Asrar-ut-Tanzil - Al-Israa : 41
وَ لَقَدْ صَرَّفْنَا فِیْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لِیَذَّكَّرُوْا١ؕ وَ مَا یَزِیْدُهُمْ اِلَّا نُفُوْرًا
وَ : لَقَدْ صَرَّفْنَا : البتہ ہم نے طرح طرح سے بیان کیا فِيْ : میں هٰذَا الْقُرْاٰنِ : اس قرآن لِيَذَّكَّرُوْا : تاکہ وہ نصیحت پکڑیں وَمَا : اور نہیں يَزِيْدُهُمْ : بڑھتی ان کو اِلَّا : مگر نُفُوْرًا : نفرت
اور بیشک ہم نے اس قرآن میں کئی طرح سے بیان فرمایا تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں مگر ان کی (اس بات سے) اور نفرت ہی بڑھتی جاتی ہے
(رکوع نمبر 5) اسرارومعارف قرآن حکیم میں ہم نے مختلف انداز سے بات کے ہر پہلو کو واضح کیا ہے کہ لوگ سمجھیں مگر کفر ایسی بیماری ہے جو غذا سے بڑھتی ہے یہی حال ان کا ہے کہ ان کے دلوں میں مزید نفرت کی آگ بھڑک اٹھتی ہے ۔ ان سے کہئے کہ اگر کوئی بھی ہستی الوہیت میں اس کی شریک ہوتی یا صفات میں اس کے برابر ہوتی تو وہ عرش پر چڑھ نہ دوڑتی اور نظام کائنات تباہ ہوچکا ہوتا ، یہ بلا چوں وچرا اسی لیے چل رہا ہے کہ ایک حاکم کے تابع ہے جو اپنی ذات اور اپنی صفات میں ہر طرح کے شرک سے پاک اور بہت بلند ہے ، تمہاری باتوں کی رسائی سے اس کی عظمت بہت زیادہ بلند ہے ۔ (ہر شے اللہ جل جلالہ کا ذکر کرتی ہے) نہ صرف یہ کہ اس کے سوا کائنات کا ہر ذرہ اس کی مخلوق اور اسی کی صنعت ہے ، بلکہ ساتوں آسمان زمین اور جو کچھ بھی ان میں ہے سب اس کی تسبیح کرتے ہیں اور اس کا ذکر کرتے ہیں یہ الگ بات کہ انسان معمول کے حواس سے ان کی تسبیح سن اور سمجھ نہیں سکتا ، بیشک وہ بہت بڑا تحمل والا اور بخشنے والا ہے کہ جنوں اور انسانوں میں ذکر نہ کرنے والوں کو بھی وقت مقررہ تک مہلت دیتا ہے یہ اس کی شان حلم ہے اور اگر توبہ کریں تو اس کی بخشش قبول کرتی ہے ارض وسما کی حیات ہی اللہ جل جلالہ کا ذکر ہے اور جو شے ذکر سے غافل ہوتی ہے ، اس کا وجود باقی نہیں رہتا ، دریا ہو تو خشک ہوجاتا ہے ، نباتات ذکر چھوڑ دے تو ختم ہوجاتی ہے جو جانور ذکر چھوڑتا ہے مر جاتا ہے یا دوسرے کا لقمہ بن جاتا ہے ، پہاڑ ذکر چھوڑ دے تو گر جاتا ہے یا پھٹ جاتا ہے سوائے کفار کے وہ انسانوں میں ہوں یا جنات میں سے اور وہ اس لیے کہ انہیں شریعت پر عمل کرنے کا مکلف بنایا گیا اور عمل کرنے یا نہ کرنے کا اختیار بخشا گیا ، اب اگر وہ ایمان نہیں لاتے تو اللہ کا حلم انہیں وقت مقررہ تک مہلت دیتا ہے لیکن اگر ان کی موت بھی کفر ہی پر واقع ہوجائے تو ہمیشہ کے لیے جہنم ان کا ٹھکانہ ہے ، علاوہ ازیں دنیا کی ہر شے اللہ جل جلالہ کا ذکر کرتی ہے یہ جو کہا جاتا ہے کہ ہر شے زبان حال سے ذکر کرتی ہے وہ اس آیت کا مفہوم نہیں کہ شے کہ حالت جو اپنے خالق کی عظمت کی دلیل بنتی ہے اسے تو انسانی فہم سمجھ لیتی ہے یہ ذکر حقیقی مراد ہے جسے عام انسانی عقل سمجھنے سے قاصر ہے ہاں دل کے کان کھل جائیں تو اللہ جل جلالہ کی اس عطا سے ہر شے کا ذکر سنائی دیتا ہے جیسا کہ آپ ﷺ سنتے تھے پہاڑوں کا ذکر کرنا حدیث میں ارشاد فرمایا یا فرمایا کہ میں اس پتھر کو پہچانتا ہوں جو مجھ پر سلام بھیجا کرتا تھا ، ایسے ہی حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ کی روایت کہ ہم کھانے سے تسبیح سنا کرتے تھے ، آپ ﷺ کے مبارک ہاتھوں میں کنکریوں کا تسبیح پڑھنا کہ آدمی نے سنی ظاہر ہے جس پر علامہ جلال الدین سیوطی (رح) فرماتے ہیں کنکروں کا تسبیح پڑھنا آپ ﷺ کا معجزہ نہیں وہ تو ہر آن پڑھتے ہیں ، آپ ﷺ کا معجزہ تو اس سے بڑا ہے کہ عام انسانی سماعت کو اسے سننا نصیب ہوگیا ، نہ صرف صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین نے کفار نے بھی سنی ورنہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین تو نور قلب سے ان اشیاء کی تسبیح سن بھی لیا کرتے تھے ، ایسے حضرت داؤد (علیہ السلام) کے ساتھ پہاڑوں اور جانوروں کا مل کر ذکر کرنا کتاب اللہ میں موجود ہے ، آپ ﷺ کے مسجد کے ستون حنانہ کا واقع بھی اس سلسلے کی کڑی ہے جس نے آپ ﷺ سے دور ہونے پر انسانوں کی طرح طرح چلا چلا کر رونا شروع کردیا تھا جسے آپ ﷺ نے منبر سے اتر کر گلے لگایا تو چپ ہوا یہ اور اس طرح کی بیشمار مثالیں موجود ہیں ، لہذا یہ تسبیح حالی مراد نہیں بلکہ ہر چیز واقعی اللہ جل جلالہ کا ذکر کرتی ہے اور مکلف مخلوق میں سے انسان یا جن اگر ذکر نہیں کرتے تو وہ بھی اپنی عظمت کھو بیٹھتے ہیں اور تباہی کی نذر ہوتے ہیں کہ دوزخ میں جانے سے بڑی تباہی تصور تک نہیں کیا جاسکتا ۔ (کفار کو آواز تو سنائی دیتی تھی مگر آپ ﷺ کی کیفیات سے ان کے دل محروم تھے) نہ صرف یہ کہ ان لوگوں کو چیزوں کا ذکر کرنا سنائی نہیں دیتا بلکہ ان کے کفر اور گناہوں کے باعث انہیں آپ ﷺ کی تلاوت کی اثر آفرینی سے بھی محروم کردیا گیا ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے ، اور متکلم کی کیفیات کلام میں ہوتی ہیں پھر تلاوت کریں محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کا جمال کا عکس بھی اس میں ہو تو حد ہے کہ کوئی نہ مانے یا اس پر فدا نہ ہو فرمایا اس کی دنیا کے بعد قیام قیامت وجہ یہ ہے کہ ان کے گناہوں اور کفر نے ان سے کیفیات کو پانے کی استعداد ختم کردی ہے اور جب آپ ﷺ قرآن پڑھتے ہیں تو آپ ﷺ کے اور کفار کے درمیان پردہ حائل کردیا جاتا ہے یعنی ان کے قلوب اس کی لذت آفرینی سے اور اذہان وعقول اس کی نکتہ سنجی سے مستفید نہیں ہو سکتے بلکہ ان کے دلوں پر بھی پردہ ڈال دیا جاتا ہے اور کانوں میں ایسا بوجھ جو حق سننے کی صلاحیت ختم کردیتا ہے اور جب آپ اپنے رب کی وحدانیت کا ذکر فرماتے ہیں تو ان کو اس سے نفرت ہوتی ہے اور پیٹھ پھیر کر چل دیتے ہیں ، ّ (کیفیات قلبی سے محرومی بہت بڑی سزا ہے اور فیض کیا ہے) اس سے ثابت ہوا کہ کیفیات قلبی سے محرومی بہت بڑی سزا ہے جو گناہ اور کفر پر دی جاتی ہے اور نور ایمان سے قلب میں کیفیات پیدا ہوتی ہیں جو آپ ﷺ کی برکات سے بڑھتی ہیں ، ایسے ہی ان لوگوں سے فائدہ حاصل ہوتا ہے ، جو بزرگوں سے یہ کیفیات حاصل کرچکے ہوتے ہیں ، دراصل یہی حصول کیفیات ہی فیض کہلانے کا مستحق ہے کہ فلاں نے فلاں بزرگ سے فیض حاصل کیا ورنہ دنیا کے معاملات کو فیض کہنا نادانی ہے ، چونکہ الفاظ قرآن تو سنتے ہیں آواز تو سنتے ہیں محرومی تو کیفیات سے ہے لہذا جب کبھی کان لگاتے ہیں اور کچھ باتیں سن لیتے ہیں تو آپس میں ایک دوسرے سے کہتے ہیں کہ ان کی بات ماننا تو ایسے ہے جیسے کسی ایسے شخص کی بات مانی جائے جس پر جادو کردیا گیا ہو اور وہ اپنے بھلے برے کو نہ جانتا ہو کہ ان کی کافرانہ رائے میں تو بتوں سے سب کچھ ملتا ہے جبکہ آپ بتوں کی پرزور تردید فرماتے ہیں تو ان کے خیال میں یہ بڑا پاگل پن ہے اور کوئی جادو زدہ شخص ہی ایسا کرسکتا ہے آج کل بھی یہ مرض بڑھ گیا ہے کہ اسلام اور قرآن کے احکام ظالمانہ اور پاگلوں جیسی باتیں ہیں جو ناقابل عمل ہیں ظاہر ہے ایسا وہی لوگ کہہ سکتے ہیں جو مشرکین عرب کی طرح کیفیات قلبی کے ادنی درجے سے بھی محروم ہیں ۔ (جادو اور اس کا انبیاء پہ اثر) جادو بھی ثابت ہے اور اس کا اثر ہوتا ہے نیک انسانو پر بھی ہو سکتا ہے حتی کہ انبیاء کرام (علیہ السلام) پر بھی اس کا اثر ہونا ممکن ہے کہ وہ بھی بشری خصوصیات سے الگ تو نہیں ہوئے جیسے نبی کو زخم لگ سکتا ہے یا بیماری اثر دکھا سکتی ہے ویسے جادو بھی مگر عام آدمی کی طرح نہیں کہ جتنا طیب اور طاہر وجود ہو اتنا جادو کم اثر کرتا ہے یا جلدی زائل ہوجاتا ہے تو اے حبیب ﷺ آپ اندازہ فرمائیں ان کے قلوب کی تباہی کا کہ آپ کے لیے کیسی باتیں تجویز کرتے ہیں یہ حال ظاہر کر رہا ہے کہ یہ گمراہی کی اس دلدل میں گر چکے ہیں جس سے واپسی کی امید نہیں لہذا یہ کبھی ہدایت نہیں پا سکتے ، (نبی کی توہین کرنے والا ہدایت نہیں پاسکتا) تو یہ ظاہر ہوا کہ نبی کو نہ ماننے والا تو کبھی توبہ بھی کرسکتا ہے مگر نبی کی توہین کرنے والا اور ایسی باتیں کرنے والا جو نبی کی شان میں گستاخی ہوں توبہ کی توفیق سے محروم ہوجاتا ہے ۔ ان جاہلوں نے دوبارہ حیات کو ناممکن تصور کر رکھا ہے اور کہتے ہیں کہ جب ہم مر کر گل سڑ جائیں گے ہڈیاں رہ جائیں گی بلکہ ہڈیاں بھی ٹوٹ پھوٹ کر چورہ بن جائیں گی تو کیا پھر نئے سرے سے زندہ کئے جائیں گے تو فرما دیجئے کہ ہڈیاں یا ان کا چورہ یا وجود کی مٹی تو پہلے وجود کی عمارت کا حصہ تھی اور اس میں حیات رہ چکی اگر تم لوہا یا پتھر بن جاؤ یا اس سے بھی کوئی سخت شے تمہارے ذہن میں ہے تو اس میں بدل سکو تو بھی تمہیں دوبارہ زندہ کیا جائے گا تو کہتے بھلا ہمیں کون زندہ کرے گا اور ایسا کون کرسکتا ہے تو فرمائیے کہ جس نے تمہیں پہلے پیدا کیا کہ ایک قطرے سے سارا وجود تعمیر فرمایا ، گوشت پوست ، ہڈیاں ، ناک ، کان ، آنکھیں ، دل ، گردے ، جگر ، معدہ ، اعضاء اور ان میں قوت کار جس ہستی نے پیدا فرمائی وہی ہستی تمہاری مٹی اور گلے سڑے وجودوں سے پھر تمہیں زندہ کر دے گی تو لاجواب ہو کر سر مٹکائیں گے اور کہیں گے تو بھلا یہ کب ہوگا ، اب تک تو کوئی مرنے والا زندہ ہو نہیں سکا تو کہہ دیجئے کہ شاید یہ بہت قریب ہی ہو کہ جس دن دوبارہ زندہ کئے جاؤ گے تو تم سب بھی اس کی عظمت کا انکار نہ کرسکو گے بلکہ تعریف کرتے ہوئے اٹھو گے اور خود تمہارا اپنا اندازہ ہوگا کہ اس میں کوئی دیر نہیں لگی کوئی زیادہ وقت نہیں گزرا کفار کے حمد وثنا کرنے سے مراد ہے کہ اٹھیں گے تو ایک بار تو اللہ جل جلالہ کی عظمت سے مہبوت ہو کر کہہ اٹھیں گے کہ اللہ جل جلالہ بہت بڑا اور ہر شے پر قادر ہے ، پھر واویلا مچائیں گے مگر اس وقت کا یہ کہنا بھی ایمان تو شمار نہ ہوگا کہ دار عمل تو گذر چکا اور حجابات ہٹ گئے آخرت سامنے ہے تو اب انکار کی گنجائش کہاں ۔
Top