Asrar-ut-Tanzil - Al-Kahf : 102
اَفَحَسِبَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَنْ یَّتَّخِذُوْا عِبَادِیْ مِنْ دُوْنِیْۤ اَوْلِیَآءَ١ؕ اِنَّاۤ اَعْتَدْنَا جَهَنَّمَ لِلْكٰفِرِیْنَ نُزُلًا
اَفَحَسِبَ : کیا گمان کرتے ہیں الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا : وہ جنہوں نے کفر کیا اَنْ يَّتَّخِذُوْا : کہ وہ بنالیں گے عِبَادِيْ : میرے بندے مِنْ دُوْنِيْٓ : میرے سوا اَوْلِيَآءَ : کارساز اِنَّآ : بیشک ہم اَعْتَدْنَا : ہم نے تیار کیا جَهَنَّمَ : جہنم لِلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے لیے نُزُلًا : ضیافت
کیا کافروں نے یہ سمجھ لیا کہ وہ میرے بندوں کو میرے سوا (اپنا) کار ساز بنائیں گے یقینا ہم نے کافروں کی دعوت کے لئے دوزخ تیار کررکھی ہے
(رکوع نمبر 13) اسرارومعارف یہ سب حالات وواقعات تو عظمت الہی پر دلالت کرتے ہیں یہ سب بھی سن اور جان کر کفار اللہ جل جلالہ کے سوا دوسروں ہی کی عبادت پہ اصرار کرتے ہیں جو خود اللہ کی مخلوق اور اس کے بندے ہیں تو پھر یہ بھی جان لو کہ ایسے کفار کی مہمانی کے لیے جہنم دہک رہا ہے آپ انہیں فرما دیجئے کہ ان لوگوں کے حال سے مطلع نہ کر دوں جو سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے ہیں تو وہ لوگ یقینا ایسے ہی لوگ ہیں جن کی دنیا کی سب محنت اکارت گئی اور وہ خود کو بہت کامیاب تصور کرتے رہے ۔ (خلاف شریعت عمل خسارہ ہے) یعنی زندگی بھر محنت دولت کمائی اقتدار حاصل کیا یا شان و شوکت سے رہے اور سمجھا کہ ہم کامیاب ہیں ، مگر خلاف شریعت ساری محنت اور زندگی بھر کا عمل نہ صرف ضائع گیا بلکہ الٹا باعث عذاب بن گیا لہذا ایسے لوگ سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے رہے ۔ ان کے اعمال کے ضیاع کا باعث ان لوگوں کا کفر ہے کہ نہ انہوں نے اللہ جل جلالہ کے احکام کو تسلیم کیا اور نہ آخرت اور اللہ جل جلالہ کے حضور حاضری پہ ایمان لائے چناچہ اگر ان سے اتفاقا کوئی اچھا کام بھی ہوا تو اس کی بنیاد ایمان پر نہ تھی لہذا وہ انہوں نے آخرت کے لیے تو کیا ہی نہ تھا اس کا آخرت پہ کوئی اثر مرتب نہ ہوسکا اور یوں وہ اپنے کئے کی سزا میں جہنم رسید ہوئے یہ خود کو بہت بڑا دانشور شمار کرتے تھے اور انبیاء کا مذاق اڑاتے اور میرے احکام کو ناقابل عمل کہتے تھے ، اسی لمحے جب ان کے لیے دوزخ کا اعلان ہو رہا ہوگا میرے ایماندار اور اطاعت شعار بندوں کو انعامات سے نوازا جا رہا ہوگا اور ان کی مہمانداری کے لیے جنت کو سنوارا جائے گا جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور ہر آن نئی لذتوں سے سرشار ہو کر کبھی سیر نہ ہوں گے کہ کہیں اور جانے کا خیال بھی دل میں لائیں ، اگر کسی کو یہ خیال گذرے کہ اتنی زیادہ لذتیں اور ذائقے کیسے بن سکتے ہیں تو آپ کہہ دیجئے کہ اگر سمندروں کو بطور سیاہی استعمال کیا جاسکے تو اللہ جل جلالہ کی شان اس کے اوصاف و کمالات کا احاطہ نہیں ہو سکتا ، حتی کہ لکھتے لکھتے نہ صرف سمندر ختم ہوجائیں بلکہ اتنے اور سمندر بھی اس میں شامل کرلیے جائیں ، لہذا یہ ذائقے بنانا بھی اسی کا کام ہے فرما دیجئے کہ میں نے اپنی ذات کو معبود بنانے کا نہیں کہا میں تو خود تمہاری طرح انسان ہوں ، اولاد آدم میں سے ہوں ، ہاں حق یہ ہے کہ تم محض عام انسان ہو اور میں اللہ کا رسول ہوں کہ مجھ پر اللہ جل جلالہ کی طرف سے وحی آتی ہے ، احترام و عظمت رسالت بجا مگر میں ہوں آدمی ہی لہذا میری بھی پوجا نہ کرو ، بلکہ اپنے پروردگار سے ملنے کی تیاری کرو جس کا حسن دو باتوں میں ہے کہ اعمال صالح کرو یعنی اپنی دانشوری نہ جتاؤ ، اللہ جل جلالہ کے حکم اور نبی کی سنت کے مطابق کام کرو اور کبھی بھی اور کسی طرح بھی ذات یا صفات میں اللہ جل جلالہ کے ساتھ شرک مت کرو جو سب عبادات کو تباہ کردیتا ہے ۔
Top