Asrar-ut-Tanzil - Al-Baqara : 122
یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَنِّیْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ
يَا بَنِي اِسْرَائِيلَ : اے بنی اسرائیل اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَتِيَ : میری نعمت الَّتِي : جو کہ اَنْعَمْتُ : میں نے انعام کی عَلَيْكُمْ : تم پر وَاَنِّي : اور یہ کہ میں نے فَضَّلْتُكُمْ : تمہیں فضیلت دی عَلَى : پر الْعَالَمِينَ : زمانہ والے
اے اولاد یعقوب (علیہ السلام) ! میری نعمت یاد کرو جو میں نے تم پر انعام کی اور میں نے تم کو (تمہارے عہد کے) جہانوں پر بزرگی دی
آیات 122- 129 اسرارو معارف ہر طرح کے عقلی ، نقلی اور اعجازی جواب ارشاد فرما کر جب سب طرف سے عاجز کردیا اور حضور ﷺ کی حقانیت واضح ہوگئی تو پھر خطاب براہ راست بنی اسرائیل کو ہوا کہ اے اولاد یعقوب (علیہ السلام) ! میرے احسانات و انعامات جو میں نے تم پر کئے یاد کرو ، یہ میرا ہی احسان تھا کہ تمہیں تمہارے دور کی پوری دنیا پہ فضیلت عطاء کی۔ بنی اسرائیل کے ساتھ بات اس قدر طویل ہے کہ آپ ﷺ کی بعثت کے زمانے میں بھی ایک عالم میں یہی لوگ سربراہ تھے بلکہ مذاہب عالم پر چھائے ہوئے تھے اور خود مشرکین عرب بھی اپنی مشکلات میں ان کی طرف رجوع کرتے۔ حتیٰ کہ نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس سے سوال کرنے کے لئے مدینہ آتے اور علماء یہود سے پوچھ کر مکہ جاکر سوالات کیا کرتے یعنی ان کی مذہبی بڑائی مسلم تھی۔ پھر دنیا میں بہت بڑی بڑی حکومتیں پہلے بھی رہی تھیں اور اس وقت بھی موجود تھیں۔ جب نبی اکرم ﷺ مدینہ منورہ تشریف فرما ہوئے تو کم از کم سارے عرب کی نگاہ اس بات پر تھی کہ دیکھیں علماء بنی اسرائیل آپ کے ساتھ کیا معاملہ کرتے ہیں ؟ ان کا گمان فاسدیہ ہوگا کہ یہ فاضل لوگ ہیں معاذ اللہ۔ حضور ﷺ کو عاجز کردیں گے۔ پھر پوری دنیا پہ اس دور میں بھی اور ہمیشہ کے لئے بھی قرآن کریم کے مضامین ہی سند کی حیثیت رکھنے ہیں اس لئے بھی یہ بات ذرا مفصل ہوگئی کہ ادنیٰ سے ادنیٰ انسان جو ذرا بھی عقل رکھتا ہے جب دل سے جاننا چاہے تو جان لے کہ حق کیا ہے ، نیز جب اہل کتاب پر یہ ثابت ہوگئی کہ آپ ﷺ کو ماننا ہی دین ہے تو جو ادیان باطلہ آسمانی کتاب ہی نہیں رکھتے ان پر تو بدرجہ اولیٰ ثابت ہوگئی ہر طرح سے آپ ﷺ کی رسالت ثابت فرما کر فرمایا کہ اصل شے تو یہ ہے کہ اللہ جل شانہ حقدار ہے عبادت کا وہ ہے ہی ایسا کہ اس کی عبادت کی جائے۔ عبادت کے درجے : لیکن اگر کوئی اتنی ہمت نہ رکھتا ہو تو دوسرا درجہ یہ ہے کہ کم از کم اس کے احسانات پر تو نگاہ کرے۔ کس قدر انعامات ہیں جو اس نے مخلوق کے ایک ایک فرد پر کئے ہیں اور تم پر انفرادی کیا اور بحیثیت قوم کیا کس قدر عظیم احسانات فرمائے تمہیں اقوام عالم کا سردار بنایا۔ تمہاری قوم میں نسلاً بعد نسل حکومت اور نبوت کو جمع فرمایا اور تمہیں ظاہر وباطنی سربلندیاں عطا کیں۔ اور پھر تیسرا درجہ یہ ہے کہ اگر کوئی ایسا ہی احسان فراموش بھی ہو تو اسے روز جزاء سے بےخطر نہ ہونا چاہیے کم از کم اس دن سے توڈرتا رہے جو باز پرس کا اور اعمال کے اجر کا دن ہے اور جس سے کوئی کسی صورت بچ نہیں سکے گا۔ عبادت کے تین مدارج ذکر ہوئے اول درجہ اخص الخواص کا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کی عظمت سے آشنا ہو کر اس لئے عبادت کرے کہ اللہ کو سزاوار ہے اور اس کی شان کے شایان۔ یا پھر کم از کم اخروی عذاب سے ڈر کر تو ضرور سرجھکادے ، یہ عوام کا درجہ ہے۔ اور پھر کفر جس کو تم نے گلے لگا رکھا ہے یہ تو بہت بڑی مصیبت ہے کہ انسان کو بالکل بےیارومددگار اور تنہا چھوڑ دے گی تو کوئی اس کی سفارش کرے گا اور نہ ہی اس کو کوئی سفارش مفید ہوگی۔ اور نہ کوئی ایسی ہستی ہے جو طاقت کے ساتھ اسے چھڑا سکے یعنی نجات کے تمام دروازے اور خلاصی کی ساری ممکنہ راہیں ، اور وہ راہیں بھی جو ممکن تو نہیں مگر تمہارے فاسد ذہنوں میں موجود ہیں کہ غالباً کوئی تمہیں اللہ سے چھین لے گا ، یہ سب مکمل طور پر بند اور منقطع ہیں۔ ایک ہی راہ ہے اور وہ ہے ایمان قبول کرنا جو تم کرکے نہیں دے رہے۔ اور اس کفر کے ساتھ دعویٰ ہے حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) کے وارث اور دین ابراہیمی کے پیروکار ہونے کا۔ اب یہاں اس دعویٰ میں تو مشرکین عرب بھی ان کے ہمنوا تھے یہود کا دعویٰ تھا کہ دین ابراہیمی ہمارے پاس ہے اور یہی حق ہے یہی دعویٰ نصاریٰ کا تھا اور یہی دعویٰ مشرکیں کا بھی تھا بلکہ انہوں نے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل (علیہم السلام) کے بت بنا کر بیت اللہ میں رکھے ہوئے تھے تو اللہ کریم نے سب پر اتمام حجت کرتے ہوئے فرمایا کہ۔ واذا بتلی ابراھیم…………………لا ینال عہد الظلمین۔ ابراہیم (علیہ السلام) ایسے تو نہ تھے جیسے تم ہو۔ تمہیں اپنا اقتدار کلمہ پڑھنے سے مانع ہے تم میں سے کسی کو مال و دولت نے روک رکھا ہے کوئی رسومات کا اسیر ہے اور کسی کو رشتہ داری نے جکڑ رکھا ہے مگر ابراہیم (علیہ السلام) کو جب اللہ تعالیٰ نے متعدد امتحانوں میں ڈالا تو وہ سب پر پورے اترے۔ ان بظاہر مشکلات کو جو اللہ کی راہ میں آتی ہیں امتحان بدیں وجہ کہہ دیا جاتا ہے کہ انسان طبعاً جن سب چیزوں کی طرف رغبت رکھتا ہے جب اللہ کے لئے اور اس کی راہ میں ان کو قربان کرنا پڑتا ہے تو خود انسان کے لئے ایک امتحان کی صورت بن جاتی ہے ورنہ یہ مقصد نہیں کہ اللہ اس کی قابلیت سے واقف نہیں اور آزما کر جاننا چاہتا ہے بلکہ اس کی تربیت اور اس کے منازل علیہ پر فائز ہونے کے لئے یہ سب ضروری ہے اسی لئے تو ابتلاء کے ساتھ صفاتی نام ربہ آیا ہے جیسے شہادت ایک مرتبہ قرب ہے مگر اس کے لئے بھی تو راہ حق میں قتل ہونا پڑتا ہے اور جان نذر کرنا پڑتی ہے۔ منازل قرب : نبوت اگرچہ شے وہبی ہے مگر انبیاء (علیہ السلام) بھی ہمیشہ ترقی کرتے رہتے ہیں جس طرح اللہ کی ذات غیر محدود ہے اسی طرح اس کے قرب کی منازل بھی غیر محدود ہیں۔ اور اس ترقی کے لئے مجاہدات ضروری ہیں خواہ وہ اضطراری ہوں یا اختیاری۔ حتیٰ کو خود نبی اکرم ﷺ کا مکہ کی مشکل ترین زندگی سے گزرنا تبلیغ دین کے مختلف سفر ، ہجرت ، جہاد ، سلطنت اسلامی کا قیام اور دندان مبارک کی قربانی سب اسی راہ کی منازل ہیں۔ اور ولایت جو شے ہی کسی ہے اور بعض اوقات وہبی بھی نصیب ہوتی ہے اس کے لئے کیوں یہ تمام چیزیں شرط نہ ہوں گی۔ پھر جب منازل قرب غیر محدود ہیں تو یہ کہہ دینا کہ فلاں حضرت نے سلوک مکمل کرلیا ہے بہت مشکل ہے یہ وہ راہ ہے جس کی انتہا ابدالآباد نہ آئے گی۔ دنیا ، برزخ اور جنت میں مسلسل ترقی کا نام سلوک ہے۔ خود حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ان تمام مراحل سے گزرے جس گھر میں اور جس آغوش میں آنکھ کھولی انہیں بت پرستی میں مبتلا پایا تو اللہ کی راہ میں چھوڑنا پڑا اپنے ماحول ، برادری اور معاشرے کو ایسا ہی پایا تو سب کو خیرباد کہنا پڑا۔ حکومت وقت کو اس مرض کا مریض پایا تو اس سے ٹکرا گئے آگ میں کود گئے مگر پائے اثبات میں لغزش نہ آئی وطن کو چھوڑنا پڑا تو کر گزرے۔ ضعیفی میں چاند سا بچہ عطا ہوا تو بیوی اور بچہ کو جنگل چھوڑنے کا ارشاد ہواتکمیل کی۔ حتیٰ کے بیٹے کی قربانی کا حکم ہوا چھری چلا دی فا تمھن غرض تمام ارشادات کی مکمل اطاعت کی۔ یہ گویا ان کے زعم باطل کو رد فرمایا جارہا ہے کہ خود کو ابراہیمی تو کہتے ہو مگر کلمہ پڑھنے کی توفیق نہیں ہے اور قبول حق کی جرات نہیں رکھتے۔ اللہ نے انہیں تو فرمایا کہ آپ کو انسانیت کا پیشوا بنادوں گا یعنی وہ تمام کمالات جو بحیثیت انسان کوئی حاصل کرسکتا ہے اور وہ تمام راہیں جن پر کوئی انسان کامل چل سکتا ہے لہٰذا ان پر اپنے آگے آپ کے نقوش پا پائے گا للناس اما ما امام سے مراد پیشرویا موجودہ لغت میں لیڈر ہے۔ امام کا مفہوم : امامت منصب نہیں ہے منصب نہیں ہے یہاں فرقہ امامیہ کا یہ استدلال کی امام معصوم ہوتا ہے اور یہ کہ نبوت کے بعد امامت ملتی ہے اس لئے نبوت سے افضل ہے سرے سے ثابت ہی نہیں ہوتا قرآن کریم نے امام محض پیشوا کے معنوں میں لیا ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نبی تھے۔ انبیاء میں پیشوا ہوئے لیکن جو لوگ کفر میں آگے نکل گئے اور کافروں کے پیشوا ہوئے ان کو بھی ائمۃ الکفر فرمادیا جیسے ارشاد ہے وقاتلوا ائمۃ الکفر۔ نبوت ایک منصب ہے کسی بڑے سے بڑے لیڈر کو نبی نہیں کہا گیا بجز ان ہستیوں کے جو من جانب اللہ مبعوث ہوئے اسی لئے تو جو نماز میں لوگوں کی پیشوائی کرتا ہے اسے بھی امام کہہ دیا جاتا ہے جس نے حدیث شریف میں لوگوں کی راہنمائی کا یہ درجہ پایا اس فن کا امام کہ لایا جس نے قصہ میں راہنمائی کی وہ فقہ کا امام ہوا۔ وعلیٰ ہذا۔ تو جب ابراہیم (علیہ السلام) پر یہ انعام ہوا تو انہوں نے عرض کی بارالٰہا ! میری اولاد کو بھی یہ عظمت نصیب فرما کہ وہ نیکی اور قرب کی منازل میں درجہ پیشوائی کو پہنچیں۔ فرمایا۔ ضرور ! مگر ان کو جو حق پرست ہوں گے ظالموں کو ہرگز نہیں۔ یعنی محض آپ کی اولاد ہونے کی وجہ سے انعامات باری کے مستحق نہ ہوں گے بلکہ عدل شرط ہوگا ، یعنی یہ جو موروثی ولایت ہے یہ نہ چلے گی کہ باپ فوت ہوا تو بیٹا خواہ کیسا ہی بدکار ہو گدی نشین بن گیا۔ بلکہ اس کے لئے عقائد کا ہونا شرط ہے جو اس وقت ان لوگوں میں جو آپ ﷺ کے مقابل تھے مفقود تھی۔ سو ان کا دعویٰ باطل ٹھہرا۔ اب مشرکین کا یہ زعم کہ ہم بیت اللہ کے خادم ہیں ہمیں کیا ضرورت ہے آپ ﷺ کو نبی ماننے کی۔ فرمایا کہ یہ بیت شریف کی تعمیر جدید کا شرف بھی ابراہیم (علیہ السلام) کو حاصل ہوا ، مگر کس لئے ، واذجعلنا البیت …………………والرکع السجود۔ جب ہم نے بیت اللہ کو لوگوں کے ثواب کی نیت سے جمع ہونے کی جگہ قرار دیا اور جائے امن بنایا اور امت محمدیہ ﷺ کو بھی حکم دیا کہ مقام ابراہیم کو نماز پڑھنے کی جگہ بنایا کرو۔ یعنی اسے ارکان حج میں داخل فرمایا۔ تو تعمیر کے وقت ہی حضرت ابراہیم و اسماعیل (علیہ السلام) سے وعدہ لیا کہ میرے گھر کو ظاہری وباطنی نجاست سے پاک رکھو۔ یہاں یہ پورا قصہ نقل کرنا کہ کیسے شام سے ہجرت کرکے حضرت ہاجرہ ؓ اور ننھے اسماعیل (علیہ السلام) وہاں پہنچے اور کیسے ٹھہرائے گئے اور ابراہیم (علیہ السلام) پہنچا کر واپس تشریف لے گئے ، میرے خیال میں ملوالت کا باعث ہوگا۔ دیگر تفاسیر میں مفصل موجود ہے وہاں سے ملاحظہ فرمایا جائے۔ میں مضمون آیت سے متعلق عرض کروں گا کہ اللہ کریم نے اس جگہ کو ایسی تجلیات کا مہبط بنایا ہے جو ہر مومن کے دل کو کھینچ لیتی ہیں حتیٰ کے بار بار حج کرنے سے شوق زیارت بڑھتا ہی چلا جاتا ہے اور اس مقام کو جائے امن بنایا کہ تم لوگ باوجود گمراہ ہونے کے اس کی وجہ سے ہزاروں طرح دنیاوی امن وسلامتی پا رہے ہو تو جو مومن یہاں پہنچے گا دو عالم میں مامون ہوگا اور مقام ابراہیم کو ایک خاص فضیلت بخشی۔ یہ سب اس لئے کہ اس گھر کو خالص میرے لئے پاک وصاف رکھا جائے نہ عمل کی گندگی یہاں پھیلنے پائے نہ عقیدے کی اور یہ صرف طواف کرنے والوں اور معتکف ہونے والوں اور عبادت الٰہی میں لگے رہنے والوں کے لئے مختص کردیا جائے یہاں کسی طرح سے عبادات میں رکاوٹ نہ ڈالی جائے اور کوئی غیر مشروع کام نہ کیا جائے۔ یہی حال تمام مساجد کا ہو کہ وہ بھی مساجد اللہ کہلاتی ہیں اور یہی حکم اس دل کا ہوگا جو اللہ کی طرف منسوب ہوگا کہ شرک و بدعت سے بھی پاک ہو اور کبرونخوت اور حسد وغیرہ کے بتوں سے بھی۔ اس میں تو محض اللہ کا نام ، اللہ کی یاد اور جذبہ اطاعت نہ یہ کہ مشرکین مکہ کی طرح دعویٰ ہو دینداری کا اور کعبہ بتوں سے بھر رکھا ہو۔ طالبین راہ طریقت کو جان لینا چاہیے کہ اس راہ میں ادنیٰ سی بدعت بھی قابل برداشت نہیں۔ سراسر اتباع سنت خیرالانام ہے جو ہر طرح سے پاکیزہ ہے کی جائے۔ تو ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا فرمائی کہ اے اللہ ! اذقال ابراھیم……………وبئس المصیر۔ اے میرے پروردگار ! اے وہ جس نے مجھے تمام کمالات ظاہری وباطنی عطا فرمائے ہیں اور اے وہ جو سب کا پالنے والا ہے اس شہر کو امن کا شہر بنا ، اور اس کے مکینوں کو ہر طرح کا رزق مہیا فرما۔ ھن الثمرات سے مراد تمام ضروریات زندگی ہیں اور قبول دعا کا اثر دیکھو کہ اے اہل مکہ ! تم ہر طرح سے امن میں ہو ، کبھی کوئی جابر اسے فتح نہ کرسکا حتیٰ کہ اصحب فیل کا واقعہ خود قرآن میں مذکور ہے۔ ” وفا الوفا “ میں ایک حکمران کا ذکر ہے کہ جس نے مکہ مکرمہ فتح کیا تو منہ سے ایک بدبودار پانی جاری ہوگیا اس نے اپنے علماء کو جمع کرکے مشورہ طلب کیا تو سب نے کہا اس شہر پر آپ قابض نہ ہوں اور یہاں کے رہنے والوں کو راضی کریں تو اس نے کئی عرصہ تک ان لوگوں کی عزت کی اور ہر طرح سے دلجوئی کی۔ ان علماء نے نبی اکرم ﷺ کی بعثت اور ہجرت مدینہ کی پیشگوئی کی کہ مکہ مکرمہ کی کرامت دیکھ کر وہ ایمان لایا پھر مدینہ پہنچا جہاں اس نے بعض علماء کو حضور ﷺ کے نام خط دے کر ٹھہرایا کہ جب آپ ﷺ مبعوث ہوں تو یہ چٹھی پیش کی جائے حضرت ابوایوب انصاری ؓ انہی کی اولاد میں سے تھے اور آپ ﷺ کی تشریف آوری پر چٹھی پیش کی تھی اسی کی طرف یہ شعر منسوب ہے۔ ولومد عموی الی عموم لکنت وزیر الہ وابن عم غرض ہر طرح سے شہر امن قرار پایا۔ دنیا میں کسی جگہ اور کسی موسم میں کوئی شے پیدا ہوتی ہو۔ مکہ مکرمہ میں وہ سارا سال دستیاب رہتی ہے مگر یہاں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ایمان کی قید بڑھا دی کہ جو ان میں سے اللہ اور آخرت پر ایمان لائیں انہیں یہ نعمتیں نصیب فرما۔ غالباً یہ پہلی دعا کی وجہ سے ہوگا کہ جب اولاد کے لئے انعامات باری میں شرکت کی دعا کی۔ تو حکم ہوا تھا کہ نافرمانوں کو یہ دولت نصیب نہ ہوگی مگر وہ مدارج روحانی اور قرب الٰہی کی بات تھی۔ یہاں نعم دنیا کا ذکر ہے تو اللہ کریم نے ایمان کی قید اٹھادی۔ فرمایا جو بھی یہاں وارد ہوگا وہ دنیاوی راحتوں سے ضرور نوازا جائے گا۔ یہ اور بات ہے کہ کافر کے لئے نعمتیں چند روزہ ہیں کہ دنیا میں تو متمتع ہوگا مگر پھر کھینچ کر آگ کے عذاب میں پھینک دیا جائے گا جو ایک بہت مشکل جگہ ہے۔ یہاں یہ بات واضح ہوگئی کہ محض دنیا کی دولت اللہ کی رضا کا مظہر نہیں۔ صحت عقیدہ اور عمل بغیر دولت کے بھی رضائے الٰہی کا مظہر ہے اس کے ساتھ دولت دنیا بھی نصیب ہوجائے تو انعام باری ہے ورنہ وجہ عذاب۔ تو کفار کا یہ زعم بھی رد گیا کہ ہم مکہ مکرمہ میں رہتے ہیں اور بڑے آرام سے گزر ہورہی ہے اگر حق پر نہ ہوتے تو اس بےآب وگیاہ صحرا میں اس قدر آرام دہ شہر کی راحتیں کیوں پاتے فرمایا یہ تو دعائے ابراہیمی کا صلہ ہے اور دنیا کافر ومومن پہ عام ہے اس چندروزہ عافیت کو ابدی عافیت کی دلیل مت جانو بلکہ اخلاق ابراہیمی پیدا کرو۔ واذیرفع ابراھیم القواعد من البیت واسمعیل…………انک انت التواب الرحیم۔ کی تمام عمر اطاعت الٰہی میں بسر فرمائی۔ گھر بار ، مال وجان ، اولاد راہ خدا میں نثار کی اور پھر بھی جب باپ بیٹا تعمیر کعبہ میں لگے ہیں تو بجائے اپنی طاعات پر گھمنڈ کرنے کے عجزوانکسار سے دل پر ہیں اور زبان پر یہ کلمات جاری ہیں کہ اے ہمارے رب ! یعنی اے وہ ہستی جس نے ساری توفیق کمال عطا کی۔ اپنے کمال پر ناز نہیں ہے بلکہ اپنے رب یعنی کمالات کے عطا کرنے والے کی بخشش پر احساس تشکر ہویدا ہے اور عرض گزار ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ! ہماری محنت کو قبول فرمالیجئے کہ آپ بےنیاز اور ہم محتاج ہیں اور آپ تو اے اللہ ! سننے والے ہیں ہماری معروضات کو سن رہے ہیں اور جاننے والے ، جا رہے دلوں کی گہرائی آپ کے سامنے ہے اور ہماری نیتوں پر آپ آگاہ ہیں اے ہمارے رب اور منعم حقیقی ! وجعلنا مسلمین لک ہم دونوں کو ہمیشہ اپنا فرمانبردار رکھئے۔ یہ ہے شان معرفت ، کہ جس قدر معرفت نصیب ہوئی اللہ کی عظمت اور اس کے مقابلے میں اپنے اعمال کمتر نظر آتے ہیں۔ حتیٰ کہ نبی اکرم ﷺ عرض کرتے ہیں الٰہی ! ماعبدناک حق عبادتک یہ دلیل ہے معرفت باری کی چند روز ٹوٹی پھوٹی نماز ادا کرکے شکوے لے بیٹھنا کہ جی بڑی محنت کی ہے مگر ابھی تک کوئی مدارج ملے نہیں ہوئے عدم معرفت پہ دال ہے ایسے شخص نے اللہ کی عظمت کو جاناہی نہیں۔ دریں ورطہ کشتی فروشد ہزار کہ پیدا نہ شد تختہ بر کنار وھن ذرتیتنا امۃ مسلمۃ لک سبحان اللہ ! اولاد کو راہ حق میں ذبح کرنے والے خلیل اللہ کو اولاد کس قدر عزیز ہے کہ کسی موقع پر اسے بھولتے نہیں۔ دنیادار تو اولاد کا مستقبل سنوارتے ہیں مگر ان کی نگاہ سے حقیقی مستقبل اوجھل ہی رہتا ہے اور محض دنیا کی دولت کا اہتمام کرکے خودکو فارغ سمجھ لیتے ہیں۔ مگر اللہ کے بندوں کی نگاہ ہر دو عالم پہ ہوتی ہے جہاں رزق دنیا طلب فرمایا وہاں ان کے لئے آخرت کے طالب اور دین وایمان کے خواہاں بھی ہیں۔ نبوت اور مناصب ولایت اعلیٰ خاندانوں کو نصیب ہوتے ہیں : عرض کی اے اللہ ! ہماری اولاد میں سے ایک جماعت کو ضرور پورا پورا فرمانبردار بنادیجئے ! کہ بڑے لوگوں کا معاشرہ میں ایک مقام ہوتا ہے اگر ان کی اولاد سدھر جائے تو عوام کی اصلاح کا سبب بنتی ہے ورنہ لوگ ہر کس وناکس کے پیچھے چلنا گوارا میں ایک مقام ہوتا ہے اگر ان کی اولاد سدھر جائے تو عوام کی اصلاح کا سبب بنتی ہے ورنہ لوگ ہر کس وناکس کے پیچھے چلنا گوارا نہیں کرتے اسی لئے تمام انبیاء اعلیٰ خاندانوں سے ہوئے ہیں اور صاحب منصب ولی ہمیشہ اعلیٰ خاندان سے ہوتا ہے بلکہ عموماً خلفائے اربع کی نسل سے ہوتے ہیں کم از کم اقطاب اور اس سے اوپر کے مناصب انہی لوگوں میں ملتے ہیں تو گویا یہ دعا صرف اولاد کے لئے نہیں بلکہ اصلاح احوال کا ذریعہ بنانے کے لئے ہے۔ وارنا مناسکنا ، ہمیں اپنا طریق عبادت ، جو آپ کے ہاں مقبول ہو دکھا دیجئے مناسک منسک کی جمع ہے اور اعمال حج کو بھی کہا جاتا ہے ممکن ہے مراد تعمیر بیت اللہ کے بعد ارکان حج ہی ہوں کہ اللہ ! دکھا دیجئے خواہ آنکھوں سے یا دل سے مگر عموم کے ساتھ۔ یہاں بات واضح ہوجاتی ہے کہ کوئی بڑے سے بڑا زاہد اپنی طرف سے عبادت کا طریقہ ایجاد کرنے کا مجاز نہیں بلکہ عنداللہ مقبول طریقہ وہی ہوگا جو اللہ اپنے رسول کو فرمائے گا اور اس کی وساطت سے مخلوق تک پہنچائے گا۔ سو عبادت کے لئے ضروری ہے کہ اس کی اصل سنت خیرالانام ﷺ میں موجود ہو ورنہ بدعت بن جائے گی۔ بعض لوگ محض بزرگوں کی عقیدت میں بہہ جاتے ہیں اور یہ تک نہیں دیکھتے کہ اگر ان کا کوئی عمل خلاف سنت ہے تو ممکن ہے کوئی عذر شرعی ان کے پاس موجود ہو ، جیسے اگر شیخ اٹھنے کی طاقت نہیں رکھتا اور بیٹھ کر نماز پڑھتا ہے تو مریدین کو بلاعذر شرعی بیٹھ کر نہ شروع کردینی چاہیے یہ تو مثالاً عرض ہے آج کل کیا کثر غیر مشروع امور کی اصل پوچھو تو کہا جاتا ہے ہمارے حضرت کرتے تھے۔ بھئی سب حضرات کے بھی حضرت ہیں ، محمدرسول اللہ ﷺ ! وہ کیوں نہیں کرتے جو آپ ﷺ کرتے تھے۔ عرض کی کہ بارالٰہا ! ہمیں طریق عبادت تعلیم فرمادے ۔ وتب علینا ہماری عبادات کو قبول بھی فرما یعنی اس قدر زہد کے بعد بھی یہ خیال ہے کہ اللہ اپنی مہربانی سے قبول کر کہ تیری بارگاہ عالی ہے اور ہماری عبادات بہرحال ایک انسان کی کوشش سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم۔ کہ تو قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ فرمایا ، یہ ہے اسوہ ابراہیمی ! اے کبر ونخوت کے پتلو ! ذرا اپنے آپ کو جانچو ، یہ بھی تو انہوں نے عرض کیا تھا ، ربنا وابعث فیھم رسولا ھنھم…………انک انت العزیز الحکیم۔ اے ہمارے رب ! ان میں ایک رسول انہی میں سے بھیج۔ ایسا عظیم الشان اور عالی مرتبہ کہ ان پر تیری آیات پڑھے یعنی انہیں آپ سے ہم سخن کردے اور تعلیم دے ان کو کتاب و حکمت کی ، اور ان کو پاک کردے کہ تو زبردست ہے سب کرسکتا اور حکیم ہے سب سے اعلیٰ طریقے سے کرسکتا ہے۔ غرض اہل حق کی جماعت کا قیام ایک عظیم الشان رسول ﷺ کے ساتھ حضرت ابراہیم کی دعا ہے جو حدیث پاک میں ملتا ہے کہ میں اپنے باپ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت اور اپنی والدہ ماجدہ کے خواب کا مظہر ہوں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین مظہر دعائے ابراہیمی ہیں : یہاں تک تو اکثر حضرات نقل فرماتے ہیں مگر پتہ نہیں کیوں امۃ مظہر دعا ہیں وہاں آپ ﷺ کے صحابہ کبارؓ بھی مظہر دعا ابراہیمی ہیں۔ تو یہاں جس عالی مرتبت رسول کی بعثت کی دعا ہے اور جو پہلی ساری دعائوں کی طرح مقبولیت کے شرف سے سرفراز ہے اس کے مظہر یہی خاتم النبیین ﷺ ہی تو ہیں۔ اب دعا میں ان کے فرائض منصبی کا ذکر بھی ہے کہ تیری آیات ان پر پڑھے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے۔ تلاوت قرآن مجید ایک مستقل حکم ہے : تو پتہ چلا کہ تلاوت کتاب بجائے خود ایک مقصود ہے اور اس کا جاننا اور اس کے مطالب پر آگاہ ہونا ایک علیحدہ کام۔ اللہ کی کتاب عام کتابوں کی طرح نہیں ہے کہ اگر معانی کا پتہ نہ چلے تو پڑھنا ہی چھوڑ دو ، اگر صرف معانی جان کر عمل کرلینا ہی مقصد ہوتا تو خودنبی کریم ﷺ اور صحابہ کبار رضوان اللہ علیہم اجمعین بار بار نہ پڑھتے۔ جب کہ اکثر سے روزانہ ختم اور بعض سے تین دن میں ایک ختم ساری زندگی کا معمول ثابت ہے اور سات دن میں ختم پر تو سات منازل گواہ ہیں کہ یہ عمل تو اکثریت کا رہا ہے۔ آیاتک سے ثابت ہوگا کہ وہی الفاظ قرآن کہلائیں گے جو منزل من اللہ ہیں۔ کسی دوسری زبان میں ترجمہ قرآن نہ کہلائے گا کہ بغیر متن کے صرف انگریزی یا اردو میں شائع کردیا جائے۔ نیز کیا ت اللہ کی تعلیم آپ ﷺ کے فرائض منصبی میں ہے۔ قرآن کا مفہوم وہی ہوگا جو آپ ﷺ کی تعلیم سے ثابت ہو ورنہ محض عربی دانی پر نازاں ہو کر اپنی پسند سے ترجمہ کرلینا قابل قبول نہ ہوگا۔ اس طرح تو عربی جاننے میں ابوجہل کسی سے کم نہ تھا۔ خود صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں بڑے بڑے فاضل ادیب اور شاعر موجود تھے مگر سب تعلیم کتاب میں آپ ﷺ کے محتاج کہ آپ کا منصب ہے ” معلم کتاب “۔ یہاں ان لوگوں کا زعم باطل بھی دھرا رہ جاتا ہے جنہوں نے یہ دعویٰ کردیا کہ ہمیں قرآن ہی کافی ہے حدیث پاک کا تو کیا اعتبار یہ صحیح نہیں رہی اور اس میں بہت رطب ویابس بھر گیا ہے یہ کہنے والے فضلا۔ اللہ کے اس وعدے کو بھول جاتے ہیں۔ انا نحن نزلنا الذکروانالہ لحافظون۔ ہم نے قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم خود اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ یہاں اگر صرف الفاظ کی حفاظت ہی مراد لی جائے تو مفہوم الفاظ کون مقرر کرے گا جس کو جاننے میں ابوبکر وعمر فاروق اعظم ؓ تک حضور ﷺ کے محتاج ہیں۔ آج کے فضلا بازی لے گئے کہ بغیر حدیث کے معانی اخذ کرلیتے ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ الفاظ قرآن بالکل محفوظ چلے آئے جبکہ احادیث کے ارشادات اس طرح محفوظ نہ رہے کہ ظالموں نے اپنے پاس سے احادیث وضع کرکے تعلیمات نبوی کو الجھانے کی کوشش کی۔ مگر حفاظت الٰہیہ دیکھ لو۔ ایسے ایسے عظیم انسان پیدا فرمائے جن کی عمریں اسی فن کی نذر ہوگئیں اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردیا۔ اسی حفاظت میں یہ بات میں شامل ہے کہ دنیا میں اہل حق ہمیشہ رہیں گے ورنہ لوح محفوظ میں تو کتاب اللہ کو کوئی خطرہ نہیں ، حفاظت کی ضرورت تو دنیا میں ہے اور دنیا میں انسان بستے ہیں۔ سو انسانوں میں الفاظ معانی کتاب اللہ کے درست الفاظ اور نبی پاک ﷺ کی صحیح تعلیم باقی رہے گی تب حفاظت کہی جاسکے گی تو اس کے لئے ضرور اس کے حامل انسان بھی ہوں گے اور اسی سب کے ساتھ ویزکیھم اور پاک کرے ان کو ، ان کا تزکیہ کردے۔ ان میں کوئی ایسی بات نہ رہے جو اللہ کو پسند نہ ہو ان کے دل منور اور سینے روشن کردے جو فیضان صحبت ہے کہ جو بھی آپ ﷺ کے قریب ہوا۔ یعنی ایمان کی نگاہ سے آپ ﷺ کو دیکھا مرتبہ صحابیت پر فائز ہوگیا اور یہ وہ منصب عالی ہے کہ ملا جن کو مل گیا۔ آپ ﷺ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد ولایت تو نصیب ہوسکتی ہے مگر صحابیت نہیں یعنی تزکیہ کا وہ مقام جو براہ راست فیض نبوی ﷺ سے حاصل ہوا ممکن نہ رہا۔ اگر فیض منقطع نہ ہوا۔ مگر بالواسطہ ہوگیا کہ صحابی کی صحبت نے تابعی پیدا کئے اور انہوں نے تبع تابعین اور پھر دل سے دل روشن ہوتا چلا گیا اور سلاسل ولایت قائم ہوئے جو ہمیشہ قائم رہیں گے کہ لحافظون کی حفاظت الٰہیہ میں بالواسطہ شریک ہیں یہ تزکیہ باطن ہی تھا کہ جس نے مشرکوں سے موحد ، بت پرستوں سے بت شکن ، ڈاکوئوں سے غازی ، ظالموں سے ایثار پیشہ ، راہزنوں سے راہبر اور جاہلوں سے فاضل پیدا کئے جن جیسے لوگ نہ چشم فلک نے ان سے پہلے پائے نہ بعد میں پانے کی امید رکھتی ہے۔ اب یہاں چند چیزیں حاصل ہوئیں کہ ، - 1 تعلیم قرآن کے لئے تعلیم حدیث ضروری۔ - 2 اور عمل بالقرآن والحدی کے لئے تزکیہ لازم۔ - 3 اور یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ ہر دور میں اصلاح کے لئے نہ بغیر نبی کے محض تعلیم آئی اور نہ بغیر تعلیمات کے محض نبی دونوں چیزیں جہاں میسر آئیں وہاں تزکیہ نصیب ہوا۔ تزکیہ کے لئے کتاب اور معلم دونوں کی ضرورت ہے : اور تزکیہ کے صدقے عمل کی راہیں کھل گئیں بعض لوگوں نے محض پڑھنے پڑھانے کو دین جانا اور کاملین کی صحبت کی ضرورت محسوس نہ کی تو علم دین بھی ان کو دنیا کمانے کا ہی ذریعہ نظر آیا۔ اور بعض نے کتاب اللہ کی پرواہ نہ کی اور محض علماء ومشائخ کے پیچھے آنکھیں بند کرکے دوڑ لگا دی ، جو یہود ونصاریٰ کی مشابہت ہے اتخذواحبارھم ورھبانھم بابامن دون اللہ ، یہ دونوں راستے درست نہ تھے مقصد کو وہی لوگ پاسکے جنہوں نے ماہر علماء اور تربیت یافتہ کامل مشائخ کی صحبت اختیار کی اور دونوں چیزوں کو ان کی اپنی اصل جگہ پر رکھا اور ان کی اہمیت کو سمجھا۔ یہاں یہ بھی واضح ہوا کہ تزکیہ اس باطنی طہارت کا نام ہے جو اطاعت رسول ﷺ کا جذبہ پیدا کرے اگر کسی مجلس میں شعبدہ بازی حاصل ہوجائے اور احکام دین ہاتھ سے چلے جائیں تو یہ رہزن ہوگا۔ راہبر نہیں ذرا راہبر وہی ہے جو مومن کو رسول اللہ ﷺ کے دامن شفقت میں پہنچا دے جو خالص عقائد اور سنت کے مطابق اعمال تعلیم کرے جو دل سے انانکال کر عظمت الٰہی کو جاگزیں کرے۔ جو نگاہ میں وسعت دے کہ دونوں جہانوں کو دیکھ رہی ہو۔ جو یہ قابلیت عطا کرے کہ انسان بستا دنیا میں ہو اور تعمیر آخرت کی کررہا ہو۔ حصول ولایت کے لئے خاندان شرط نہیں : ولایت کے لئے کوئی خاص قوم یا صنف مخصوص نہیں بلکہ ہر مومن کو چاہیے حاصل کرے جب صحابی جس کی جوتی کی گرد ولی نہیں پاسکتے بننے کے لئے کوئی مرد ہونا یا عورت ہونا ، عالم ہونا یا نہ ہونا کسی قوم یا خاندان کا ہونا شرط نہیں تو ولایت کے لئے کیوں ہوگا۔ جب وہاں ولی خلوص اور عملی اطاعت ہی شرط ہے تو یہاں بھی یہی ہوگی۔ غرض حصول تزکیہ باطن کے لئے کاملین کی صحبت تلاش کرکے اس سے استفادہ کرنا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے مگر شرائط مندرجہ بالا کے ساتھ۔ یہ جو بات چل نکلی ہے کہ چند مخصوص افراد تو ولایت خاصہ حاصل کرسکتے ہیں سب مسلمان نہیں یہ بھی درست نہیں بلکہ ہر انسان میں قدرتی ملکہ موجود ہوتا ہے۔ اگر کافر بھی ایمان لے آئے اور کامل کی صحبت اختیار کرے تو اللہ تعالیٰ کے فضل کو پاسکتا ہے اور ولایت خاصہ حاصل کرسکتا ہے۔ جب ہم علمائے متقدمین کی سوانچ پڑھتے ہیں یہ یہی بات ملتی ہے کہ فلاں جگہ سے تعلیم مکمل کی اور پھر شیخ کی تلاش میں فلاں حضرت کے پاس پہنچے اور استفادہ کیا مگر آج یہ حال ہے کہ چند ابتدائی رسالے پڑھے ، فاضل بن بیٹھے اور لگے تصوف و سلوک کی تردید کرنے ببیں تفاوت راہ از کسجاست تابہ سمجھا۔ دوسری طرف ایک طبقہ نے علم دین پر عمل تک غیر ضروری قرار دے دیا۔ صرف پگڑی باندھی اور کسی گدی پر براجان ہوگئے۔ عمر عزیز مرغ لڑانے میں بسر کی اور لاکھوں افراد کی قسمت سے کھیل گئے۔ اللہ کی پناہ ! یہ سب حال ارشاد فرما کر واضح فرمادیا کہ دین ابراہیمی اور اسوہ ابراہیمی کیا ہے انہوں نے کس طرح سچے جانشینوں کے لئے دعا کی۔ اس کا مظہر رسول کامل اور جماعت حقہ کون ہے اور تم محض دعویٰ کرنے والے کیا کر رہے ہو اور کہاں تک درست ہو اور حضرت خلیل اللہ نے جن مقاصد کی تکمیل کے لئے دعا فرمائی ان کے لئے کون مبعوث ہوا۔ کس طرح ان کی تکمیل فرمارہا ہے اور وہ جماعت حقہ ، کون ہے جو صحرائوں سے اٹھی اور اکناف عالم میں ان برکات کو عام کردیا۔ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ و اصحابہ اجمعین۔
Top