Asrar-ut-Tanzil - Al-Baqara : 217
یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیْهِ١ؕ قُلْ قِتَالٌ فِیْهِ كَبِیْرٌ١ؕ وَ صَدٌّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ كُفْرٌۢ بِهٖ وَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ١ۗ وَ اِخْرَاجُ اَهْلِهٖ مِنْهُ اَكْبَرُ عِنْدَ اللّٰهِ١ۚ وَ الْفِتْنَةُ اَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ١ؕ وَ لَا یَزَالُوْنَ یُقَاتِلُوْنَكُمْ حَتّٰى یَرُدُّوْكُمْ عَنْ دِیْنِكُمْ اِنِ اسْتَطَاعُوْا١ؕ وَ مَنْ یَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ فَیَمُتْ وَ هُوَ كَافِرٌ فَاُولٰٓئِكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ١ۚ وَ اُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ النَّارِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ
يَسْئَلُوْنَكَ : وہ آپ سے سوال کرتے ہیں عَنِ : سے الشَّهْرِ الْحَرَامِ : مہینہ حرمت والا قِتَالٍ : جنگ فِيْهِ : اس میں قُلْ : آپ کہ دیں قِتَالٌ : جنگ فِيْهِ : اس میں كَبِيْرٌ : بڑا وَصَدٌّ : اور روکنا عَنْ : سے سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ وَكُفْرٌ : اور نہ ماننا بِهٖ : اس کا وَ : اور الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ : مسجد حرام وَ اِخْرَاجُ : اور نکال دینا اَھْلِهٖ : اس کے لوگ مِنْهُ : اس سے اَكْبَرُ : بہت بڑا عِنْدَ : نزدیک اللّٰهِ : اللہ وَالْفِتْنَةُ : اور فتنہ اَكْبَرُ : بہت بڑا مِنَ : سے الْقَتْلِ : قتل وَلَا يَزَالُوْنَ : اور وہ ہمیشہ رہیں گے يُقَاتِلُوْنَكُمْ : وہ تم سے لڑیں گے حَتّٰى : یہانتک کہ يَرُدُّوْكُمْ : تمہیں پھیر دیں عَنْ : سے دِيْنِكُمْ : تمہارا دین اِنِ : اگر اسْتَطَاعُوْا : وہ کرسکیں وَمَنْ : اور جو يَّرْتَدِدْ : پھر جائے مِنْكُمْ : تم میں سے عَنْ : سے دِيْنِهٖ : اپنا دین فَيَمُتْ : پھر مرجائے وَھُوَ : اور وہ كَافِرٌ : کافر فَاُولٰٓئِكَ : تو یہی لوگ حَبِطَتْ : ضائع ہوگئے اَعْمَالُهُمْ : ان کے اعمال فِي : میں الدُّنْيَا : دنیا وَ : اور الْاٰخِرَةِ : آخرت وَاُولٰٓئِكَ : اور یہی لوگ اَصْحٰبُ النَّارِ : دوزخ والے ھُمْ : وہ فِيْهَا : اس میں خٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
آپ سے پوچھتے کہ حرمت والے مہینے میں لڑنا کیسا ہے فرما دیجئے کہ اس میں لڑنا بڑا (گناہ) ہے اور اللہ کی راہ سے روکنا اور اس کے ساتھ کفر کرنا اور مسجد حرام (سے روکنا) اور اس کے رہنے والوں کو اس سے نکال دینا اللہ کے نزدیک اس سے بھی بڑا (گناہ) ہے اور فساد ڈالنا قتل سے بڑا (گناہ) ہے اور یہ تم لوگوں سے لڑائی سے باز نہ آئیں گے یہاں تک کہ اگر ان کا بس چلے تو تمہیں تمہارے دین سے پھیر دیں۔ اور تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھر گیا پھر کفر پر مرگیا تو ایسے ہی لوگ کے اعمال دنیا اور آخرت میں ضائع جاتے ہیں اور یہ دوزخ کے رہنے والے ہیں اس میں وہ ہمیشہ رہیں گے
217- 221 اسرارو معارف اشہر حرم : جب جہاد کا ذکر شروہ ہوا تو اس کے احکام ارشاد ہوتے ہیں جن میں بنیادی بات اشہر حرم کی ہے کہ سال میں چار مہینے رجب اور ذی قعد ، ذی الحجہ اور محرم ہیں۔ قبل اسلام بھی ان میں لڑنا مناسب نہیں سمجھا جاتا تھا اور اسلام نے بھی ان کی حرمت بحال رکھی لیکن اس کے ساتھ یہ امکان بھی موجود تھا کہ مسلمان تو بالکل ہاتھ نہ اٹھائیں اور کافر جنگ کرکے مسلمانوں کو نقصان پہنچاتے رہیں۔ تو اللہ کریم نے ایک ضابطہ ارشاد فرمایا کہ فرما دیجئے ان مذکورہ مہینوں میں لڑنا بہت بڑا جرم ہے اور عنداللہ بڑے گناہ کی بات ہے لیکن اللہ کی راہ سے روکنا ، اللہ سے کفر کرنا اور بیت اللہ سے منع کرنا بلکہ جو لوگ مسجد حرام کے اہل ہوں اور ان کو وہاں سے نکال دینا کیا کم گناہ ہے ؟ ہرگز نہیں ! بلکہ اس طرح کا فساد تو قتال سے بڑھ کر جرم اور گناہ ہے اگر کفار ان مہینوں میں ایسی کوشش کریں یا لڑائی کی ابتدائ۔ ان کی طرف سے ہو تو پھر ماہ حرام کی حرمت پامال کرنے کا گناہ بھی ان ہی کے سر ہوگا۔ یہی تعامل رسول اللہ ﷺ سے بھی ظاہر ہے کہ آپ ﷺ ان مہینوں میں اس وقت تک قتال نہ فرماتے جب تک ابتداء کفار کی طرف سے نہ ہو۔ کفار کا حال یہ ہے کہ یہ کبھی تمہارے دوست نہیں ہوسکتے بلکہ یہ ہمیشہ تم سے لڑتے ہی رہیں گے تاآنکہ اگر ان کا بس چلے تو یہ تمہیں تمہارے دین سے بھی برگشتہ کردیں اور کفر میں لوٹا دیں۔ مرتد کی سزا : اگر تم میں سے کوئی دین سے پھرجائے اور پھر کفر پر ہی مرے تو اس کے تمام نیک اعمال بھی ضائع ہوجائیں گے وہ نہ تو اسے دنیا میں فائدہ دیں گے اور نہ آخرت میں۔ بلکہ ایسے لوگ جہنم میں داخل ہوں گے اور ہمیشہ رہیں گے ۔ دنیا میں مرتد کا نکاح باطل ہوجاتا ہے مسلمان سے وراثت نہیں پاسکتا جنازہ نہیں پڑھا جاتا اور نہ ہی مسلمانوں کے مقابر میں دفن کیا جاسکتا ہے۔ اور اگر توبہ نہ کرے تو قتل کیا جاتا ہے اور عورت ہو تو حبس دوام پاتی ہے اور آخرت کا نقصان ابدی جہنم ہے۔ ہاں اگر توبہ کرے تو ازسر نو مسلمان ہوجاتا ہے بلکہ حنفیہ کے نزدیک اگر پہلے حج کرچکا تھا تو وہ بھی فاسد ہوا۔ بشرط وسعت دوبارہ حج بھی کرے گا۔ یہی حال باقی نیک اعمال قبل ازارتداد کا ہے۔ امام شافعی (رح) کا مسلک اس کے خلاف ہے اور کافر اصلی اگر کوئی نیک کام کرتے تو معلق رہتا ہے اگر مسلمان ہوجائے تو پہلے سے سب نیک کاموں کا بھی اجر پاتا ہے اگر کفر پر مرے تو پھر سب ضائع ہوجاتے ہیں سو مرتد کافر اصلی سے بھی شنیع تر ہے۔ کفار کا حال یہ ہے کہ وہ مسلمان کو بحیثیت مسلمان برداشت کرنے پر تیار نہیں۔ آج بھی دیکھا جائے تو انسانی ہمدردی کے دعا دی کے باوجود کفار کے نزدیک وہ مرتد جو نام تو مسلمانوں جیسے رکھتے ہیں مگر عقائد اسلامی کا مذاق اڑاتے ہیں بڑے عزیز ہیں اور جو لوگ حق پرست اور مسلمان ہیں انہیں غیر مہذب اور قدامت پسند اور کیا کیا کچھ کہا جاتا ہے۔ سو کفار کی ایسی کوششیں جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہیں انہیں روکنا ہر حال اور ہر زمانے میں نہ صرف جائز بلکہ ضروری ہے۔ جیسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کرکے دکھایا۔ تب ہی ان کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے کہ یہ پکی بات ہے کہ جو لوگ اللہ پر ایمان لائے اور پھر سارے جہاں کو اللہ کے لئے چھوڑا ، اللہ کی راہ میں جو بھی رکاوٹ بنی ہٹا دی ، خواہ عزیز و اقارب ہوں ، جاہ ومال ہو ، گھر یا وطن ہر شے کو اللہ کی محبت اور اپنے اللہ سے تعلق پہ نثار کردیا اور پھر یہیں بس نہیں بلکہ ساری عمر اللہ کی راہ میں لڑتے اور کفر کی طاقتوں کا مقابلہ کرتے گزار دی۔ حقیقتاً یہی لوگ رحمت باری کے امیدوار ہیں ان کا عمل ان کی اس تمنا کا آئینہ دار ہے اور انہوں نے کسی غلط جگہ امیدیں وابستہ نہیں کیں بلکہ اللہ ہی ہے بخشنے والا اور رحم کرنے والا۔ عہد جہالت کے بعض رواجات اور اسلام : عرب میں عہد جاہلیت میں شراب اور جوا تہذیب کا ایک حصہ تھا۔ شراب کے بغیر ہر دعوت نامکمل سمجھی جاتی تھی اور جوا نہ کھیلنے والے کو کنجوس اور بزدل کہا جاتا تھا اور یہ دونوں عادتیں اس قدر رچ بس چکی تھیں کہ انہیں عربوں کے مزاج سے خارج کرنا اور نہ صرف ذہنی بلکہ قلبی طور پر ان سے مسلمانوں کا متنفر ہوجانا خود ایک بہت بڑا معجزہ اور دلائل نبوت میں سے ایک بہت بڑی دلیل ہے۔ بعض لوگ یہ بھی کہہ جاتے ہیں کہ اسلام نے سابقہ رواج بھی اپنائے ہیں۔ لیکن اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ کتنی بڑی بڑی برائیوں کا سدباب کیا ہے جو سوائے نبی کے کوئی شخص مٹانے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ مثلاً یہی شراب اور جوے کو دیکھ لیں یا متعہ کے نام سے جنسی بےراہروی کی ایک صورت جو قبل اسلام رائج تھی اسلام نے اس کو مٹا کر نکاح کو قائم فرمایا اور حکم دیا باقاعدہ زندگی گزارنے کے لئے یہ رشتہ جوڑو۔ کیا آج کا یورپ شراب اور جنسی بےراہ روی سے پریشان نہیں ہے ؟ کیا وہاں کے دانشور اور صاحب اقتدار دونوں اس شے کو ختم نہیں کرنا چاہتے ؟ لیکن وہ کیا ایسا کر بھی سکتے ہیں ؟ ہرگز نہیں ! یہ صرف اور صرف اسلام اور حضور ﷺ سے محبت اور غلامی کا تعلق ہے جس میں آج بھی یہ قوت ہے کہ یورپ کا باسی جو اسلام قبول کرتا ہے تو پھر ان چیزوں سے اس قدر متنفر ہوجاتا ہے کہ جس قدر پہلے ان کا رسیا تھا بلکہ اس سے بھی زیادہ اور یہ صرف بات نہیں اس عاجز کا تجربہ ہے اور ایسے لوگ آج بھی میرے پاس مقیم ہیں جو سویڈن اور فن لینڈ جیسے سرد ممالک کے باسی ہیں۔ جہاں شراب ہمارے ہاں کی چائے سے زیادہ پی جاتی ہے مگر آج وہ دن بھر نماز اور مختلف مسائل یاد کرتے ہیں اور ان چیزوں سے گلو خلاصی پاکر پھر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ ہاں ! بعض باتوں کو قائم رکھا یا ان کے اطوار کی اصلاح فرمادی جیسے طواف کعبہ یا منیٰ وعرفات کا قیام وغیرہ یہ چیزیں یا تو سابقہ ادیان سے تھیں جنہیں دین اسلام میں بھی قائم رکھا اور یا اتفاقاً ایسی باتیں تھیں جو عنداللہ پسندیدہ تھیں۔ ورنہ کسی رواج کی مضبوطی سے متاثر ہو کر دین اگر رواج کو اپناتا تو شراب اور جوا حرام نہ ہوتے اور نہ جنسی تعلق کے لئے صورت معین ہوسکتی تھی۔ ہاں ! یہ انقلابی کام تدریجاً کیا گیا۔ سب سے پہلے یہی ارشاد ہو کہ شراب اور جوئے میں اگرچہ بعض لوگ فائدہ بھی پاتے ہیں۔ ان کا خواہ تھوڑا سہی مگر اک حسین پہلو بھی ہے مگر اس میں گناہ زیادہ ہے ۔ اس قدر زیادہ کہ اس کے مقابلے میں وہ نفع بھی قابل مذمت نظر آتا ہے کہ چند لوگ تو پیسہ کمالیں مگر قوم کی معیشت اور اخلاق تباہ ہوجائے اور قوم گمراہی کے اندھیروں میں ڈوب جائے تو یہ نفع ہرگز قابل التفات نہیں۔ یہ تھا پہلا حکیمانہ ارشاد جو شراب اور جوئے کے بارے نازل ہوا۔ بعض لوگ تو پہلے سے طبعاً یا عقلاً اسے پسند نہ کرتے تھے اور کچھ لوگ اس ارشاد سے متنبہ ہو کر اس کو چھوڑ گئے پھر حالت نشہ میں نماز پڑھنے سے روک دیا گیا۔ حکم ہوا ، لا تقربوا الصلوٰۃ وانتم سکاریٰ ۔ تو اکثر صحابہ ؓ نے یہ سمجھ لیا کہ جب اس حالت میں نماز جیسی عظیم عبادت سے روک دیا گیا تو اس میں کوئی بھلائی نہیں ہوسکتی اور پھر یہ واضح طور پر ممانعت کا حکم نازل ہوا تو قطعی طور پر سب مسلمانوں نے اسے چھوڑ دیا۔ یہ آیت سورة مائدہ میں ہے اور مدینہ منورہ میں نازل ہوئی ہے جس میں ارشاد ہے :۔ یا ایھا الذین امنوا انما الخمر والعیسر ولا نصاب ولازلام رجس من عمل الشیطن فا جنتبوہ لعلکم تفلحون۔ تو مدینہ منورہ میں اس طرح شراب گرائی گئی کہ گلیوں میں جاری ہوگئی اور مدتوں کبھی بارش ہوتی تو زمین پر شراب کا رنگ نکھر آتا ۔ اور فضا میں شراب کی بو رچ جاتی۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس کسی کے پاس شراب ہے فلاں جگہ جمع کردی جائے۔ تو جاں نثار صحابہ ؓ نے فوراً جمع کردی ، حضور ﷺ تشریف لے گئے اور دست مبارک سے مشکیزوں کو چاک فرمایا اور کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ہاتھوں ضائع کرادیئے گئے بلکہ ایک صحابی ؓ جو شراب درآمد کیا کرتے تھے۔ اتفاق سے ساری جمع پونجی لے کر شام گئے ہوئے تھے اور حکم چاہا۔ حضور ﷺ نے فرمایا ” سب مشکیزوں کو چاک کرکے شراب بہادو “ انہوں نے بلا تامل اپنا سارا سرمایہ زمین پر بہاد دیا۔ ؓ اس کی حرمت اگرچہ بتدریج ہوئی مگر جب حرمت نازل ہوئی تو پوری شدت سے نافذ کی گئی اور حضور ﷺ نے اس سے متعلق دس آدمیوں پر لعنت فرمائی ہے نچوڑنے والا ، پینے والا ، پلانے والا ، لاکر دینے والا ، جس کے لئے لائی جائے۔ بننے والا ، بیچنے والا ، خریدنے والا ، ہبہ کرنے والا اور اس کی آمدنی کھانے والا۔ اس کے ساتھ جوئے کو بھی قرار دیا۔ اسی شدت اور قوت کے ساتھ۔ اور جوئے کی تمام اقسام کو حرام قرار دیا۔ خواہ وہ اس دور میں رائج تھیں یا آج رواج پائیں اور کسی بھی نام سے ہوں۔ لاٹری : اس پر اجماع ہے کہ میسر میں جوئے کی تمام صورتیں داخل ہیں حتیٰ کہ فرمایا۔ المیسرالقمار حتیٰ لعب الصبیان بالکعاب والجوز کہ ہر قسم کا قمار میسر ہے یہاں تک کہ بچوں کا کھیل ، لکڑی کے گٹکوں اور اخروٹ وغیرہ سے ۔ ابن عباس ؓ نے فرمایا الخاطرۃ من القمار ، یعنی مخاطرہ قمار میں سے ہے۔ جس سے مراد ایسا معاملہ ہے جس میں کس قدر نقصان کا احتمال بھی ہوا اور مال کے ملنے کا بھی جیسے آج کل لاٹری کے مختلف طریقے یا معمے حل کرنے کا کاروبا وغیرہ۔ دراصل قمار کی تعریف یہ ہے کہ کسی مال کا مالک بنانے کے لئے ایسی شرائط رکھی جائیں جن میں وجود وعدم دونوں کا امکان برابر ہو اور نفع خالص یا تاوان خالص برداشت کرنے کی دونوں جانبین مساوی ہوں اور احادیث مقدسہ میں تو شطرنج اور چوسہ وغیرہ کو حرام قرار دیا ہے اور یہی حال تاش کا ہے۔ اگر ان پر روپیہ بھی لگا ہو تو پھر خالص جوا ہے ، صحیح مسلم میں ہے نرو ” چوسر “ کھیلنے والا گویا خنزیر کے گوشت اور خون میں ہاتھ رنگتا ہے اور ابن عمر ؓ کا ارشاد ہے کہ شطرنج نرو سے بھی بری چیز ہے۔ مفسرین کرام نے بیشمار مالی ، بدنی اور سیاسی نقصانات گنائے ہیں جن کو دہرانا یہاں ضروری خیال نہیں کیا گیا بہرحال ایک ضابطہ ارشاد ہوا ہے کہ جلب منفعت سے دفع مضرت ضروری ہے اور کسی چیز میں نفع بھی ہو مگر اس کا نقصان واضح ہو تو اسے چھوڑ دینا بہتر ہے جیسے سانپ خوبصورت تو ہے مگر اس کا زہر قاتل ہے یا جرائم بھی تو لوگ نفع کی امید میں کرتے ہیں چوری ، ڈاکہ اور اغواء لیکن ایک شخص اپنے نفع کے لئے کتنے گھر اجاڑتا ہے۔ کیا ان کو جائز قرار دیا جاسکتا ہے یہی حال جوئے اور شراب کے نفع کا ہے کہ ایک وقتی لذت ہمیشہ کے خسران کا سبب ہے اور ایک شخص کی آمدنی قوم کی تباہی کی ذمہ دار ہے۔ تو جیسے آمدن حلال ہونا ضروری ہے ویسے ہی اخراجات کا مناسب ہونا بھی۔ جب آپ ﷺ سے درخواست کرتے ہیں کہ کس قدر مال خرچ کریں تو فرمائیے جو اپنی ضرورت سے زائد ہو۔ یہ ایک ایسی صورت ہے کہ جس سے بعض حضرات نے یہ مفہوم لیا ہے کہ ضرورت سے زائد ہر شے خرچ کردینی چاہیے اور آئندہ کے لئے بچا کر کچھ نہ رکھیئے۔ حضرت ابوذرغفاری ؓ کا یہی مسلک تھا اور بعض اہل اللہ کا بھی۔ اکثر صحابہ کرام ؓ اس کے خلاف اعتدال کی راہ اپناتے اور اللہ کی راہ میں بھی دیتے۔ ضروریات کے لئے بچا کر بھی رکھتے تھے اور یہی ان آیات کا مفہوم بھی ہے کہ اللہ تمہارے لئے احکام بیان فرماتا ہے تاکہ تم دنیا اور آخرت کی باتوں میں فکر کرو یعنی اپنی اخروی اور ابدی ضروریات کو بھی نگاہ میں رکھو اور دنیا بھی عالم اسباب ہے۔ یہاں بھی زیست کا سامان کرو۔ اگر پس انداز غیر محمود ہوتا تو زکوٰۃ فرض ہی نہ ہوتی کہ وہ تو لاگو ہی پس انداز پر ہے۔ ہاں ! یہ نہ ہو کہ صرف اپنے لئے پس انداز کرتا رہے اور ارد گرد سے بیگانہ ہوجائے بلکہ غرباء کا بھی خیال رکھے اور یہ صرف ان کی بھلائی کے لئے ہی نہیں بلکہ اس کی اپنی اخروی اور ابدی ضرورت بھی ہے۔ میانہ روی ہی مناسب ہے کہ دنیا میں بھی آرام سے گزرے۔ اور آخرت بھی درست رہے۔ ایسے ہی آپ ﷺ سے یتیم بچوں کے ساتھ تعلق کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ صورت یہ پیش آئی کہ اکثر یتیم بچے تو ورثاء کے ساتھ رہتے تھے۔ اور ان میں سے بعض کے پاس والدین کا چھوڑا ہوا مال بھی ہوتا تھا۔ جب مال کے بارے سخت محتاط رہنے کا حکم ہوا تو یتیم کے مال سے بچنے کی سخت تاکید فرمائی۔ ارشاد ہوا۔ الذین یاکلون اموال الیتمیٰ ظلما انھم یاکلون فی بطونھم نارا۔ کہ جو لوگ ظلماً یتیم کا مال کھاتے ہیں وہ تو اپنے پیٹ میں انگارے بھر رہے ہیں۔ تو صحابہ کرام ؓ نے یتیموں کا مال بالکل علیحدہ کردیا۔ اب ان کے لئے علیحدہ کھانا پکانا ، یا بچ جائے ت استعمال نہ کرنا اور نہ صدقہ دینا۔ اس طرح ایک سخت مشکل صورتحال پیدا ہوسکتی تھی مگر اللہ نے آسان فرمادیا کہ مقصد یتیموں کی بھلائی ہے اگر تم ان کا مال اپنے ساتھ شامل کرلو ، بدیں خیال کہ ان کا نقصان نہ ہو تو وہ تمہارے ہی بھائی اور عزیز ہیں۔ ہاں ! اگر کوئی بدبخت اصلاح کے پردے میں ان کا مال ہڑپ کرنا چاہے تو اللہ کو دھوکا نہیں دے سکتا کہ اللہ بہتری چاہنے والے اور فسادی دونوں کو خوب جانتا ہے اور یہ قاعدہ اللہ نے تمہاری آسانی اور سہولت کو مقرر فرمایا کہ اللہ تم پر مشقت نہیں ڈالنا چاہتا ، وہ زبردست ہے کوئی دھوکا باز اس کی گرفت سے نہ بچ سکے گا اور وہ بڑی تدبیر والا ہے حکیم ہے اگر اس کی حکمت سے چندے گرفت نہ آئے تو کیا ہوا۔ جب معاشرت اور باہمی اختلاط کا ذکر چلا تو فرمایا ، مسلمان یتیم تو تمہارے بھائی ہیں لیکن اگر مشرک رشتہ دار بھی ہو تو وہ تمہارا کچھ نہیں لگتا۔ مناکحت کے لئے ایمان شرط ہے : مشرک عورتوں سے اس وقت تک نکاح نہ کرو جب تک وہ مسلمان نہ ہوجائیں ان سے تو مسلمان لونڈی بہتر ہے اگرچہ مشرک عورت اس سے خوبصورت بھی ہو ۔ اسی طرح مشرک مرد کے نکاح میں مسلمان عورت نہ دو کہ اس سے وہ غلام بدرجہا بہتر ہے جو مسلمان ہے اگرچہ شکل و صورت میں مشرک ہی کیوں نہ بڑھا ہوا ہو کہ اصل بات مآل کار ہے اور رشتہ ازدواج ایک بہت مضبوط تعلق ہے مشرک کے ساتھ تعلق اگر مومن کو مشرک نہ بنا سکا تو اس کے دل سے شرک کی نفرت تو ضائع کردے گا جو دوزخ کی طرف ایک قدم ہے اور یہی شے کفر و شرک میں مبتلا کرنے والی چیز ہے۔ فرمایا ، اس طرح یہ مشرک دوزخ کی طرف دعوت دینے والے ہیں اپنے اثر اور تعلق کے اعتبار سے یہ جہنم کے داعی ہیں اور اللہ تو جنت اور اپنی بخشش کی طرف بلاتا ہے اور اسی لئے اپنے احکام ارشادفرماتا ہے کہ لو گ نصیحت قبول کریں۔ یہاں شرک سے اگر مطلق غیر مسلم مراد ہیں تو اہل کتاب ان میں داخل نہ ہوں گے کہ وہ تو توحید وآخرت اور کسی نہ کسی نبی کی نبوت پر تو متفق ہیں اگرچہ حضور ﷺ کی رسالت کے منکر ہیں مگر ان کفار سے کفر میں ہلکے ہیں جو توحید و رسالت اور آخرت کا سرے سے انکار کئے بیٹھے ہیں اور پھر اہل کتاب کی بھی صرف عورت سے نکاح درست ہے مرد سے نہیں کہ عورت فطرتاً مرد کے تابع ہوتی ہے مسلمان سے نکاح شاید اس کی اصلاح کا سبب بنتا ہے اور یہ بھی صرف نکاح درست ہے نسب ثابت ہوجائے گا مستحسن نہیں ہے۔ حضور ﷺ نے مسلمان بھی دیندار عورت تلاش کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ تو جب بدکار مسلمہ سے نکاح مناسب نہیں تو اہل کتاب سے کیسے پسندیدہ ہوگا ؟ نیز وہ بھی اس وقت جائز ہے جب اہل کتاب اپنے مذہب پر تو ہوں۔ فی زمانہ تو صرف مردم شماری میں عیسائی یا یہودی لکھا ہوا ہے۔ اگر تحقیق کی جائے تو نہ تو ان کا اللہ پر ایمان ہے اور نہ آخرت پر ، نہ موسیٰ (علیہ السلام) کو مانتے ہیں اور نہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو۔ یہی وجہ ہے کہ جب شام کے مسلمانوں میں ایسے نککاح ہوئے۔ تو امیر المومنین حضرت عمر فاروق ؓ نے بذریعہ فرمان روک دیا اور اس طرف توجہ دلائی کہ سیاست اور دیانت دونوں طرح یہ شادیاں مسلمان خاندانوں کے لئے مضر ہیں۔ (کتاب الآثار کلام محمد ﷺ اور آج کے غیر مسلم یہود ونصاریٰ جس طرح مسلمان گھروں میں داخل ہو کر ان کے راز حاصل کرنے اور انہیں ذلیل کرنے کے درپے ہیں ایک دلازار حقیقت ہے مشرق وسطیٰ میں یہود ونصاریٰ کی سازشوں کے باعث تقریباً سب بااثر افراد اور حکمران طبقے کے گھروں میں یہودی لڑکیاں مسلمان ناموں سے موجود ہیں۔ اے کاش ! مسلمان کفار کے فریب کو سمجھ سکتا۔ اور ان کا حال تو یہ ہے کہ تقریباً افریقہ کے تمام حکمرانوں پر یہودی لڑکیاں ہی قابض ہیں ، آج کل کے ملحد اہل کتاب یا نام کے وہ مسلمان جو عقیدۃً کافر ہیں اور مسلمان کہلاتے ہیں جیسے مرزائی یا روافض کہ اول الذکر ختم نبوت کا انکار کرکے اگر کافر ہے تو ثانی اجرائے نبوت کے عقیدے میں اس سے کہیں آگے ہے اور اسی طرح منکرین حدیث ، کہ انکار حدیث ایسا ہی کفر ہے جیسا کتاب اللہ کا انکار۔ ان سب سے نکاح حرام ہے اور اس کے جواز کی کوئی صورت کم از کم میری نظر میں نہیں۔
Top