Asrar-ut-Tanzil - Al-Anbiyaa : 51
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَاۤ اِبْرٰهِیْمَ رُشْدَهٗ مِنْ قَبْلُ وَ كُنَّا بِهٖ عٰلِمِیْنَۚ
وَ : اور لَقَدْ اٰتَيْنَآ : تحقیق البتہ ہم نے دی اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم رُشْدَهٗ : ہدایت یابی (فہم سلیم) مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل وَكُنَّا : اور ہم تھے بِهٖ : اس کے عٰلِمِيْنَ : جاننے والے
اور یقینا ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو اس (زمانہ موسوی) سے پہلے (ان کی شان کے مطابق) ہدایت دی تھی اور ہم ان (کے حال) سے واقف تھے
(رکوع نمبر 5) اسرارومعارف کس قدر واضح دلائل کے باوجود کفار انکار ہی کرتے چلے جاتے ہیں اس لیے کہ کفر ان کے قلوب سے ایمان قبول کرنے کی استطاعت ختم کردیتا ہے اس کی مثال حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے واقعہ میں دیکھیے کہ ہم نے بہت پہلے ابراہیم (علیہ السلام) کو نیکی اور بھلائی کی سمجھ ان کی شان کے مطابق عطا کی اور ان کے کمالات علمی اور عملی کے ہم خود گواہ ہیں اور کفار کو انہوں نے بہت دلائل سے سمجھانے کی کوشش کی ، جب انہوں نے خود اپنے باپ اور قوم کو بتوں کی عبادت میں گرفتار دیکھا تو فرمایا کہ عجیب بات ہے کہ اتنی بہادر قوم ایک بہت بڑی اور طاقتور سلطنت کی مالک پتھر کی مورتوں کے سامنے سرنگوں ہے اور ان کی عبادت کر رہی ہے اور ان سے مدد کی طالب ہے تو انھوں نے جواب دیا بات ایسی نہیں بلکہ ہمارے بڑے جو تھے وہ بہت عقلمند اور تجربہ کار لوگ بھی تھے اور بہادر بھی تھے کہ سلطنت کے بانی تھے ہم نے ان کو دیکھا کہ وہ ان بتوں کو پوجتے تھے ، اگر ہمیں اس کی دلیل نہ بھی آئے تو ان کا ایسا کرنا ہی ہمارے لیے دلیل ہے ، آپ نے فرمایا کہ جس طرح تم غلطی پر ہو ایسے ہی تمہارے بڑوں سے بھی سخت بھول ہوئی ، بھلا یہ پتھر جنہیں تم خود تراش کر بناتے ہو کس طرح تمہارے معبود بن سکتے ہیں تو کہنے لگے کیا تمہاری بات واقعی سچی ہے اور آپ کے پاس دلیل ہے یا محض دل لگی کر رہے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ جس طرح تم غلطی پر ہو ایسے ہی تمہارے بڑوں سے بھی سخت بھول ہوئی ، بھلا یہ پتھر جنہیں تم خود تراش کر بناتے ہو کس طرح سے تمہارے معبود بن سکتے ہیں تو کہنے لگے کیا تمہاری بات واقعی سچی ہے اور آپ کے پاس دلیل ہے یا محض دل لگی کر رہے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ تمہاری ضرورتیں یہ پتھر پوری نہیں کرسکتے بلکہ تمہاری حاجات پوری کرنے والا یعنی تمہارا رب وہ ہے جو اس ساری کائنات کا رب ہے ، اس سارے نظام کا خالق بھی ہے اور اسے قائم رکھے ہوئے بھی ہے اور اس حقیقت کا سب سے بڑا گواہ میں ہوں ، اس اظہار میں دعوت بھی موجود ہے کہ جو نور قلبی اس حقیقت کو جاننے کا باعث ہے وہ مجھے تو نصیب ہے ، اگر تم بھی چاہتے ہو تو آؤ میری بات مانو کہ میں تمہارے قلوب بھی روشن کر دوں اور یہ حقیقت تم پر بھی آشکارا ہوجائے کیونکہ انھوں نے تو اپنے لیے دلیل چاہی تھی ۔ (دعوت) اب رہے یہ بت تو اللہ جل جلالہ کی قسم میں ان کی خبر لوں گا کہ ان کا عجز بالکل واضح ہوجائے مگر ذرا تم لوگ یہاں سے ہٹو تو یعنی جب تم موجود نہ ہو گے تو میں ان سے دو دو ہاتھ ضرور کروں گا ۔ چناچہ موقع پاکر آپ نے تمام بتوں کو توڑ پھوڑ دیا ، سب کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے اور ایک سب سے بڑے کو چھوڑ دیا بلکہ حدیث شریف میں ہے کہ جس کلہاڑے سے بتوں کو توڑا وہ اس بڑے بت کے کندھے پر رکھ دیا یا اسے تھما دیا جیسے اس نے یہ سب کیا ہو مقصد یہ تھا کہ آخر وہ سب انہی کی طرف متوجہ ہوں گے اور انہی سے پوچھیں گے تو انھیں بتوں کا عاجز ہونا سمجھایا جاسکے گا ، چناچہ وہی ہوا جب لوگ بت خانے آئے اور تباہی دیکھی تو حیرت زدہ رہ گئے بھلا ایسا ظلم کون کرسکتا ہے کہ ہم جن کی عبادت اور پوجا کرتے ہیں انھیں مٹی میں ملا دیا گیا ہے تو کچھ لوگوں نے کہا ابراہیم نام کا ایک نوجوان ہے جو بتوں کے خلاف بات کرتا ہے اور تو ساری قوم ان کی عبادت ہی کرتی ہے بھلا ایسا کیوں کرے گی تو کہنے لگے پھر ابراہیم (علیہ السلام) کو لوگوں کے روبرو لایا جائے تاکہ سرمیدان بات صاف ہوجائے اور سب کو پتہ چل جائے کہ قصور کس کا ہے چناچہ ابراہیم (علیہ السلام) کو بلایا گیا جب کہ قوم کے سردار اور فیصلہ دینے والے لوگ بھی تھے اور عوام بھی سننے کے لیے موجود یہی ابراہیم (علیہ السلام) کا منشا بھی تو ہوگا کہ ایسا کرنے سے ساری قوم جمع ہوگی اور حق بات ثابت کرنے کا موقع ہاتھ آئے گا ، چناچہ انھوں نے پوچھا کہ اے ابراہیم یہ سب ہمارے بتوں کے ساتھ آپ نے کیا ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا بھئی یہ تو لگتا ہے کہ اس بڑے بت کی کارستانی ہے جو سب کو توڑ پھوڑ کر خود کلہاڑا اٹھائے کھڑا ہے تو آپ لوگ خود ان سے بھی پوچھئے تو سہی ، دیکھیں وہ کیا بتاتے ہیں جن پر یہ سب بیتی ہے ۔ (ابراہیم (علیہ السلام) جھوٹ اور تقیہ دونوں سے پاک تھے) اس موضوع پر اکثر بحث کی جاتی ہے اور بخاری شریف میں ایک صحیح حدیث پاک بھی ہے جس میں ارشاد ہے ” ان ابراھیم (علیہ السلام) لم یکذب غیر ثلاث “۔ کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے تین بار خلاف واقعہ بات ارشاد فرمائی جن میں دو باتیں تو خالص اللہ کے لیے تھیں اور تیسری میں انہیں اپنی بیوی کی حفاظت مطلوب تھی ، پہلی بات یہی کہ یہ سب اس بڑے بت کا کیا دھرا ہے اور دوسرا جب قوم سے فرمایا تھا ” انی سقیم “ میں بیمار ہوں اور تیسری بات جب ایک ظالم حاکم سے فرمایا کہ یہ میری بہن ہے تو یہ جھوٹ ہرگز نہ تھا بلکہ ” توریہ “ تھا توریہ ایسی بات کو کہا جاتا ہے جہاں دو معنی پائے جاتے ہوں اور خود کو دوسرے کے شر سے بچانے کے لیے کہنے والا ذو معنی جملہ کہہ دے کہ اس کی مراد ایک معنی ہو اور سننے والا دوسرا سمجھ رہا ہو مگر اس میں جھوٹ نہ ہو اگر جھوٹ ہو تو تقیہ کہلائے گا جو شیعہ فرقے میں ہے اور حرام ہے کہ صاف جھوٹ بولا جاتا ہے اور اسی پر عمل کیا جاتا ہے یہاں آپ کا فرمانا کہ ” یہ کارستانی بڑے بت کی ہے “ سے یہ بھی تو واضح ہے کہ اس کی پوجا کی جاتی تھی اور سب کا محافظ سمجھا جاتا تھا ، دوسرے سارے بت بھی اس کے خادم اور معاون تھے تو آپ نے غیرت اسلامی سے سب توڑ دیئے کہ ذرا ان کی حفاظت تو کر کے دکھائے اور اگر ان ہی کی حفاظت نہیں کرسکتا تو دوسروں کی کیا کرے گا پھر اسے سالم بھی رہنے دیا کلہاڑا بھی تھما دیا کہ پتہ چلے یہ ٹھیک بھی ہے اور سب کچھ اس کے سامنے ہوا ہے ایسے ہی آپ کا فرمان ” میں سقیم ہوں “ سے قوم نے جسمانی طور پر بیمار یا بخار وغیرہ میں مبتلا جانا جب کہ آپ قوم کی بت پرستی اور اس پر اصرار کے باعث سخت مغموم تھے اور سقیم میں دونوں معانی موجود ہیں ، ایسے ہی آپ کا گذر ایک ظالم حکمران پر ہوا جو خوبصورت عورتیں چھین لیتا اور خاوندوں کو قتل کرادیتا تھا ، تو آپ نے فرمایا میری بہن ہے اور حضرت سارہ ؓ سے بھی کہہ دیا کہ میں نے ایسا کہا ہے اور حق یہ ہے ، اس وقت یہاں ہم دونوں ہی مسلمان ہیں اور دینی اعتبار سے تم میری بہن ہی ہو ، اخوت اسلامی کے اعتبار سے یہ حق ہے چناچہ اس طرح وہ آپ کی ایذا سے تو باز رہا مگر حضرت سارہ ؓ کو اس کے پاس حاضر کیا گیا تو ان کی حفاظت اللہ کریم نے کی ، جب برے ارادے سے بڑھتا اندھا ہوجاتا پھر ان کی منت کرتا تو ان کی دعا سے ٹھیک ہوجاتا ایسا تین بار ہوا تو ڈر کر اپنے ارادے سے باز آگیا تو یہ تو ، یہ ہے جھوٹ ہرگز نہیں نہ تقیہ ثابت ہوتا ہے ہاں اتنی معمولی بات کی نسبت جب ایک عظیم رسول کی طرف ہوئی تو اسے کذب یا خلاف واقعہ فرما دیا گیا مگر یہ ارشاد حدیث پاک کا ہے کسی دوسرے کو اپنی طرف سے ایسا کہنے کی اجازت نہیں بلکہ سخت بےادبی ہوگی ، ہاں قرآن حدیث میں جہاں ہوں تلاوت یا روایت کی جاسکتی ہے ۔ (اہل اللہ کے لیے نازل مرحلے) صاحب معارف نے یہاں عجیب نکتہ درج فرمایا ہے کہ حدیث شریف میں پہلی دو باتوں کو تو فی اللہ یعنی اللہ جل جلالہ کے لیے کہا گیا ہے مگر تیسری کو جس میں جان بچانے اور بیوی کی حفاظت مقصود تھی فی اللہ نہیں کہا گیا اگرچہ جان بچانا اور بیوی کی حفاظت بھی اللہ جل جلالہ ہی کی اطاعت تھی مگر یہاں اطاعت الہی کے ساتھ تھوڑا سا حظ نفس بھی تھا جو انبیاء کرام ﷺ کی عظمت شان کے باعث محض للہ فی اللہ کا درجہ نہ پاسکا ، سبحان اللہ کس قدر نازک معاملات ہیں اللہ جل جلالہ ہماری لغزشوں سے در گذر فرمائے آمین ! ۔ چناچہ جب آپ نے فرمایا انہی سے پوچھ لو تو قوم کے سرداروں کے سرجھک گئے سخت شرمندہ ہوئے اور اپنے دل میں سوچ رہے تھے کہ ہم ہی ظالم ہیں جو ایسی غلط روش اپنا رکھی ہے مگر سرجھکائے جھکائے یعنی شرمندگی کے ساتھ بھی کہنے لگے کہ یہ تو آپ بھی جانتے ہیں کہ بت بولا نہیں کرتے آپ نے فرمایا کس قدر بیوقوفی ہے کہ تم لوگ ایسے بتوں کی پوجا کر رہے ہو جو خود اپنا نفع نقصان بھی نہیں جانتے نہ تمہیں یا کسی اور کو کوئی نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ کسی کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں ، تف ہو تم پر بھی اور تمہارے بتوں پر بھی تم عقل کے اس قدر اندھے ہو ، جب قوم لاجواب ہوگئی تو جھگڑے پہ اتر آئی اور فیصلہ یہ کیا کہ انہیں یعنی ابراہیم (علیہ السلام) کو بھڑکتی آگ میں جلایا جائے تاکہ ہمارے بتوں کو نہ ماننے اور ان کی توہین کرنے کی سزا کا پتہ چلے چناچہ انہوں نے ایک بہت بڑا الاؤ تیار کیا ان کا بادشاہ نمرود ہی اس فیصلے کا کرنے والا تھا اور ساری قوم ساتھ تھی لہذا چالیس روز تک ہر قسم کا ایندھن ساری قوم نے مل کر جمع کیا اور ایک بہت بڑا میدان بھر گیا پھر اسے آگ لگا دی گئی اور ہفتہ بھر اسے بھڑکاتے رہے ، یہاں تک کہ فضا بھی شعلوں سے بھر گئی اور پرندوں تک کے لیے اوپر سے گزرنا محال ہوگیا اب سوال پیدا ہوا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو کیسے پھینکا جائے تو مفسرین کرام کے مطابق ابلیس نے ظاہر ہو کر انہیں منجنیق بنانے کا طریقہ سکھایا اور اس میں ابراہیم (علیہ السلام) کو بٹھا کر آگ میں پھینکا گیا ، اگرچہ منجنیق اس ظلم کے لیے ایجاد ہوئی اور ابلیس کے مشورے سے ہوئی پھر پہلا کام بھی اس سے یہی لیا گیا مگر تاریخ گواہ ہے ۔ (ایجادات کا استعمال) کہ پھر مسلمانوں جرنیلوں نے اسلامی فتوحات میں اسے خوب استعمال کیا اور ابلیس کا ہتھیار خود اس کی اولاد اور ماننے والوں کے خلاف کام آیا آج بھی اگر ٹیلیویژن وغیرہ ایجادات کو جو بےحیائی پھیلانے کا باعث بن رہی ہیں اگر مثبت کام پر اور تعلیم وتربیت کے کاموں میں استعمال کیا جائے تو فقیر کی رائے میں نرے فتوے دینے سے بہت بہتر ہو سکتا ہے ۔ (آگ اور ابراہیم (علیہ السلام) ارشاد ہوتا ہے کہ ہم نے آگ سے فرما دیا کہ ٹھنڈی ہوجا اور ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے سلامتی والی بن جا یعنی مزیدار ہوجا کہیں زیادہ ٹھنڈی ہو کر بھی ایذا کا باعث نہ بن جانا ، یہاں بہت سے مستشرقین نے بھی اور معجزات کے منکرین نے بھی فضول اعتراضات کیے ہیں جس کی بنیاد فلسفہ کے اصول پر ہے کہ جو وصف کسی ذات کے لیے لازم ہو وہ اس سے جدا نہیں ہوسکتا جیسے آگ کے لیے جلانا لازمی ہے مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ لوازمات محض سنت اللہ ہیں کہ اس نے ان کے مزاج میں یہ بات رکھ دی جب وہ تبدیل کرنا چاہے تو کوئی روک نہیں سکتا جیسے یہاں آگ کا بجھنے کا حکم نہیں دیا بلکہ خود آگ کو حکم دیا کہ ہر شے کو جلانے والی تو ہے مگر ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے سلامتی کا سبب بن جا چناچہ آگ آگ ہی رہی ہر شے کو جلاتی رہی حتی کہ جن رسیوں میں ابراہیم (علیہ السلام) جکڑے ہوئے تھے وہ بھی اسی آگ نے جلا دیں مگر ابراہیم (علیہ السلام) کو یہ کہ صرف کوئی دکھ نہ پہنچا بلکہ انھوں نے فرمایا کہ جتنے روز میں نے وہاں گزارے وہ زندگی بھر یاد رہے کہ پھر ایسی راحت کہیں نہ ملی (مظہری) اللہ جل جلالہ چاہتے ہیں اشیاء کی تاثیر بدل جاتی ہے جیسے پانی میں ہر شے کی حیات ہے مگر قوم نوح (علیہ السلام) کے لیے موت بن گیا آل فرعون پانی میں غرق ہوئے مگر ارشاد ہے (آیت) ” اغرقوا فادخلوا نارا “۔ کہ غرق ہو کر آگ میں داخل ہوئے ایسے ہی یہاں جب کفار نے آگ میں پھینکنے کی تیاری کی تو ارض وسما کے فرشتے پکار اٹھے کہ اللہ جل جلالہ ہم کو اجازت دے تو تیرے خلیل کی مدد کو حاضر ہوں ارشاد ہوا ان سے پوچھ لو ، چناچہ ہواؤں ، بادلوں کے فرشتوں نے خود جبرائیل آمین نے حاضر ہو کر مدد کی اجازت چاہی تو فرمایا مجھے کیوں اور کس لیے آگ میں ڈالا جا رہا ہے عرض کیا اللہ جل جلالہ کے لیے تو فرمایا اللہ جل جلالہ خود جانتا ہے اور ہر چیز پہ قادر ہے لہذا تمہارا فکر مند ہونا صحیح نہیں میرے اور میرے محبوب کے درمیان مت آؤ ، چناچہ اللہ جل جلالہ نے اپنی عظمت کا اظہار یوں فرمایا کہ خود آگ کو حکم دیا وہ قادر ہے جیسے فرشتہ اس کی مخلوق ہے آگ بھی مخلوق ہے اور آگ آگ ہی رہی لپکتے شعلے اور دھویں کے اٹھتے بادل ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے خوبصورت اور خوشبوؤں سے بھری عطر بیز ہوئیں ثابت ہوئے ، اور جب آگ بھڑک بھڑک کر ٹھنڈی ہوئی تو آپ باہر تشریف لے آئے ۔ ارشاد ہوتا ہے انھوں نے اپنی طرف سے تو بہت بڑی تجویز پہ عمل کیا مگر قدرت باری نے انہیں ناکامی کا منہ دکھایا اور سخت نقصان میں رہے کہ اتنی عظیم ہستی اور اللہ جل جلالہ کے رسول سے مستفید نہ ہو سکے ۔ (جھگڑا محرومی کا سبب بنتا ہے) اگر وہ ان کے دلائل پر غور وفکر کرتے تو مستفید ہوتے مگر جھگڑا کرکے محرومی حاصل کی ، اہل اللہ سے جھگڑا جو نقصان سب سے کم دیتا ہے وہ ان کی برکات سے محرومی ہے اور نبی کی برکات ہی ایمان کہلاتی ہیں اولیاء اللہ سے جھگڑا بھی اگرچہ کفر تو نہیں مگر عموما بندے کو ادھر ہی کھینچ کرلے جاتا ہے اور ایسے لوگ مرتے گمراہ ہو کر ہی ہیں ، ” اعاذنا اللہ منھا “۔ ادھر کفار ناکام بھی ہوئے اور نامراد بھی ادھر ابراہیم (علیہ السلام) کو لوط (علیہ السلام) کو جو ان کا ساتھ دے رہے تھے ، اس جگہ سے نجات دے کر اور نمرود کی سلطنت یعنی ملک عراق سے ملک شام پہنچا دیا اور وہ ہجرت کرکے ایسے ملک میں تشریف لے گئے جو برکات کا مخزن ہے کہ بیشتر انبیاء کرام (علیہ السلام) بھی وہاں پیدا ہوئے ۔ روحانی برکات کا مزکز بنی اور چشمے ، نہریں اور پھل وغیرہ بکثرت ہو کر دنیا کی نعمتوں کا مرکز بھی ہے اور ہم نے انہیں اسحاق (علیہ السلام) جیسا بیٹا اور یعقوب (علیہ السلام) جیسا پوتا دیا جو سب نبی تھے یعنی نہ صرف یہ کہ ان کی نسل باقی رکھی بلکہ پشتوں تک نبوت سے سرفراز فرمایا اور لوط (علیہ السلام) کو بھی نبی معبوث فرمایا اور انھیں حکمت اور علم ان کی شان کے مطابق عطا فرمایا اور جن لوگوں کی طرف مبعوث ہوئے ان کی خباثت اور بری عادتوں سے انہیں محفوظ فرما کر اپنی رحمت خاص میں داخل فرمایا روح المعانی میں ان کی خبیث عادات میں شراب خوری ، گانا بجانا ، داڑھی منڈانا اور مونچھیں بڑھانا ، کبوتر بازی ، ریشمی لباس اور فال کے ڈھیلے پھینکنا وغیرہ لکھی ہیں اور سب سے خبیث تر ان کی عادت لواطت کی تھی جسے ہم جنس پرستی کہا جاتا ہے اور جو آج کل مغرب کی تہذیب میں قانونی طور پر درست ہے اللہ جل جلالہ انہیں بھی ایسے ہی تباہ کرے جیسے قوم لوط ہوئی تھی ، آمین۔ بیشک لوط (علیہ السلام) بہت نیک یعنی اللہ جل جلالہ کے نبی تھے اور معصوم تھے لہذا انھیں سب پریشانیوں سے بچا لیا گیا اور ساتھ ان کے ماننے والوں کو بھی ۔
Top