Asrar-ut-Tanzil - Al-Baqara : 254
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لَّا بَیْعٌ فِیْهِ وَ لَا خُلَّةٌ وَّ لَا شَفَاعَةٌ١ؕ وَ الْكٰفِرُوْنَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو ایمان لائے (ایمان والے) اَنْفِقُوْا : تم خرچ کرو مِمَّا : سے۔ جو رَزَقْنٰكُمْ : ہم نے دیا تمہیں مِّنْ قَبْلِ : سے۔ پہلے اَنْ : کہ يَّاْتِيَ : آجائے يَوْمٌ : وہ دن لَّا بَيْعٌ : نہ خریدو فروخت فِيْهِ : اس میں وَلَا خُلَّةٌ : اور نہ دوستی وَّلَا شَفَاعَةٌ : اور نہ سفارش وَالْكٰفِرُوْنَ : اور کافر (جمع) ھُمُ : وہی الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع)
اے ایمان والو ! ہم نے جو تمہیں دیا ہے اس میں سے (راہ حق میں) خرچ کرو اس سے پہلے کہ وہ دن آجائے جس میں نہ خریدوفروخت ہوگی اور نہ دوستی اور نہ سفارش اور کافر ہی تو ظالم (غلط کار) ہیں
آیات 254- 257 اسرارو معارف یایھا الذین امنوا انفقوا………………والکفرون ھم الظلمون۔ اصلاح احوال کی بنیاد : اصلاح احوال کی بنیاد معاشیات پر ہے اگر دیکھا جائے تو تمام مذاہب باطلہ کا ماحصل دنیاوی خواہشات کی تکمیل کی آرزو ہے انسان مختلف امور میں ساری محنت حصول زر پہ کرتا ہے کہ تکمیل خواہشات کا بہت بڑا ذریعہ دولت ہی ہے اور یہیں سے اختلافات اور فسادات کی ابتداء ہوتی ہے لیکن اگر دولت کے خرچ کو محدود کردیا جائے تو ناجائز ذرائع سے حصول دولت کی ضرورت رہتی ہے نہ فائدہ۔ دنیا کی معاشی نظام صرف حصول زر کے قواعد سے بحث کرتے ہیں ، مگر اسلام رزق کو اللہ کی طرف سے تسلیم کرتا ہے کہ انسان صرف محنت کرنے کا مکلف ہے رزق دینا اللہ کا اپنا کام ہے زیادہ عطا کرے یا کم۔ پھر رزق حاصل ہوجانے کے بعد اس کے مصارف متعین ہیں صدقات واجبہ ، جن کا ادا کرنا واجب ہے اور نافلہ۔ نفس انسانی ، دنیا کی لذات پر خرچ کرنا زیادہ پسند کرتا ہے مگر اللہ اسے انفاق کی دعوت دیتا ہے۔ انفاق سے مراد اللہ کے حکم کے مطابق خرچ کرنا ہے خواہ وہ خرچ زکوٰۃ و صدقہ ہو یا بیوی بچوں کا خرچ ہو ، جہاں بھی اللہ کی اطاعت میں خرچ ہوگا وہ اتفاق فی سبیل اللہ میں شمار ہوگا تو ظاہر ہے کہ اس سے انسان کی دنیاوی ضروریات بھی پوری ہوں گی اور آخرت کا اجر بھی مرتب ہوگا جو ابدی راحت ہے اور جس کے حصول کے لئے دنیا میں انسان کو بھیجا گیا ہے تو جب نگاہ تعمیر آخرت پر ہوگی تو قبول حق میں کوئی شے مانع نہ ہوگی اور جو شخص آخرت کو چھوڑ کر اس عارضی اور فانی زندگی کی لذات پر قناعت کرلے تو ایسے کم ظرف سے بھلائی کی امید عبث۔ اس کے ساتھ تھوڑا سا نقشہ آخرت کا کھینچا گیا ہے کہ اعمال حسنہ ہی اس روز کا سرمایہ ہیں۔ ان کی جگہ نہ کسی کی دوستی پر کرسکے گی نہ قیمتاً ایسی شے جو اس ضرورت کو پورا کرے مل سکے گی۔ اور نہ کسی کی سفارش کام آئے گی کہ شفاعت کے لئے بھی ایمان شرط ہے اور مومن کبھی دنیا کو آخرت پر ترجیح نہیں دیا۔ خطاء کوئی فعل سرزد ہو تو فوراً توبہ کرتا ہے اس کے ازالے کی کوشش کرتا ہے لیکن کافر بہت بڑے زیادتی کرنے والے ہیں کہ کائنات میں اپنی خواہشات اور آرزوئوں کا نفاذ چاہتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہوسکتا۔ کائنات کا مالک اللہ ہے۔ اللہ لا الہ الا ھو……………وھوالعلی العظیم۔ اللہ ، جس کے سوا کوئی بھی یہ حق نہیں رکھتا کہ اس کی عبادت کی جائے ہر طرح کی اطاعت اسی کے لئے ہے جو ہمیشہ زندہ ہے اور ساری کائنات کی زندگی اس کی قدرت اور عطا سے ہے جو بذات خود قائم ہے اور ساری کائنات اور اس کے جملہ نظام کو قائم رکھنے والا ہے۔ جسے نہ کبھی سستی متاثر کرسکتی ہے اور نہ جس پر کبھی نیند طاری ہوسکتی ہے ، نہ کسی کا محتاج ہے اور نہ ہی کمزور ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ کے لئے ہے جس کی نہ ابتداء ہے نہ انتہاء اور جو حقیقتاً ارض وسماء اور مافیہا کا مالک ہے جس کی عظمت وہیبت کے سامنے کسی کو مجال دم زدن نہیں۔ کوئی نیں جو اس کی اجازت کے سوا کسی کی سفارش بھی کرسکے۔ وہ ساری مخلوق کے اول وآخر اور ظاہر و باطن سے پوری طرح آگاہ ہے۔ ہر وقت ہر شے سے باخبر اور مخلوق اس کے علم کو احاطہ نہیں کرسکتی صرف اسی قدر جان سکتی ہے جس قدر وہ خود آگاہ فرمادے۔ جس کو جو بخش دے وہی اس کا کمالعلم ہے اس سے آگے کچھ نہیں جان سکتا۔ اس کی کرسی آسمانوں اور زمینوں سے وسیع تر ہے اور تمام جہانوں کو تھامنا قائم رکھنا ، ان کا نظام چلانا اسے کچھ بھی تو گراں نہیں وہ بہت برتر اور عظمت والا ہے۔ لفظ کرسی سے اپنے معاملات پر قیاس نہ کیا جائے اللہ نشست وبرخاست اور حیز مکان سے بالاتر ہے۔ ان آیات کی حقیقت وکیفیت کا ادارک انسانی عقل سے بالاتر ہے البتہ یہ ثابت ہے کہ عرش وکرسی دو عظیم الشان وجود ہیں جو ارض وسما سے بہت بڑے ہیں۔ ابن کثیر میں بروایت حضرت ابوذر غفاری ؓ نقل ہے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ کرسی کیا ہے اور کیسی ہے ؟ تو ارشاد فرمایا کہ اس ذات کی قسم ! جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ ساتوں آسمان اور زمینیں کرسی۔ کے مقابلہ میں ایسے ہیں جیسے کسی بڑے میدان میں کوئی حلقہ انگشتری۔ جیسا دوسری روایات میں ہے کہ کرسی کی مثال عرش کے سامنے ایسی ہے جیسے کسی بڑے میدان کے مقابل ایک انگشتری۔ اس آیہ کریمہ میں اللہ کی ذات وصفات کے کمالات کا عجیب انداز میں بیان ہے کہ جسے جاننے کے بعد کوئی ذرہ بھر عقل رکھنے والا آدمی بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ تمام عزت و عظمت اور اقتدار واختیار اسی ذات بےہمتا کو سزاوار ہے۔ یہ آیہ کریمہ ” آیۃ الکرسی “ کہلاتی ہے احادیث مبارکہ میں اس کے بیشمار فضائل اور برکات کا ذکر ہے۔ شیطان اور اس کے وساوس سے بچنے کے لئے اور اللہ کی رحمت و شفقت کو پانے کے لئے حضور ﷺ نے ہر فرض نماز کے بعد اس کو پڑھنے کے لئے ارشاد فرمایا ہے۔ لا اکراہ فی الدین……………واللہ سمیع علیم۔ یہ سب پر واضح ہوجانے کے بعد اب کسی کو قبول اسلام کے لئے مجبور نہ کیا جائے گا کہ آپ ﷺ کے معجزات اور نزول کتاب سے ہدایت اور حق واضح ہوگیا اور راہ روشن ہوگئی۔ اب ہر انسان کو اختیار ہے کہ حق کو قبول کرے یا نہ کرے۔ لیکن اگر کفر یہ بھی قائم رہے تو دنیا میں فساد بپا کرنے کی اجازت نہ دی جائے گی۔ بلکہ جس طرح سانپ بچھو کو مارا جاتا ہے کہ مخلوق کو ایذا نہ دیں۔ اسی طرح مسلمان کافروں سے جہاد کریں۔ حتیٰ یعطوالجزیہ وھم صغرون۔ کہ وہ اگر کفر پہ رہنا چاہتے ہیں تو رہیں مگر جزیہ دے کر ، اور قانون اسلام کے تابع ہوکر۔ ہاں ! ایک اختیار ہر حال میں دیا جائے گا کہ ایمان دل کا فعل ہے اگر چاہیں تو ایمان لے آئیں نہ چاہیں تو نہ لائیں۔ اس کا ایک سرکاری ترجمہ بھی ہے کہ دین کے معاملہ میں کسی کو نہ پوچھا جائے خواہ وہ نماز ادا کرے یا نہ اور روزہ رکھے یا نہ۔ یہ تاثر سراسر غلط ہے۔ یہ رعایت صرف قبول اسلام کے لئے ہے جب قبول کرلیا تو تمام احکام پر عمل کرنا ہوگا ورنہ حاکم مکلف ہے کہ عمل نہ کرنے والوں کو وہ سزائیں دے جو حضور ﷺ نے مقرر فرمائی ہیں ورنہ حاکم بھی ساتھ ماخوذ ہوگا اور ایک ایک بدکار کے ساتھ روز حشر جوابدہ ہوگا۔ جس کسی نے طاغوت یعنی شیطان خواہ جنوں سے ہو یا انسانوں سے ، کا انکار کیا۔ اس سے اپنی امیدیں توڑ لیں اور اللہ پر ایمان لایا۔ اپنی تمام امیدوں کا مرکز اللہ کو یقین کیا تو اس نے ایک ایسا حلقہ تھام لیا جو کبھی نہ ٹوٹے یعنی ہمیشہ کامیاب رہا اور اللہ ہر ایک کی سنتا بھی ہے اور سب کے بھیدوں اور ارادوں کو جانتا بھی ہے۔ اللہ ولی الذین امنوا ……………ھم فیھا خلدون۔ اللہ مومنین کا دوست ہے ، اللہ ایمان والوں کا مددگار ہے جب اس کی عظمت کو تسلیم کرتے ہیں تو وہ کفر کی تاریکی اور گمراہی کی دلدل سے نکال کر دین اسلام کے نور سے منور کرتا ہے ان کے دل روشن اور آنکھیں بنیا ہوتی ہیں انہیں عقل سلیم عطا ہوتی ہے اور اللہ ان پر ہدایت کے دروازے کھول دیتا ہے اور جو لوگ اللہ کی عظمت کا انکار کرتے ہیں یا اللہ کے سوا کسی سے امیدیں باندھتے ہیں ان کے ساتھ شیطان لگ جاتے ہیں۔ جنوں سے بھی اور انسانوں سے بھی۔ یہ شیطان انہیں نور اسلام ، نور ہدایت سے دور لے جاکر کفر کی تاریکیوں اور برائی کی دل دلوں میں پھنساتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ دوزخ میں رہنے والے ہیں جو اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ یاد رہے دین کسی پر زبردستی نہ ٹھونسا جائے گا مگر قبول اسلام کے بعد عمل ضرور کرایا جائے گا اور اگر بعد قبول ترک کردے تو باغی قرار پاکر قتل کیا جائے گا۔ جو لوگ قبول نہ کریں انہیں بھی اللہ کی زمین پر بےلگام نہیں چھوڑا جانا چاہیے بلکہ مسلمانوں پر فرض ہے کہ ہر اس کفر سے جہاد کریں جو اللہ کی زمین پر اپنی مرضی مسلط کرنا چاہتا ہے یا کئے ہوئے ہے اور عین جہاد میں ان لوگوں کو جو بےضرر ہیں خواہ کافر ہو کچھ نہ کہا جائے گا جیسے بوڑھے ، بچے ، عورتیں یا اپاہج وغیرہ۔ غرض مسلمانوں کے فرائض میں ، اللہ کی زمین سے ظلم وستم کو مٹا کر امن وامان اور عدل و انصاف کا قیام بھی ہے۔
Top