Asrar-ut-Tanzil - Maryam : 42
اِذْ قَالَ لِاَبِیْهِ یٰۤاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا یَسْمَعُ وَ لَا یُبْصِرُ وَ لَا یُغْنِیْ عَنْكَ شَیْئًا
اِذْ قَالَ : جب اس نے کہا لِاَبِيْهِ : اپنے باپ کو يٰٓاَبَتِ : اے میرے ابا لِمَ تَعْبُدُ : تم کیوں پرستش کرتے ہو مَا لَا يَسْمَعُ : جو نہ سنے وَلَا يُبْصِرُ : اور نہ دیکھے وَلَا يُغْنِيْ : اور نہ کام آئے عَنْكَ : تمہارے شَيْئًا : کچھ
جب انہوں نے اپنے باپ سے کہا اے میرے والد ! آپ ایسی چیز کی عبادت کیوں کرتے ہو جسے نہ کچھ سنائی دے اور نہ دکھائی دے اور نہ آپ کے کسی کام آسکے
(رکوع نمبر 3) اسرارومعارف انہیں کتاب اللہ میں ابراہیم (علیہ السلام) کے حالات بھی سنائیے کہ مشرکین عرب ان کی پیروی کا دعوی رکھتے تھے مگر عقائد و اعمال مشرکانہ گھڑ رکھے تھے تو یہ بھی واضح ہوجائے کہ محض واقعات عجیبہ ہی سننے کا شوق رکھتے ہیں یا حق کی طلب بھی تاکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے حالات سے ان کا عقیدہ اور عمل بھی اپنی صحیح صورت میں سامنے آجائے کہ وہ تو صدیق تھے اور نبی تھے ۔ (صدیق) یہاں صدیق سے مراد سچائی لیا جائے تو ہر نبی ہی صدیق اور سچا ہوتا ہے تو پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی خصوصیت کیا رہ جاتی ہے ۔ (معنے اور منصب نیز مناصب ولایت کی خصوصیات) حق یہ ہے کہ صدیق ہونا یا ” صدیقیت “ ایک منصب جلیلہ ہے اور انبیاء کرام (علیہ السلام) میں سے رب کریم نے جسے چاہا صدیق بنا دیا ، اسی طرح ولایت کے مناصب کی انتہا بھی صدیقیت ہے ، محققین صوفیاء کے مطابق ہر عہد میں ایک ولی اللہ منصب غوثیت پہ فائز ہوتا ہے ، جب اللہ جل جلالہ چاہے تو غوث کو ترقی دے کر ” قیوم “ بنا دیتا ہے اگر وہ بھی ترقی کرے تو فرد بن جاتا ہے اور فرد ترقی کرکے قطب وحدت بنتا ہے اور وہ ترقی کرکے ” صدیق “ بنتا ہے ، ولی سارے کمالات نبی کی اطاعت اور اتباع سے پاتا ہے نیز مقامات ولایت کو انتہا تک عورت بھی حاصل کرسکتی ہے کہ قرآن حکیم نے حضرت مریم (علیہا السلام) کو ” صدیقہ “ کہا ہے یہ مناصب ولایت جس مزاج کے لوگوں کو نصیب ہوں عامۃ المسلمین اس طرف چل پڑتے ہیں اور قدرتی طریقے سے اس کے وجود کی برکات ذہنوں میں زیروبم پیدا کرتی ہیں فی زمانہ اللہ کریم کا بہت ہی زیادہ احسان ہے کہ مناصب ولایت میں نہ صرف صدیق موجود ہے بلکہ دور حاضرہ کا صدیق اللہ کریم کی طرف سے ” اما الصدیقین “ ہے ، یہ اسی کے وجود کی برکات ہیں کہ پوری دنیا میں مسلمان بیدار ہو رہا ہے ۔ فالحمد للہ علی ذاک بہرحال نبی کی صدیقیت بحیثیت نبی کے ہوتی ہے صحابی کی اپنی شان ہے اور ولی کی اپنے مقام کے مطابق انبیاء کرام (علیہ السلام) کے بعد کائنات میں صدیقوں کے سردار ابوبکر ؓ ہیں ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے گھر میں اور اپنے والد کو بھی بتوں کا پجاری پایا تو ان کا اتباع نہ کیا بلکہ انہیں نہایت خوبصورت طریقے سے بتوں کی پوجا چھوڑ کر اللہ واحد کی عبادت اختیار کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ اگر آپ اس پہ بتوں کو پوجتے ہیں کہ یہ آپ کی ضرورتیں پوری کریں گے تو ضرورت پوری کرنے پہ اختیار تو دور کی بات ہے ان میں تو اتنی سکت بھی نہیں کہ آپ کی بات ہی سن سکیں یا آپ کو اور آپ کے حالات کو دیکھ سکیں ، تو یقینا یہ آپ کے کسی کام بھی نہیں آسکتے ۔ (دلیل بزرگی) میں نے یہ بات محض رواجا نہیں کہی بلکہ مجھے علم نصیب ہوا ہے مراد وحی رسالت ہے اور یہ ایسا علم ہے جو آپ کے پاس نہیں گویا محض بڑا ہونا یا عمر کی زیادتی بزرگی کی دلیل نہیں بلکہ اس کا مدار اللہ جل جلالہ کی معرفت پر ہے لہذا آپ میری بات مانیں اور میرا اتباع کریں تو میں آپ کو سیدھے پر لے چلوں گا ، اور آپ جو بتوں کو پوجتے ہیں یہ درحقیقت آپ شیطان ہی کو پوج رہے ہیں کہ اسی نے اس راہ پر ڈالا ہے حالانکہ بظاہر کا فر بھی شیطان کو برا ہی کہتا ہے مگر اس کی بات مان کر اور بت پرستی میں مبتلا ہو کر گویا اسی کی عبادت بھی کرتا ہے اور شیطان تو اللہ جل جلالہ کا جو بہت بڑا رحم کرنے والا ہے ، نافرمان ہے ، ڈر یہ ہے کہ اس جرم میں آپ کو سزا نہ مل جائے ، اگر ایسا ہوا تو پھر آپ بھی شیطان کے ساتھی بن جائیں گے مگر برا ہوا اللہ جل جلالہ سے دوری کی کیفیات کا کہ اپنے عظیم بیٹے اور اللہ جل جلالہ کے عظیم رسول کی بات سن کر بھی بابا جی بھڑک اٹھے اور کہنے لگے اب سمجھا گویا تم میرے معبودوں سے پھر چکے ہو اور مجھے بھی ایسا ہی کرنے کی دعوت دے رہے ہو لیکن یہ یاد رکھ لو کہ اولاد بیشک عزیز ہوتی ہے مگر اپنے معبود سے بڑھ کر نہیں لہذا ایسی باتوں سے باز آجاؤ ورنہ سنگسار کر دوں گا تب تک میری نگاہوں سے دور ہوجاؤ تو انہوں نے فرمایا کہ بہتر میں آپ کو سلام کرتا ہوں ، اس سے مراد اچھے طریقے سے الگ ہونا بھی ہے اور یہ بات شریعت ابراہیمی کی تھی ۔ (کافر کو سلام) مگر امت مرحومہ کو حدیث شریف میں کافر کو سلام سے ابتدا کرنے سے منع فرمایا ہے ہاں ایسا مجمع جس میں بعض مسلمان بھی ہوں تو اسے سلام کہا جاسکتا ہے نیز فرمایا اللہ جل جلالہ سے آپ کے لیے بخشش طلب کرتا رہوں گا کہ وہ مجھ پر بہت مہربان ہے امت مرحومہ کو کتاب اللہ میں غیر مسلم کی مغفرت طلب کرنے سے روک دیا گیا ہے ہاں ہدایت کی دعا کرنا درست ہے ، لیکن اس حالت کفر میں میرا آپ کا ساتھ نہیں ہو سکتا ، لہذا میں آپ سے اور آپ کے ان معبودوں سے ظاہرا بھی الگ ہوتا ہوں اور صرف اپنے پروردگار کی عبادت کروں گا اور کافرانہ ماحول سے الگ ہو کر یقینا بہتر طور پر عبادت کرسکوں گا ۔ (عبادات پر ماحول کا اثر) یہاں ثابت ہے کہ ماحول عبادات اور ان پر مرتب ہونے والے اثرات و کیفیات کو متاثر کرتا ہے لہذا برے ماحول سے الگ ہونا ضروری ہے اسی لیے فرشتے وقت مرگ بھی کہتے ہیں کہ اللہ جل جلالہ کی زمین وسیع تھی تو بدکاروں کو چھوڑ کر کہیں اور جا بستا ، لہذا بلاضرورت ایسے ماحول میں نہ جانا چاہئے جب انہوں نے ہجرت فرمائی اور ان سے دور یعنی ملک شام کو چلے گئے تو ہم نے انہیں ان سے بہت ہی بہتر رشتہ دار عطا فرما دیے ۔ (ہجرت کے انعامات) حضرت اسحاق (علیہ السلام) جیسے بیٹے اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) جیسے پوتے سے نوازا جو دونوں نبی تھے یعنی ایک بہت اعلی خاندان عطا فرما دیا اور ان کی اولاد کو صاحب کمال بنا کر اپنی رحمت سے نوازا اور ان کے نام کو عزت وبلندی بخش دی کہ ہر کوئی تعظیم سے اور ادب سے نام لیتا تھا ۔
Top