات پہ تھی کہ رات بھر میں بیت المقدس جانا اور واپس پہنچنا کیسے ممکن ہے جبکہ انہیں اس سفر میں مہینوں لگ جاتے تھے ، انہوں نے دو ہی طرح کے سوال کیے ایک بیت المقدس کی عمارت کے بارے جو انہوں نے دیکھ رکھی تھی مگر آپ ﷺ کبھی وہاں تشریف نہ لے گئے تھے تو اگر اس شب آپ ﷺ گئے اور دیکھی تو تفصیل بتائیے جو آپ ﷺ نے ارشاد فرمائی بلکہ حدیث شریف میں ہے کہ اس وقت بھی کشفا اللہ جل جلالہ نے روبرو کردی اور دوسرے اپنے ان قافلوں کے بارے پوچھا جو بیت المقدس کی راہ میں سفر کر رہے تھے ، جہاں تک معراج کے روحانی یا خواب ہونے کا تعلق ہے تو ایسے واقعات تو بہت ہیں جو احادیث میں بھی مذکور ہیں ، اور قرآن میں بھی آپ ﷺ کی رویا کا حق ہونا ثابت ہے ، تو جو روایات معراج کے روحانی ہونے کے بارے میں ہیں وہ ان واقعات سے متعلق ہیں جو واقعہ بیان ہوا یہ بہرحال جسمانی ہے ۔ کہ قدرت کاملہ کے بیان کے بعد فرمایا (آیت) ” اسری بعبدہ “ لے گیا اپنے بندے کو اور بندہ صرف روح کا نام نہیں بلکہ روح مع الجسد ہے ، دوسرے زمین وزمان کی مسافتیں یک آن سمیٹ لینے والی ہستی بھی اس کی مخلوق اور محبوب ہے اور اس کا بندہ ہے ، اس میں خدائی اوصاف پیدا نہیں ہوگئے کہ کوئی عیسائیوں کی طرح کا عقیدہ اپنا کر گمراہ نہ ہو ، تیسری بات کہ انسان کا انتہائی مرتبہ بھی اللہ جل جلالہ کی بندگی اور اس کا اور صرف اس کا بندہ ہونا ہے ، کسی نبی یا ولی یا مقرب الہی کو حدود بندگی سے بالاتر نہ مانا جائے اور چوتھے سب سے بڑی عظمت یہ ہے کہ بندے تو سب اس کے ہیں مگر کسی کو وہ اپنا بندہ فرما دے تو اس کا مقام الگ ہے ، اس زمانے میں اس طرح سفر کرنا ناممکنات میں سے تھا مگر آج تو سائنس نے مادی آلات ایجاد کرکے اس کو ممکن بنا دیا ، روئے زمین پر ایک مخلوق کو ہوائی جہاز آن واحد میں مختلف ممالک میں پہنچا رہے ہیں اور خلائی راکٹ کی ایجاد نے تو اور کمال دکھا دیا اگر یہ سب مادی اسباب وذرائع سے محض انسان بغیر کفر وایمان کی قید کے بھی کرسکتا ہے تو اللہ جل جلالہ تو قادر ہے جیسے چاہے کرے ۔ (طی الارض) معجزات انبیاء کرام (علیہ السلام) بطور کرامت اولیاء امت میں منتقل ہوتے ہیں ، اسی لیے اہل اللہ سے بہت تھوڑے وقت میں بغیر ظاہری اسباب کے دور دراز پہنچنا ثابت ہے جیسے اصطلاح میں طی الارض کہا گیا ہے ۔ (واقعہ معراج مختصرا) واقعہ معراج آپ ﷺ کا بیداری کا سفر ہے جس میں آپ ﷺ مکہ مکرمہ سے بیت المقدس تک براق نامی جنت کی سواری پر تشریف لے گئے جہاں آپ ﷺ نے دو رکعت ادا فرمائیں ، پھر ایک قدرتی زینے کے ذریعے سے آسمانوں پر تشریف لے گئے ، جہاں پر آسمان پر مختلف انبیاء کرام (علیہ السلام) نے آپ ﷺ کا استقبال فرمایا ، جبرائیل امین (علیہ السلام) ساتھ تھے اور تعارف کراتے جاتے تھے ، ساتوں آسمانوں سے اوپر سدرۃ المنتہی کو دیکھا ، ساتویں آسمان پر بیت المعمور کو ملاحظہ فرمایا جہاں سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) تشریف فرما تھے ، پھر وہاں سے رفرف پر جو اس عالم کی سواری تھی بہت آگے تشریف لے گئے جہاں جبرائیل امین (علیہ السلام) بھی ساتویں آسمان سے آگے نہ جاسکے ، آپ ﷺ جسمانی طور پر آگے جہاں تک اللہ جل جلالہ نے چاہا تشریف لے گئے ۔ (دیدار باری تعالیٰ ) علماء کا اختلاف ہے کہ اللہ جل جلالہ کی ذات کا دیدار ہوا یا نہ ہوا جو لوگ قائل نہیں ان کی دلیل یہ ہے کہ اس دنیا میں دیدار باری محال ہے ہاں آخرت میں روز قیامت بھی خوش نصیبوں کو اور جنت میں سب کو اپنی اپنی حیثیت کے مطابق ضرور ہوگا تو حق یہ ہے کہ آپ ﷺ اس وقت اس دار دنیا میں تو تشریف فرما نہ تھے بلکہ بالائے عرش یا جہاں تک اللہ جل جلالہ نے لے جانا چاہا وہاں تھے ، ایسی بلندی اور تنہا قرب الہی تھا کہ جبرائیل امین (علیہ السلام) جو فرشتوں کے سردار ہیں وہاں تک جانے کا سوچ نہ سکتے تھے تو وہاں دیدار باری ہونا دنیا پر قیاس نہیں کیا جاسکتا ، لہذا آپ ﷺ نے اپنے پروردگار کو دیکھا ، شرف ہمکلامی سے نوازے گئے جس کی یادگار اور جس کا انعام پچاس نمازوں کی صورت میں تمام امت کو نصیب ہوا پھر تعداد میں پانچ رہ گئیں جو اجر کے حساب سے پچاس ہی ہیں ، آپ ﷺ نے جنت و دوزخ کو دیکھا راستہ بھر برزخ کے احوال کا مشاہدہ فرمایا اور پھر واپس تشریف لائے تمام انبیاء بیت المقدس تک آپ ﷺ کے ہمرکاب آئے ، وہاں آپ ﷺ نے امامت فرمائی اور سب نے نماز ادا فرمائی اور آپ ﷺ واپس مکہ مکرمہ تشریف لے آئے یقینا پاک اور بےمثل اور بےمثال ہے ، وہ ذات جس نے اپنے بندے اور حبیب ﷺ کو ان بلندیوں سے نوازا ۔ (مقامات سلوک) جن بلندیوں پر آپ ﷺ جسمانی طور پر تشریف لے گئے آپ ﷺ کے متبعین کی ارواح آپ ﷺ کے قلب اطہر کے انوارات حاصل کرکے جب اللہ جل جلالہ کی عطا سے ان رفعتوں پر اپنی روح کو پہنچا پاتے ہیں تو انہی کو مقامات سلوک کیا جاتا ہے اور اسی سفر کا نام سیر سلوک ہے اور اہل اللہ اپنی اپنی استعداد اور اللہ جل جلالہ کی عطا کے مطابق یہ سفر طے کرتے اور منازل حاصل کرتے ہیں جبکہ ان کے اجسام زمین پر ہی ہوتے ہیں وہ پاکیزگی نقاہت اور لطافت جو جسم مصطفوی ﷺ کو نصیب تھی اس کا عشرعشیر کسی روح کو نصیب ہوجائے تو وہ اس راہ پر چل نکلتی ہے ،۔ کہ مسجد اقصی کے گرد کو ہم نے برکات سے بھر دیا ہوا ہے کہ ظاہری طور پر بہترین سرسبز خطہ ہے جہاں پھلوں کی کثرت ہوتی ہے اور باطنی طور پر مہبط تجلیات اور بہت سے انبیاء ورسل کی آرام گاہ بھی ہے مگر اسی ماحول کے مشاہدے پہ بس نہ فرمایا بلکہ فرمایا (آیت) ” لنریہ من ایتنا “۔ کہ ہم اسے اپنی نشانیاں دکھانے کو اس سفر پر لائے تھے جن میں برزخ ، آسمان ، آسمانی مخلوق بالائے آسمان لوح محفوظ ، عرش عظیم اور جنت و دوزخ اور اخروی حیات کے واقعات سب شامل ہیں کہ اللہ جل جلالہ ہی کے حقیقی سننے اور دیکھنے والا ہے ، اور قادر ہے جسے جو چاہے دکھائے جو چاہے سنا دے ،۔ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) پر بھی کتاب نازل فرمائی جس کے نزول میں بھی ایسے ہی عجائبات رونما ہوئے تھے اور انہیں ذات باری سے شرف ہم کلامی نصیب ہوا تھا نیز بنی اسرائیل کے لیے وہی کتاب ہدایت کا سبب تھی اور اس کا مرکزی نقطہ بھی تو یہی تھا کہ تیرے سوا کسی کو اپنا کارساز نہ جانو کہ اللہ جل جلالہ کو رب ماننے کا معنی یہی ہے کہ اپنی ساری امیدیں اسی ایک ذات سے وابستہ کی جائیں اور ہر حال میں اسی کی اطاعت کی جائے آخر تم لوگ طوفان نوح میں بھی تو دیکھ چکے ہو ، کہ تم انہی لوگوں کی اولاد تو ہو جن کو ہم نے کشتی میں سوار کرکے بچایا تھا جبکہ سارا عالم غرق آب ہوا ، اور یہ تائید باری اسی وجہ سے نصیب ہوئی تھی کہ نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے ۔ بنی اسرائیل کی کتابوں میں یہ پیشگوئی بھی فرما دی گئی کہ تم روئے زمین پر دوبارہ بہت زیادہ فساد مچاؤ گے اور سرکشی اختیار کرو گے ، فساد سے مراد اللہ جل جلالہ کی نافرمانی اس کی عبادات میں ہے اور سرکشی سے مراد ہے کہ مخلوق کو ایذا دو گے اور دوسروں پر ظلم و زیادتی کرو گے جس کا نتیجہ بھی تمہیں کو بھگتنا ہوگا ، تفسیر بیان القرآن میں متعدد بار یہود کی تباہی مختلف بادشاہوں کے ہاتھوں ، اور پھر سے آبادی کا ذکر ہے ، مگر یہاں کون سے دو واقعات کا تذکرہ ہے حدیث شریف کے مطابق پہلا واقعہ بخت نصر کا ہے جو بابل کا حکمران تھا بہت طاقتور اور سخت گیر ، چناچہ جب بنی اسرائیل کے گناہ حد سے بڑھے تو اس کو ان پر مسلط کردیا گیا جس نے شہر تباہ کردیئے ، بیت المقدس کو لوٹا اور سونا چاندی اور جواہرات کی لاکھوں گاڑیاں بھر کرلے گیا ، بنی اسرائیل بہت سے قتل ہوئے اور بہت سوں کو قیدی اور غلام بنا کر ساتھ لے گیا اور ذلت ورسوائی سے دوچار ہوئے لہذا ارشاد ہے کہ جب پہلا موقع آیا کہ ہم نے تم پر اپنے بندوں کو چڑھا دیا جو بہت لڑاکا تھے ، اور تمہارے شہروں پہ پل پڑے ، اور تمہیں تباہ کردیا کہ اللہ جل جلالہ کا وعدہ یہی تھا جو ہو کر رہا یعنی جرم پر سزا مرتب ہوئی ۔ (کافر بھی اللہ جل جلالہ ہی کا بندہ ہے) یہاں کفار کو عبادلنا فرمایا کہ بندے تو اسی کے ہیں مگر عبادنا نہ فرمایا کہ مقبول نہیں ہیں اور کفار کا مسلمانوں پہ غلبہ بطور سزا ہوتا ہے جیسے آج کل مسلمانوں پہ کفار غالب ہیں ۔ پھر تمہیں مدت بعد گلو خلاصی نصیب ہوئی تم نے اپنی اصلاح کی اللہ جل جلالہ نے رحم فرمایا اور پھر سے تمہیں ملک نصیب ہوا ، مال اور اولاد میں اللہ جل جلالہ نے اضافہ فرما کر تمہیں طاقتور کردیا اور تمہاری فوج کو ایک مضبوط لشکر بنا دیا ، بابل کو شکست ہوئی ، بنی اسرائیل آزاد ہو کر طاقتور بن گئے ، مگر جب اقتدار واختیار ملا اور طاقت نصیب ہوئی تو آہستہ آہستہ پھر سے گمراہی کی طرف بڑھنے لگے ، جبکہ یہ قانون الہی بتا دیا گیا تھا کہ اگر نیکی کرو گے تو اپنے بھلے کو ہی کرو گے اور اس کا فائدہ تمہیں کو ہوگا ، اگر برائی اختیار کرو گے تو بھی خود بھگتو گے مگر باز نہ آئے حتی کہ دوبارہ وہی روش اختیار کی تو قیصر روم ان پر چڑھ دوڑا اور بری و بحری دونوں اطراف سے چڑھائی کردی ، بہت لوگ مارے گئے کچھ قید ہوئے اور شہروں کو تباہ کرکے سب کچھ لوٹ کرلے گیا ، اور بخت نصر کی طرح مسجد میں بھی گھسا اور بیت المقدس کو بہت بری طرح لوٹا ، اور مال واسباب گاڑیوں میں بھر کرلے گیا ، اس کے بعد بھی مایوسی کی کوئی وجہ نہیں کہ اللہ جل جلالہ بہت کریم ہے تم اپنی حالت کی اصلاح کرلو تو وہ بھی تم پر رحم فرمائے گا کہ تمہارا پروردگار ہے ، مگر یہ قانون ہمیشہ کے لیے یاد رکھ لو ، اگر تم واپس برائی ہی کی طرف پلٹ جاؤ گے تو سنت الہی کے مطابق حالات بھی تمہاری بربادی کی طرف پلٹ جائیں گے اور سرکشی کا انجام تو کفر ہے ، اگر کفر پر خاتمہ ہوا تو بہت سخت قید خانہ ہے ، یعنی جہنم جہاں کافروں کو رکھا جائے گا ۔ ایسے ہی اب پھر یہ کتاب یعنی قرآن حکیم اللہ جل جلالہ کی طرف سے نازل ہوا ہے جو بالکل سیدھی راہ دکھاتا ہے عقائد و اعمال ، دین ودنیا ہر معاملے میں سب سے اعلی طریقے اختیار کرنے کی صرف دعوت ہی نہیں دیتا وہ طریقہ بھی بتاتا ہے اور جو لوگ ایمان لا کر عملی طور پر وہ راستہ اپنا لیتے ہیں انہیں بہت بڑے انعامات کی خوش خبری بھی دیتا ہے ، رہی بات نہ ماننے والوں کی تو آخرت کا انکار کرنے والوں کے لیے ہم نے بہت درد ناک عذاب تیار کیا ہے ۔
Top