بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Asrar-ut-Tanzil - Al-Muminoon : 1
قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ
قَدْ اَفْلَحَ : فلائی پائی (کامیاب ہوئے) الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع)
بیشک ایمان والے کامیاب ہوئے
سورة المؤمنون : (رکوع نمبر 1) اسرارومعارف سورة مومنون بھی مکی سورتوں میں شمار کی گئی ہے اور اسی سابق مضمون کو آگے بڑھاتے ہوئے ایمان لانے والوں کے اوصاف کا تذکرہ فرماتے ہوئے شروع ہوتی ہے کہ جنہیں ایمان نصیب ہوا وہ فلاح پاگئے کامیاب ہوگئے فلاح کا ترجمہ اردو میں تو کامیابی ہی ہے مگر عربی زبان کے اعتبار سے اس کا معنی بہت وسیع ہے فلاح سے مکمل کامیابی مراد ہے ہر کام میں ہر وقت اور ہر عالم میں ، دنیا ہو دنیا کی تجارت ، سیاست یا امور ذاتی ہر جگہ کامیاب موت کے لمحات ہوں یا برزخ کا عرصہ کامیاب ، میدان حشر ہو یا آخرت کی زندگی کامیاب اور یہ کامیابی ایمان کا پھل ہے رہا یہ سوال کہ دنیا میں کون ہے جسے مصیبت سے گزرنا پڑا ہو اور جس کی ہر خواہش پوری ہوئی ہو۔ (مومن کی پسند اور خواہش) انبیاء کرام (علیہ السلام) اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین بھی تکالیف میں مبتلا رہے تو سمجھ لیا جائے کہ نبی ہو یا صحابی یا مومن کامل سب کی پسند اور طلب اللہ جل جلالہ کی رضا اور اس کا قرب بن جاتا ہے نبی تو ہوتا ہی کامل ہے ، صحابی نبوت سے برکات وانوارات حاصل کرکے اور مومن ان کی اتباع سے وہ عظیم طلب پیدا کرلیتا ہے اور ایسے لوگوں پر بظاہر جو مصیبت بھی آتی ہے وہ اللہ جل جلالہ کی رضا وقرب کا سبب بن کر فلاح ہی بن جاتی ہے لہذا مومن کے لیے ہر حال میں کامیابی مقدر ہے آگے اوصاف بیان حال بیان ہوتے ہیں کہ مومن کیسا ہوتا ہے ، پہلا وصف کہ عبادت میں اسے خشوع حاصل ہوتا ہے ، خشوع قلب کا حال ہے جب قلب میں اللہ جل جلالہ کا نام راسخ ہوجائے تو غیر اللہ کے خیال تک کے لیے گنجائش نہیں رہتی ، بدن بھی سکون سے عبادت تب ہی کرسکتا ہے ، دوسرا وصف یہ کہ عمر عزیز کا کوئی لمحہ ضائع نہیں کرتے اور لایعنی امور میں الجھنے سے بچتے ہیں ، غیر ضروری کاموں سے دور رہتے ہیں تیسرا وصف یہ کہ زکوۃ یعنی پاکیزگی کے لیے کوشاں رہتے ہیں ، بدنی اخلاق اور مال ہر طرح کی پاکیزگی کے لیے مسلسل محنت کرتے ہیں اور چوتھا وصف یہ کہ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں اور شہوات میں سے غالب تر حال میں بھی اللہ جل جلالہ کا حکم نہیں بھولتے اور صرف بیوی یا جائز لونڈی سے جن کے ساتھ جمع ہونے میں کوئی قباحت نہیں اپنی حاجت پوری کرتے ہیں علاوہ ازیں کسی بھی طرح سے شہوت پوری نہیں کرتے اور اپنی شرمگاہوں کو بچاتے ہیں اس لیے کہ ان دو حلال راستوں کے علاوہ کسی بھی طرح سے شہوت پوری کرنے والے تو حد سے گزرنے والے ہوتے ہیں اور مومن کا پانچواں وصف کہ یہ لوگ امانت دار اور وعدہ ایفا کرنے والے ہوتے ہیں ، وہ امانت اور عہد ، حقوق اللہ ہوں یا دنیا کی ذمہ داریاں اور حقوق العباد ان کو پورا کرنے میں اپنی پوری قوت پورے خلوص سے صرف کرتے ہیں اور اگلا وصف یہ کہ عبادات نہ صرف ادا کرتے ہیں بلکہ ان کی حفاظت کا حق ادا کرتے ہیں یعنی پورے اہتمام کے ساتھ اور پورے لوازمات کے ساتھ فرض ، واجب ، سنت اور مستحب تک کا خیال رکھتے ہیں نیز دوسروں تک بھی پہنچاتے ہیں اور انہیں تبلیغ وتعلیم کرکے عبادات کی حفاظت کرتے ہیں ، جنت تو ایسے لوگوں کی میراث ہے یعنی انہیں اس کا ملنا اس قدر یقینی جس قدر وارث کو میراث کا پہنچنا یقینی ہوتا ہے اور اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ۔ ہر بننے والی شے کا ایک انجام اور نتیجہ ہوتا ہے کوئی بھی شے بےمقصد نہیں بنائی جاتی تو پھر اگر یہ دارآخرت حساب کتاب اور جزا وسزا پہ انہیں یقین آتا تو کیا انسان کی حیات کا کوئی نتیجہ نہ نکلے گا ، بس پیدا ہوئے زندگی گذاری اور مر گئے جو کسی سے بس سکا اچھا یا برا کر گذرا اور کوئی پوچھنے والا نہیں ، اس کا جواب ارشاد ہوتا ہے ذرا انسانی تعمیر تو دیکھو کہ کارگاہ حیات کا سارا نظام سورج چاند ستارے بادل اور آسمان زمین پانی ہوائیں اور اللہ کے بیشمار فرشتے اس کام پر لگے ہیں ۔ (تخلیق انسانی اور اسلام نیز سائنس کی تحقیق) یہ سارا نظام چلتا ہے تو مٹی سے وہ جوہر اور خلاصہ حاصل ہوتا ہے جس سے انسانی وجود کی تعمیر مقصود ہوتی ہے اور ہر ذرہ کسی وجود کا مقدر ہوتا ہے جیسے مٹی سے مختلف اجناس پھلوں غذاؤں ، دواؤں کی صورت ایک لمبے طریق کار سے گذار کر اس وجود تک پہنچایا جاتا ہے جس سے آگے کسی انسان کو پیدا ہونا ہوتا ہے ، حضرت آدم (علیہ السلام) کو دست قدرت نے بنا کر یہ نظام ترتیب دے دیا کہ اس کے بعد ساری اولاد آدم ایسے ہی بن رہی ہے اور اسے مخاطب ذرا غور کر کہ کتنا بڑا نظام مٹی کو غذا بنانے کے لیے سرگرم عمل ہے پھر وہ غذا باپ اور ماں دو میں الگ الگ جمع ہو رہی ہے ، غذا وہ کھاتے ہیں مگر نظام قدرت ان تک وہ اجزا پہنچاتا ہے جو ان کے وجود کا مقدر ہیں اور ساتھ وہ بھی جن سے اولاد پیدا کرنا مقصود ہوتا ہے یہ دوسرے جا کر نطفہ بن کر محفوظ ہوجاتے ہیں ۔ پھر اپنے مقررہ وقت پر وہ نطفہ رحم مادر میں اپنی جگہ پاتا ہے پھر قدرت جمے ہوئے خون کے لوتھڑے میں تبدیل کردیتی ہے پھر اس سے گوشت کا لوتھڑا بن جاتا ہے پھر اسی میں ہڈیاں بنتی ہیں اور ہر جوڑ اپنی جگہ پر آتا ہے پھر وہ گوشت ان ہڈیوں پر چڑھا دیا جاتا ہے کہ انسانی وجود مکمل ہوجاتا ہے پھر اسے ایک نئی صورت حیات عطا کر کے ایک نئی قسم کی مخلوق بنا دیا جاتا ہے یعنی اس میں روح پھونک کر اسے انسان کی صورت میں پیدا کردیتا ہے ، روح دو قسم کی ہے ایک روح حیوانی جو اعضاء انسانی کی تخلیق اور دوران خون کے اجزا سے لطیف بخارات کی صورت رگوں میں پیدا ہوتا جاتا ہے ۔ (روح) اسے اطباء اور فلاسفر روح کہتے ہیں مگر حقیقی روح انسانی کا تعلق عالم بالا سے ہے اور عالم ارواح سے لا کر اللہ کریم اپنی قدرت کاملہ سے وجود انسانی میں بسا دیتے ہیں اور روح حیوانی سے اس کا تعلق قائم کردیتے ہیں ، وہ کیا ہے یہ جاننا عقل انسانی کی رسائی سے بالاتر ہے ، ہاں یہ حق ہے کہ اس کی تخلیق ابدان کی تخلیق سے بہت پہلے ہے ازل میں اسی پر سوال ہوتا تھا ، ” ’ الست بربکم “ یہی انسانی حیات کا سبب ہے اور اس کا ہی یہ تعلق جو باعث حیات ہے ختم ہو کر موت کہلاتا ہے ذرا اس تمام عمل پر غور کرو اور دیکھو ۔ (خالق) کہ اللہ کس قدر بہترین و حسین ، کامل و قادر اور سارے بنانے والوں سے اعلی و افضل خالق اور پیدا کرنے والا ہے اگرچہ خالق حقیقی صرف اللہ ہے جو کسی شے کا محتاج نہیں اور عدم سے وجود کو پیدا فرماتا ہے مگر لفظ خالق صنعت پر بھی استعمال ہوتا ہے اور انسانی ایجادات کو بھی تخلیق کہہ دیا جاتا ہے جبکہ ان کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ اللہ جل جلالہ کی بنائی ہوئی اشیاء کو مختلف انداز سے جوڑا تو ایک نئی شئے وجود میں آگئی ، تخلیق باری میں اور انسانی تخلیق میں اتنا فاصلہ ہے کہ قدرتی طور پر بننے والی ہر شے کبھی انسانی ہاتھ نہیں بنا سکتے وہ ویسے ہی قدرتی انداز میں بنتی ہے خواہ وہ گھاس کا ایک تنکا ہی ہو اور یہ قرآن کریم کا بہت بڑامعجزہ اور اس کی صداقت کی بہت بڑی دلیل ہے کہ وجود انسانی کی تعمیر جو رحم مادر میں ہوتی ہے اسلام نے سائنس سے چودہ سو سال پہلے بیان کردی اور سائنس ٹکریں مار مار کر اب یہاں پہنچی ہے کہ صرف ان حقائق کا اقرار کرسکے ” سبحان اللہ العظیم “۔ اب یہ عمل فضول تو نہیں ہو سکتا کہ اس کے بعد تم سب کو موت آنی ہے موت دنیا کی زندگی کا خاتمہ تو ہے انسانی کا خاتمہ نہیں یکہ اس کے بعد تمہیں پھر سے زندہ کیا جائے گا اور روز قیامت اپنے اپنے کے نتائج پاؤ گے ۔ دیکھو عظمت الہی نے تمہارے اوپر ساتھ آسمان بنا کر ان میں اسباب حیات محرک بسا دئیے اور زندگی کے رستے بنا دیئے کہ آسمان حیات دنیا کے لیے حکومتی مراکز ہیں اور ملائکہ وہیں سے احکام حاصل کرکے حیات دنیا کا نظام چلاتے ہیں ، اعمال انسانی اور دعائیں بھی ادھر ہی کو جاتی ہیں ، یہ سب نظام اس خاطر بنا کر اللہ اپنی مخلوق سے اس کی ضروریات سے کبھی بیخبر تو نہیں دیکھو ہم نے کن بلندیوں سے پانی برسایا اس کے پیچھے کتنے عناصر کار فرما ہیں اور کتنی تبدیلیوں کے بعد وہ بارش کے قطرات کی صورت برستا ہے اور پھر کمال قدرت کہ قطرے بھی شمار کر کے برساتا ہے بےانداز نہیں برستے ، جگہ بھی منتخب فرما کر وہاں برساتا ہے اور پھر ایسا قادر ہے کہ اسے زمین پر روک بھی دیتا ہے کبھی برف کی صورت کبھی جھیل بنا کر کہیں زیر زمین جمع کرکے چشمے رواں کردیتا ہے اگر اللہ چاہتے کہ جیسے برسا تھا زمین پر رکے بغیر سب بہہ جاتا یا اللہ اس کو سرے سے ہی لے جائے تو قادر ہے مگر اپنے کرم سے تمہارے لیے اس کے سبب طرح طرح کے باغات اور پھول پھل اگا دیتا ہے کھجور ، انگور اور بیشمار دوسرے میوے جنہیں تم بہت شوق سے کھاتے ہو اور ایسے مبارک درخت اگا دیتا ہے ۔ (زیتون) جیسے وادی سینا میں زیتون کہ اس کا پھل ایسے تیل سے بھرا ہوتا ہے جو بہترین سالن بھی ہے جسے ڈیڑھ ہزار برس قبل کتاب اللہ نے بہترین سالن کہا سائنس آج اسے دیسی گھی کا نعم البدل کہتی ہے کہ کسڑول اور روغنیات کی خون میں زیادتی کے مریض بھی کھایا کریں یہ دیسی گھی سے زیادہ طاقت دیتا ہے اور خون میں سے ان موادوں کو صاف کرتا اور گھٹاتا ہے تمہارے لیے تو ایک ایک پالتو جانور عظمت الہی اور احسان باری تعالیٰ کی بہت بڑی دلیل ہے کہ ان کے خون اور گوبر سے نکال کر بہترین دودھ تمہیں عطا فرماتا ہے پھر ان کا گوشت کھال بال اور ہڈیاں تک تمہارے کام آتی ہیں وہ تمہارا مال تجارت بھی بن جاتے ہیں اور سواری بھی اور انہوں نے تمہیں سواریاں بنانے اور بحری جہاز کا تصور دے کر کتنی خدمت کی ہے پرندوں کو دیکھ کر ہوائی جہاز اور بحری جانوروں کو دیکھ کر بحری جہاز بنا لیے گئے ۔
Top