Asrar-ut-Tanzil - Al-Baqara : 142
سَیَقُوْلُ السُّفَهَآءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلّٰىهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِیْ كَانُوْا عَلَیْهَا١ؕ قُلْ لِّلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَ الْمَغْرِبُ١ؕ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ
سَيَقُوْلُ : اب کہیں گے السُّفَهَآءُ : بیوقوف مِنَ : سے النَّاسِ : لوگ مَا : کس وَلَّاهُمْ : انہیں (مسلمانوں کو) پھیر دیا عَنْ : سے قِبْلَتِهِمُ : ان کا قبلہ الَّتِيْ : وہ جس کَانُوْا : وہ تھے عَلَيْهَا : اس پر قُلْ : آپ کہہ دیں لِلّٰہِ : اللہ کے لئے الْمَشْرِقُ : مشرق وَالْمَغْرِبُ : اور مغرب يَهْدِیْ : وہ ہدایت دیتا ہے مَنْ : جس کو يَّشَآءُ : چاہتا ہے إِلٰى : طرف صِرَاطٍ : راستہ مُّسْتَقِيمٍ : سیدھا
جلد ہی احمق لوگ کہیں گے کہ یہ (مسلمان) جس قبلہ پر (چلے آرہے) تھے اس سے ان کو کس چیز نے بدل دیا ؟ کہیے مشرق ومغرب (سب) اللہ کے لئے ہے وہ جسے چاہیں سیدھی راہ دکھا دیتے ہیں
آیات 142- 147 اسرارو معارف کچھ بیت اللہ شریف کے بارے میں : یوں تو یہودونصاریٰ ہر طرح سے لاجواب ہوگئے مگر ان کے یہ اعتراضات کہ برحق نبی کو سمت قبلہ تبدیل کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ کس چیز نے مسلمانوں کو اس بات پر مجبور کیا اور کیا پہلا قبلہ درست نہ تھا ؟ اگر ایسا ہے تو پہلی نمازیں کیا ہوئیں یا جو لوگ اس تبدیلی سے پہلے فوت ہوگئے ان کا کیا ہوگا ؟ یہ سوال کج فہموں کے ذہنوں سے چپک گئے۔ کج فہم اس لئے کہا گیا ہے کہ اگر طبیعت میں راستی اور فہم میں درستی ہو تو لا یعنی باتیں اور فضول بحثیں طبعاً ناپسندیدہ ہوجاتی ہیں اور ذہن درست باتوں کو قبول کرتا ہے کہ راستی کا یہی خاصہ ہے۔ یہاں اللہ کریم نے ان تمام لوگوں کی اس غلط سوچ کا جواب ارشاد فرمایا ہے اسی لئے ارشاد ہوا کہ السفہا من الناس کہ بیوقوف لوگ اس بات کو بہت اہمیت دیں گے کہ جی ! تبدیلی قبلہ کوئی معمولی بات تو نہیں یہ کیسے ہوگئی ؟ بات ذرا قبلہ کے بارے ہوجائے تو مناسب رہے گا۔ جب حضرت آدم (علیہ السلام) زمین پر اتارے گئے تو انہوں نے بحکم الٰہی کعبۃ اللہ تعمیر فرمایا جسے قبلہ اول یعنی وہ مرکز جس کی طرف رخ کرکے نماز ادا کی جائے ، مقرر کیا گیا۔ ان اول بیت وضع للناس۔ اس مقام کو اس نسبت سے کہ یہ قبلہ ہے تجلیات ذاتی کا شرف نصیب ہوا اور معنوی لحاظ سے واقعی کائنات کا مرکز بنا۔ اگرچہ دنیوی اور جغرافیائی لحاظ سے بھی یہ مقام مرکزی ہے حضرت نوح (علیہ السلام) کے عہد تک یہ درست حالت میں رہا مگر طوفان نوح نے جب روئے زمین کو اپنی لپیٹ میں لیا تو کعبہ بھی ختم ہوگیا۔ لیکن صرف گارا مٹی اکھڑ گیا۔ باطنی اور روحانی مرکزیت یا تجلیات باری جو اس کے ساتھ مختص تھیں وہ طوفان سے متاثر تو نہ ہو سکتی تھیں اس لئے اس کی دوبارہ تعمیر حضرات ابراہیم (علیہ السلام) کے ہاتھوں ہوئی۔ اس وقت تک یہ ایک چھوٹی سی پہاڑی تھی جو ارد گرد کے بلند وبالا پہاڑوں کے درمیان موجود تھی پھر بیت المقدس تعمیر ہوا اور اسے سمت عبادت یا قبلہ ہونے کا شرف حال ہوا کہ اکثر نبی اس علاقے میں مبعوث ہوئے نیز ان کی نبوت عالمگیر تو تھی نہیں ، خاص اقوام اور خاص علاقوں کے لئے تھی جن کو ایک دور دراز اور لق ودق صحرا میں کھڑے سیاہ فام پہاڑوں کے درمیان گھری ہوئی جگہ کی طرف متوجہ کرنا شاید ان لوگوں کو مصیبت میں ڈال دیتا۔ اللہ کریم نے ان پر آسانی فرمائی اور بیت المقدس کو قبلہ قرار دیا جس کو وہ جانتے تھے جہاں ان کی رسائی آسانی سے ہوسکتی تھی اور وہاں عبادت کرسکتے تھے۔ انبیاء بنی اسرائیل کا قبلہ یہی رہا۔ ابتدائے اسلام میں بھی جب تک بیت اللہ شریف کو دوبارہ قبلہ بنانے کا حکم نازل نہ ہوا۔ نمازیں اسی طرف منہ کر کے ادا کی جاتی رہیں۔ آپ بیت اللہ سے بہت انس رکھتے تھے : مگر نبی اکرم ﷺ کی طبیعت مبارکہ کعبۃ اللہ کی طرف مائل تھی۔ مزاج مبارک میں شدید تقاضا پیدا ہوتا تھا جس کی وجہ یہ لکھی جاتی ہے کہ چونکہ بناء ابراہیمی تھی۔ ممکن ہے یہ وجہ بھی ہو مگر میری ناقص رائے میں اصل وجہ اس مقام کا وہ خاص شرف ہے جو اسے حاصل ہے دنیا میں صرف دو قوموں کو یہ سعادت حاصل ہے اور یہ صرف زبانی حکم ہی نہیں کہ محض ایک مرکزی جگہ یک جہتی پیدا کرنے کے لئے مقرر ہوگئی بلکہ اس کے ساتھ اس مقرر شدہ جگہ کو خصوصی تجلیات سے نوازا گیا تو اس لحاظ سے بیت اللہ کی عظمت بیت المقدس سے بڑھی ہوئی ہے جس کی دلیل وہ حدیث مبارک ہے جس میں ارشاد ہے کہ بیت المقدس کی ایک نماز کا اجر پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے اور بیت اللہ کی ایک نماز کا اجر ایک لاکھ کے برابر۔ یہاں تک تو بات ہر ایک کے سامنے ہے اس کے ساتھ جو بات صرف خواص کے لئے ہے وہ یہ ہے کہ اگر بیت المقدس پہ نگاہ کی جائے تو عرش نہم کے آخر سے نور کا ایک دھارا شروع ہوتا ہے جو بیت المقدس سے گزرتا ہوا دوسری طرف نویں عرش کی انتہا سے جاملتا ہے اب اس کو یوں سمجھیں کہ یہ زمین یا انسانوں کی بستی ہمیشہ اوپر کو متوجہ رہتی ہے اس کے اوپر آسمان ہیں۔ جو یہاں سے چودہ ہزار سالہ راہ کی دوری پر ہیں۔ تمام سیارے اسی جو آسمانی میں ہیں۔ اور آسمان سب کو محیط۔ آسمان سات ہیں ، اور پھر ان کے اوپر عرش ہے جہاں سے عرش الٰہی شروع ہوتا ہے اور جس مقام کو اصطلاح صوفیہ میں مقام احدیت کہا جاتا ہے۔ وہ آسمان اول سے چھتیس ہزار سالہ راہ ہے یعنی زمین سے پچاس ہزار سالہ راہ۔ یہ روح کی ذاتی رفتار کی نسبت سے ہے جو روشنی کی رفتار سے لاکھوں گنا زیادہ ہوتی ہے لیکن اگر اسے توجہ نصیب ہوجائے تو پھر ہزاروں سال ایک لمحے میں سما جاتے ہیں۔ جس طرح آسمان ساری دنیا پہ محیط ہے اسی طرح عرش آسمانوں کو محیط ہے اور مرکززمین سمیت عرش تک جو کچھ ہے یہ عرش کے سامنے ایسے ہے جیسے کسی صحرا میں ایک انگوٹھی ڈال دی جائے یہ وسعت پہلے عرش کی ہے جبکہ دوسرا عرش اپنی وسعت میں پہلے عرش سمیت ساری کائنات سے اسی طرح وسیع ہے تاآنکہ نو عرش ہیں اور نواں عرش آٹھ عرشوں سمیت ساری مخلوق کو اپنی گود میں اسی طرح لئے ہوئے ہے جیسے صحرا کسی انگشتری کو۔ ان فاصلوں کو جاننا انسان کے بس کی بات نہیں اللہ کسی کو اس قدر وسیع نگاہ دے دے تو قادر ہے اور اس کی عطا سے ممکن ورنہ ساری ساری عمریں محنت پہ صرف کرکے منازل عرش تک پہنچنا ہر ایک کو نصیب نہ ہوا ، اور بہت کم صاحب حال عرش میں قدم رکھ سکے۔ پھر نو عرش تو بہت بڑی مسافت کا نام ہے ۔ نویں عرش کی چھت عالم خلق کی انتہا ہے اس کے آگے عالم امر ہے مخلوق کا وہاں گزر نہیں۔ سوائے اس کے جو متعلق ہی عالم امر سے ہو کوئی وہاں پر نہیں مارسکتا یہ صرف روح ہے جو اسی عالم سے ہے اور جس کو وہاں جاکر ہی چین نصیب ہوتا ہے۔ اہل اللہ کے مقامات : اس لحاظ سے دیکھا جائے تو عالم امر میں پہنچنے والا مرد خدا بمشکل گھر پہنچ پایا۔ اصلی ترقی اس سے آگے ہے اور یہاں حال یہ ہے کہ عالم امر میں پہنچنا ہی بہت کم نصیب ہے۔ اگر کوئی چاہے ، تو متحدہ ہندوستان کے اولیائے کرام کو گن لے بمشکل آٹھ دس حضرات کی رسائی امر میں ہے جیسے شہباز قلندر ، بوعلی قلندر ، خواجہ معین الدین اجمیری ، حضرت علی ہجویری المعروف داتا صاحب رحمہم اللہ تعالیٰ ، حضرت علی ہجویری جو شاہی قلعہ لاہور کے نیچے دفن ہیں غالباً تعمیر قلعہ کے وقت قبر مبارک نیچے آگئی جو اس وقت معدوم ہوچکی ہوگی۔ پھیرہ ضلع سرگودھا میں ایک ایسی ہستی زمانہ قدیم سے دفن ہے جو کفار کے ہاتھوں شہید ہو کر کنویں میں پھینکے گئے اب ان کی قبر پر آبادی ہے۔ ریاست دیر میں ایک ہستی دفن ہے۔ ایک سید نذیر علی شاہ ہیں جو آزاد کشمیر میں دفن ہیں اور شیخ عبدالقادر گیلانی (رح) کے خلافء میں سے ہیں۔ اس سرزمین پر سب سے بلند منازل انہی کی ہیں یا کوئی اور بھی ہو جس تک میری کمزور نگاہ نہ پہنچ پائی ہو۔ بہرحال گنتی کے افراد عالم امر میں قدم رکھ سکے۔ باقی تمام اہل اللہ اسی کی طرف رواں رہے۔ یہاں خدانخواستہ کسی کی شان کو کم کرکے دکھا نہیں بلکہ عالم امر کی بلندی کا اظہار ہے۔ ورنہ میں خود کو تمام اہل اللہ کی خاک پا سے کمتر جانتا ہوں۔ غرض جہاں سے عالم امر شروع ہوتا ہے وہاں سے انوارات باری اور تجلیات ذاتی بیت المقدس کی طرف متوجہ ہو کر اس میں سے گزرتے ہوئے دوسری طرف عالم امر سے جاملتے ہیں۔ اب اس سے آگے چلیں تو عالم امر کے دوائر ہوتے ہیں جو تقرب ، توکل ، صبر ، تسلیم ، خلہ ، محبت ، مجیت ، محبوبیت وغیرہ ذالک کے ناموں سے موسوم ہیں۔ ان میں پہلا دائرہ یعنی مقام تقرب نوعرشوں اور ساری مخلوق کے مقابلے میں اس قدر وسیع ہے جیسے صحرا انگوٹھی کے مقابل اور دوسرا پہلے دائرے سمیت سب سے اس قدر بڑا۔ غرض ہر اوپر والا دائرہ اسی نسبت سے وسیع تر ہوتا چلا گیا ہے ۔ انیسواں دائرہ حقیقت کعبہ کا ہے اور وہاں سے ذاتی تجلیات ایک نوری ستون کی شکل میں بیت اللہ پر وارد ہو کر دوسری طرف عرشوں سے گزرتی عالم امر کے دوائر کو طے کرتی ہوئی دائرہ حقیقت کعبہ سے جاملتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیت اللہ تمام انبیاء کی محبوب وترین جگہ رہا ہے جن کا قبلہ بیت المقدس تھا۔ ان کو بھی بیت اللہ سے محبت اپنی جگہ پر تھی اور بیت المقدس کی تعظیم اپنی جگہ یہی وجہ ہے کہ اکثر انبیاء جن کی قومیں تباہ ہوئیں ہجرت کرکے یہاں آگئے اور اس بےآبادصحرائی پہاڑی کے طواف کرتے رہے جہاں کعبہ کی بنیادیں تھیں۔ یہیں فوت ہوئے اور زمانے کی ہوائوں نے گرد اڑا اڑا کر ان نورانی پیکروں کو دفن کرنے کا اہتمام کیا۔ اگر دیکھا جئاے تو صرف مطاف کے نیچے تقریباً ننانوے نبی دفن ہیں جو اسی طرح آئے واصل بحق ہوئے اور ہوا نے ان پر مٹی ڈال دی جو قدرتی عمل تھا رفتہ رفتہ دفن ہوتے رہے میری ناقص رائے میں حضور اکرم ﷺ کی کعبۃ اللہ سے محبت کی زیادتی کا بڑا سبب یہی تھا۔ یہاں یہ بھی سمجھ لیا جائے کہ جہاں تصویر یا بت ہو وہاں شیطان کا ٹھکانہ ہوتا ہے اور رحمت متوجہ نہیں ہوتی بلکہ ایک طرح کی نحوست ہوتی ہے اور جس مکان میں تین سو ساٹھ بت رکھے ہوں اور پھر ان کی پوجا بھی کی جاتی ہو انہیں حاجت روا اور معبود سمجھا جاتا ہو۔ ان کے آگے سجدے کئے جاتے ہوں۔ ان پر نیازیں چڑھائی جائیں تو اس جگہ پر کیا حال ہوگا۔ مگر سب کے باوجود حضور ﷺ کی چالیس سالہ قبل بعثت کی زندگی اور تیرہ سالہ بعثت کے بعد کی مکی زندگی تقریباً وہیں گزری کہ عبادت بھی وہیں فرماتے اور اکثر دن کا آرام بھی بیت اللہ کے سائے میں ہی کرتے تو کیا ان بتوں کی وجہ سے آپ ﷺ کو کراہت نہ ہوتی تھی۔ اس کا جواب صاف ہے کہ تجلیات باری وہاں اس طرح متوجہ ہیں کہ جیسے سمندر موجزن ہو۔ وہاں چند تنکے پھینک دینے سے نہ ذائقہ متاثر ہوتا ہے نہ رنگ۔ اور یہی حال اب بھی ہے کہ گو بتوں سے خالی ہے مگر بدکاروں سے تو پر ہے۔ اکثر لوگ حج کے نام پر پکنک مناتے ہیں مگر کیا مجال کہ اس کی روشنی میں فرق آئے۔ یہ بات دوسری ہے کہ وہاں سے بدی کو مٹانا ضروری ہے کہ اللہ کے گھر میں اللہ کی نافرمانی نہ ہو مگر کوئی فعل اس کی نورانیت میں فرق نہیں لاسکتا۔ یہ سب باتیں تو شاید کم لوگوں کے لئے لکھی گئیں مگر اتنا تو ہر آدمی جان سکتا ہے کہ وہاں داخل ہونے والے ہر مسلمان کو ایک خاص حضوری حاصل ہوتی ہے اور وہ دنیا اور مخلوق سے بےپرواہ ہو کر اللہ سے گفتگو کررہا ہوتا ہے عام آدمی سے لے کر بادشاہ تک رو رہے ہوتے ہیں دھاڑیں مار مار کر اپنی کوتاہیوں کی معاف مانگ رہے ہوتے ہیں اور ذرا خیال نہیں کرتے کہ کوئی کیا کہے گا۔ بھئی ! کون کس کو کہے گا سب کا حال یہی ہوتا ہے۔ تو اطاعت الٰہی میں حضور ﷺ اور آپ کے جان نثار نماز تو بیت المقدس کی طرف منہ کرکے پڑھتے مگر آپ ﷺ کے دل میں یہ آرزو تھی کہ اللہ ہمارا قبلہ بیت اللہ شریف کو مقرر فرمادے ۔ سو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ شرف بخشا۔ مگر بعد ہجرت مدینہ منورہ میں بھی تقریباً سولہ مہینے گزرنے کے بعد۔ اب نااہلوں کو طعنے کی سوجھی۔ انہیں ان باتوں سے کیا مس اور اس حال کی کیا خبر۔ سو اللہ نے ان کو جواب یوں ارشاد فرمایا کہ استقبال قبلہ سے خود مقام قبلہ کو سجدہ کرنا مقصود نہیں بلکہ ایک سمت اور مرکز ہے۔ معبود تو اللہ ہے اور ہم کو اسی کی اطاعت کرنا ہے جدھر اس نے حکم دیا ادھر رخ کرلیا کہ تمام سمتیں اسی کے لئے ہیں اور وہ ہر جا موجود ہر آن موجود ہے یہ تو اس کی عنایت ہے کہ بندوں کو ایک مرکز بخش کر تشتت وافتراق سے بھی محفوظ فرمایا۔ اخوت اسلامی کا ظہور بھی۔ یک جہتی اور یک رنگی بھی نصیب ہوئی اور اس مرکز کے فیوضات روحانی وباطنی بھی جو اصل مقصود ہیں حاصل ہوئے تو وہ کسی جگہ کی ذات خوبی نہیں بلکہ اللہ کی مرضی جسے چاہے بخش دے اور جس قوم کو جو قبلہ پسند فرمائے عطا کرے وہ سمتوں کا پابند نہیں۔ اس کی ذات اس سے بالاتر ہے۔ یہ بات تو سادہ سی ہے مگر راہ ہدایت ہے نیکی کی بات ہے اور سیدھی بات اسی کو سمجھ آتی ہے جسے اللہ توفیق ہدایت دے اگر وہ فہم سلیم ہی عطا نہ کرے تو سیدھی بات بھی ٹیڑھی نظر آتی ہے یہاں کوئی یہ نہ سوچ لے کہ ہدایت تو اللہ نے عطافرمانی ہے اب میرے بس میں کچھ نہیں۔ ہدایت باری کا مدار ” انابت الی اللہ “ ہے : اللہ نے اس کا بھی فیصلہ فرمادیا ہے کہ یھدی الیہ من ینیب ، یعنی جس کے دل میں اللہ کی طلب یا ہدایت کی خواہش پیدا ہو۔ اللہ اسے ہدایت دیتا ہے اگر کوئی چاہے ہی نہیں تو زبردستی ٹھونسنا ربوبیت کی شان نہیں کہ ہدایت عطا فرمانا بھی تو اس کی ربوبیت کا خاصہ ہے ۔ سو جہاں طلب ہوگی وہاں بفضل اللہ ہدایت بھی ضروری ہوگی اور جو دل طلب اور انابت ہی سے خالی ہوں گے وہاں ہدایت کا وجود بھی عنقا۔ وکذالک جعلنکم امۃ وسطا……………شھیدا۔ اور اے جماعت مومنین ! ہم نے تو تمہیں ایک معتدل امت بنایا ہے یعنی ان کو صرف تحویل قبلہ کا اعتراض سوجھا اور بڑی لے دے کرتے ہیں کہ معاذ اللہ مسلمانوں کا نبی دین کے معاملہ میں حیران ہوگیا یا مشرکین کا قول کہ اب مسلمان ہمارے قبلے کی طرف پلٹے۔ آہستہ آہستہ ہمارا دین بھی قبول کرلیں گے یا یہود کا الزام کہ مسلمانوں نے حسد کی وجہ سے قبلہ تبدیل کرلیا ہے مگر ان کی نگاہ نارسا اور باتوں کو نہ جان سکی ، حالانکہ تمام امور میں یہ امت اعتدال پر رکھی گئی ہے کہ ایمانیات تو ہمیشہ سے ایک ہی تھے۔ اور ایک ہی رہیں گے۔ توحید باری ، حیات بعدالموت ، حشرونشر ، جنت و دوزخ یا فرشتے اور جن۔ یہ سب حقائق اور انبیاء کی نبوت پر ایمان تو ہر دیندار قوم میں رہا مگر رضائے باری کے حصول کے طریقے ہر امت کے اپنے تھے۔ کفار نے تو ایمانیات میں بھی کبھی خدا کے بیٹے اور بیٹیاں تجویز کیں تو دوسروں نے اسے دیوتائوں کا محتاج بنادیا۔ کسی نے اس کو بتوں میں ڈھونڈنا چاہا تو دوسروں نے انسانوں میں اس کا حلول مان لیا۔ لیکن اس امت نے ان تمام افراط وتفریط کی راہوں سے جدا راہ صداقت کو واضح کیا کہ اللہ کی عظمت اور ذات وصفات میں اس کی وحدانیت کو تسلیم کیا۔ انبیاء کا مقام پہچانا صحابہ اور اولیاء اللہ کو ان کے مقام پر تسلیم کیا۔ نہ یہ کہ ان کی عظمت کا انکار کیا اور نہ ان کو بڑھا کر خدائی میں حصہ دار بنایا جیسا کہ پہلے سے گمراہ فرقے کرتے چلے آرہے تھے کہ انکار دیکھو تو انبیاء کو قتل کرتے تھے اور اقرار پر آئے تو بندوں کو خدا مان لیتے۔ امت وسط : اس امت نے اعتدال کی راہ اپنائی اور صاف ستھرے عقائد اہل عالم کے سامنے رکھے۔ عبادات میں اہل باطل کو کہنا ہی کیا ہے کہ ایک انسان کی پوجا کرتے اور دوسروں کے بچے ذبح کردیتے تھے یا ہندوستان کو لیں تو ایک طرف عورت کو خاوند کی نعش کے ساتھ جلا دینا عبادت اور دوسری طرف جانور کو ذبح کرنا ظلم کہ یہ گاؤ ہتیا ہے یاکیڑوں کو بچانے کے لئے پائوں تلے گدیاں باندھ لینا۔ اسی طرح مذاہب عالم میں بھی عبادات کے لئے رہبانیت اور تنہائی کی زندگی اور جنگلوں میں چلے جانا یا پھر عبادات چھوڑ کر محض ایسے لوگوں کی زیارت ہی پر بیٹھ رہنا۔ مگر اسلام نے عبادات میں بھی راہ وسط اپنائی کہ علی الصبح اللہ کے سامنے سجدہ ریز۔ پھر اپنے کاروبار اور امور دنیاداری پر لگ گئے۔ دوپہر کو کاموں میں سستانے کی چھٹی ملی تو ظہر کی نماز ادا کی۔ یعنی اللہ کی بارگاہ کی حاضری نصیب ہوگئی۔ جب چھٹی جب چھٹی کا وقت آیا۔ کام بند ہوئے تو عصر کی حاضری۔ دن چھپا تو اختتام روز پر سجدہ نصیب اور رات سونے کو چلے تو عشاء پڑھ کر اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوکر۔ یعنی امور دنیا بھی پوری طرح انجام پاتے رہے اور مسلسل بارگاہ الٰہی میں حاضری بھی ہوتی رہی۔ اسی طرح اعلیٰ سے اعلیٰ مدارج کے حصول کے لئے کبھی رہبانیت کی ضرورت پیش نہ آئی کہ صحابہ جو امت میں سب سے افضل تھے تمام کام انجام دیتے تھے اور اولیاء اللہ کی صف میں اعلیٰ مقامات کے حامل سب لوگ عام انسانی زندگی گزارتے تھے۔ امام ابوحنیفہ (رح) جیسے لوگ تجارت کرتے اور امام احمد (رح) جیسے حضرات اپنی کھیتی بوتے تھے۔ شیخ عبدالقادر گیلانی (رح) جیسے صوفیا کے سرتاج درآمد برآمد کا کاروبار کرتے رہے اور حضرت عبید اللہ احرار (رح) جیسے حضرات زمینداری کرتے تھے کہ آپ کے ایک سو ہل زمین میں چلتے تھے حالانکہ مشائخ سلسلہ میں تھے اور نسبت اویسیہ کے بہت بڑے امین تھے۔ مگر بہت اعلیٰ زندگی گزارتے تھے۔ چو فقر اندر عبائے شاہی آمد زتدبیر عبید الٰہی آمد پھر یہود ونصاریٰ یا ہنود کی طرح یا مشرکین عرب کی طرح کوئی طبقہ کسی خاص عبادت یا منصب کے لئے مخصوص نہیں ہر مردوزن بلا تفریق رنگ ونسل تمام کمالات حاصل کرسکتا ہے اسی طرح معاشیات میں نہ تو بھوکا مرنے کی تلقین کہ بس جنگلی پھل کھا کر بسر کرو اور نہ یہ حال کہ محض دنیا پر فریفتہ ہوجائو۔ دولت کمانے کی اجازت مگر دوسروں کے حقوق کی حفاظت کے ساتھ کہ قیصر وکسریٰ کے خزانے بھی ہاتھ آئے۔ اور شان فقر بھی قائم رہی اور دین پر اور سنت خیرالانام ﷺ پر کٹ مرنے کا جذبہ بھی بدرجہ اتم موجود ۔ نہ دولت مند کو لوٹنے کی اجازت نہ اس کو دولت چھپانے کا حکم۔ بلکہ ایک خاص حصہ اس کے مال میں غرباء و مساکین کا رکھا گیا۔ کہ نہ اس پر بار ہو اور نہ غریب خالی ہاتھ رہے۔ حکومت وسلطنت کے ساتھ زہدوتقویٰ کی آمیزش اسی امت کی خصوصیات میں سے ہے۔ اسی طرح ازدواجی تعلقات میں کہیں بالکل شادی نہ کرنا افضل تصور ہوتا تھا تو کہیں دس دس بلکہ سو سو عورتیں ایک آدمی کی بیویاں نظر آتی تھیں۔ اسلام نے اس میں اعتدال پیدا فرمایا کہ نہ صرف ہندوئوں کی طرح ایک بار ہی شادی پر پابند کردیا اور نہ ہی کثرت ازدواج کو غیر محدود رکھا بلکہ عدل کی شرط کے ساتھ چار تک اجازت بخشی۔ جو ایک صحتمند انسان کو اس کی فطرت کے مطابق سہولت بھی مہیا کرتی ہے اور عورتوں کے حقوق بھی ادا کرنے کا پابند بناتی ہے کہ اگر انسان ایک بیوی پر بسر نہیں کرسکتا تو بجائے بدکاری میں ملوث ہونے کی شادی کرلے مگر بیویوں کے حقوق کی حفاظت کا خیال بھی رہے۔ اسی طرح امور سیاست و حکومت بھی ہوں اور عبادت وزہد بھی۔ میدان جنگ میں دشمن کے حقوق کا بھی خیال رہے غرض عقائد ہوں یا عبادت ، معاشرت ہو یا معاملات ، حکومت وسیاست ہو یا فقیری ، تمام امور کو اس حسین طریقے میں پرودیا ہے کہ ایک خوبصورت ہار بنادیا ہے جو انسانیت کے گلے کی زینت ہے۔ یہ اعتراض کرنے والے بیوقوف صرف تحویل قبلہ پر شور مچا رہے ہیں ان کا کیا ہے یہ تمام باتیں جو انہیں اپنے سے مختلف نظر آتی ہیں یہ امت مرحومہ پر اللہ کے احسانات ہیں اور اس امت کو امت وسط یا عدل بنایا ہے۔ یہاں سے محققین نے اجماع کا حجت ہونا ثابت فرمایا ہے کہ بحیثیت امت یہ امت عدل ہے کبھی ساری امت خلاف عدل پر متفق نہیں ہوسکتی۔ نیز یہی عدل ہے جو تمہیں روزحشر تمام امتوں پر گواہ بنائے گا کہ جب قیامت قائم ہوگی اور دوزخ سامنے تو کفار چلا اٹھیں گے کہ ہمیں اس غضب کی خبر نہ تھی ورنہ ایسے مظالم ہرگز نہ کرتے۔ تو اللہ کریم پوچھیں گے کہ تمہارے پاس انبیاء کرام تشریف نہ لائے تو وہ کہہ دیں گے آئے تھے مگر یہ بات ہم کو نہ بتائی ورنہ ہم کیا اتنے بیوقوف تھے۔ مادی غلبہ کے اثرات انسانی حیات پر : یہ بھی عجیب بات ہے کہ انسان دنیا میں کیسا بھی ہو ، برزخ میں جھوٹ نہیں بولتا ہمیشہ سچی بات کرتا ہے مگر میدان حشر میں کافر جان بوجھ کر جھوٹ بولے گا۔ شاید برزخ میں فرشتوں کے سوال و جواب کے بعد جو سلوک ہونا ہے وہ وارد ہوجاتا ہے تو جھوٹ بول کر کیا کرے گا۔ اور میدان حشر میں ابھی دوزخ کا داخلہ باقی ہے مگر دوزخ سامنے ہو تو کوشش کرے گا کہ شاید کسی طرح چھوٹ جائے۔ دنیا میں جسم مکلف بالذات اور روح تابع ہے سو جھوٹ بول لیتا ہے برزخ میں روح مکلف بالذات اور جسم اس کے تابع سو روح غلط بیانی نہیں کرتا کہ فطرتاً پاک ہے میدان حشر میں جسم اور روح برابر مکلف ہوں گے سو مادی آلودگی کا اثر ہے کہ جھوٹ بولے گا اللہ کریم جانتا خوب ہے مگر اتمام حجت فرمائے گا کہ انبیاء پر سوال ہوگا تو وہ عرض کریں گے بارالیٰ ! یہ غلط کہتے ہیں ۔ ہم نے تیرے احکام پہنچادیئے بیشک امت محمدیہ ﷺ سے پوچھ لیں کہ یہ امت عدل ہے۔ تو یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ شہادت کے لئے عدل شرط ہے۔ غیر عادل کی شہادت معتبر نہیں۔ یہ امت پیش ہو کر انبیاء کی طرف سے گواہی دے گی کہ اللہ ! تیرے رسول نے ہمیں تیری کتاب دی۔ اور یہ سب احوال ارشاد فرمائے۔ حضرت محمد ﷺ تم پر گواہ ہوں گے۔ وہ عرض کریں گے کہ اللہ بیشک یہ لوگ میری مان کر چلنے والے اور تیری کتاب کو ماننے والے ہیں۔ تب فیصلہ انبیاء کے حق میں ہوگا۔ یہاں یہ بھی جان لینا ضروری ہے کہ جسے نبی پاک ﷺ کی شہادت نصیب نہ ہوئی وہ آگے کہاں جائے گا اور آپ ﷺ کی شہادت سے خلاف سنت زندگی بسر کرنے والے محروم ہوجائیں گے کہ عقائد و اعمال پر آپ ﷺ کی منظوری کی مہر شرط ہے جیسے کھرے سکے پر حکومت کی مہر ضروری ہے۔ جن لوگوں نے اسلام سے منہ موڑا اور عملی زندگی ترک کی اور فساد عقیدہ میں مبتلا ہوئے ان سے خود حضور ﷺ بیزار ہوں گے کہ عرض کریں گے (رب ان قومی اتخذ واھذا القرآن مھجورا) کہ اللہ ! ان لوگوں کو میری امت کی صفوں سے نکال دے کہ انہوں نے اپنی زندگی سے قرآن کو خارج کردیا تھا۔ تب عظمت رسالت کا اندازہ ہوگا اور یہ کہ اطاعت کس قدر ضروری ہے۔ اور یہ بات کہ پہلے قبلہ بیت المقدس کو کیوں بنایا ؟ یہ تو محض ان لوگوں کو سرمیدان لانے کے لئے تھا جو حقیقتاً آپ ﷺ کا اتباع نہیں کرتے بلکہ جہاں رواج کو سنت کے مطابق پایا سنت کا ثواب کمالیا۔ اور جب سنت اور رواج میں تصادم ہو تو سنت کو چھوڑ دیا۔ اللہ تو خوب جانتا ہے مگر لوگوں کے سامنے بھی ان کے دعوائے اطاعت کا پول کھل گیا۔ کہ رسوم تو ہر قوم کو عزیز رہی ہیں۔ رسومات اور سنت : پھر جن رسومات میں مذہبی تقدس بھی شامل ہوجائے وہ اور بھی مضبوط ہوجاتی ہیں۔ انہی میں ایک بات بیت المقدس کا قبلہ ہونا بھی تھا۔ جو مذہب حقہ تھا خدا کا حکم تھا۔ خود نبی اکرم ﷺ بھی اسی طرف سجدہ ریز رہے اور آپ ﷺ کا بھی قبلہ رہا۔ مگر جب ہادی برحق ﷺ کعبہ کو پھرے تو پھر آپ ﷺ کو عمل سب سے بڑی دلیل بن گیا کہ اب حق کعبہ کو قبلہ بنانے میں ہے جن لوگوں کا ایمان اس درجہ میں تھا وہ ساتھ پھرگئے اور جو سابقہ روایات کو نہ چھوڑ سکے آپ ﷺ کی غلامی سے خارج ہوگئے اور مرتد ہوئے اور ان کی حالت بھی ظاہر ہوگئی اور یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ رواج تو محض رواج ہوتا ہے سابقہ ادیان بھی آپ ﷺ کی ادائوں پر قربان ہوئے۔ مگر یہ نامراد رسومات اس قدر دلوں میں دھنس چکی ہوتی ہیں کہ انہیں چھوڑنا بہت مشکل وانھا لکبیرۃ یہ بہت بڑی بات ہے لوگ چھوڑ نہیں پاتے بلکہ بدعات کی تردید کرنے والا ان کے فتو وں کی زد میں ہوتا ہے جیسے ہمارے ملک میں رواج ہے کہ سنت کی تلقین کرنے والے کو وہابی کہہ دو جو عوام کے نزدیک بہت بڑے جرم کی نشانی ہے اور حد ہے کہ نہ کسی ڈاکو کو وہابی کہیں گے ، نہ زانی کو ، نہ شرابی کو اور نہ جوا کھیلنے والے کو ، یہ سب سنی رہ سکتے ہیں مگر سنت کی تلقین کرنے والا اس فتوے سے بچ کر کہاں جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کو رواج عزیز ہیں اور سنت سے وہ محبت نہیں جو رواج چھڑا سکے۔ مثلاً ہمارے علاقہ میں خلف جنازہ پنجابی کے شعر جن میں کلمہ طیبہ بھی شامل ہے بلند آواز سے پڑھتے ہیں۔ حالانکہ سنت یہ ہے کہ جنازہ کے ساتھ دل میں کچھ پڑھتا ہوا چلے اب ظاہر ہے پنجابی تو حضور ﷺ کی زبان نہ تھی اور عربی میں بلند آواز سے خلف جنازہ کچھ ثابت نہیں تو یہ ایک رواج ہے جس کو اگر ضروری جانو تو بدعت بن جائے گا۔ مگر حال یہ ہے کہ منع کرنے والے کو وہابی کا خطاب ملے گا خود چھوڑیں گے نہیں یہی چال بیاہ شادیوں میں تو کثرت سے ہے جس قوم نے میت کو سنت کے مطابق دفن کرنے کا اہتمام نہ کیا۔ شادی پر کچھ نہ کرے گی۔ مگر یہ بدنصیب صرف محبت رسول ﷺ کے دعویدار ہیں ورنہ ان کے اعمال جن میں آپ ﷺ کی اطاعت کا رنگ نام کو نہیں ان کو قلعی کھول رہے ہیں۔ ان بدعات سے جان چھڑانا آسان نہیں۔ صرف ایک صورت ہے کہ اللہ کریم ہدایت بخش دے جس کی راہیں وہ کشادہ کر دے اس کو کوئی روک نہیں سکتا۔ نیز جیسا کہ پہلے لکھا جاچکا ہے ہدایت کا مدار انابت پر ہے جو اگر یہاں ہوت تو سنت کیوں چھوٹتی اور اللہ ایسا نہیں کہ تم سنت خیرالانام ﷺ اپنائو اور وہ تمہیں اس کے اجر سے محروم رکھے۔ اور وہ تمہارے ایمان کو ضائع کرنے والا نہیں۔ یہاں اعمال ہی کو ایمان کا نام بخشا ہے اور صرف ان اعمال کو جن کو گواہی حضور ﷺ دیں گے کہ اس کا یہ فعل میری اطاعت ہے اس میں خواہ کسی نے بیت اللہ کے مقرر ہونے سے بیشتر اس جہاں سے کوچ کیا تو کیا ہوا آخر اطاعت تو محمد رسول اللہ ﷺ کی کرتا تھا جس کا اجر اللہ کے پاس ہے جو ضائع ہونے والی دولت نہیں بلکہ اللہ تو لوگوں پر بہت شفیق اور نہایت مہربان ہے وہ تو اجر کئی گنا بڑھا کردے گا۔ اصل بات اللہ اور رسول ﷺ کی اطاعت ہے جس پر وہ لوگ کاربند تھے اور یہی آخرت کا صلی سکہ یہ کبھی ضائع نہیں ہوتا۔ قدنری تقلب وجہک فی السمائ……………وما اللہ بغافل عمایعلمون۔ ہم تو آپ ﷺ کے شوق کی شدت کو دیکھ رہے ہیں کہ بار بار رخ انور آسمان کی طرف متوجہ ہوتا ہے کہ شاید فرشتہ تحویل کعبہ کا حکم لے کر آرہا ہو۔ آپ ﷺ کو بیت اللہ سے ایک گونہ الفت تھی کہ روئے زمین پر اس جیسا دوسرا مقام نہیں ، اور جو تجلی ذاتی یہاں جلوہ ریز ہے وہ عرش کو بھی نصیب نہیں بلکہ اس سے بہت بالاتر کی بات ہے جس کی طرف گزشتہ سطور میں اشارہ ہوچکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جن انبیاء کا قبلہ بیت المقدس رہا ، عظمت کعبہ ان کے قلوب میں بھی موجزن رہی۔ دعا کی اہمیت : یہاں ایک بات اور بھی ظاہر ہے کہ امت مرحومہ کا قبلہ تو بیت اللہ ہی کو بنانا منظور تھا مگر اس کا سبب آپ ﷺ کی دعاء کو بنادیا ، جیسے حضور ﷺ کی تشریف آوری یقینی تھی کہ کنت نبیا وادم بین الماء والطین۔ شاہد ہے مگر دعائے ابراہیم (علیہ السلام) کو بھی اسباب میں شامل فرمایا۔ ایک تو سنت رہی ہے کہ دنیا میں ہر کام کا ظہور کسی سبب کا نتیجہ ہوتا ہے اور دوسرے دعا مانگنے والے کی عظمت اس بات یا شیی یا ہستی کی عظمت کا ثبوت بنتی ہے نیز یہ بھی ظاہر ہوا کہ دعا بھی تقدیر ہے اور ازل سے مقرر شدہ اسباب میں سے ایک سبب ہے۔ آپ ﷺ کا بار بار شوق سے آسمان کی طرف متوجہ ہونا ہم ملاحظہ فرما رہے ہیں۔ تو ضرور آپ کی تمنا برآئے گی اور جس طرف آپ ﷺ راضی ہیں اسی سمت کو قبلہ بنادیا جائے گا کہ یہ بات بھی لوگوں پر عیاں ہوجائے کہ رضائے رسول ہی رضائے باری ہے اور آپ ﷺ کی اطاعت سے نکل کر اللہ کی رضا حاصل نہیں ہوسکتی۔ تصوف و سلوک بھی سنت خیرالانام ﷺ کا نام ہے جو اتباع سنت میں خلوص قلبی پیدا کرنے کے لئے کی جائے نہ کہ خلاف سنت امور کا۔ سو آپ اپنا رخ انور مسجد الحرام کی طرف پھیر لیں نیز یہ صرف آپ ﷺ کے لئے نہیں بلکہ آپ ﷺ کی پوری امت جہاں کہیں بھی ہو۔ خواہ بیت المقدس میں بھی ہوں تو رخ اسی سمت کو پھیر لیں اور نماز اسی طرف منہ کرکے ادا کریں یہاں بیت اللہ فرما کر آسانی پیدا فرما دی کہ بیت اللہ صرف ایک مکان ہے اور اس طرف رخ تو وہاں تک ہی کیا جاسکتا ہے جہاں تک وہ سامنے ہو بلا دبعید میں محال ہے اور مسجد حرام ایک وسیع جگہ ہے شہر سے کسی سمت تو پندرہ سولہ اور کسی سمت آٹھ سات میل تک حد حرم ہے جو سب مسجد حرام ہے پھر عین اس کی طرف بھی ضروری نہیں بلکہ شطر المسجہ الحرام۔ یعنی اس کی سمت کو جیسے آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ قبلہ مغربین کے درمیان ہے یعنی مدینہ منورہ کی سمت جنوب اسی طرح یہاں ہندو پاک میں مغرب سمت قبلہ ہوگی اور مغرب صیف وشتا کے درمیان 48 ڈگری سمت قبلہ ہے یعنی اگر 24 ڈگری کا فرق بھی کسی ایک طرف ہوجائے تو سمت قبلہ فوت نہ ہوگی۔ چہ جائیکہ معمولی فرق کی بنا پر مساجد کو اکھیڑ دیا جائے جیسا کہ بعض اوقات ہوتا رہا ہے۔ اللہ کریم نے اس بات میں زیادہ آسانی فرمادی ہے کہ جنگل میں ہوں یا شہر میں ، شمالی ممالک ہوں یا جنوبی مشرق کا کوئی ملک ہو یا مغرب کا اپنا رخ وقت نماز مسجد حرام کی طرف کرلو۔ رہ گئے اہل کتاب تو وہ خوب جانتے ہیں کہ یہ حکم تحویل قبلہ کا بھی حق ہے اور ربوبیت باری کا مظہر کہ روح کی زندگی کا سبب ہے ۔ نیز پہلے سے ان کی کتاب میں موجود ہے کہ نبی آخرالزماں ﷺ کا قبلہ بیت اللہ کو مقرر کیا جائے گا۔ یہ تو محض ضد وعناد ہے جس کی وجہ سے یہ مان نہیں رہے اور ان کے یہ کرتوت اللہ سے چھپے ہوئے نہیں اللہ خوب دیکھ رہا ہے اور ان سے سمجھ لے گا۔ ولئن اتیت الذی………………انک اذالمن الظلمین۔ جب حال یہ ہے کہ جانتے ہیں مگر عناداً تسلیم نہیں کرتے تو اب یہ دلائل سے قائل نہ ہوں گے۔ آپ ﷺ جس قدر دلائل دیتے رہیں یہ آپ کے قبلہ کو تسلیم نہ کریں گے مگر یہ لوگ بھی جان لیں کہ اب آپ ﷺ کا قبلہ ہمیشہ یہی رہے گا اور آپ آئندہ ان کے قبلہ کی طرف منہ کرکے نماز نہ پڑھیں گے اس طرح یہ اعتراض بھی پادر ہوا کہ مسلمان قبلہ کے معاملہ میں حیران ہیں اور خود ان کی یہ حالت ہے کہ ایک دوسرے کے قبلہ کو تسلیم نہیں کرتا یہود ایک سمت کو قبلہ بتاتے ہیں تو نصاریٰ دوسری کو۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ کفار کبھی ایک عقیدہ پر متفق نہیں پائے جاسکتے بلکہ ہر فرد کسی نہ کسی طرح دوسرے سے جداگانہ خیالات رکھتا ہے چونکہ کفر کی بنیاد محض خواہشات نفسانی کی تکمیل کو ایک مذہبی تحفظ فراہم کرنا ہوتا ہے لہٰذا ہر شخص اپنی ایک رائے قائم کرلیتا ہے یہ لوگ خود تشتت وافتراق کا شکار ہیں اور اگر اے مخاطب ! تو ان کی خواہشات اور ان کے نفسانی خیالات کو مان لے ، حالانکہ وحی الٰہی نے قطعی ہے ان کا پول کھول دیا ہے۔ تو پھر تو بھی بڑا ظالم ہے اور سخت بےانصاف کہ اللہ کا حکم چھوڑ دیا اور محض خواہشات نفس کی تکمیل کو مقصد بنالیا۔ تو پھر ان لوگوں میں جنہوں نے کتاب کو بدلا ، خود نہ بدلے اور تجھ میں ، کیا فرق ہے۔ یہاں میں سے اے مخاطب مراد لیا ہے کہ یہ خطاب ساری انسانیت کو ہے اگر حضور ﷺ کو خطاب مان لیا جائے تو بھی بطور فرض محال کے ہے دراصل سنانا امت ہی کو مقصود ہے اور آپ ﷺ کو خطاب کرنے سے اس حکم کی اہمیت کو ظاہر کرنا ہے کہ اگرچہ حضور ﷺ سے اس کا صدور کسی طرح ممکن نہیں۔ لیکن اگر آپ ﷺ بھی کر گزریں تو اس کے وبال سے بچ نہ پائیں چہ جائیکہ کوئی یہ آج کے مسلمان کے لئے لمحہ فکریہ ہے ! الذین اتینھم الکتاب………………فلا تکونن من الممترین۔ اور یہ اہل کتاب آپ ﷺ کو بہت اچھی طرح پہچانتے ہیں بلکہ ایسے پہچانتے ہیں جیسے اپنی اولاد کو۔ ان کی کتب میں آپ ﷺ کے جملہ اوصاف و کمالات اس خوبی سے بیان ہوئے ہیں کہ پہچان نہ سکنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جس طرح کوئی اپنی اولاد پر کبھی دھوکا نہیں کھاتا۔ اسی طرح انہوں نے آپ ﷺ کو پہچان رکھا ہے جس کی وجہ سے بعض کو تو دولت ایمان نصیب ہوئی مگر اکثر اظہار حق سے کنی کترا گئے اور حق کو چھپا لیا۔ کہ ان کے اپنے اقتدار کو خطرہ لاحق ہوگیا تھا۔ حصول برکات وفیوضات کی راہ میں ایک رکاوٹ : انہوں نے سمجھا کہ اگر ہم حضور ﷺ کی تصدیق کرتے ہیں تو پھر جو لوگ ہمارے پیچھے ہیں وہ ادھر چلے جائیں گے ہماری آمدن اور ذاتی وقار متاثر ہوگا چناچہ انہوں نے آپ ﷺ کا انکار کردیا اور اوصاف حمیدہ جو ان کی کتب میں تھے ان کو ظاہر نہ کیا۔ حالانکہ خوب جانتے تھے اور سمجھ رہے تھے کہ ہم غلط کر رہے ہیں۔ یہی حال آج بھی اکثریت کو حصول فیض سے روکے ہوئے ہے بعض لوگ جب کسی طرح سے مقتداء بن جاتے ہیں خواہ واقعی یا بزعم خویش تو گو وہ جانتے بھی ہوں کہ فلاں شخص صاحب کمال ہے اس سے استفادہ نہیں کرسکتے۔ کہ اگر ہم اس کے پاس گئے تو یہ وقات کی عمارت سلامت نہ رہے گی پھر اپنے فعل کے جواز کے لئے اس شخص کی تردید شروع کردیتے ہیں۔ لیکن اے مخاطب ! تو مت گھبرا کہ یہ حق تیرے رب کی طرف سے ہے۔ یہاں من ربک ، فرمایا کہ جس طرح اس کی ربوبیت نے سورج ، چاند ، ستارے ، ہوا ، بادل ، بارش ، کھیتی ، سبزہ ، جانور اور پرندے بدن کی تعمیر کے لئے پیدا فرمائے ہیں اسی طرح نزول وحی روح کی حیات کا سبب ہے یہ اس کی غذاء بھی اور دوا بھی۔ یہی اس کی زندگی ہے اور اس کے بغیر موت۔ محض ان کے پودے اعتراضات کی وجہ سے وحی الٰہی میں ادنیٰ سا شک بھی مناسب نہیں۔ یا کفر کی اکثریت اس بات کی دلیل پر نہیں کہ یہ حق پر بھی ہیں۔ بلکہ حق وہی ہے جو اللہ کی طرف سے نازل ہوا کہ وہی رب ہے اور اسی کا ارشاد حق ہے ان کے پاس بھی اگر کتب سماوی ہیں تو وہ اس وقت کے لئے تھیں جو ان کا مقرر تھا۔ جب قرآن کریم نازل ہوا تو اب ہمیشہ کے لئے ضابطہ حیات یہی ہے پہلی کتب اگر اصلی صورت میں موجود ہوں تو بھی منسوخ ہوگئیں۔ یہاں تو انہوں نے ان کو تحریف سے بھر دیا ہے۔ سو ان کی کسی طرح قابل توجہ نہیں۔
Top