Asrar-ut-Tanzil - Al-Hajj : 49
قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّمَاۤ اَنَا لَكُمْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌۚ
قُلْ : فرما دیں يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو ! اِنَّمَآ : اس کے سوا نہیں اَنَا : میں لَكُمْ : تمہارے لیے نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ : ڈرانے والا آشکارا
آپ فرمادیجئے کہ اے لوگو ! بیشک میں تم کو (انجام بد سے) واضح طور پر ڈرانے والا ہوں
(رکوع نمبر 7) اسرارومعارف آپ فرما دیجئے لوگو میرا منصب عالی یہ ہے کہ جس راہ پر تو چل رہے ہو یعنی کفر ونافرمانی اس کے انجام بد سے بروقت مطلع کردوں اور بس عذاب لانا نہ میرا کام ہے نہ میں نے اس کا دعوی کیا ہے ہاں جس راہ پر تم چل رہے ہو وہ عذاب ہی پہ پہنچتی ہے اور صرف وہ لوگ محفوظ رہیں گے جو ایمان لے آئے اور اللہ جل جلالہ کی اطاعت اختیار کرلی انھیں اللہ جل جلالہ کی بخشش بھی نصیب ہوگی اور بہترین نعمتیں بھی مگر جو بدبخت اپنی اصلاح کے بجائے اللہ جل جلالہ کے نبی کی بات کو جھٹلانے اور اللہ جل جلالہ کے احکام کی تردید کرنے کی کوشش کرتے رہے وہ یقینا دوزخ میں رہیں گے (نبی اور رسول) اور یہ کوئی نئی بات نہیں آپ ﷺ سے پہلے بھی جتنے نبی اور رسول مبعوث ہوئے یہاں نبی اور رسول دو الگ الگ ارشاد فرمائے گئے کہ نبی بھی صاحب وحی ہوتا ہے مگر کسی پہلی نازل کردہ شریعت ہی پر عمل کرتا ہے اور رسول صاحب وحی صاحب شریعت ہوتا ہے یعنی ہر رسول نبی بھی ہوتا ہے مگر ہر نبی رسول نہیں ہوتا تو شیطان نے ان کے ارشادات میں غلط فہمی پیدا کرنے کے لیے اپنے ادہام ٹھونسنے کی کوشش کی لیکن شیطان کی بات نبی کے حوالے سے کبھی نہ چل سکی اور اللہ جل جلالہ نے اسے مٹادیا جبکہ نبی کے فرمودات جو دراصل ارشادات الہی ہوتے تھے وہ باقی رہے ۔ اللہ جل جلالہ سب حال سے باخبر اور صاحب حکمت ہے ، ۔ (بیمار دل) اس کی قدرت کاملہ ایسے امور کو قطعا روک دیتی مگر ایسے لوگوں کے لیے جن کے قلوب بیمار ہیں اور سخت ہیں کہ کفر وشرک قلب کا شدید ترین مرض اور اللہ جل جلالہ کی نافرمانی اس کی سختی کا سبب ہیں ، اللہ جل جلالہ نے ایسے ادہام کو وجہ ابتلا اور آزمائش کا سبب بنا دیا ہے اور ایسے ظالم ان شیطانی وسواس کو سہارا بنا کر مخالفت میں دور نکل گئے مگر جن خوش نصیبوں کو ایمان عطا ہوتا ہے انہیں یہ علم بھی نصیب ہوجاتا ہے کہ اللہ جل جلالہ کے ارشادات جو اس کے نبی کی معرفت نصیب ہوتے ہیں اور وہ ان پر ایمان لاتے ہیں نیز ان کے دلوں پر ان آیات کی برکت سے کیفیات وارد ہوتی ہیں جو معرفت الہی میں ترقی پیدا کرکے شوق اطاعت بڑھاتی چلی جاتی ہیں اور یوں اللہ کریم اہل ایمان کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق بخشتا ہے یعنی ان کیفیات کو صراط مستقیم پر پورے ذوق سے چلنے کا باعث بنا دیتا ہے جب کہ انکار کرنے والے اور کفار اپنے آپ کو دھوکے میں ہی رکھتے ہیں تاآنکہ انھیں اچانک قیامت آلے یا اللہ کے عذاب کی گرفت میں آجائیں جس سے کفار کو بچنے کی کوئی راہ نہ ملے گی اور قیامت کو تو حکومت صرف اللہ جل جلالہ کی ہوگئی جو لوگ ایمان لائے اور اطاعت کی وہ جانت کے باغوں اور سبزہ زاروں میں داخل ہوں جبکہ کافر اور انکار کرنے والے بہت ہی ذلت کے عذاب سے دو چار ہوں گے ۔
Top