Asrar-ut-Tanzil - Al-Baqara : 62
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ هَادُوْا وَ النَّصٰرٰى وَ الصّٰبِئِیْنَ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ١۪ۚ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ
اِنَّ : بیشک الَّذِیْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَالَّذِیْنَ : اور جو لوگ هَادُوْا : یہودی ہوئے وَالنَّصَارَىٰ : اور نصرانی وَالصَّابِئِیْنَ : اور صابی مَنْ : جو اٰمَنَ : ایمان لائے بِاللّٰہِ : اللہ پر وَالْيَوْمِ الْآخِرِ : اور روز آخرت پر وَعَمِلَ صَالِحًا : اور نیک عمل کرے فَلَهُمْ : تو ان کے لیے اَجْرُهُمْ : ان کا اجر ہے عِنْدَ رَبِّهِمْ : ان کے رب کے پاس وَلَا خَوْفٌ : اور نہ کوئی خوف ہوگا عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا : اور نہ هُمْ : وہ يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے
یقینا جو مسلمان ہوئے اور جو لوگ یہودی ہوئے اور نصرانی اور صابئین (بےدین) (غرض) جو بھی اللہ پر اور آخرت کے دن یقین رکھتا ہو اور نیک کام کرے تو ایسے لوگوں کے لئے ان کے پروردگار کے پاس ان کا اجر ہے اور انہیں کوئی ڈر ہوگا اور نہ افسوس
آیات 62- 71 اسرارو معارف اگر یہ ہمیشہ کی ذلت گلے پڑ ہی گئی تو بات تو بہت بگڑ گئی فرمایا نہیں رحمت عالم کا ظہور عام ہے اور بعثت محمدی علیٰ صاحبھا الصلوٰۃ والسلام کا فیض عام ہے مسلمان کہلانے والے ہوں یہود ونصاریٰ یا بےدین۔ سب کے لئے ایک اصول ہے اور وہ یہ کہ من امان باللہ والیوم الاخر۔ کہ جو اللہ پر آخرت پر ایمان لائے یعنی ماجاء یہ محمد رسول اللہ ﷺ کو مانے صدق دل سے یقین رکھے اور پھر اعمال حسنہ اور سنت رسول ﷺ پر عمل پیرا ہو وہ ﷺ یعنی اعمال بھی صالحہ کرکے اور سارے صالح اعمال ہیں جو سنت کے مطابق ہیں یا کسی سنت سے متصادم نہیں ہیں جہاں کسی کام کو تصادم سنت سے ہوا وہاں وہ کام صالحیت کھوئے سوچ درست نہیں کہ کوئی بھی فرقہ اچھے اعمال کرتا ہو تو وہ مقبول ہوگا اس لئے کہ بغیر ایمان کے عمل میں صلاحیت پیدا ہی نہیں ہوتی کسی بھی فرقے سے تعلق رکھتا ہو وہ اسلام قبول کرلے۔ اور اگر مسلمانوں پہ عنایات ہیں تو اس کا سبب ان کی ذات نہیں بلکہ ان کے عقائد اور اعمال ہیں۔ لہٰذا اے بنی اسرائیل اور دنیا کے تما فرقو ! اگر تم بھی اپنے اعمال اور عقائد میں نبی کریم ﷺ کی پیروی اختیار کرو تو تم بھی مورد عنایات ہوسکتے ہو لیکن اگر نہ آخرت مسلمان بھی ان اوصاف کو ضائع کردے تو تمہارے طرح ذلیل ہوگا۔ جیسے آج کل ہماری حالت ہے ۔ وہ اوصاف جن کی وجہ سے ہمیں عزت و عظمت دو عالم نصیب تھی۔ گئے تو یہ چیزیں بھی گئیں۔ آج ہر طرف ہمارے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے اور ہماری حکومتوں کو برباد کیا جارہا ہے مگر ہم ہیں کہ ٹس سے مس ہو رہے ، خدا ہمیں توبہ کی توفیق عطا فرمائے اور عقائد بھی وہ نصیب کرے جن کی دعوت حضور ﷺ نے دی اعمال بھی وہی جو سنت کے مطابق ہوں۔ ایسے ہی لوگ عنایات باری کے سزاوار ہوں گے نہ انہیں آئندہ کا خوف ہوگا اور نہ گزشتہ کا افسوس۔ لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون۔ تصوف کا خلاصہ : یہی خلاصہ ہے سارے تصوف کا ، اللہ اللہ کی تکرار کرنے سے دل میں وہ صلاحیت آتی ہے کہ آدمی عقائد اسلامیہ کو دل سے قبول کرتا ہے اور وجود میں وہ ہمت پیدا ہوتی ہے کہ اتباع سنت کے لئے سنت کرتا ہے اگر کوئی شخص خلاف سنت کرتا ہو اور اسے تصوف کا نام دے تو اس کی مثل تو یہ ہے ” برعکس نہند نام زنگی کافور “۔ واذاخذنا میثاقکم ورفعنا فوقکم الطور……………لعلکم تتقون۔ اور وہ وقت بھی یاد کرو جب ہم نے طور کو تمہارے سروں پر معلق کردیا کہ وعدہ کرو اور مانو جو ہم نے بھیجا ہے۔ تورات کو مضبوطی سے پکڑو ورنہ یہ عظیم پہاڑ تم پر گرادیا جائے گا۔ جب یہ حال بنا تو سب سجدے میں گر گئے اور لگے گڑگڑانے اور وعدہ کرنے۔ اللہ نے اسے بھی بہت بڑا احسان فرمایا ہے کہ اگر تم نہ مانتے تو نقصان کس کا تھا۔ تمہارا۔ سو ہم نے تم سے منوا کر تمہیں یہ موقع بخشا کہ تم ان کو مانو ، یادرکھو ، ان پر عمل کرو کہ تقویٰ جیسی نعمت میسر ہو۔ یہاں اکراہ فی الدین نہیں ہے بلکہ یہ اول مسلمان تھے مگر عملاً جب تورات کو پڑھا تو پھسلنے لگے کہ جی اس پر عمل دشوار ہے تو اللہ نے ان پر طور پہاڑ کو معلق فرمادیا کہ اب عمل کرو اور مانو ، ورنہ قتل کردیئے جائو گے جیسے اسلام میں مرتد کی سزا قتل ہے کا ذکر نہیں ۔ مسلمانوں سے اسلام پر عمل کرانا اہل اختیار کی ذمہ داری ہے : اور یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ مسلمان سے اسلام پر عمل کرانا صاحب اختیار کی ذمہ داری ہے ورنہ اسے سزا دے ، اگر ایسانہ کرے گا تو خود ماخوذ ہوگا جب ہی تو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے مقدس دور میں فاروق اعظم ؓ مڈمڈنے پھرا کرتے تھے کاش آج کے حکمرانوں کو بھی اللہ یہ سمجھ دے۔ پھر اس کے بعد بھی تم وعدے پر قائم نہ رہے اور عہد شکنی کی جس کی تازہ مثال نبی اکرم ﷺ سے تمہارا عناد ہے مگر اللہ کا فضل اور عموم رحمت ہے کہ تمہیں تا یہ عمر مستعار مہلت مل رہی ہے ورنہ تم سخت خسارے میں تھے اور قریب تھا کہ تم پر عذاب آپڑے تم تو شروع سے ہی غلطیاں کرتے چلے آرہے تھے یہ اللہ کی رحمت تھی کہ جگہ جگہ تمہیں سہارا دیتی چلی آئی اور بعثت محمدیہ ﷺ تو ایک مخلص رحمت تھی جس کے سبب سے کفار سے بھی عمومی عذاب ہٹ گئے لیکن آخر تابہ کے۔ ایک روز تو بارگاہ الٰہی میں پیش ہونا ہی ہے اگر دنیا میں موسیٰ (علیہ السلام) سے بدعہدی کرکے فوراً ہلاک نہ ہوئے تو کیا ابدی ہلاکت سے بچ سکو گے ؟ سو یہ بھی اللہ کا فضل اور رحمت ہے کہ فوراً گرفت نہ فرمائی اور توبہ کی صفت عطا کررکھی ہے ورنہ تم خوب جانتے ہو۔ ولقد علتم الذین امتہ وامنکم……………للمتقین۔ کہ وہ لوگ بھی تھی میں سے تھے جنہوں نے ہفتہ کے دن میں زیادتی کی۔ یہ واقعہ حضرت دائود (علیہ السلام) کے زمانہ میں ہوا کہ یہ لوگ سمندر کے کنارے آباد تھے اور مچھلی ان کے معاش کا ذریعہ تھی۔ اللہ نے حکم دیا کہ ہفتہ کے روز مچھلی نہ پکڑا کریں کہ یہ روز ان کے لئے مکرم اور عبادت کا تھا مگر ہوتا یہ کہ اس روز مچھلیاں بھی کثرت سے کنارے کے قریب آجاتی تھیں ان لوگوں سے نہ رہا گیا تو میلہ ایجاد کرلیا کہ کنارے پر گڑے بنادیئے اور نالیوں کے ذریعے سمندر سے ملادیئے جب گڑھے مچھلیوں سے بھر جاتے تو نالی میں سل وغیرہ رکھ کر بند کردیتے پھر دوسرے روز پکڑتے رہتے کوئی کانٹا ڈال دیتا مچھلی اس میں اٹک جاتی مگر وہ اس روز نہ پکڑتا ۔ دوسرے روزے نکال لیتا جن لوگوں کو اللہ نے اطاعت کی توفیق بخشی انہوں نے سختی سے منع کیا۔ یہ سخت جرم ہے تلخی بڑھی تو بات یہاں تک پہنچی کہ انہوں نے ان کی بستی ہی علیحدہ کردی۔ اور درمیان میں دیوار کھینچ دی کہ اگر تم نہیں کرسکتے تو الگ رہو۔ ایک روز انہیں نافرمانوں کی طرف سے کوئی انسانی آواز سنائی نہ دی بلکہ درندوں اور بندروں کے چلانے کی آوازیں تھیں ، جاکر دیکھا تو سب بندر اور خنزیر بن چکے تھے جو ان بندر اور بوڑھے خنزیر بن گئے ، رشتہ داروں کو پہچانتے ، ان کے پائوں میں لوٹتے اور چیختے تھے مگر کچھ نہ بن سکا اور چند روز اسی عذاب میں مبتلارہ کر ہلاک ہوگئے۔ صحیح حدیث سے ثابت ہے جن قوموں پر مسخ کا عذاب واقع ہوا۔ ان کی نسل نہیں چلی۔ یہ موجودہ بندر وغیرہ پہلے بھی تھے یہ جدا مخلوق ہیں اس سے ان کا تعلق نہیں ہے۔ حیلہ کی قسمیں : یہاں ایک بات تو واضح ہے کوئی ایسا حیلہ جس سے حکم شرعی کا ابطال ہوتا ہو جائز نہیں بلکہ سخت جرم ہے۔ ہاں فقہاء کے وہو حیلے جن سے حکم شرعی کی تعمیل مقصود ہے نہ کہ ابطال ، وہ اس میں داخل نہیں۔ اور دوسری بات یہ کہ نیکوں کے ساتھ چلنا بھی عمومی عذاب کی گرفت سے بچانے کا ذریعہ بنتا ہے۔ جب تک مل کر رہے بچے رہے مگر جب نیک لوگوں کو بالکل علیحدہ کردیا اور قدامت پسندوں کو جدا کردیا تو تہذیب یافتہ لوگ عذاب کی گرفت میں آگئے۔ خدا تعالیٰ ہمیں نیکوں کا ساتھ نصیب فرمائے ! آمین فرمایا۔ دیکھ لو ان کا حال ! انہوں نے مچھلیاں تو پکڑیں مگر ہم نے ان کو بندر اور ذلیل جانوروں کی شکل میں مسخ کردیا اور ان کے ہمصر میں کے لئے اور بعد والوں کے لئے عبرت اور توبہ کا سبب بنادیا اور نیک لوگوں کے لئے مزید نصیحت کا ذریعہ۔ یہ عذاب کی صوبتیں مسخ ہوجائیں بعثت نبوی علیٰ صاحبھا الصلوٰۃ والسلام کے بعد عمومی طور پر اٹھا لیا گیا۔ یہ آپ ﷺ کی برکات میں سے ملے مگر بعض افراد پر اس کا جاری ہونا عجیب نہیں۔ یہاں ہمارے گاؤں میں ایک عورت سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کو خصوصی طور پر سخت توہین آمیز کلمات کہا کرتی تھی۔ اور دیگر صحابہ اور ازواج مطہرات کو بھی۔ تو مرنے سے پیشتر اس کی شکل بگڑ کر ڈرائونی ہوگئی۔ کتے کی طرح زبان کوئی چار انچ کے قریب منہ سے نکل آئی۔ اور واپس میں میں بھی داخل نہ ہوسکتی تھی۔ دن رات چب بھی کرسکتی تھی۔ نتیجہ یہ ہوتا کہ لفظ تو کوئی بن نہ سکتا۔ کتے کی طرح بھوں بھوں کرتی رہتی۔ بڑے بڑے ڈاکٹروں کے پاس لاہور تک اسے لے کر گئے مگر کچھ افاقہ نہ ہوا۔ تین ماہ اسی عذاب میں مبتلا رہ کر جہنم واصل ہوئی۔ ایسے متعدد واقعات ہیں جن کا لکھنا یہاں طوالت کا سبب ہوگا۔ تو یہ صورت حال استثنائی ہے اب قوموں کی صورت نہیں بگڑتی مگر افراد اس میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔ یہ تو جسم کی بات ہے۔ روحانی شیخ کی صورت : رہی روح کی صورت جب تک ایمان اور عمل صالح نہ ہو انسانی رہ ہی نہیں سکتی بلکہ اس درندے یا جانور سے مثابہ ہوتی ہے جس سے اس کی عادات ملتی ہوں۔ انسانی شکل پر صرف ان لوگوں کے ارواح ہوتے ہیں جن کا دل منور ہو ۔ ورنہ مسلمان اور نمازی بھی حلال جانوروں کی شکل پر ہوتے ہیں اور بدکار اور کفار درندوں کی شکل پر کیا ہوا اگر اس کے اوپر بدن انسانی کا جامہ ہے تو یہ ہمیشہ تو نہ رہے گا۔ اور اگر اللہ دل کی آنکھ واکرے تو دنیا میں دیکھا جاسکتا ہے شہروں کے شہر اور بستیوں کی بستیاں درندوں سے اٹی پڑی ہیں۔ اللہ ہمیں معاف فرمائے ! آمین ، یہی وجہ ہے کہ بظاہر تو انسان نظر آتے ہیں لیکن کردار درندوں سے بھی بدتر ہیں۔ واذقال موسیٰ لقومہ…………فذبحوھا وما کادوا یفعلون۔ وہ وقت اور احسان یاد کرو۔ جب تم میں ایک شخص قتل کردیا گیا جس کے قاتل کا پتہ نہ چل رہا تھا۔ ان لوگوں نے موسیٰ (علیہ السلام) بےعرض کیا کہ قاتل کا ضرور پتہ چلنا چاہیے تو آپ نے اللہ کے حکم سے انہیں گائے ذبح کرنے کا حکم دیا۔ کہنے لگے آپ ہم سے مذاق کرتے ہیں۔ فرمایا ، ایسی جہالت سے کہ اللہ کے احکام میں مذاق کروں ، اللہ کی پناہ پکڑتا ہوں یہ کام تو وہی کرسکتا ہے جو اللہ کی عظمت سے ناآشنا ہو وہی سب سے بڑا جاہل ہے خواہ کتنے ہی کالجوں اور مدرسوں میں پھر ہو ، جسے معرفت باری تعالیٰ جیسی دولت نصیب ہو بھلا وہ احکام الٰہی میں مذاق کی جرات کرسکتا ہے ہرگز نہیں کہ وہ عالم ہے اسے وہ شے حاصل ہے جو تحصیل علم کا مقصد ہے اور انبیاء کی ذوات مقدسہ اس بات کے لئے تو مثالی ذوات ہوا کرتی ہیں ویسے بھی ایسا مذاق جس میں کسی کا تمسخر اڑانا مقصود ہو یا جھوٹ پر مبنی ہو شرعاً جاگز نہیں۔ ہاں بات سچی ہو اور کی توہین مقصود نہ ہو بلکہ محض خوش طبعی ہو تو بےتکلیف احباب میں ایسا کرنا ہرج کا باعث نہیں۔ مگر یہ معاملہ احکام الٰہی سے تو نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے اسے مذاق کیوں جانا۔ اس لئے کہ ان کے خیال میں قتل کی تفتیش کے لئے بیل یا گائے کو ذبح کرنا کچھ بےجوڑ سی بات ہے بھلا اس سے کیا مقصد حاصل ہوگا۔ دنیا عالم اسباب ہے یہ اللہ کی سنت ہے کہ ہر کام کو کسی نہ کسی سبب سے متعلق فرمادیا ہے اور اس کے مصلحت یا حکمت سے وہ خود ہی آگاہ ہے جو امور ہمارے روز مرہ کے مشاہدے میں آتے ہیں۔ ہم ان کے عادی ہو کر انہیں ایک عام سی بات کا درجہ دیتے ہیں۔ ورنہ یہ کیا تک ہے گندم حاصل کرنے کے لئے جو چند دانے گھر میں رکھے ہیں انہیں بھی مٹی میں دبادو۔ مگر ہمارا تجربہ کہ اس سے فصل پیدا ہو کر بالیاں لگیں گی اور دانوں سے بھر جائیں گی ، ہمیں اس پر حیران نہیں ہونے دیتا ورنہ تو اس عالم کی ہر شے قدرت باری پہ ایک بہت بڑی دلیل ہے سو اسی طرح اللہ انہیں روز مرہ کے دلائل کے علاوہ اپنی قدرت کی ایک اور دلیل دکھانا چاہتا تھا۔ نیز اس میں مزید کس قدر حکمتیں تھیں یہ بھی اللہ ہی جانے تو انبیاء (علیہم السلام) کے احکام کی تعمیل ضروری ہے اور جو نتائج انہوں نے ان امور پہ بیان فرمائے وہ ضرور مرتب ہوتے ہیں خواہ ان کی درمیانی کڑی ہم جان سکیں یا نہ ، جیسے آج کل یہ اعتراض کہ عید قربان پہ کس قدر جانور ذبح کردیئے جاتے ہیں ، اور سب گوشت ، کھالیں ضائع ہوتی ہیں اگر یہ رقم جمع کرکے فلاحی کاموں پر لگائی جاتی تو کس قدر خوب ہوتا۔ یا یہ اعتراض کہ اربوں روپے حج پر جانے میں ضائع ہوتے ہیں ان سے ہر سال کئی یونیورسٹیاں قائم ہوسکتی تھیں۔ یہ وہی اسرائیلی ذہن ہے ورنہ مقصد اتباع نبوی ﷺ ہے اور ایک معمولی گائے یا دنبہ ذبح کرکے ان برکات میں اپنی حیثیت کے مطابق حصہ دار بن جانا جو حضرت سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کو ذبیح اللہ کی گردن پر چھری رکھ کر حاصل ہوتی تھیں کس قدر عظیم بات ہے اور اللہ کا کتنا احسان ہے۔ اپنے اندر اخلاق ابراہیمی کی جھلک پیدا کرنا ہی کتنا کمال ہے یا ارکان حج اداکرکے ان مخصوص تجلیات باری کو اخذ کرنا جو اس کے بغیر ممکن ہی نہیں ، کس قدر عظمت کا حامل ہے جس ہستی نے یہ ارکان بجا لانے کا حکم نوع انسانی تک پہنچایا ہے کیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی تعمیر سیرت کرسکتا ہے تاریخ انسانی میں کوئی ایسا ہے ہرگز نہیں اور یہ اپنے آپ کو مہذب لکھنے والے جانور یونیورسٹیوں اور کالجوں میں انسانی بچوں کو جانوروں جیسی عادات سکھا کر ارکان دین پر طنز کرتے ہیں۔ ذرا اس معاشرے کو اپنے معاشرے کے مقابل رکھ کر دیکھو ، انسانیت کس طرف ہے اور نوع انسانی کی فلاح کس بات میں ہے ، یقینا تم پر اتباع نبوت کی عظمت عیاں ہوجائے گی اور تم سمجھ سکو گے کہ کالج اور یونیورسٹی بھی وہی مفید ہے جو اتباع نبوت سکھائے ورنہ سب بوچڑ خانے ہیں جہاں انسانیت کی کھال اتاری جاتی ہے پھر اتباع نبوت نبی پر مکمل اعتماد کا نام ہے ، یہ لگے ہیں بیخ نکالنے ، جی بھلا وہ کیسے گائے ہے ؟ فرمایا نہ بچھڑی ہے نہ بوڑھی ، ان باتوں میں نہ پڑو ، میاں اللہ نے حکم دیا ہے کہ گزرو اور دیکھو کیا ہوتا ہے۔ مگر جناب پھر بولے جی۔ یہ تو فرما دیجیے اپنے رب سے سوال کیجیے کہ اس کا رنگ کیسا ہے ؟ فرمایا اللہ فرماتا ہے زرد رنگ کی مزیدار اور چمک رکھنے والی ہے دیکھ کے جی خوش ہوتا ہے۔ اب پھر بولے ایسی بھی کئی گائیں ہیں ذرا اپنے رب سے عرض کریں مجال ہے جو ہمارا رب کہیں موسیٰ تیرا رب ہر بار یہی کہتے تھے۔ سو عرض کریں کچھ اور نشاندہی بھی ہوجائے۔ ہم اللہ نے چاہا تو اب کے ضرور پالیں گے۔ حدیث شریف میں وارد ہے کہ اس بار انشاء اللہ نہ کہتے تو بات تک نہ پہنچ پاتے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا حکم ہوا ہے وہ گائے نہ ہل میں جوتی گئی نہ اس نے کھیتی سیراب کی نہ اس کے جسم پر کوئی داغ ہے کسی طرح کی محنت و مشقت کایا مار پیٹ کا ، کہنے لگے اب بات بنی اب آپ ٹھیک سمجھا سکے ہیں اور پھر ایک گائے خرید کر خواہی نخواہی ذبح کر ہی دی۔ یہاں اللہ کریم اپنا احسان ارشاد فرما رہے ہیں کہ تمہارے اجداد کیسے تھے اور کس قدر کم ہمت تھے اطاعت کے ساتھ میں مگر ہمارا کلام دیکھو کہ پھر بھی ان کی قربانی قبول فرمائی اور اس پر جو نتیجہ مرتب ہونا چاہیے تھا وہ مرتب فرمایا ورنہ ان کی طرف سے اس قدر کوتاہیاں ہوئی تھیں کہ اس پر کچھ بھی مرتب نہ ہوتا اور وہ ضائع ہوجاتی۔ مگر انہیں صرف سنادی سختی دیکھنا پڑی کہ جس قدر سوال کرتے گئے وہ بڑھتی چلی گئیں اگر شروع میں کوئی گائے ذبح کردیتے تو وہی کام دے جاتی۔ شیخ کے ساتھ جرح نہ کرے : مگرجوں جوں سوال کرتے گئے حلیہ مقرر ہوتا گیا لہٰذا اگر شیخ حکم دے تو اس میں مزید سوال کرکے اپنے لئے مشقت پیدا نہ کرے جیسے کسی کو وظیفہ بتایا جائے کہ درود شریف کی اتنی تسبیحات پڑھ لیا کرو تو جو نسا درود شریف بھی پڑھ لے گا ٹھیک ہے لیکن اگر پوچھ بیٹھا کہ جی کونسا ؟ تو وہی پڑھنا ضروری ہوگا جو شیخ مقرر کردے یہی حال تعین وقت کا ہے ورنہ مقصدپورا نہ ہوگا۔ یہاں مفسرین نے ایک اور عجیب واقعہ نقل فرمایا ہے کہ کوئی نیک شخص فوت ہوا تو اس کے پاس ایک بچھڑی تھی جو اس نے جنگل میں ہانک دی اور دعا کی اللہ ! یہ تیرے سپرد ہے میرے بیٹے کی گزر اوقات کا سبب اسے بنادے۔ تو وہ خوب پلی بڑھی جوں جوں یہ سوال کرتے گئے اللہ کریم اس کا حلیہ بیان فرماتے رہے اب اس جیسی کوئی دوسری مل نہ سکتی تھی۔ ادھر اس کے دل میں ڈال دیا کہ ان سے خوب قیمت وصول کرو ، چناچہ بعض کے نزدیک اس کی کھال میں اشرفیاں بھر کر انہیں دینا پڑیں یہ اپنی طرف سے بہت عقلمند بن رہے تھے اور میں میخ نکال رہے تھے مگر ان کی عقلمندی کا فائدہ اللہ تعالیٰ ان کو پہنچانا چاہتا تھا جو محض اس کے بھروسے پر بیٹھے تھے۔ لہٰذا نہ احکام شریعت پہ اعتراض درست نہ اتباع شیخ میں حیل وحجت کی ضرورت۔ اس سے دنیاوی مصائب تو ضروری وارد ہوتے ہیں اور ایمان کا خطرہ مزید ہے۔ یہاں دیوانگی کی قیمت ہے اور فریفتہ ہونے کا نام عقل ہے۔ سوچ بچار کو یہاں مصیبت کہتے ہیں۔
Top