Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Asrar-ut-Tanzil - Al-Baqara : 62
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ هَادُوْا وَ النَّصٰرٰى وَ الصّٰبِئِیْنَ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ١۪ۚ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ
اِنَّ
: بیشک
الَّذِیْنَ
: جو لوگ
اٰمَنُوْا
: ایمان لائے
وَالَّذِیْنَ
: اور جو لوگ
هَادُوْا
: یہودی ہوئے
وَالنَّصَارَىٰ
: اور نصرانی
وَالصَّابِئِیْنَ
: اور صابی
مَنْ
: جو
اٰمَنَ
: ایمان لائے
بِاللّٰہِ
: اللہ پر
وَالْيَوْمِ الْآخِرِ
: اور روز آخرت پر
وَعَمِلَ صَالِحًا
: اور نیک عمل کرے
فَلَهُمْ
: تو ان کے لیے
اَجْرُهُمْ
: ان کا اجر ہے
عِنْدَ رَبِّهِمْ
: ان کے رب کے پاس
وَلَا خَوْفٌ
: اور نہ کوئی خوف ہوگا
عَلَيْهِمْ
: ان پر
وَلَا
: اور نہ
هُمْ
: وہ
يَحْزَنُوْنَ
: غمگین ہوں گے
یقینا جو مسلمان ہوئے اور جو لوگ یہودی ہوئے اور نصرانی اور صابئین (بےدین) (غرض) جو بھی اللہ پر اور آخرت کے دن یقین رکھتا ہو اور نیک کام کرے تو ایسے لوگوں کے لئے ان کے پروردگار کے پاس ان کا اجر ہے اور انہیں کوئی ڈر ہوگا اور نہ افسوس
آیات 62- 71 اسرارو معارف اگر یہ ہمیشہ کی ذلت گلے پڑ ہی گئی تو بات تو بہت بگڑ گئی فرمایا نہیں رحمت عالم کا ظہور عام ہے اور بعثت محمدی علیٰ صاحبھا الصلوٰۃ والسلام کا فیض عام ہے مسلمان کہلانے والے ہوں یہود ونصاریٰ یا بےدین۔ سب کے لئے ایک اصول ہے اور وہ یہ کہ من امان باللہ والیوم الاخر۔ کہ جو اللہ پر آخرت پر ایمان لائے یعنی ماجاء یہ محمد رسول اللہ ﷺ کو مانے صدق دل سے یقین رکھے اور پھر اعمال حسنہ اور سنت رسول ﷺ پر عمل پیرا ہو وہ ﷺ یعنی اعمال بھی صالحہ کرکے اور سارے صالح اعمال ہیں جو سنت کے مطابق ہیں یا کسی سنت سے متصادم نہیں ہیں جہاں کسی کام کو تصادم سنت سے ہوا وہاں وہ کام صالحیت کھوئے سوچ درست نہیں کہ کوئی بھی فرقہ اچھے اعمال کرتا ہو تو وہ مقبول ہوگا اس لئے کہ بغیر ایمان کے عمل میں صلاحیت پیدا ہی نہیں ہوتی کسی بھی فرقے سے تعلق رکھتا ہو وہ اسلام قبول کرلے۔ اور اگر مسلمانوں پہ عنایات ہیں تو اس کا سبب ان کی ذات نہیں بلکہ ان کے عقائد اور اعمال ہیں۔ لہٰذا اے بنی اسرائیل اور دنیا کے تما فرقو ! اگر تم بھی اپنے اعمال اور عقائد میں نبی کریم ﷺ کی پیروی اختیار کرو تو تم بھی مورد عنایات ہوسکتے ہو لیکن اگر نہ آخرت مسلمان بھی ان اوصاف کو ضائع کردے تو تمہارے طرح ذلیل ہوگا۔ جیسے آج کل ہماری حالت ہے ۔ وہ اوصاف جن کی وجہ سے ہمیں عزت و عظمت دو عالم نصیب تھی۔ گئے تو یہ چیزیں بھی گئیں۔ آج ہر طرف ہمارے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے اور ہماری حکومتوں کو برباد کیا جارہا ہے مگر ہم ہیں کہ ٹس سے مس ہو رہے ، خدا ہمیں توبہ کی توفیق عطا فرمائے اور عقائد بھی وہ نصیب کرے جن کی دعوت حضور ﷺ نے دی اعمال بھی وہی جو سنت کے مطابق ہوں۔ ایسے ہی لوگ عنایات باری کے سزاوار ہوں گے نہ انہیں آئندہ کا خوف ہوگا اور نہ گزشتہ کا افسوس۔ لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون۔ تصوف کا خلاصہ : یہی خلاصہ ہے سارے تصوف کا ، اللہ اللہ کی تکرار کرنے سے دل میں وہ صلاحیت آتی ہے کہ آدمی عقائد اسلامیہ کو دل سے قبول کرتا ہے اور وجود میں وہ ہمت پیدا ہوتی ہے کہ اتباع سنت کے لئے سنت کرتا ہے اگر کوئی شخص خلاف سنت کرتا ہو اور اسے تصوف کا نام دے تو اس کی مثل تو یہ ہے ” برعکس نہند نام زنگی کافور “۔ واذاخذنا میثاقکم ورفعنا فوقکم الطور……………لعلکم تتقون۔ اور وہ وقت بھی یاد کرو جب ہم نے طور کو تمہارے سروں پر معلق کردیا کہ وعدہ کرو اور مانو جو ہم نے بھیجا ہے۔ تورات کو مضبوطی سے پکڑو ورنہ یہ عظیم پہاڑ تم پر گرادیا جائے گا۔ جب یہ حال بنا تو سب سجدے میں گر گئے اور لگے گڑگڑانے اور وعدہ کرنے۔ اللہ نے اسے بھی بہت بڑا احسان فرمایا ہے کہ اگر تم نہ مانتے تو نقصان کس کا تھا۔ تمہارا۔ سو ہم نے تم سے منوا کر تمہیں یہ موقع بخشا کہ تم ان کو مانو ، یادرکھو ، ان پر عمل کرو کہ تقویٰ جیسی نعمت میسر ہو۔ یہاں اکراہ فی الدین نہیں ہے بلکہ یہ اول مسلمان تھے مگر عملاً جب تورات کو پڑھا تو پھسلنے لگے کہ جی اس پر عمل دشوار ہے تو اللہ نے ان پر طور پہاڑ کو معلق فرمادیا کہ اب عمل کرو اور مانو ، ورنہ قتل کردیئے جائو گے جیسے اسلام میں مرتد کی سزا قتل ہے کا ذکر نہیں ۔ مسلمانوں سے اسلام پر عمل کرانا اہل اختیار کی ذمہ داری ہے : اور یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ مسلمان سے اسلام پر عمل کرانا صاحب اختیار کی ذمہ داری ہے ورنہ اسے سزا دے ، اگر ایسانہ کرے گا تو خود ماخوذ ہوگا جب ہی تو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے مقدس دور میں فاروق اعظم ؓ مڈمڈنے پھرا کرتے تھے کاش آج کے حکمرانوں کو بھی اللہ یہ سمجھ دے۔ پھر اس کے بعد بھی تم وعدے پر قائم نہ رہے اور عہد شکنی کی جس کی تازہ مثال نبی اکرم ﷺ سے تمہارا عناد ہے مگر اللہ کا فضل اور عموم رحمت ہے کہ تمہیں تا یہ عمر مستعار مہلت مل رہی ہے ورنہ تم سخت خسارے میں تھے اور قریب تھا کہ تم پر عذاب آپڑے تم تو شروع سے ہی غلطیاں کرتے چلے آرہے تھے یہ اللہ کی رحمت تھی کہ جگہ جگہ تمہیں سہارا دیتی چلی آئی اور بعثت محمدیہ ﷺ تو ایک مخلص رحمت تھی جس کے سبب سے کفار سے بھی عمومی عذاب ہٹ گئے لیکن آخر تابہ کے۔ ایک روز تو بارگاہ الٰہی میں پیش ہونا ہی ہے اگر دنیا میں موسیٰ (علیہ السلام) سے بدعہدی کرکے فوراً ہلاک نہ ہوئے تو کیا ابدی ہلاکت سے بچ سکو گے ؟ سو یہ بھی اللہ کا فضل اور رحمت ہے کہ فوراً گرفت نہ فرمائی اور توبہ کی صفت عطا کررکھی ہے ورنہ تم خوب جانتے ہو۔ ولقد علتم الذین امتہ وامنکم……………للمتقین۔ کہ وہ لوگ بھی تھی میں سے تھے جنہوں نے ہفتہ کے دن میں زیادتی کی۔ یہ واقعہ حضرت دائود (علیہ السلام) کے زمانہ میں ہوا کہ یہ لوگ سمندر کے کنارے آباد تھے اور مچھلی ان کے معاش کا ذریعہ تھی۔ اللہ نے حکم دیا کہ ہفتہ کے روز مچھلی نہ پکڑا کریں کہ یہ روز ان کے لئے مکرم اور عبادت کا تھا مگر ہوتا یہ کہ اس روز مچھلیاں بھی کثرت سے کنارے کے قریب آجاتی تھیں ان لوگوں سے نہ رہا گیا تو میلہ ایجاد کرلیا کہ کنارے پر گڑے بنادیئے اور نالیوں کے ذریعے سمندر سے ملادیئے جب گڑھے مچھلیوں سے بھر جاتے تو نالی میں سل وغیرہ رکھ کر بند کردیتے پھر دوسرے روز پکڑتے رہتے کوئی کانٹا ڈال دیتا مچھلی اس میں اٹک جاتی مگر وہ اس روز نہ پکڑتا ۔ دوسرے روزے نکال لیتا جن لوگوں کو اللہ نے اطاعت کی توفیق بخشی انہوں نے سختی سے منع کیا۔ یہ سخت جرم ہے تلخی بڑھی تو بات یہاں تک پہنچی کہ انہوں نے ان کی بستی ہی علیحدہ کردی۔ اور درمیان میں دیوار کھینچ دی کہ اگر تم نہیں کرسکتے تو الگ رہو۔ ایک روز انہیں نافرمانوں کی طرف سے کوئی انسانی آواز سنائی نہ دی بلکہ درندوں اور بندروں کے چلانے کی آوازیں تھیں ، جاکر دیکھا تو سب بندر اور خنزیر بن چکے تھے جو ان بندر اور بوڑھے خنزیر بن گئے ، رشتہ داروں کو پہچانتے ، ان کے پائوں میں لوٹتے اور چیختے تھے مگر کچھ نہ بن سکا اور چند روز اسی عذاب میں مبتلارہ کر ہلاک ہوگئے۔ صحیح حدیث سے ثابت ہے جن قوموں پر مسخ کا عذاب واقع ہوا۔ ان کی نسل نہیں چلی۔ یہ موجودہ بندر وغیرہ پہلے بھی تھے یہ جدا مخلوق ہیں اس سے ان کا تعلق نہیں ہے۔ حیلہ کی قسمیں : یہاں ایک بات تو واضح ہے کوئی ایسا حیلہ جس سے حکم شرعی کا ابطال ہوتا ہو جائز نہیں بلکہ سخت جرم ہے۔ ہاں فقہاء کے وہو حیلے جن سے حکم شرعی کی تعمیل مقصود ہے نہ کہ ابطال ، وہ اس میں داخل نہیں۔ اور دوسری بات یہ کہ نیکوں کے ساتھ چلنا بھی عمومی عذاب کی گرفت سے بچانے کا ذریعہ بنتا ہے۔ جب تک مل کر رہے بچے رہے مگر جب نیک لوگوں کو بالکل علیحدہ کردیا اور قدامت پسندوں کو جدا کردیا تو تہذیب یافتہ لوگ عذاب کی گرفت میں آگئے۔ خدا تعالیٰ ہمیں نیکوں کا ساتھ نصیب فرمائے ! آمین فرمایا۔ دیکھ لو ان کا حال ! انہوں نے مچھلیاں تو پکڑیں مگر ہم نے ان کو بندر اور ذلیل جانوروں کی شکل میں مسخ کردیا اور ان کے ہمصر میں کے لئے اور بعد والوں کے لئے عبرت اور توبہ کا سبب بنادیا اور نیک لوگوں کے لئے مزید نصیحت کا ذریعہ۔ یہ عذاب کی صوبتیں مسخ ہوجائیں بعثت نبوی علیٰ صاحبھا الصلوٰۃ والسلام کے بعد عمومی طور پر اٹھا لیا گیا۔ یہ آپ ﷺ کی برکات میں سے ملے مگر بعض افراد پر اس کا جاری ہونا عجیب نہیں۔ یہاں ہمارے گاؤں میں ایک عورت سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کو خصوصی طور پر سخت توہین آمیز کلمات کہا کرتی تھی۔ اور دیگر صحابہ اور ازواج مطہرات کو بھی۔ تو مرنے سے پیشتر اس کی شکل بگڑ کر ڈرائونی ہوگئی۔ کتے کی طرح زبان کوئی چار انچ کے قریب منہ سے نکل آئی۔ اور واپس میں میں بھی داخل نہ ہوسکتی تھی۔ دن رات چب بھی کرسکتی تھی۔ نتیجہ یہ ہوتا کہ لفظ تو کوئی بن نہ سکتا۔ کتے کی طرح بھوں بھوں کرتی رہتی۔ بڑے بڑے ڈاکٹروں کے پاس لاہور تک اسے لے کر گئے مگر کچھ افاقہ نہ ہوا۔ تین ماہ اسی عذاب میں مبتلا رہ کر جہنم واصل ہوئی۔ ایسے متعدد واقعات ہیں جن کا لکھنا یہاں طوالت کا سبب ہوگا۔ تو یہ صورت حال استثنائی ہے اب قوموں کی صورت نہیں بگڑتی مگر افراد اس میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔ یہ تو جسم کی بات ہے۔ روحانی شیخ کی صورت : رہی روح کی صورت جب تک ایمان اور عمل صالح نہ ہو انسانی رہ ہی نہیں سکتی بلکہ اس درندے یا جانور سے مثابہ ہوتی ہے جس سے اس کی عادات ملتی ہوں۔ انسانی شکل پر صرف ان لوگوں کے ارواح ہوتے ہیں جن کا دل منور ہو ۔ ورنہ مسلمان اور نمازی بھی حلال جانوروں کی شکل پر ہوتے ہیں اور بدکار اور کفار درندوں کی شکل پر کیا ہوا اگر اس کے اوپر بدن انسانی کا جامہ ہے تو یہ ہمیشہ تو نہ رہے گا۔ اور اگر اللہ دل کی آنکھ واکرے تو دنیا میں دیکھا جاسکتا ہے شہروں کے شہر اور بستیوں کی بستیاں درندوں سے اٹی پڑی ہیں۔ اللہ ہمیں معاف فرمائے ! آمین ، یہی وجہ ہے کہ بظاہر تو انسان نظر آتے ہیں لیکن کردار درندوں سے بھی بدتر ہیں۔ واذقال موسیٰ لقومہ…………فذبحوھا وما کادوا یفعلون۔ وہ وقت اور احسان یاد کرو۔ جب تم میں ایک شخص قتل کردیا گیا جس کے قاتل کا پتہ نہ چل رہا تھا۔ ان لوگوں نے موسیٰ (علیہ السلام) بےعرض کیا کہ قاتل کا ضرور پتہ چلنا چاہیے تو آپ نے اللہ کے حکم سے انہیں گائے ذبح کرنے کا حکم دیا۔ کہنے لگے آپ ہم سے مذاق کرتے ہیں۔ فرمایا ، ایسی جہالت سے کہ اللہ کے احکام میں مذاق کروں ، اللہ کی پناہ پکڑتا ہوں یہ کام تو وہی کرسکتا ہے جو اللہ کی عظمت سے ناآشنا ہو وہی سب سے بڑا جاہل ہے خواہ کتنے ہی کالجوں اور مدرسوں میں پھر ہو ، جسے معرفت باری تعالیٰ جیسی دولت نصیب ہو بھلا وہ احکام الٰہی میں مذاق کی جرات کرسکتا ہے ہرگز نہیں کہ وہ عالم ہے اسے وہ شے حاصل ہے جو تحصیل علم کا مقصد ہے اور انبیاء کی ذوات مقدسہ اس بات کے لئے تو مثالی ذوات ہوا کرتی ہیں ویسے بھی ایسا مذاق جس میں کسی کا تمسخر اڑانا مقصود ہو یا جھوٹ پر مبنی ہو شرعاً جاگز نہیں۔ ہاں بات سچی ہو اور کی توہین مقصود نہ ہو بلکہ محض خوش طبعی ہو تو بےتکلیف احباب میں ایسا کرنا ہرج کا باعث نہیں۔ مگر یہ معاملہ احکام الٰہی سے تو نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے اسے مذاق کیوں جانا۔ اس لئے کہ ان کے خیال میں قتل کی تفتیش کے لئے بیل یا گائے کو ذبح کرنا کچھ بےجوڑ سی بات ہے بھلا اس سے کیا مقصد حاصل ہوگا۔ دنیا عالم اسباب ہے یہ اللہ کی سنت ہے کہ ہر کام کو کسی نہ کسی سبب سے متعلق فرمادیا ہے اور اس کے مصلحت یا حکمت سے وہ خود ہی آگاہ ہے جو امور ہمارے روز مرہ کے مشاہدے میں آتے ہیں۔ ہم ان کے عادی ہو کر انہیں ایک عام سی بات کا درجہ دیتے ہیں۔ ورنہ یہ کیا تک ہے گندم حاصل کرنے کے لئے جو چند دانے گھر میں رکھے ہیں انہیں بھی مٹی میں دبادو۔ مگر ہمارا تجربہ کہ اس سے فصل پیدا ہو کر بالیاں لگیں گی اور دانوں سے بھر جائیں گی ، ہمیں اس پر حیران نہیں ہونے دیتا ورنہ تو اس عالم کی ہر شے قدرت باری پہ ایک بہت بڑی دلیل ہے سو اسی طرح اللہ انہیں روز مرہ کے دلائل کے علاوہ اپنی قدرت کی ایک اور دلیل دکھانا چاہتا تھا۔ نیز اس میں مزید کس قدر حکمتیں تھیں یہ بھی اللہ ہی جانے تو انبیاء (علیہم السلام) کے احکام کی تعمیل ضروری ہے اور جو نتائج انہوں نے ان امور پہ بیان فرمائے وہ ضرور مرتب ہوتے ہیں خواہ ان کی درمیانی کڑی ہم جان سکیں یا نہ ، جیسے آج کل یہ اعتراض کہ عید قربان پہ کس قدر جانور ذبح کردیئے جاتے ہیں ، اور سب گوشت ، کھالیں ضائع ہوتی ہیں اگر یہ رقم جمع کرکے فلاحی کاموں پر لگائی جاتی تو کس قدر خوب ہوتا۔ یا یہ اعتراض کہ اربوں روپے حج پر جانے میں ضائع ہوتے ہیں ان سے ہر سال کئی یونیورسٹیاں قائم ہوسکتی تھیں۔ یہ وہی اسرائیلی ذہن ہے ورنہ مقصد اتباع نبوی ﷺ ہے اور ایک معمولی گائے یا دنبہ ذبح کرکے ان برکات میں اپنی حیثیت کے مطابق حصہ دار بن جانا جو حضرت سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کو ذبیح اللہ کی گردن پر چھری رکھ کر حاصل ہوتی تھیں کس قدر عظیم بات ہے اور اللہ کا کتنا احسان ہے۔ اپنے اندر اخلاق ابراہیمی کی جھلک پیدا کرنا ہی کتنا کمال ہے یا ارکان حج اداکرکے ان مخصوص تجلیات باری کو اخذ کرنا جو اس کے بغیر ممکن ہی نہیں ، کس قدر عظمت کا حامل ہے جس ہستی نے یہ ارکان بجا لانے کا حکم نوع انسانی تک پہنچایا ہے کیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی تعمیر سیرت کرسکتا ہے تاریخ انسانی میں کوئی ایسا ہے ہرگز نہیں اور یہ اپنے آپ کو مہذب لکھنے والے جانور یونیورسٹیوں اور کالجوں میں انسانی بچوں کو جانوروں جیسی عادات سکھا کر ارکان دین پر طنز کرتے ہیں۔ ذرا اس معاشرے کو اپنے معاشرے کے مقابل رکھ کر دیکھو ، انسانیت کس طرف ہے اور نوع انسانی کی فلاح کس بات میں ہے ، یقینا تم پر اتباع نبوت کی عظمت عیاں ہوجائے گی اور تم سمجھ سکو گے کہ کالج اور یونیورسٹی بھی وہی مفید ہے جو اتباع نبوت سکھائے ورنہ سب بوچڑ خانے ہیں جہاں انسانیت کی کھال اتاری جاتی ہے پھر اتباع نبوت نبی پر مکمل اعتماد کا نام ہے ، یہ لگے ہیں بیخ نکالنے ، جی بھلا وہ کیسے گائے ہے ؟ فرمایا نہ بچھڑی ہے نہ بوڑھی ، ان باتوں میں نہ پڑو ، میاں اللہ نے حکم دیا ہے کہ گزرو اور دیکھو کیا ہوتا ہے۔ مگر جناب پھر بولے جی۔ یہ تو فرما دیجیے اپنے رب سے سوال کیجیے کہ اس کا رنگ کیسا ہے ؟ فرمایا اللہ فرماتا ہے زرد رنگ کی مزیدار اور چمک رکھنے والی ہے دیکھ کے جی خوش ہوتا ہے۔ اب پھر بولے ایسی بھی کئی گائیں ہیں ذرا اپنے رب سے عرض کریں مجال ہے جو ہمارا رب کہیں موسیٰ تیرا رب ہر بار یہی کہتے تھے۔ سو عرض کریں کچھ اور نشاندہی بھی ہوجائے۔ ہم اللہ نے چاہا تو اب کے ضرور پالیں گے۔ حدیث شریف میں وارد ہے کہ اس بار انشاء اللہ نہ کہتے تو بات تک نہ پہنچ پاتے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا حکم ہوا ہے وہ گائے نہ ہل میں جوتی گئی نہ اس نے کھیتی سیراب کی نہ اس کے جسم پر کوئی داغ ہے کسی طرح کی محنت و مشقت کایا مار پیٹ کا ، کہنے لگے اب بات بنی اب آپ ٹھیک سمجھا سکے ہیں اور پھر ایک گائے خرید کر خواہی نخواہی ذبح کر ہی دی۔ یہاں اللہ کریم اپنا احسان ارشاد فرما رہے ہیں کہ تمہارے اجداد کیسے تھے اور کس قدر کم ہمت تھے اطاعت کے ساتھ میں مگر ہمارا کلام دیکھو کہ پھر بھی ان کی قربانی قبول فرمائی اور اس پر جو نتیجہ مرتب ہونا چاہیے تھا وہ مرتب فرمایا ورنہ ان کی طرف سے اس قدر کوتاہیاں ہوئی تھیں کہ اس پر کچھ بھی مرتب نہ ہوتا اور وہ ضائع ہوجاتی۔ مگر انہیں صرف سنادی سختی دیکھنا پڑی کہ جس قدر سوال کرتے گئے وہ بڑھتی چلی گئیں اگر شروع میں کوئی گائے ذبح کردیتے تو وہی کام دے جاتی۔ شیخ کے ساتھ جرح نہ کرے : مگرجوں جوں سوال کرتے گئے حلیہ مقرر ہوتا گیا لہٰذا اگر شیخ حکم دے تو اس میں مزید سوال کرکے اپنے لئے مشقت پیدا نہ کرے جیسے کسی کو وظیفہ بتایا جائے کہ درود شریف کی اتنی تسبیحات پڑھ لیا کرو تو جو نسا درود شریف بھی پڑھ لے گا ٹھیک ہے لیکن اگر پوچھ بیٹھا کہ جی کونسا ؟ تو وہی پڑھنا ضروری ہوگا جو شیخ مقرر کردے یہی حال تعین وقت کا ہے ورنہ مقصدپورا نہ ہوگا۔ یہاں مفسرین نے ایک اور عجیب واقعہ نقل فرمایا ہے کہ کوئی نیک شخص فوت ہوا تو اس کے پاس ایک بچھڑی تھی جو اس نے جنگل میں ہانک دی اور دعا کی اللہ ! یہ تیرے سپرد ہے میرے بیٹے کی گزر اوقات کا سبب اسے بنادے۔ تو وہ خوب پلی بڑھی جوں جوں یہ سوال کرتے گئے اللہ کریم اس کا حلیہ بیان فرماتے رہے اب اس جیسی کوئی دوسری مل نہ سکتی تھی۔ ادھر اس کے دل میں ڈال دیا کہ ان سے خوب قیمت وصول کرو ، چناچہ بعض کے نزدیک اس کی کھال میں اشرفیاں بھر کر انہیں دینا پڑیں یہ اپنی طرف سے بہت عقلمند بن رہے تھے اور میں میخ نکال رہے تھے مگر ان کی عقلمندی کا فائدہ اللہ تعالیٰ ان کو پہنچانا چاہتا تھا جو محض اس کے بھروسے پر بیٹھے تھے۔ لہٰذا نہ احکام شریعت پہ اعتراض درست نہ اتباع شیخ میں حیل وحجت کی ضرورت۔ اس سے دنیاوی مصائب تو ضروری وارد ہوتے ہیں اور ایمان کا خطرہ مزید ہے۔ یہاں دیوانگی کی قیمت ہے اور فریفتہ ہونے کا نام عقل ہے۔ سوچ بچار کو یہاں مصیبت کہتے ہیں۔
Top