Asrar-ut-Tanzil - Al-Anbiyaa : 11
وَ كَمْ قَصَمْنَا مِنْ قَرْیَةٍ كَانَتْ ظَالِمَةً وَّ اَنْشَاْنَا بَعْدَهَا قَوْمًا اٰخَرِیْنَ
وَكَمْ قَصَمْنَا : اور ہم نے کتنی ہلاک کردیں مِنْ : سے قَرْيَةٍ : بستیاں كَانَتْ : وہ تھیں ظَالِمَةً : ظالم وَّاَنْشَاْنَا : اور پیدا کیے ہم نے بَعْدَهَا : ان کے بعد قَوْمًا : گروہ۔ لوگ اٰخَرِيْنَ : دوسرے
اور ہم نے بہت سی بستیوں کو جو ظالم تھیں ہلاک کردیا اور ہم نے ان کے بعد دوسری قوم پیدا فرمادی
(رکوع نمبر 2) اسرارومعارف اور کتنی بستیاں تھیں جو ان سے پہلے ایسے ہی افعال پر اور ان جیسے کردار کے باعث تباہ کردی گئیں اور معمورہ عالم آباد بھی رہا ان کی جگہ اور پیدا کردیے ان ظالموں نے بھی عذاب کو واقع ہوتے دیکھا تب یقین آیا اور لگے بھاگ بھاگ کر جان بچانے مگر اللہ جل جلالہ کی گرفت سے کون بھاگ سکتا ہے بلکہ ارشاد ہوتا ہے مت بھاگو اپنے مکان اور عیش و عشرت کو کیوں چھوڑتے ہو آج اپنے ہمدرد تلاش کرو مگر وہ کہتے تھے کہ ہماری بدبختی کہ ہم نے ظلم کا راستہ اختیار کیا اور یونہی شور مچاتے رہے کہ عذاب الہی نے پیس کر رکھ دیا جیسے کٹے ہوئے کھیت ہوں یا بجھی ہوئی آگ ، بعض مفسرین کرام نے یمن کی بستیاں مراد لی ہیں مگر کتاب اللہ میں عمومی طور پر فرمایا گیا ہے ، لہذا روئے زمین پر جگہ جگہ ایسے ویرانوں کے نشان عبرت کا سامان بنے ہوئے ہیں ۔ یہ زمین وآسمان اور اس کا اس قدر خوبصورت اور صحیح ترین نظام ہم نے محض کھیل تماشے کو تو پیدا نہیں کردیا اگر مشغلہ ہی بنانا ہوتا تو اپنی شان کے لائق بناتے خالق ازلی وابدی کو بھلا فانی اور عاجز مخلوق سے کیا مشغلہ بلکہ یہ اتنا بڑا نظام اس میں زندگی اور موت ہر ایک کا رزق اور موت ہر ایک کا رزق رنگا رنگ پھول اور طرح طرح کے میوے ، سورج چاند ستارے اور رات دن کی آمد ورفت ، موسموں کا آنا جانا اور پھر ہر شے میں ایک خوبصورت نسبت اور متعین اندازہ اس کی عظمت شان پر دلالت کرتا ہے اور یہ سب اس کی معرفت اور پہچان کا ذریعہ ہیں بلکہ انھیں باطل پہ اکڑنا بھی نہ چاہیے کہ ہر شے کی ایک حد ہے باطل بھی جب بڑھنے لگتا ہے تو اس کے مقابل حق کو کھڑا کردیا جاتا ہے عبادت کرنے والے ہیں کبھی اس کی بارہ گاہ میں سر نہیں اٹھاتے اور نہ اطاعت سے نکلتے ہیں شب وروز اللہ جل جلالہ کی اطاعت پر کمر بستہ ہیں کبھی سستی تک نہیں کرتے اگر اس کی اولاد ہوتی تو وہ بھی اس جیسی صفات کی مالک ہوتی یعنی عبادت کی مستحق نہ کہ عبادت کرنے والی یا جن کو زمین پر سے انسانوں یا جنوں یا بتوں کو معبود مانتے ہیں کیا وہ کسی کو زندگی دے سکتے ہیں ہرگز نہیں تو پھر وہ کس بات پر انہوں نے معبود بنا رکھے ہیں کیا اتنا بھی نہیں سوچتے کہ اگر ایک کی جگہ دو معبود بھی ہوتے تو یہ نظام چل نہ پاتا بلکہ تباہ ہوچکا ہوتا کہ ایک کچھ کرتا اور دوسرا کچھ اور مگر ہر شے اس سلیقے سے اپنا اپنا کام اپنے اپنے وقت پر کر رہی کہ پتہ دیتی ہے یہ کسی ایک ہستی کے سب غلام ہیں ، اللہ جل جلالہ ان کی سب خرافات سے پاک ہے اور عرش کا مالک ہے کہ عرش تمام نظام عالم کا ایک مرکز اور سیکرٹریٹ ہے جس کا وہ اکیلاحاکم ہے گویا سب نظام اسی ایک ذات کے حکم کے تابع ہے ۔ وہ حاکم مطلق ہے جو چاہے کرے کوئی اس سے پرسش نہیں کرسکتا اور باقی ساری مخلوق اس کے حضور جوابدہ ہے لہذا ساری مخلوق اس کی فرمانبردار ہے جو کوتاہی کرے گا اسے جوابدہی کا سامنا کرنا پڑے گا اگر یہ اس کے علاوہ کسی اور کو معبود تسلیم کرتے ہیں تو ان سے کہیے اس بات پر کوئی دلیل پیش کریں کہ آپ تو دلائل پیش کر رہے ہیں ، پھر کیا یہ دلیل کم ہے کہ آپ کے پاس اللہ جل جلالہ کی کتاب ہے اور ان سے کہیے کہ یہ کتاب بھی اور جس قدر کتب اس سے پہلے نازل ہوئیں سب کو دیکھ لیں سب اللہ ہی کو معبود برحق منوانے پر دلائل دے رہی ہیں مگر ان کی مصیبت جہالت بھی ہے کہ ان کی اکثریت حق بات کو تو سمجھتے نہیں اور محض منہ پھیر کر چل دیتے ہیں ورنہ تمام انبیاء کرام ﷺ کی مقدس جماعت ہی اعلان کرتی رہی اور ہم نے سب پر یہی وحی نازل فرمائی کہ میرے علاوہ کوئی عبادت کا حق نہیں رکھتا لہذا صرف اور صرف میری عبادت کرو مگر کفار کہتے رہے کہ فلاں اللہ جل جلالہ کا بیٹا ہے جیسے یہود نے عزیر (علیہ السلام) کو اور عیسائیوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ جل جلالہ کا بیٹا قرار دیا اللہ جل جلالہ ان باتوں سے پاک ہے اور بہت بلند ہے بلکہ یہ سب اللہ جل جلالہ کے مقرب اور معزز بندے ہیں ۔ (عبادت میں خلوص ہو تو اللہ جل جلالہ کی خشیت پیدا کرتی ہے اور بندہ عبادت پہ اکڑتا نہیں) فرشتے ہوں یا نبی سب اس کی مخلوق ہیں جو کبھی اس کی اطاعت اور عبادت سے سرتابی نہیں کرتے بلکہ ہمیشہ تعمیل ارشاد پہ کمر بستہ رہتے ہیں اللہ جل جلالہ تو سب کے اگلے پچھلے تمام احوال سے واقف ہے وہ تو سفارش بھی صرف ان لوگوں کی کریں گے جن کی سفارش کرنے کی اللہ جل جلالہ نے اجازت دی ہے یعنی مومنین کی یہ کفار تو ان کی شفاعت سے بھی محروم رہیں گے اور اپنی تمام تر پارسائی اور عبادت گذاری کے باوجود اللہ جل جلالہ سے ڈرتے رہتے ہیں اور اس کی بلند شان کے سامنے لرزاں وترساں رہتے ہیں یعنی بغیر اجازت بڑھ کر بات کرنے کی بھی نہیں سوچتے اور اگر انتہائی مقرب بندوں میں سے بھی بفرض محال کوئی کہہ دے کہ میں عبادت کا مستحق ہوں میری عبادت کی جائے تو اسے جہنم کی سزا دی جائیگی کہ اللہ کی قدرت سے وہ بھی بالاتر نہیں ہے اور ہر ظالم کو ایسے ہی سزا دی جاتی ہے یعنی ان مقدس ہستیوں سے ایسی بات کا کوئی تصور بھی نہیں لیکن اگر وہ بھی ایسا کریں تو گرفت میں آجائیں گے چہ جائیکہ کفار غیر اللہ کی عبادت پہ لگے ہوئے ہیں جو بہت بڑا ظلم ہے ۔
Top