Asrar-ut-Tanzil - Maryam : 71
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى١٘ اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا
وَاذْكُرْ : اور یاد کرو فِي الْكِتٰبِ : کتاب میں مُوْسٰٓى : موسیٰ اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھا مُخْلَصًا : برگزیدہ وَّكَانَ : اور تھا رَسُوْلًا : رسول نَّبِيًّا : نبی
اور اس کتاب میں موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر کیجئے بلا شبہ وہ (اللہ کے) خاص کیے ہوئے (بندے) تھے اور وہ پیغمبر (اور) نبی تھے
(رکوع نمبر 4) اسرارومعارف آپ کتاب اللہ میں سے موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں بھی بتائیں کہ لوگوں نے بہت سی باتیں گھڑ رکھی تھیں ، یہود جو آپ ﷺ پر اعتراضات سکھاتے تھے خود اس ہستی کے حالات سے بیخبر تھے جس کی امت ہونے کا دعوی کرتے تھے تو ارشاد ہوا وہ تو ” مخلص “ تھے یعنی اللہ جل جلالہ نے انہیں محض اپنی اطاعت اور عبادت کے لیے چن لیا تھا ۔ (حفاظت الہیہ) یہ کمال سب انبیاء کرام (علیہ السلام) میں ہوتا ہے کہ نبی معصوم ہوتا ہے اور بعض اللہ جل جلالہ کے بندوں کو اپنے نبی کے اتباع سے نصیب ہوتا ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ انہیں قدرتا گناہوں سے بچانے کا اہتمام ہوجاتا ہے اور وہ محفوظ ہوتے ہیں یعنی ہر آن انہیں اللہ جل جلالہ کی حفاظت نصیب ہوتی ہے ، اگر بتقاضائے بشریت کوئی لغزش ہو بھی جائے تو فورا توبہ نصیب ہوتی ہے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے منتخب کردہ بندے اس کے رسول اور نبی تھے انبیاء کرام (علیہ السلام) میں نبوت تو سب میں قدر مشترک ہے مگر رسالت ان حضرات کو نصیب ہے ۔ (رسول اور نبی) جو نئی شریعت لے کر مبعوث ہوئے لیکن اگر غیر نبی کو رسول کہا جائے تو مراد پیغام لے جانے والا یا قاصد ہوگا اس کا نبی ہونا ثابت نہ ہوگا جیسے وحی لانے والے فرشتے کو ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تو اللہ جل جلالہ کے وہ مقرب رسول تھے کہ انہیں ہم نے راز کی باتیں کہنے کے لیے طور پہاڑ پر طلب فرمایا یعنی لوگوں اور آبادی سے کٹ کر محض اپنے ساتھ باتیں کرنے کے لیے یہ عزت بخشی اور ان کی درخواست پر ان کے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو نبوت عطا کر کے ان کا دست وبازو بنا دیا ، یہاں ثابت ہے کہ خلق سے کٹ کر اور تنہائی میں یا پھر پرسکون جگہ پر ذکر کرنا بہت مفید ہے ۔ (عزلت نشینی) آپ اسمعیل (علیہ السلام) کا ذکر کیجئے جن کے ساتھ مشرکین عرب بھی رشتہ جوڑتے ہیں اور پھر اللہ جل جلالہ پر جھوٹ بولتے ہیں کہ وہ تو وعدے کے سچے اور کھرے تھے اور اللہ کے رسول اور نبی تھے یعنی مخلوق کو اللہ جل جلالہ کے ساتھ جوڑنے والے تھے جیسے تم اللہ جل جلالہ سے دور کر کے بتوں کی عبادت پر مجبور کرتے ہو اور وہ تو نہ صرف خود اللہ جل جلالہ کی عبادت کرتے تھے بلکہ اپنے اہل و عیال کو اور اپنے گھر کے افراد کو بھی اللہ جل جلالہ کی عبادت کا حکم دیتے اور زکوۃ ادا کرنے کو کہتے تھے جبکہ مشرکین مکہ خود کو لوگوں کی طرح عبادات کا محتاج نہ جانتے تھے ، حج میں بھی دوسروں کی نسبت کم ارکان مقرر کر رکھے تھے اور وہ تو اپنے پروردگار کے بہت ہی پیارے اور پسندیدہ تھے آپ حضرت ادریس (علیہ السلام) کا تذکرہ فرمائیے جو صدیق تھے اور نبی بھی ، اور ہم نے انہیں بہت بلند مقام عطا فرمایا کہ مفسرین کے مطابق اپنے عہد کے بہت بڑے عبادت گذار بھی تھے اور اللہ جل جلالہ نے انہیں اس قدر عبادات کی توفیق بخشی تھی کہ اس دور کے سب مسلمانوں سے ان کی عبادت اور اعمال جو آسمان کو جاتے زیادہ ہوتے تھے بعض حضرات نے ان کا جسمانی طور پر اٹھایا جانا مراد لیا ہے کہ انہیں موت بھی آسمان چہارم پہ نصیب ہوئی جیسا کہ حدیث معراج میں ارشاد ہے کہ آپ ﷺ کی ملاقات ان سے چوتھے آسمان پر ہوئی ، یہ آدم (علیہ السلام) کے قریب تر تھے ، پھر نوح (علیہ السلام) کے ساتھ سواری والوں سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ارشاد ہوا یہ سب وہ اللہ کے محبوب بندے ہیں جن کو اللہ جل جلالہ نے انعامات سے نوازا اور نبوت سے سرفراز فرمایا ، آدم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے یعنی کسی بنی نبی میں الوہیت کے اوصاف نہ تھے بلکہ سب آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہے پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سام بن نوح کی اولاد اور اسماعیل (علیہ السلام) اور اسحاق (علیہ السلام) ان کی اولاد اور اولاد یعقوب (علیہ السلام) میں جو نبی گزرے تا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) یہ سب اللہ کے ہدایت یافتہ بندے تھے اور اللہ جل جلالہ کے چنے ہوئے اور محبوب تھے اور اللہ جل جلالہ کی آیات سن کر سربسجود ہوتے تھے اور رقت قلبی کے باعث ان کے اشک رواں ہوتے ۔ (عبادات وتلاوت میں گریہ) عبادات وتلاوت میں گریہ طاری ہونا رقت قلبی کی دلیل ہے جو عند اللہ بہت پسندیدہ شے ہے اور ان انعامات میں سے ہے جو انبیاء کرام ﷺ کی خصوصی اطاعت سے نصیب ہوتے ہیں بخلاف اس کے کہ مشرکین سے لے کر یہود ونصاری تک نے انھی حضرات کے نام سے اپنی مشرکانہ رسومات وابستہ کر رکھی ہیں مگر یہ رسومات بعد کی ایجاد ہیں کہ انکے بعد ان کی جگہ ناخلف اور نااہل لوگ آئے جنھوں نے عبادات کو تو ضائع کردیا ۔ (رسومات کی ایجاد) حتی کہ عبادات کی فرضیت تک سے انکار کر کے کافر ہوئے اور نفس پرستی ، حصول دنیا اور حصول ہوس اقتدار میں اسیر ہو کر تباہ ہوئے اور عبادات کی جگہ رسومات ایجاد کر کے دوسروں کی گمراہی اور تباہی کا باعث بنے ، یہی حال بہت بڑے بڑے اہل اللہ کا ہوا کہ ان کے بعد نااہل لوگ ان کی جگہ پر قابض ہوگئے اور ہدایت کے کاموں سے ہٹ کر لوگوں کو رسومات میں مبتلا کردیا ، اور اس طرح خود خود دولت کماتے اور عیش کرتے رہے العیاذا باللہ مگر ایسے سب لوگ جہنم کے ایک بہت گہرے غار میں پھینکے جائیں گے جہاں ہر طرح کے عذاب جمع ہوں گے اور پھر عیاشی کا عذاب الگ سے موجود ہوگا نیز جس قدر بلندی کی ہوس تھی اس سے کئی گنا پستی میں دھکیل دیے جائیں گے سوائے ان لوگوں کے کہ جنہیں ان میں سے بھی توبہ نصیب ہوگئی اور توبہ کی حقیقت یہ ہے کہ سب سے پہلے عقیدہ درست کرے اور اس عقیدے کے مطابق عمل اختیار کرے ۔ (توبہ کی حقیقت) اس لیے ارشاد ہوا کہ توبہ کیا ہے ، ایمان لائے اور نیک اعمال کرے ایسے لوگوں کو جنت میں داخل کیا جائے گا اور ان سے ذرہ برابر زیادتی نہ کی جائے گی کہ ایسی توبہ گناہوں کو مٹا دیتی ہے اور بعض اوقات انہیں نیکیوں میں بدل دیتی ہے ۔ (اضاعت صلوۃ اور اتباع شہوات) صلوۃ کو ضائع کرنا یہ بھی ہے کہ ادا کرنے والا اس کے اوقات کا لحاظ نہ کرے یا وضو اور لباس میں کوتاہی کرے یا قیام اور رکوع سجود درست نہ ہو تو یہ سب ضائع کرنا ہوگا نیز عبادات سے بیخبر ہو کر ہوس زر میں مبتلا ہونا اور محض اچھا کھانے پہننے یا عالی شان مکان بنانے کا شوق اتباع شہوات ہے لیکن اگر عبادات نصیب ہوں حلال کمائے اور عزت سے رہے تو یہ اللہ جل جلالہ کا احسان ہے ۔ جنت کے ان باغوں میں رہیں گے جن کا اللہ جل جلالہ نے اپنے بندوں سے غائبانہ وعدہ فرمایا ، صحیح عقیدہ اور نیک عمل والے لوگ اسے یقینا پالیں گے جہاں کوئی فضول کلام تک نہ ہوگا سوائے سلامتی کی باتوں کے اور صبح وشام یعنی ہر آن بہترین رزق انہیں میسر ہوگا یہ نعمتیں اور یہ باغ میرے نیک اور پرہیز گار بندوں کو ان کی میراث کے طور پر ملیں گے اور کفار کو یہ بھی بتا دیجئے کہ فرشتہ ویسے ہی وحی نہیں لاتا بلکہ رب العلمین کے حکم سے نازل ہوتا ہے اور اس میں ذرہ برابر گھٹانے بڑھانے کا اختیار نہیں رکھتا اس کے چہار طرف ہر چیز کا اور خود اس کا مالک اللہ ہے جو کبھی بھولتا بھی نہیں ، اے مخاطب وہی تو پروردگار ہے آسمانوں زمینوں کا اور جو کچھ ان میں ہے اس کا بھی لہذا ہر آن اسی کی عبادت و اطاعت پر کمر بستہ رہ کر اس کی عبادت چھوڑنے والا کسی دوسرے کی اطاعت و عبادت کرنے والا ہے ۔ (عبادت قبولیت کی دلیل ہے) اور کبھی تو نے اس کے برابر کا کوئی نام سنا ہے یعنی کوئی اس جیسا نہیں لہذا عبادت چھوڑنے والا تباہی کی طرف جانے والا ہے اور جسے توفیق عبادت ہو یہی قبولیت کی دلیل ہے ۔
Top