Asrar-ut-Tanzil - Al-Baqara : 7
خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ وَ عَلٰى سَمْعِهِمْ١ؕ وَ عَلٰۤى اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ١٘ وَّ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۠   ۧ
خَتَمَ اللَّهُ : اللہ نے مہرلگادی عَلَىٰ : پر قُلُوبِهِمْ : ان کے دل وَعَلَىٰ : اور پر سَمْعِهِمْ : ان کے کان وَعَلَىٰ : اور پر أَبْصَارِهِمْ : ان کی آنکھیں غِشَاوَةٌ : پردہ وَلَهُمْ : اور ان کے لئے عَذَابٌ عَظِيمٌ : بڑا عذاب
اللہ نے ان کے دلوں پر مہر کردی ہے اور ان کے کانوں پر (بھی) اور ان کی آنکھوں پر پردہ (پڑا ہوا) ہے اور ان کے لئے بڑا عذاب (تیار) ہے
ختم اللہ علی قلوبھم وعلی سمعھم وعلی ابصارھم غشاوۃ ولھم عذاب عظیم۔ ان کے دلوں پر اللہ نے مہر کردی ہے کانوں پر بھی اور ساتھ ہی آنکھوں پر بھی پردہ ڈال دیا ہے اور ان کے لئے بہت بڑا عذاب ہے ہم دل کو ایک پمپنگ مشین سمجھتے تھے مگر یہ تو بری شے نکلا۔ ذرا سوچیں تو دماغ کیا ہے ؟ رگوں کا ایک مجموعہ ۔ مگر اس میں کیا کچھ خزانے دفن ہیں اور کس قدر علوم کو سیکھنے کی قوت ہے کس قدر یاداشتیں اور کتنی وسعت ہے اپنے سارے کمال کے باوجود خطاب الٰہی کا سزاوار نہ ٹھہرا مگر یہ نعمت دل کے حصے میں آئی فرمایا ، نزل بہ الروح الامین علی قلبک یعنی کلام الٰہی کا نزول قلب پر ہوا گویا قلب کی استعداد اس سے کروڑوں گنازیادہ نکلی اس کی دست ناپیدا کنار اور عظمت ناپ کے پیمانوں سے بالا تر نکلی نہ صرف لوتھڑا نہیں اور نہ صرف مشین ہے بلکہ ایک وسیع کائنات ہے ایک مکمل جہان ہے۔ انبیاء کرام (علیہم السلام) کے قلوب فیضان باری کو قبول کرتے اور تقسیم کرتے ہیں اور مومنین کے قلوب ان سے انوار کو اخذ کرتے ہیں۔ مگر کفر ایسی بلا ہے جو قلوب سے استعداد چین لیتی ہے جیسے خود کشی کرنے والا جب اپنے آپ کو گولی مارتا ہے تو موت تو اسے اللہ ہی دیتا ہے مگر اس کا سبب وہ خود بنا۔ اسی طرح ایک غلط کار انسان کی مسلسل غلط کاری دل کی موت کا سبب بن جاتی ہے اور اللہ اس کے دل پر مہر کردیتا ہے جس کا سبب اس کا اپنا کردار ہوتا ہے۔ حدیث شریف میں وارد ہے کہ جب بندہ گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر سیاہ نقطہ پیدا ہوجاتا ہے اگر توبہ کرے تو خیر ورنہ ہر گناہ سے سیاہی بڑھتی رہتی ہے جو آخر کار سارے دل کو سیاہ کردیتی ہے اسی کا دل کا اندھا پن اور دل کی موت کہا گیا ہے اگر انسان جسمانی زندگی سے زندہ بھی رہا تو کیا ہوا ؟ بیشمار جانور یہ زندگی گزار رہے ہیں اس کی اصل فضیلت تو اس کی روحانی زندگی تھی جسے اس کی نادانی نے کھو دیا۔ یہاں ایک لطیفہ اور بھی ہے اور وہ یہ کہ خالق اور مخلوق خدا کے درمیان ایک تعلق ایسا لطیف تر ہے جو ان کا ذاتی ہے اور بجز ذات باری کوئی نہیں جانتا۔ حتیٰ کہ نبی کریم ﷺ کو بھی تب اطلاع ہوئی جب اللہ نے بتایا کہ ان افراد یا اس قسم کے افراد کے ساتھ میرا تعلق اس حد تک گزر چکا ہے کہ اب ان کو تو بہ نصیب نہ ہوگی تو یہ تعلق چونکہ ہر انسان کا علیحدہ ہے اس لئے ہر آدمی پر نزول رحمت بھی الگ طرح سے ہوتا ہے۔ اجتماعی ذکر کی حکمت : یہی وجہ ہے کہ مشائخ اجتماعی ذکر کی تلقین فرماتے ہیں کہ ایک شخص پر ایک رنگ کی رحمت ہوگی تو دوسرے پر دوسری طرح کے انوار ، لہٰذا کافی لوگ ہوئے تو انوار بھی رنگارنگ ہوں گے گویا ایک گلدستہ بن رہا ہے اور یہ راز صلوٰۃ باجماعت میں بھی ہے۔ یہ سب انعامات دل کی دنیا میں ہیں جنہوں نے یہ دولت ہی ضائع کردی ایا اس طرف متوجہ ہی نہ ہوئے ان کو اس وقت خبر ہوگی جب مادی جہان اور اس کی نعمتیں نہ رہیں گی اور صرف وہ انعامات باقی ہوں گے جن کا مدار دل کی زندگی ، روح کی زندگی اور اس کی استعداد پر ہے۔ دماغ اور زبان کا اقرار عنداللہ اس وقت تک معتبر نہیں جب تک تصدیق قلبی ساتھ نہ ہو تو گویا جس طرح جسم مادی دنیا میں پیدا ہوتا ہے۔ پیغام الٰہی کی تصدیق کرکے دل بھی زندگی کے میدان میں وارد ہوا مگر اس کے بعد لوگ صرف جسم کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں اور یہ نومولود قلب سسکتا بلکتارہ جاتا ہے اور بالآخر چند ہچکیاں لے کر موت کی اٹھاہ گہرائیوں میں ڈوب جاتا ہے کیا آپ نہیں دیکھتے کہ لوگ مسلمان گھرانوں میں جنم لینے کے بعد کس کس طرح کفر کی دلدل میں پھنس رہے ہیں۔ اعضا ظاہری کی سلامتی کے ساتھ بےچارے دل اور اس کے سمع بصر کو کھو بیٹھے۔ اعاذن اللہ منھا۔
Top