Asrar-ut-Tanzil - Al-Baqara : 211
سَلْ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ كَمْ اٰتَیْنٰهُمْ مِّنْ اٰیَةٍۭ بَیِّنَةٍ١ؕ وَ مَنْ یُّبَدِّلْ نِعْمَةَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُ فَاِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ
سَلْ : پوچھو بَنِىْٓ اِسْرَآءِ يْلَ : بنی اسرائیل كَمْ : کس قدر اٰتَيْنٰھُمْ : ہم نے انہیں دیں مِّنْ : سے اٰيَةٍ : نشانیاں بَيِّنَةٍ : کھلی وَ : اور مَنْ : جو يُّبَدِّلْ : بدل ڈالے نِعْمَةَ : نعمت اللّٰهِ : اللہ مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا : جو جَآءَتْهُ : آئی اس کے پاس فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ شَدِيْدُ : سخت الْعِقَابِ : عذاب
اولاد یعقوب (علیہ السلام) سے پوچھئے کہ ہم نے انہیں کتنی واضح دلیلیں دیں اور جو کوئی اللہ کی نعمت کو اس کے پاس آنے کے بعد بدل دیتا ہے تو یقینا اللہ سخت عذاب دینے والے ہیں
آیات 211- 216 اسرارو معارف سل بنی اسرائیل………………وانتم لا تعلمون۔ آپ ﷺ بنی اسرائیل سے پوچھئے ان کی تاریخ دیکھئے کہ اللہ نے انہیں کس قدر واضح دلائل عطا فرمائے اور اللہ کے نبی ان کے پاس کتنی دلیلیں لائے جن سے ان کی اصلاح مقصود تھی مگر جب انہوں نے سرکشی کی اور ان دلائل کو پس پشت ڈالا تو ان پر کیسے کیسے عذاب نازل ہوئے اور یہ تو قاعدہ ہے کہ جب کوئی شخص اللہ کی نعمت کو ٹھکراتا ہے یعنی ایسے دائل جو اسے راہ ہدایت سمجھانے کے لئے اللہ کی طرف سے اس کے پاس پہنچے ان کی پرواہ نہیں کرتا تو اس کا یقینی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ رحمت باری سے محروم ہو کر اللہ کے غضب کا نشانہ بنتا ہے اور خدا کے عذاب بہت سخت ہیں جس طرح اس کی رحمت حدود سے بالاتر ہے اسی طرح اس کے عذابوں کی سختی بھی عقل انسانی کی دسترس سے باہر ہے اللہ ان سے بچائے ، آمین۔ جب کوئی شخص اللہ کے ارساں کردہ دلائل کی پرواہ نہیں کرتا تو خود بخود اس کی پسند کا معیار بدل جاتا ہے اور محض دنیا کی لذات پہ فریفتہ ہو کر رہ جاتا ہے پھر اس کی ساری کوشش حصول لذات تک ہی محدود ہوجاتی ہے اور اس شے کو مستحسن جاننے لگتا ہے۔ گمراہی نگاہوں کو بدل دیتی ہے اور بھلے برے کی تمیز نہیں رہتی : اور نوبت یہاں تک پہنچتی ہے کہ جو لوگ ان عارضی اور مادی لذات کو ابدی راحت اور اخروی زندگی کے لئے قربان کرتے ہیں وہ انہیں ناسمجھ جانتا ہے اور ان کا تمسخر اڑاتا ہے کہ کیسے بےعقل ہیں خواہ مخواہ اپنے آپ کو ضابطوں میں جکڑ رکھا ہے اور عیش و عشرت نہیں کرتے لیکن یہ ان کی جہالت ہے۔ یہ زندگی عارضی ہے اور اخروی زندگی دائمی۔ اگرچہ راحت یہاں بھی مومن کے لئے ہی ہے۔ کہ عین فطری زندگی بسر کرتا ہے اور کفار کی زندگی غیر فطری ضابطوں میں جکڑی ہوتی ہے۔ مگر اس قدر باریک نگاہ نہیں رکھتے۔ ان کے ہاں معیار دولت اور صرف خوبصورت مکان ، لباس یا اچھی قسم کا کھانا ہوتا ہے۔ آخرت میں یہ بھی دیکھ لیں گے کہ مومنین باعتبار رزق کے بھی ان سے بہت اعلیٰ ہوں گے کہ کفار جب چاہے جتنا چاہے کسی کو بخش دے۔ انسان اپنی آفرنیش کے اعتبار سے تو بالکل ایک ہی جماعت تھے ان کا ایک ہی عقیدہ ، نظریہ بھی تھا ، مگر جب ضروریات بڑھیں تو اختلاف اغراض نے نظریات بھی مختلف بخشے ، اپنے اپنے مزاج نے بھی رنگ دکھایا اور مختلف آراء سامنے آئیں ایک شور مچا جس میں ہر کوئی اپنی رائے کو حق ثابت کرنے پر مصر تھا۔ رحمت باری نے دستگیری فرمائی اور انبیاء (علیہ السلام) کو بھیجا کہ انہوں نے حق کو باطل سے علیحدہ علیحدہ کردیا اور جہاں اہل حق کو بشارت دی وہاں دوسرے گروہ کو اللہ کے غضب سے ڈرایا کہ باطل کی پیروی نہ کریں۔ اللہ نے انبیاء کو اپنی کتابیں دیں ان پر اپنا کلام نازل فرمایا کہ حق کے ساتھ لوگوں میں فیصلہ کریں اور اختلاف دور فرمائیں مگر کتب سماوی اور واضح احکام کے بعد بھی لوگوں نے محض ضد کی وجہ سے انبیائ (علیہ السلام) کی پیروی نہ کی اور محروم رہے مگر جن لوگوں نے سر تسلیم خم کیا۔ اللہ نے ان کی الجھنیں بھی سلجھا دیں اور اپنی رحمت سے انہیں اختلافات کی دلدل سے نکال کر سیدھی راہ نصیب فرمائی۔ وہ جسے چاہے سیدھے راستے پہ چلنے کی توفیق ارزاں کردے۔ باعتبار عقیدہ دنیا میں صرف دو قومیں ہیں : یہاں انسانوں کو ملجاظ عقیدہ ونظریہ تقسیم فرمایا ہے اور صرف دو قومیں ارشاد فرمائی ہیں کہ جب تک خیالات اور عقائد متحد تھے نوع انسانی کی قوم بھی ایک ہی تھی یہاں امہ سے مراد وحدت عقائد ہے اگر چہ لغت میں کسی بھی سبب سے ایک وحدت وجود میں آئے تو امہ کہلاتی ہے وہ وجہ ایک زمانہ یا ایک خطہ یا ملک ہی کیوں نہ ہو۔ مگر یہاں جس اختلاف کا ذکر ہے وہ ملکی یا زمانی نہیں بلکہ نظریاتی ہے۔ تو امہ سے بھی نظریاتی وحدت ہی مراد ہوگی۔ رہی یہ بات کہ کس دور میں تھی ؟ تو بعض حضرات نے اسے آدم (علیہ السلام) اور ان کی اولاد گردانا ہے بعض نے طوفان نوح کے بعد بچ رہنے والوں کے حق میں لکھا ہے۔ یہ باتیں اپنی جگہ درست ہیں مگر اسلوب بیان سے یوں ظاہر ہوتا ہے کہ نوع انسانی اپنے ساتھ اختلاف نہیں لائی بلکہ دنیا میں رہنے بسنے کے ساتھ مختلف چیزیں سامنے آئیں اور اپنی پسند کے حصول کے مختلف ذرائع اپنائے گئے اور پھر ہر شخص نے اپنی رائے ہی کو درست جانا جو ایک فطری امر تھا۔ مگر انبیاء کرام ﷺ نے آکر حق و باطل کو واضح کردیا۔ سو اس سے محروم صرف وہ لوگ رہے جو قبول حق کی استعداد ہی کھو چکے تھے اور محض ضد اور اکڑ میں اپنے آپ کو برباد کر بیٹھے۔ اس کا ایک اثر یہ بھی ہے کہ مزاج کو قوت حق کی استعداد سے عاری کردیتا ہے اور ایسے لوگ کبھی مان کر نہیں دیتے۔ اظہار حق کرنے والوں کو اس سے بددل نہ ہونا چاہیے بلکہ اپنا کام پورے خلوص سے کرتے رہنا ہی ضروری ہے کہ کہ تم تو اللہ کی رضا کے طالب ہو تو جنت کا داخلہ چاہتے ہو جو رضائے الٰہی کا مظہر ہے تو اتنی عظیم طلب کے لئے بہت بڑی قربانی بھی تو چاہیے کوئی ایسا کام بھی تو دکھائو جو تمہیں یہ انعام دلوانے کا باعث ہو ۔ کہ سنت اللہ یہی ہے کہ ہر کام کسی سبب کا نتیجہ ہوتا ہے نیز اپنے سے پہلے گزرنے والوں (مومنین) کو دیکھو۔ ان پر بھی تو کس قدر امتحان آئے کہ انہیں ہلا کر رکھ دیا۔ بعض اوقات نہ صرف مومنین بلکہ ان کے ساتھ انبیا ﷺ بھی پکار اٹھے ۔ ھتی نصر اللہ کہ اے اللہ ! تیری مدد جس کا تو نے اپنے بندوں سے وعدہ فرمایا ہے کب آئے گی۔ یعنی اے اللہ ! جلدی مدد فرما اور خوب جان لو کہ اللہ کی مدد قریب ہے۔ ثمرات کے لئے مجاہدہ ضروری ہے : یہاں سے پتہ چلتا ہے کہ مجاہدہ شرط ہے۔ یہی اللہ کا نظام ہے اور یہ ضروری نہیں کہ مجاہدہ اختیاری ہی ہو بلکہ اضطراری بھی نافع ہے سب سے بڑی بات جو مجاہدے پر مرتب ہوتی ہے وہ قرب الٰہی اور ماسوا اللہ سے بیزاری ونامیدی ہے کہ آدمی ہر طرف سے کٹ کر صرف اللہ کو پکاراٹھے اگر کوئی شخص محض شہرت یا کوئی کمال حاصل کرنے کے لئے تکلیفیں اٹھاتا ہے تو وہ مجاہدہ نہیں جس پر یہ اجر مرتب ہو بلکہ سخت گناہ ہے نیز مصیبت وابتلاء جو اللہ کے بندوں کو پیش آئے وہ محض صورتاً مصیبت ہوا کرتی ہے حقیقتاً اللہ کا انعام اور ترقی درجات کا وسیلہ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے : اشد الناس بلاء الانبیاء ثم الامثل۔ وقت مصیبت اللہ سے دعا کرنا تو کل کے منافی نہیں بلکہ خوب الحاح وزاری سے اللہ کو پکارنا ہی حاصل مجاہدہ ہے اور قرب الٰہی کی دلیل ہے۔ مجاہدہ اختیاری میں شرائط مجاہدہ کو نگاہ میں رکھنا ضروری ہے مثلاً اللہ کی رضا کے لئے مال کا خرچ کرنا ایک مجاہدہ ہے لیکن مال کا محض ضیاع مجاہدہ نہیں بلکہ پہلے تو وہ مال خیر ہو حلال اور جائز کمائی ہو۔ پھر اس میں جتنا بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہو اس کا مصرف یہ ہے کہ سب سے پہلے والدین کا حق ہے پھر قرابتداروں کا اور پھر یتیموں ، مساکین اور مسافروں کا۔ یاد رہے یہاں صدقات نافلہ کی بابت ارشاد ہورہا ہے اور ان کا بھی محل ہے یہ نہ ہو کہ والدین بھوک سے تڑپ رہے ہوں یا علاج کو ترس رہے ہو اور نامور بیٹا مہاجرین میں کھانا یا دوائیں بانٹنے کی تصاویر کھنچوارہا ہو۔ اسی طرح جو مال خرچ کیا جائے وہ اپنا بھی ہو ، یہ نہ ہو کہ قرض خواہ پریشان پھریں اور بجائے انہیں واپس کرنے کے صدقات بانٹے جا رہے ہوں یعنی مال اپنا ہو ، جائز اور حلال ہو اور پھر درست جگہ پر خرچ کیا جائے اور خالص اللہ کی رضا مقصود ہو تب بات بنے گی مقاصدکو حاصل کرنے کے لئے اور انہیں درجات کو پانے کے لئے تم پر جہاد فرض کیا گیا ہے۔ جہاد میں مجاہدہ اختیاری بھی ہے اور اضطراری بھی۔ گو بظاہر اور طبعاً تمہیں ناگوار بھی ہو ، عین ممکن ہے کہ ایک شے تمہیں بھلی معلوم نہ ہو مگر وہ تمہارے لئے بہت سود مند ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تمہیں کوئی چیز بہت پسند آئے مگر حقیقت کے اعتبار سے تمہارے لئے بہت نقصان دہ ہو کہ اشیاء کے حقائق سے واقف ہونا تمہارے بس کی بات نہیں۔ یہ تو اللہ ہی کو سزاوار ہے اور اسی کی شان علم ہے کہ وہ عواقب ونتائج سے باخبر ہے سبحان اللہ ! یہاں ایک بات سمجھنے کی ہے کہ اللہ کی طرف سے جو کچھ آتا ہے مومن کے لئے ہمیشہ انعام ہی ہوتا ہے اور اس میں اس کی بھلائی ہوتی ہے۔ خواہ صورتاً کس قدر شدید اور سخت بھی ہو۔ کافر کو جو کچھ ملتا ہے وہ حقیقت کے اعتبار سے عذاب ہی ہوتا ہے خواہ وہ صورتاً دولت دنیا یا جاہ ومنصب ہی کیوں نہ ہو۔ جہاد فرض ہے مگر فرض کفایہ کہ ایک جماعت اس فریضہ کو ادا کرتی رہے تو سب کی طرف سے کفایت کرے لیکن اگر ان سے بات بڑھ جائے تو پھر پاس والوں پر فرض عین۔ اسی طرح اگر ان سے نہ ہوسکے تو بڑھتا ہوا ساری دنیا کے مسلمانوں پر فرض عین ہوجاتا ہے۔
Top