Asrar-ut-Tanzil - Al-Israa : 85
وَ یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ١ؕ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا
وَيَسْئَلُوْنَكَ : اور آپ سے پوچھتے ہیں عَنِ : سے۔ْمتعلق الرُّوْحِ : روح قُلِ : کہ دیں الرُّوْحُ : روح مِنْ اَمْرِ : حکم سے رَبِّيْ : میرا رب وَمَآ اُوْتِيْتُمْ : اور تمہیں نہیں دیا گیا مِّنَ الْعِلْمِ : علم سے اِلَّا : مگر قَلِيْلًا : تھوڑا سا
اور یہ لوگ آپ سے روح کے بارے پوچھتے ہیں فرمادیجئے کہ روح میرے پروردگار کے حکم سے ہے اور تم کو بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے
(رکوع نمبر 10) اسرارومعارف آپ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہ یہ آخرت دوبارہ زندگی اور حساب کتاب کا سارا نظام اسی بنیاد پہ استوار ہے کہ روح سے حیات ہے اس کی مفارقت موت ہے وہ پھر لوٹے گی تو اجسام زندہ ہوجائیں گے جبکہ کفار ومشرکین کے نزدیک تو موت ایک خاتمے کا نام ہے تو یہ روح آخر کیا شے ہے ، کہاں سے آتی ہے کدھر جاتی ہے اور کس طرح زندگی کا یا موت کا باعث بنتی ہے ، مفسرین کے مطابق رؤسائے مکہ نے ایک وفد مدینہ میں علماء یہود کے پاس بھیجا کہ آپ ﷺ نے نبوت کا دعوی کیا ہے تو کیسے پرکھا جائے کہ سچ ہے ، انہوں نے تین سوال بتلائے اصحاب کہف کے بارے میں پوچھا جو سوائے یہود کے علماء کے کوئی نہیں جانتا تھا اس آدمی کا قصہ پوچھو جس نے مشرق ومغرب کا سفر کیا یعنی ذوالقرنین اور روح کے بارے سوال کرو اگر سچا نبی ہوا تو دو کا جواب دے گا ورنہ تینوں کا جواب دے گا یا کسی کا بھی نہ دے سکے گا ، آپ ﷺ کو بذریعہ وحی اطلاع ہوئی دونوں قصے کتاب اللہ میں موجود ہیں جبکہ تیسرے کا مفصل جواب نہ دیا اور یوں اس آزمائش میں بھی آپ ﷺ ہی سچے ثابت ہوئے تو جس کا جواب مفصل نہ دیا گیا وہ یہی سوال تھا کہ روح کیا ہے ۔ (روح کیا ہے) ارشاد ہوا فرما دیجئے روح میرے رب کے امر سے ہے اور تمہیں اتنا علم نصیب نہیں کہ عالم امر کے بات سمجھ سکو یا جان سکو ، اس موضوع گذشہ صفحات میں (آیت) ” نفخت فیہ من روحی “ ، کے تحت بات نقل کی جا چکی ہے یہاں اتنا فرمایا کہ روح اللہ جل جلالہ کے امر سے ہے وہ کوئی مادی شے نہیں نہ اس کا کوئی توالد وتناسل کا طریقہ ہے کہ معروف ذرائع سے تم جان سکو اس لیے تمہارا علم سارے عالم کی اشیاء کے بارے میں بھی ہو تو بھی روح کو جاننے کے لیے بہت کم ہے کہ فطری عقل و شعور جو انسان کو بحیثیت انسان عطا ہوا وہ محض مادی دنیا سے متعلق ہے اور روح عالم امر سے متعلق ہے جو مادی تخلیق سے بہت بلندی پر ہے ۔ (کیا روح کے بارے مطلق علم نہیں ہو سکتا) ایسی بات نہیں ہے بلکہ یہاں انسانی فطری اور حصولی علم کی بات ہو رہی ہے جو علم بذریعہ وحی انبیاء کرام (علیہ السلام) کو نصیب ہوتا ہے نہ وہ قلیل ہے اور نہ اس کے ذریعے ان حقائق تک رسائی محال اسی طرح انبیاء کرام (علیہ السلام) کے توسط سے قرب الہی پانے والے افراد جو ولی اللہ کہلاتے ہیں کشفا یا اللہ کی عطا کے دوسرے ذرائع سے جان لیں تو درست ہے نیز یہ بھی ضروری نہیں کہ روح کے بارے سرے سے تحقیق ہی نہ کی جائے بلکہ علماء نے ہر دور میں اس موضوع پر بات کی ہے اور مسائل تصنیف فرمائے ہیں اب ارشاد ہوتا ہے کہ اطاعت الہی ہی حصول علم کا سرچشمہ بھی ہے ورنہ اللہ قادر ہے کہ کجی بحثی کے نتیجہ میں جو علم تمہیں دیا ہے وہ بھی سلب کرلے اور جو ہدایت بذریعہ وحی نازل فرمائی ہے وہ بھی واپس لے لے تو کسی کی مجال نہیں کہ اللہ جل جلالہ سے یہ علم واپس دلا سکے ، نبی جو بہت عظیم ہستی اور منبع علوم مصدر برکات ہوتا ہے اگر اس سے علوم نبوت اللہ جل جلالہ واپس لے جائے تو کوئی نہیں روک سکتا ہے ہاں یہ الگ بات ہے کہ خود اللہ جل جلالہ کی رحمت ہے کہ وہ نبوت عطا کرتا ہے مگر واپس سلب نہیں فرماتا کہ اے نبی تجھ پر تو اللہ کا بہت ہی زیادہ فضل وکرم ہے یعنی نبوت جیسی عظیم نعمت کے عطا ہونے کے بعد اس کے سلب نہ ہونے کی ضمانت تو احسان کی حد ہوگئی جبکہ خود عطائے نبوت بہت بڑا احسان تھا (نبی ﷺ کے علاوہ سب خطرے میں ہیں) مگر یہ واضح ہوگیا کہ بجز نبی ہر انسان اس خطرے سے دو چار ہے کہ اس سے علم یا مقامات ومنازل سلب ہوجائیں ، بچنے یا محفوظ رہنے کی واحد صورت یہ ہے کہ نبی ﷺ کی اطاعت کی حدود سے باہر نہ جائے کہ ان کے اندر حفاظت الہیہ نصیب رہتی ہے ۔ اور اللہ جل جلالہ کا یہ احسان کیا کم ہے کہ علوم کا خزینہ بصورت قرآن تمہاری طرف بھیجا اور اس کا رسول تمہیں ایک لفظ پہنچانے اور سمجھانے پہ ہر آن کمر بستہ ہے ۔ (قرآن حکیم۔ کی صداقت کا بہت بڑا دعوی جس کی آج تک تردید نہ ہوسکی اور نہ کبھی ہو سکے گی) اگر تمہیں اس کی عظمت سے انکار ہے یا اسے عام کتاب جانتے ہو تو دنیا کے سبھی کے سب انسانوں اور جنوں سے کہو سب جمع ہو کر ایک دوسرے کی پوری مدد کرکے اس کی مثال بنا لیان جو ہر موضوع پر بات کرے ، اور یقینی اور حتمی بات کرے جس کی خبر کو چیلنج نہ کیا جاسکے جو دنیا وآخرت کی تمام انسانی ضرورتوں کو محیط ہو اور تجلیات باری جس کے ایک ایک حرف سے قلوب پر جلوہ ریز ہو رہی ہو تو یہ دعوی ہے کہ ساری مخلوق مل کر بھی کبھی ایسا نہ کرسکے گی ، لہذا اس خزینہ علم کو چھوڑ کر جو زندگی کی ہر ضرورت پر خوب کھل کر اور مثالیں دے کر بات کرتا ہے پھر سوالات کرنا اور باتوں کو الجھانا تمہیں زیب ہی نہیں دیتا لیکن تمہاری اصل بدنصیبی یہ ہے کہ تمہیں اس نعمت پر ہی ایمان نصیب نہیں اور کفر و انکار میں پھنسے ہوئے ہو ، پھر عجیب و غریب سوال کرتے ہیں جو محض احمقانہ اعتراضات سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے مگر اللہ کریم ان پر طنز کرنے یا غصہ دکھانے کی تعلیم نہیں دیتے بلکہ ایک خوبصورت چھوٹا سا اور حقیقت کا مظہر جملہ ارشاد فرمایا جاتا ہے ۔ کہ یہ ایمان کی شرط بتاتے ہیں کہ آپ ہمارے لیے زمین سے چشمہ جاری کر دیجئے یا اگر ہمارے لیے نہیں تو اپنے لیے ایک خوبصورت باغ پیدا فرمائیے جس میں رنگ برنگے میوے ہوں اور نہریں جاری ہوں یا پھر ہم پر عذاب ہی نازل کردیں اور آسمان کو ہم پر دے ماریں کہ جھگڑا ختم ہو یا لائیے وہ یوم حساب بپا کیجئے جس کے بارے آپ ﷺ کہتے ہیں کہ فرشتے آئیں گے اور اللہ کا دربار ہوگا تو کر دیجئے ایسا یا پھر اپنے لیے ایک زر جواہر سے مرصع مکان بنائیے یہ کیا اتنا بڑا دعوی اور ایک کچے گھروندے میں قیام بلکہ آپ ﷺ کو تو زمین پہ رہنا نہ چاہئے چڑھ جائیے آسمانوں میں کہ اللہ کے رسول ہیں اس کی بارگاہ میں جا کر رہیں اور اگر آپ ﷺ آسمان پر بھی چڑھ جائیں تو ہمیں ماننے کی کیا ضرورت ہاں اگر وہاں سے ہمارے نام اللہ جل جلالہ کا خط لائیں جسے ہم کود پڑھیں تو البتہ بات ہو سکتی ہے گویا یہ سب مطالبات ایسے تھے جیسے وہ رسول کو اللہ جل جلالہ کا شریک یا ویسی ہی طاقتوں کا مالک سمجھ رہے ہوں توکتنا خوبصورت جواب ارشاد فرمایا کہ میں نے کبھی اپنے خدا ہونے کا دعوی تو نہیں کیا میں تو بشر ہوں اور تمہیں بشر کے اوصاف کا بھی علم ہے ، اس کے اختیارات سے بھی باخبر ہو اور بشری کمزوریوں سے بھی واقف ہوں ، لہذا میں صرف بشر نہیں بلکہ اللہ کا رسول بھی ہوں لہذا میری بشریت کو ضرور پرکھو کہ دعوی رسالت کے ساتھ زیب دیتی ہے یا نہیں ، ذرا کہیں انگلی رکھ کر دکھا دو ، رہی بات اللہ کے اوصاف کی تو وہ اسی کے پاس ہیں اور وہی قادر ہے جہاں چاہے چشمے جاری کرے یا باغ پیدا کرے ، عذاب بھیج دے یا قیامت قائم فرمائے یہ اس کا کام ہے ۔ (نبی کا کردار معیاری ہوتا ہے ، مرزا قادیانی کے دعوی اس سے بھی غلط ثابت ہوتے ہیں) اس مختصر سے جملہ مبارک سے ثابت ہوتا ہے کہ بحیثیت بشر یا انسان نبی اور رسول کا کردار مثالی ہوتا ہے اس پر حضرت استاذنا المکرم (رح) فرمایا کرتے تھے کہ مرزا قادیانی کی سوانح پڑھ کر یہ دکھ ہوتا ہے کہ اگر اس ظالم کو اتنا بڑا دعوی کرنا ہی تھا تو اپنا کردار بھی اپنی نظر میں رکھا ہوتا اتنا بھی نہ سوچا کہ اس قدر گھٹیا کردار سے یہ دعوے کوئی مناسبت نہیں رکھتا ۔
Top