Asrar-ut-Tanzil - Al-Kahf : 75
قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّكَ اِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْرًا
قَالَ : اس نے کہا اَ لَمْ : کیا نہیں اَقُلْ : میں نے کہا لَّكَ : تجھ سے اِنَّكَ : بیشک تو لَنْ تَسْتَطِيْعَ : ہرگز نہ کرسکے گا مَعِيَ : میرے ساتھ صَبْرًا : صبر
انہوں (خضر) نے کہا کیا میں آپ سے کہا نہیں تھا کہ یقینا آپ سے میرے ساتھ ہرگز صبر نہ ہوسکے گا
(رکوع نمبر 11) اسرارومعارف حضرت خضر (علیہ السلام) نے کہا میں نے تو آپ سے پہلے کہہ دیا تھا کہ آپ برداشت نہ کر پائیں گے آپ شریعت کے محافظ جبکہ میں آپ کی شریعت کا مکلف نہیں ہوں تو موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا بھئی ٹھیک ہے ، ایک بار برداشت کرلیجئے اور مجھے دیکھ لینے دیں اگر پھر میں کوئی سوال کروں تو آپ میری راہ الگ کر دیجئے کہ اب بہت ہوچکا اور اس سے زیادہ عذر معذرت بھی مناسب نہیں ۔ (اولیاء اللہ شریعت کے مکلف ہیں) کسی آدمی کے غلط کام کو اس کے کشف پر محمول نہیں کیا جاسکتا کہ اولیاء اللہ شریعت کے مکلف ہوتے ہیں جب تک دنیا میں ہیں ، اور بعد وصال کی عام آدمی کو خبر نہیں ہوتی ، چناچہ پھر روانہ ہوئے تو ایک بستی پہ گذر ہوا ، جہاں انہیں کھانے کی طلب ہوئی مگر پوری بستی میں سے کسی نے بھی ان کی میزبانی نہ کی اور کھانا نہ دیا وہاں ایک گھر کی دیوار پر نظر پڑی جو گرنے والی ہو رہی تھی ۔ حضرت خضر (علیہ السلام) نے بطور کرامت درست کردی تو موسیٰ (علیہ السلام) سے پھر رہا نہ گیا فرمایا آپ چاہتے تو مزدوری اور اجرت حاصل کرسکتے تھے جس سے کھانے پینے کا سامان ہو سکتا تھا ، بھلا آپ کو ایسی مفت کی کرامات کا کیا شوق چرایا جبکہ ہم ضرورت مند بھی ہیں تو انہوں نے کہا کہ اب آپ اور میں اپنی اپنی راہ لیتے ہیں اور جدا ہوتے ہیں ، لیکن میں آپ کو تشنہ نہ چھوڑوں گا بلکہ جو باتیں آپ کو عجیب لگی ہیں ان کی حقیقت عرض کیے دیتا ہوں ۔ سب سے پہلے بات کشتی کی تھی تو اس کے مالک بہت غریب لوگ تھے جو اسی کشتی پر مزدوری کرکے اپنا اور اپنے کنبے کا پیٹ پالتے تھے مگر جس طرف وہ جا رہے تھے وہاں ایک جابر بادشاہ نے کشتیاں ضبط کرنے کا حکم دے رکھا تھا ، چناچہ میں نے ان کی کشتی کو عیب دار کردیا کہ بادشاہ کے کارندے نقص دیکھ کر ضبط کریں گے اور بڑے نقصان سے محفوظ رہیں گے ، دوسری بات اس بچے کی تھی تو وہ لڑکا ایک بہت نیک اور خدا رسیدہ میاں بیوی کا بیٹا تھا مگر اس کے مزاج میں بگاڑ تھا جو ہو سکتا ہے والدین ہی کے کسی گناہ کا نتیجہ ہو ، غیر صالح غذا یا کوئی بھی بات ، مگر اللہ جل جلالہ نے انہیں مصیبت سے بچا لیا کہ لڑکا اگر بڑا ہوتا تو اس کے مزاج کا بگاڑ بھی بڑھتا اور یہ برائی اور کفر کو پھیلانے کا سبب بنتا ، چناچہ اللہ جل جلالہ نے اس کے بدلے انہیں نیک بہتر اور محبت کرنے والی اولاد عطا کرنے کا فیصلہ فرمایا لہذا اسے موت دے دی ، رہی دیوار تو وہ دو یتیم بچوں کی تھی جس کے نیچے ان کے لیے مال دفن تھا جو ان کے باپ نے رکھا تھا جو بہت نیک تھا تو اللہ کریم نے چاہا کہ تب تک اس کی حفاظت کی جائے کہ وہ خود جوان ہو کر اسے حاصل کرلیں اور یہ سب اللہ جل جلالہ کے احسانات تھے ، میں نے اپنی پسند سے کچھ بھی نہیں کیا یہ عالم اسباب ہے اور سنت اللہ ہے کہ ہر کام کے پیچھے ایک سبب ہوتا ہے چناچہ اللہ جل جلالہ نے مجھے ان امور کا سبب بنا دیا ۔ (نیک لوگوں سے فائدہ پہنچتا ہے) نیک والدین کا اثر اولاد کو فائدہ کی صورت نصیب ہوتا ہے دنیا اور دین دونوں کے اعتبار سے اور محض اللہ جل جلالہ کی طرف سے ہوتا ہے چناچہ بزرگوں ، علماء اور مشائخ کی اولاد کا احترام کرنا اور ان سے رعایت کا معاملہ کرنا چاہئے تو یہ وہ حالات تھے جن کے لیے یہ سب کچھ ظہور پذیر ہوا جس پر آپ سے صبر نہیں ہو پا رہا تھا ۔
Top