Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Asrar-ut-Tanzil - Al-Baqara : 130
وَ مَنْ یَّرْغَبُ عَنْ مِّلَّةِ اِبْرٰهٖمَ اِلَّا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهٗ١ؕ وَ لَقَدِ اصْطَفَیْنٰهُ فِی الدُّنْیَا١ۚ وَ اِنَّهٗ فِی الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَ
وَمَنْ
: اور کون
يَرْغَبُ
: منہ موڑے
عَنْ مِلَّةِ
: دین سے
اِبْرَاهِيمَ
: ابراہیم
اِلَّا مَنْ
: سوائے اس کے
سَفِهَ
: بیوقوف بنایا
نَفْسَهُ
: اپنے آپ کو
وَ لَقَدِ
: اور بیشک
اصْطَفَيْنَاهُ
: ہم نے اس کو چن لیا
فِي الدُّنْيَا
: دنیا میں
وَاِنَّهُ
: اور بیشک
فِي الْآخِرَةِ
: آخرت میں
لَمِنَ
: سے
الصَّالِحِينَ
: نیکو کار
اور ابراہیم (علیہ السلام) کے دین سے کون روگردانی کرسکتا ہے سوائے اس کے جو بہت نادان ہو اور یقینا ہم نے ان کو دنیا میں بھی پسند کیا اور آخرت میں بھی وہ یقینا صالحین میں شمار ہوں گے
آیات 130- 141 اسرارو معارف حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) کا اسوہ حسنہ ، آپ کا مذہب ، آپ کے عقائد اور اعمال انسانیت کی معراج ہیں۔ ان سے پھرنے والا شخص وہی ہوسکتا ہے جو انسانی قدروں سے بالکل ہی واقفیت نہ رکھتا ہو اور انتہائی درجے کا احمق ہو۔ ورنہ جسے فطرت سلیمہ نصیب ہوگی وہ ان کمالات کو اپنانے کی کوشش کرے گا۔ ابراہیم (علیہ السلام) ایسی مبارک ہستی ہیں کہ ہم سرفراز فرما کر اپنے لئے چن لیا اور آخرت میں بھی وہ اللہ کے مقرب ومقبول بندوں میں سے ہیں تو ایک ایسا کردار ، جو دو عالم میں سر بلندی و سرفرازی عطا کرے اور قرب الٰہی کا سبب اور وسیلہ بنے اسے کوئی ہو ش مند انسان تو چھوڑنے سے رہا بلکہ جس قدر دانا تر ہوگا اسی قدر اسے زیادہ عزیز رکھے گا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا حال دیکھو۔ اذقال لہ ربہ اسلم قال اسلمت لرب العلمین جب اس کے پروردگار نے فرمایا کہ راہ تسلیم یعنی کلی اطاعت کی راہ اپنائو تو انہوں نے عرض کی کہ میں نے رب العلمین کی اطاعت اختیار کی۔ یعنی اس درجہ حق اطاعت ادا فرمایا کہ یہ تک عرض نہ کیا کہ اللہ ! تیری اطاعت اختیار کررہا ہوں بلکہ اللہ کی شان ربوبیت کو پیش نظر رکھا اور عرض کی کہ پروردگار عالم یعنی سارے جہانوں کو ہر طرح کی نعمتیں عطا کرنے والے کی اطاعت اختیار کی۔ اس میں نہ صرف اللہ کی تسبیح وتعریف بیان کی بلکہ خود توفیق اطاعت بھی اسی کی طرف منسوب کردی کہ مجھے تیری اطاعت کی توفیق ارزاں ہوئی بھی تیرا ہی احسان ہے۔ کمال معرفت : کمال معرفت تو یہ ہے کہ اپنے کمالات کو بھی احسانباری جانے ۔ اگر اپنی کسی خوبی کو اپنا کمال سمجھتا ہے ، تو ہنوز اس گلی سے بیگانہ ہے اور لذت معرفت سے ناآشنا۔ یہ کلام جہلاء کا ہے کہ چند سجدے اگر کر ہی گزریں تو اپنے آپ کو اعلیٰ مناصب کا حقدار خیال کرتے ہیں اور ٹھنڈی سانس لے کر کہتے ہیں اجی ! ہم نے بس محنت کرنے میں حد ہی کردی ۔ بھئی ! یہ سجدوں کی توفیق بھی کسی کی عطا ہے۔ معیار کمال کشف و کرامات ہی نہیں بلکہ اصل کمال یہ ہے کہ انسان کس قدر تسلیم ورضا کا جذبہ پاسکا۔ اس میں جس قدر ترقی نصیب ہوئی اتنا ہی شکر زیادہ ادا کرے اور استقامت کی دعا کرتا رہے ، اگر یہ حاصل نہیں اور محض چند خوابوں اور اس قبیل کی دوسری باتوں کو کمال سمجھ رہا ہے تو درست نہیں۔ مومن اور کافر : ہاں کشف بھی کرامت ہے اگر اطاعت کے ساتھ نصیب ہوا لا فلا کہ کشف عالم بالا یا عالم غیب کا۔ جس میں برزخ ، آخرت ، آسمانوں سے بالا کی دنیا شامل ہے ، کافر کو نصیب نہیں۔ لاتفتح لھم ابواب السمائ۔ لیکن دنیا میں ایک جگہ بیٹھ کر دوسری جگہ کی خبر کردینا ، انسان کو دیکھ کر اس کی گزشتہ زندگی کے واقعات بتادینا یا آئندہ کے بارے میں اندازہ لگانا یا اس طرح کی باتیں جو ہیں اس کے لئے تو ایمان بھی شرط نہیں کافر بھی حاصل کرسکتا ہے اور جہلا میں عموماً اسی قبیل کی باتیں مشہور بھی ہوتی ہیں اور وہ اسی کو کشف کہتے ہیں۔ اصل کمال حصول جذبہ تسلیم ہے کہ صدق دل سے اللہ کی مکمل اطاعت کا جذبہ پیدا ہو یہی کمال ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ، تمام انبیاء اور صلحا کا اسی کی ان سے تحصیل بھی مطلوب ہے یہ ان کے نزدیک کس قدر قیمتی سرمایہ ہے۔ وہ یوں دیکھ لو ! ووصی بھا………………وانتم مسلمون۔ کہ ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے بعد خود حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اولاد کی وصیت فرمائی تھی۔ دم واپسیں بچوں کو بلا کر تاکید کی تھی۔ یہ وہ وقت ہے جب سب سے قیمتی متاع اگر کوئی پاس ہو تو اس کے بارے اولاد کو سمجھاتے ہیں۔ تو ان حضرات کے نزدیک سب سے اعلیٰ دولت ہی دین وایمان ، اسلام اور جذبہ تسلیم ورضا تھا کہ اولاد کو وصیت فرمائی ، اے بیٹو ! یہ دین برحق اللہ نے تمہارے لئے چن لیا ہے اور پسند فرمالیا ہے۔ اب اس کا حق یوں ادا کرنا کہ موت بھی آئے تو اسلام اور ایمان پر آئے ، زمین ٹل جائے ، آسمان پھٹ جائے ، زمانہ زیروبر ہوجائے مگر خبردار ! دین برحق کا دامن ہاتھ سے نہ جائے اور اللہ کی اطاعت سے قدم باہر نہ نکلے۔ یہاں تم ہو کہ دعویٰ ابراہیمی ہونے کا اور اطاعت الٰہی کے مقابلے میں اپنی خواہشات کی تکمیل عزیز رکھتے ہو ، اور ضحرت یعقوب (علیہ السلام) جن کے نام نامی سے اس دور کے علماء منسوب ہیں اور بنی اسرائیلی کہلاتے ہیں ، ذرا ان کا حال بھی سنو ، ام کنتم شھدائ……………لہ مسلمون۔ کیا تم پاس تھے ؟ یعنی تم تو پاس نہ تھے اگر تم موجود ہوتے تو جان سکتے چلو ، ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ جب یعقوب (علیہ السلام) کا وقت آخر آیا اور سفر آخرت کی تیاری ہوتی تو بیٹوں کو جمع فرمایا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے تو اسلام پر قائم رہنے کی تاکید ہی فرمائی تھی۔ انہوں نے استفہامی انداز اپنایا اور بیٹوں سے پوچھا ماتعبدون ھن بعدی کہ وہاں ان کے بیٹے تو اسماعیل واسحاق (علیہم السلام) نبی تھے۔ مگر یہاں صرف حضرت یوسف (علیہ السلام) نبی تھے۔ باقی سارے تو نہ تھے تو انہوں نے اس سے زیادہ تاکید رنگ اپنایا اور بیٹوں پر سوال کیا کہ ہم تو جاتے ہیں مگر یہ کہو کہ میرے بعد تمہارا معبود کون ہوگا ؟ اور تم کس کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوگئے ؟ تو انہوں نے عرض کیا اباجان ! ہم اسی کی عبادت کریں گے جو آپ کا بھی معبود ہے اور آپ کے اباواجداد کا بھی ، ابراہیم واسحق و اسماعیل (علیہم السلام) کا بھی اور برحق معبود ہے اور وحدہ لاشریک بھی ہے وہ ازل سے مستحق عبادت ہے اور ہمیشہ کے لئے اسی کی شان قائم ہے اور ہم بھی اسی کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں اور اسی کے فرمانبردار ہیں۔ دراصل اسلام ہی دین حق ہے اور ہمیشہ سے جب سے یہ انسان دنیا پہ آیا ہے یہی دین حق رہا ہے اگرچہ مختلف ادوار میں بیشک نام مختلف ہوں ، دین موسوی یا عیسوی کہا جائے یا یہودی یا نصرانی۔ ایک ہی حقیقت کے مختلف نام ہیں کہ توحید باری آخرت ، حشر ونشر ، جنت دوزخ ، فرشے وغیرہا۔ جملہ اخبار اور عقائد ایک ہی ہیں جو تمام انبیاء (علیہم السلام) نے تعلیم فرمائے۔ ادیان میں اگر تفاوت ہے تو عبادات میں ہے اوقات عبادات یا طریق عبادات میں ہے معبودایک ہی ہے اور یہ فرق بھی کمال اطاعت ہی کو ظاہر کرتا ہے کہ جب اور جو حکم ملا اس کی تعمیل کی اور حق اطاعت اسلام میں نبی آخر الزماں ﷺ دے رہے ہیں۔ جو تمہارے حلق سے نہیں اترتی اور تمہارا خیال ہے کہ تمہیں صرف اسرائیلی یا ابراہیمی ہونے کا دعویٰ ان کے اعمال خیر میں حصہ دار بنادے گا۔ ایسا ہرگز نہیں ! بلکہ تلک امۃ قد خلت…………عما کانوا یعملون۔ یہ ایک جماعت تھی ، ایک طبقہ تھا ، مقدس بزرگوں کا گروہ تھا۔ اس چند روزہ چمن کی زینت بناء اسے رونق بخشی اور دارالبقاء کو سدھارا تو جو کچھ انہوں نے کیا وہ ان کے لئے ہے ان کی بھلائیاں اور ان کے مجاہدے ان ہی کے لئے باعث اجر اور باعث رضا ہیں۔ تمہیں تو وہ ملے گا جو تم کمائو گے کیونکہ ان کے بارے تم جوابدہ بھی ہیں ہو۔ یعنی اگر بزرگوں کی جگہ کسی کا جواب دینا پڑے تو کیا کہے گا یقینا کہے گا اللہ ! میں اس وقت پیدا بھی نہ ہوا تھا۔ اگر میرے بزرگوں نے کوئی غلطی کی ہے تو مجھے اس کی سزا ہرگز نہ دے۔ جب یہاں یہ کلیہ جانتے ہو تو وہاں بھی یہی بات ہوگی کہ جن بزرگوں نے نیکیاں کی ہیں ان کا بدلہ بھی کرنے والے ہی پائیں گے۔ ہاں ! تم ان کا اتباع کرو ، خوب محنت کرو ، عقائد و اعمال میں ان کی اطاعت کرو تو بات بنے گی ورنہ نہیں۔ نہ صرف خود کو بلکہ ان کے اسوہ حسنہ کو اپناتے ہوئے اپنی اولاد تک کو دین پر لگائو اور اپنے اہل و عیال میں جذبہ تسلیم پیدا کرو۔ وقالوا کونوا ھودا………………ماکان من المشرکین اب ان کا دعویٰ ہے کہ دین حق یہودیت یا نصرانیت ہے اور دونوں اپنے اپنے حق پر ہونے کے مدعی ہیں اگرچہ یہودی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا اور نصرانی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا انکار کرتے ہیں مگر اپنی اپنی جگہ نہ صرف یہ دونوں بلکہ مشرکین بھی خود کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا پیروبتاتے ہیں۔ یہ ان کی شان امامت ہے کہ مشرک باوجود مبتلائے شرک ہونے کے ان کا احترام بجا لاتے ہیں اور یہود ونصاریٰ خود کو ملت ابراہیمی کہنے میں فخر محسوس کرتے تھے تو ان سے فرمائیے کہ جو ہستی تمہارا مرکزی نکتہ ہونے کی حیثیت رکھتی ہے اور جس کے پیرو ہونے کے سب مدعی ہو وہ تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہیں البتہ ان کی روش پر اتحاد ہوسکتا ہے مگر وہ تو ہرگز مشرک نہ تھے بلکہ کلیتہً راہ راست پرچلنے والے تھے۔ بعض لوگوں نے دعویٰ تو نیکوں اور سلف صالحین کی محبت کا کررکھا ہوتا ہے مگر عقائد و اعمال اپنی طرف سے وضع کرلئے ہوتے ہیں۔ یہاں شہادت یہ ملتی ہے کہ ان کو بزرگوں سے کوئی نسبت نہیں اگر واقعی نسبت پیدا کرنا چاہتے ہیں تو عقائد و اعمال میں ان کا اتباع اختیار کریں۔ اگر یہ بات اللہ مسلمانوں کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے تو بیشمار اختلافات ختم ہوسکتے ہیں اہل حق کو مناسب نہیں کہ باطل کی طرف جھکیں بلکہ حق یہ ہے کہ اس طرف کے لوگوں کو حق کی طرف بلایا جائے۔ قولوامنا باللہ………………ونحن لہ مسلمون۔ ان سے کہیے کہ نہ صرف رسول اللہ ﷺ بلکہ سب مسلمان جملہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جو سب مخاطب وحی تھے اور جب یہ آیات نازل ہوئیں تو وہی لوگ موجود تھے کہ ہم تو اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اس کو معبود حقیقی اور وحدہ لاشریک جانتے ہیں اور جب اسے حاکم مطلق تسلیم کرتے ہیں تو پھر اس کے نازل کردہ کلام سے مجال سرتابی نہیں جو اس کی طرف سے نازل ہوتا ہے تسلیم کرتے ہیں نہ صرف اب بلکہ جب بھی اور جس پر بھی نازل ہوا ان تمام انبیاء (علیہ السلام) کو اللہ کی کتابوں سمیت برحق تسلیم کرتے ہیں۔ خواہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہوں یا اسماعیل (علیہ السلام) ، حضرت اسحاق (علیہ السلام) ہوں یا یعقوب (علیہ السلام) یا ان کی اولاد میں مختلف انبیائے کرام یا موسیٰ (علیہ السلام) ہوں یا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہم تو سب کی نبوت کو حق مانتے ہیں اور کسی میں تفریق نہیں کرتے کیونکہ ہم تو اللہ کے سامنے سر تسلیم خم کرچکے۔ اب اس کے کسی نبی سے مجال سرتابی نہیں نہ ان کے حکم کے خلاف ہوسکتا ہے اور فان امنوا بمثل ما امنتم بہ فقد اھتدوا اگر یہ ایمان لے آئیں تمہاری طرح ، تو ہدایت پاگئے اور اگر یہ معیار پورا نہ کرسکیں تو پھر ضد پر یہ لوگ ہیں اگرچہ تعداد میں یہ زیادہ یا اسباب دنیا میں یہ مضبوط بھی ہوں پھر ان کی ضرورت نہیں۔ آپ کی طرف سے اللہ تعالیٰ نے ان سے نپٹ لے گا کہ وہ تو سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔ صحابہ کا ایمان معیاری ایمان : یہاں ایمان صحابہ ؓ کو معیار ایمان وحق پرستی قرار دیا ہے اور اگرچہ اس وقت کے مخاطب تو مقامی لوگ تھے مگر قرآن اور اس کی تعلیمات ہمیشہ کے لئے ہیں تو ہمیشہ کے لئے معیار حق بھی حضرات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ہی ہوں گے اور ان کے خلاف کرنے والا محض ہٹ دھرمی کی وجہ سے حق کو چھوڑنے والا ہوگا اللہ کا علم کامل ہے وہ خود خالق ہے اس نے ان کو وہ معیار صداقت وحق پرستی ودیعت فرمایا اور انہیں ہمیشہ کے لئے حق کی کسوٹی قرار دیا اور انہیں رفاقت امام الانبیاء ﷺ کے لئے پسند فرمایا۔ اب اگر خدانخواستہ کسی کو ان سے اس قدر اختلاف ہے کہ وہ خود کو مسلمان جانتا ہے اور ان کو معاذ اللہ کافر۔ تو یہ کفر اس کی طرف لوٹے گا کہ وہ حقیقتاً پر ہیں۔ سو ایسا شخص کافر ہوگا یا کوئی عادل نہیں سمجھتا انہیں ، تو ظالم وہ خود ہوگا وہ عادل ہیں وعلی ہذا۔ چونکہ اللہ نے ان کے ایمان کو معیار قرار دیا ہے اور ابھی ابھی اہل کتاب پر یہ اعتراض گزرا ہے کہ تم مدعی تو حق پرستی کے ہو لیکن تمہارے کردار سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔ تو معاذ اللہ ، اگر صحابہ ؓ کا کردار معیار نہ ہوتا تو اللہ کریم انہیں بھی معیار حق نہ گردانتا۔ اس لئے ایسا سوچنا درست نہیں ” یہ تو عقیدہ عقیدہ کی بات ہے “۔ اس سے تعامل صحابہ ؓ کا عدل کیسے ثابت ہوا بھئی۔ ذرا بمثل ما امنتم بہ پر پھر غور کرو ، کیا ایمان بغیر عمل کے اللہ کے ہاں معیاری ایمان ہوسکتا ہے ہرگز نہیں ، اور پھر ان کی مخالفت پہ یہ وعید کہ فسکفیکھم اللہ یعنی اے اللہ کے نبی ! آپ کی طرف سے اللہ ان لوگوں سے سمجھ لے گا جو آپ ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جیسے یا ان کی طرح آپ ﷺ کے خادم نہیں بن سکتے۔ حضرت عثمان ذی النورین معدن الحیاء والایمان ؓ پہ جب ظالموں نے پہلاوار کیا تو چونکہ آپ ؓ تلاوت فرما رہے تھے خون اسی لفظ مبارک پر گرا اور ا س مظلوم شہید کے بعد برسوں خون کی ندیاں بہتی رہیں اور ایک وبال عظیم آیا ، کہ محتاط اندازے کے مطابق ستر ہزار افراد بعد کے برسوں میں قتل ہوئے۔ سو یہ بات واضح ہے کہ جتنا کسی صحابہ سے اختلاف ہوگا اسی قدر وہ غضب الٰہی کی زد میں ہوگا۔ اعاذنا اللہ ھنھا ان سے کہئے کہ ، صبغۃ اللہ ومن احسن من اللہ صبغۃ ونحن لہ عابدون۔ محض کپڑے رنگنے سے مذہب نہیں بنتا جیسے نصاریٰ پیدا ہونے والے بچے کو رنگدار پانی میں ڈبو کر سمجھ لیتے کہ اب نصرانی ہوگیا۔ یہ بات درست نہیں بلکہ رنگ تو اللہ کا ہے جو عقائد نظریات اور اعمال وکردار سے جھلک رہا ہو۔ انسان کی زندگی سے ہویدا ہو۔ جیسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیوں سے تھا کہ انہیں کو حکم ہورہا ہے کہ ان سے کہو ہمارے شب وروز دیکھو ، ہماری صلح اور جنگ کو دیکھو ، ہمارے کاروبار اور سیاست کو دیکھو ، تمہیں ہر جگہ ہر حال میں اللہ کا رنگ نظر آئے گا جس سے بہتر کوئی رنگ ہو نہیں سکتا اور ہم تو اس کے دست بستہ خادم ہیں ہمارا مقصد حیات اس کی عبادت اور ہر گام پر اس کی اطاعت ہے۔ یہاں تمام فرق باطلہ کی تردید ان چندمبارک الفاظ میں کردی گئی ، جیسے کسی نے ذات وصفات باری میں یا انبیاء (علیہ السلام) کی شان میں یاملائ کہ کے وجود میں کسی طرح کی کمی بیشی کی مردود ہوگا کہ وہ دور رسالت اور عہد رسالت میں مفقود ہے۔ نہ انبیاء کو خدا کی صفات میں شریک کرے نہ ان کی عظمت شان میں فرق آئے۔ اسی طرح کسی نے ظلی یا بروزی نبی کا اعتقاد صحابہ میں موجود نہیں تو ایسا اعتقاد مردود ہوگا یا حشرونشر میں کھینچ تان کرکے حشر اجساد کی بجائے حشر روحانی اور عذاب وثواب روحانی یا میزان اعمال وغیرہ میں باطل تاویلیں کرکے یہ سمجھنا کہ دین کی خدمت کی ہے ، درست نہیں ، بلکہ آخرت کے تمام حالات و واقعات جس طرح قرآن وسنت میں موجود ہیں ان پر بغیر تاویلات کے ایمان لانا ہی صحابہ کی موافقت اور مقبولیت کی دلیل ہے۔ قل اتحاجوننا فی اللہ…………ونحن لہ مخلصون۔ بلکہ ایسا کرنے والوں سے فرمادیجئے کہ تم اللہ کے معاملے میں ہم سے کٹ حجتی کرتے ہو ، جو ہمارا پروردگار ہے جس کی ربوبیت کے ہم قائل ہیں اور جس کے احکام سے سرتابی ہماری مجال نہیں۔ مگر کھاتے تو تم بھی اسی کا ہو ، رب تو تمہارا بھی وہی ہے۔ یاد رکھو ہمارے اعمال ہمارے لئے ہیں اور تم اپنے کئے کا پھل پائو گے جبکہ ہم سارے کام خلوص دل سے اس کی رضا کے لئے کرتے ہیں اور تم محض دنیا میں اپنا بھرم رکھنے کے لئے حجت بازی کر رہے ہو ۔ اور یہ تم کہتے ہو کہ ، ام تقولون ان ابراھیم……………وما اللہ بغافل عما تعملون۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور اسماعیل واسحاق اور یعقوب (علیہم السلام) اور ان کی اولاد تو یہودی یا نصرانی تھے تمہارا علم زیادہ معتبر یا اللہ خوب جانتا ہے جس نے بذریعہ وحی ان کا ملت اسلامیہ پہ ہونا ثابت کردیا ہے اور تم تو وہ ظالم ہو جنہوں نے اللہ کی اس شہادت کو جو تمہارے پاس ہے چھپا رکھا ہے کہ خود نبی کریم ﷺ کے متعلق ، آپ ﷺ کا زمانہ مبارکہ ، آپ ﷺ کا حلیہ مبارک آپ ﷺ کی تعلیمات اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے صاف اور واضح دلائل تمہاری کتابوں میں موجود ہیں۔ جن کو تم خود محض دنیا کے لالچ میں نہ صرف قبول کرنے سے اعتراض کرتے ہو بلکہ دوسروں تک پہنچنے سے بھی روکتے اور لوگوں سے چھپاتے ہو تو جب اللہ کے اس عظیم رسول ﷺ سے جو تمہارے سامنے تشریف رکھتے ہیں تمہارا یہ سلوک ہے تو جو حضرات تشریف لے جاچکے ان کے بارے غلط بیانی کرنے سے کب چوک سکتے ہو ، مگر یاد رکھو ! اللہ تمہارے کرتوتوں سے باخبر ہے۔ تلک امۃ قد خلت…………ولا تسئلون عما کانوا یعملون۔ یہ ان مقدس بزرگوں کی ایک جماعت تھی جو گزر چکی۔ اپنا فریضہ بجا لا کر تشریف لے جاچکے ان کی اچھائی ان کے لئے ہے تمہیں تو وہی ملے گا جو تم کرو گے کہ ان کاموں کی تم سے پوچھ بھی تو نہ ہوگی۔ ان کی طرف سے تم جوابدہ بھی تو نہیں ہو۔ پھر ان کی اچھائیوں کے وارث کہاں سے ٹپک پڑے۔ ہاں ! ان کا عقیدہ اور عمل اپنائو اور اس پر ثابت قدم رہو۔ ورنہ محض دعویٰ ان کے محبت کا ، اور تکمیل خواہشات نفس کی۔ یہ چالاکی اللہ کے ہاں نہ چل سکے گی۔
Top