Asrar-ut-Tanzil - Al-Anbiyaa : 42
قُلْ مَنْ یَّكْلَؤُكُمْ بِالَّیْلِ وَ النَّهَارِ مِنَ الرَّحْمٰنِ١ؕ بَلْ هُمْ عَنْ ذِكْرِ رَبِّهِمْ مُّعْرِضُوْنَ
قُلْ : فرما دیں مَنْ : کون يَّكْلَؤُكُمْ : تمہاری نگہبانی کرتا ہے بِالَّيْلِ : رات میں وَالنَّهَارِ : اور دن مِنَ الرَّحْمٰنِ : رحمن سے بَلْ هُمْ : بلکہ وہ عَنْ ذِكْرِ : یاد سے رَبِّهِمْ : اپنا رب مُّعْرِضُوْنَ : روگردانی کرتے ہیں
فرما دیجئے کہ کون ہے جو رات اور دن رحمن (کے عذاب) سے تمہاری حفاظت فرماتا ہے بلکہ یہ لوگ اپنے پروردگار کے ذکر سے منہ پھیرے ہوئے ہیں
(رکوع نمبر 4) اسرارومعارف ان سے فرمادیجیے کہ انہیں اللہ کے عذاب سے کوئی بھی نہیں بچا سکتا اور نہ ہی شب روز کوئی ان کی نگہبانی کر رہا ہے یہ تو صرف اللہ جل جلالہ کی رحمانیت ہے جس کے صدقے یہ دنیا کی نعمتیں حاصل کر رہے ہیں حالانکہ یہ اس کی یاد تک سے منہ پھیرے ہوئے ہیں ۔ (رحمانیت) پہلے گذر چکا ہے کہ رحمانیت وہ کیفیت ہے جو دار دنیا میں انسانوں کو وجود ، عمریں ، رزق وغیرہ عطا کرتی ہے اسی لیے باقی مخلوق میں سے کوئی ذکر سے غافل ہو تو اس کی موت واقع ہوجاتی ہے مگر انسان جب تک فرصت دیا گیا ہے ظاہری بدن سے ضرور زندہ رہتا ہے اگرچہ اندر سے یہ بھی مردہ ہی ہوجاتا ہے کہ روح کی حیات کی بنیاد تو ایمان ہے مگر یہ بھی صرف دنیا میں کہ موت اور بعد موت رحیمیت کا اظہار ہوگا اسی لیے فرمایا گیا کہ ” رحمن لدنیا ورحیم لا اخرۃ “۔ تو دنیا میں اگر انہیں کچھ فرصت نصیب ہے تو یہ ان کے بتوں کا کمال ہرگز نہیں کیا وہ انہیں اللہ جل جلالہ کی گرفت سے بچا سکتے ہیں جو خود اپنی ذات کی حفاظت تک نہیں کرسکتے کوئی انہیں توڑنا چاہے تو اس کا ہاتھ نہیں روک سکتے ، ان کے علاوہ بھی کوئی ایسا راستہ نہیں کہ اللہ جل جلالہ کے مقابلہ میں کوئی ان کی مدد یا حفاظت کرسکے ، یہ تو ہماری عطا ہے اور رحمانیت باری کا کرشمہ کہ ان کو اور ان کے آباء و اجداد کو دنیا بھر کی نعمتیں دیں اور مدتوں اور نسل درنسل اس پر موج کرتے رہے اور اللہ جل جلالہ کا شکر تک ادا نہ کیا ، اس کا نام تک نہ لیا مگر کب تک کیا اب انہیں نظر نہیں آرہا کہ ہر طرف سے فتوحات اسلامی گھٹاوں کی طرف امڈی چلی آ رہی ہے اور کفر کے لیے زمین تنگ ہو رہی ہے کیا یہ ابھی تک اس گمان میں ہیں کہ یہ غالب آجائیں گے ؟ (مسلمان اور تسخیر کائنات) مذکورہ بالا آیہ مبارکہ میں آخرت کے عذاب سے پہلے کافر کو اللہ جل جلالہ نے مومن کی گرفت کی خبر دی ہے اور اس حال میں جب مسلمانوں کے پاس صرف اللہ جل جلالہ کا نام تھا اور سارے وسائل کفار کے پاس تھے دولت ، سلطنت ، اسلحہ اور افرادی قوت سب کافروں کے پاس تھی مگر اللہ جل جلالہ نے فرمایا کہ مومن فوجیں اللہ جل جلالہ کے حکم سے تم پر زمین تنگ کرتی آرہی ہیں اور مومن پر ہر حال میں اور ہر زمانے میں جب تک دنیا پر کفر ہے جہاد فرض کردیا اور واقعی کفر کے لیے زمین تنگ ہوگئی مگر آج خود مسلمان اسلام سے دور اور کافر کی پیروی میں کھو گیا اور ذلت سے دوچار ہے آج جبکہ بیشتر وسائل مسلمان کے پاس ہیں پھر بھی کفر سے مار کھا رہا ہے اللہ جل جلالہ مسلمانوں کو ہدایت پر جمع فرمائے ، آمین !۔ انہیں فرمایئے کہ میری اطلاع محض ایک بندے کی بندے سے بات نہیں بلکہ میں جو کفر اور نافرمانی کے نتائج بد کی خبر دے رہا ہوں تو یاد رکھو یہ اللہ جل جلالہ کی طرف سے مجھے وحی کی جاتی ہے جس کی صداقت میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں ، ہاں کفر نے تمہارے کان سخت بہرے کردیے ہیں کہ تم اپنے بھلے کی اور خود کو ایک بڑی مصیبت سے بچانے کی بات بھی نہیں سن پا رہے ، جب قوت سماعت ہی سے کوئی محروم ہوگا تو کیا خاک سنے گا مگر یہ یقینی بات ہے کہ عذاب الہی سمجھ کی سب کھڑکیاں کھول دے گا انہیں اگر ابھی ذرہ برابر عذاب آخرت پہنچ جائے تو پکار اٹھیں گے کہ کاش ہم نے کفر سے توبہ کرلی ہوتی ۔ اللہ جل جلالہ سے دوری اختیار کرکے ہم نے بہت بڑا ظلم کیا مگر یہ تب پتہ چلے گا جب ہم انصاف کا ترازو رکھیں گے کہ روز قیامت ہر شخص کے نیک وبداعمال کو ایسے کھرے طریقے سے تولا جائے گا کہ کسی پر کوئی زیادتی نہ ہوگی حتی کہ اگر کسی کا بہت معمولی عمل رائی کے دانہ کے برابر بھی ہوگا تو بھی حاضر کیا جائے گا کسی کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی ضائع نہ ہوگا اور بھلا ہم جیسا حساب کرنے والا کون ہو سکتا ہے لہذا ایسا حساب کریں گے کہ پھر کبھی حساب کرنے کی ضرورت باقی نہ رہے گی ۔ آپ نے کوئی بھی نئی بات نہیں کی بلکہ جن انبیاء کرام (علیہ السلام) کو ماننے کا دعوی یہ بھی رکھتے ہیں جیسے موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) تو ان کو بھی ہم نے جو کتاب عطا کی تھی وہ حق و باطل میں فیصلہ کرنے والی تھی اور دلوں کا نور تھی نیز نصیحت اور اللہ کا ذکر اس کی یاد اس کے قرب کا سبب تھی یہی سب حقائق انھوں نے بھی بتائے جن سے یہ بدبخت منہ پھیر رہے ہیں ، اس لیے ایمان تو غائبانہ مطلوب ہے بھلا عذاب اور جہنم کو دیکھ کر کون انکار کرسکے گا یہاں تو نبی کی صداقت کتاب کی عظمت اور اللہ جل جلالہ کی قدرت اور اس کے مظاہر ایسے دلائل ہیں کہ بغیر دیکھے آخرت ، عذاب وثواب اور انبیاء کرام ﷺ کی تعلیم پر ایمان لانے کیلئے کافی ہیں جسے یہ ایمان نصیب ہوجائے اور قیامت کے حساب وکتاب کی فکر کرنے لگے اس کے لیے کتب الہی میں نور قلبی کے خزانے بھرے ہیں ، اب یہی کتاب دیکھیں کہ کس قدر تجلیات باری اور انوار الہی کا خزانہ ہے جو اب ہم نے نازل فرمائی ہے یعنی قرآن حکیم ، اس کا اللہ جل جلالہ کی طرف سے نازل ہونا کس قدر ظاہر ہے اور ثابت مگر تم تو اس کا بھی انکار ہی کرو گے ۔
Top