Asrar-ut-Tanzil - Al-Muminoon : 33
وَ قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِهِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ كَذَّبُوْا بِلِقَآءِ الْاٰخِرَةِ وَ اَتْرَفْنٰهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١ۙ مَا هٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ١ۙ یَاْكُلُ مِمَّا تَاْكُلُوْنَ مِنْهُ وَ یَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُوْنَ۪ۙ
وَقَالَ : اور کہا الْمَلَاُ : سرداروں مِنْ قَوْمِهِ : اس کی قوم کے الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا وَكَذَّبُوْا : اور جھٹلایا بِلِقَآءِ : حاضری کو الْاٰخِرَةِ : آخرت وَاَتْرَفْنٰهُمْ : اور ہم نے انہیں عیش دیا فِي : میں الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی مَا ھٰذَآ : یہ نہیں اِلَّا : مگر بَشَرٌ : ایک بشر مِّثْلُكُمْ : تمہیں جیسا يَاْكُلُ : وہ کھاتا ہے مِمَّا : اس سے جو تَاْكُلُوْنَ : تم کھاتے ہو مِنْهُ : اس سے وَيَشْرَبُ : اور پیتا ہے مِمَّا : اس سے جو تَشْرَبُوْنَ : تم پیتے ہو
اور ان کی قوم کے سرداروں نے جو کافر تھے اور آخرت کی ملاقات کو جھوٹ سمجھتے تھے اور ہم نے ان کو دنیا کی زندگی میں دولت بخشی تھی ، کہا یہ تو تمہاری ہی طرح ایک آدمی ہے جیسا تم کھاتے ہو ویسا یہ بھی کھاتا ہے اور جیسا (پانی) تم پیتے ہو ویسا یہ بھی پیتا ہے
(رکوع نمبر 3) اسرارومعارف تو ان میں سے بھی سرداران قوم جن پر اللہ جل جلالہ کے احسانات دوسروں کی نسبت زیادہ تھے اور جو دنیا میں بہت مزے سے تھے حتی کہ اپنی عیش میں آخرت کو یوں بھولے کہ اس کا انکار کردیا ، کہنے لگے یار یہ بھی تو ایک بندہ بشر ہی ہے ویسے ہی زندگی کی ضروریات اس کی ہیں جیسے کسی دوسرے بشر کی کھاتا پیتا ہے ۔ (بندہ اور اللہ کا بندہ) اب بھلا تم اپنے جیسے بندے کی اطاعت کرو گے یہ تو بڑی گھاٹے کی بات ہے یعنی بندے کو انہوں نے اوصاف بشریت سے پرکھا حالانکہ یہ تو سب میں یکساں ہوتی ہیں بندے کی پرکھ تو اس کی وفا ہے کہ وہ کس سے وابستہ اور کس کا بندہ ہے ، خواہشات کا ، دنیا کا یا اللہ کا بندہ کہ اللہ جل جلالہ کی طرف سے عنایات سب پر ہیں ، دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ بندے نے کس کی غلامی اپنا لی ہے اگر بندہ اللہ جل جلالہ کا بندہ ہے تو اس کی بات ماننا بھلا بندے کی بات کیسے ہوئی وہ تو بات ہی اللہ جل جلالہ کی ہے کہ وہ اپنی تو نہ کہے گا اللہ جل جلالہ کی بات ہی کہے گا اور انبیاء کرام ﷺ سے بڑھ کر کون اللہ جل جلالہ کا بندہ ہوگا چونکہ وہ خود تو آخرت کے یقین سے خالی تھے ہی دوسروں سے بھی کہنے لگے بھلا یہ تم سے عجیب بات نہیں کہتا کہ جب تم مرجاؤ گے اور تمہارے وجود گل سڑ جائیں گے ہڈیاں بکھر کر گوشت پوست مٹی ہوجائے گا تو تمہیں دوبارہ زندہ ہونا پڑے گا ، بھلا یہ تو ہو ہی نہیں سکتا ، یہ ناممکن بات ہے بس میاں یہی دنیا کی زندگی ہی سب کچھ ہے اور یہ مرنا جینا سب سامنے ہے جو مرکر خاک ہوئے وہ نہ جی سکیں گے اور یہ سب کچھ انہیں اپنی دانست میں ناممکن نظر آتا تھا ۔ (عذاب وثواب قبر اور حیات برزخ کا انکار بھی اسی انکار ہی کا ایک حصہ ہے) لطف یہ کہ اللہ جل جلالہ کو بھی اپنے انداز سے مانتے ضرور تھے جب ہی تو کہنے لگا یہ شخص جو نبی ہونے کا دعوی کرتا ہے یہ تو اللہ جل جلالہ پر جھوٹ باندھ رہا ہے ، بھلا ہم اس کی بات کیوں مانیں گے ہم ہرگز نہ مانیں گے حالانکہ اپنی پیدائش ان کے بھی تو سامنے تھی جو قدرت باری کی کس قدر مضبوط دلیل تھی ، یہی حال دور حاضر کے ان انکار کرنے والوں کا ہے کہ جو عذاب وثواب قبر اور حیات برزخ کا انکار کرتے ہیں اور اللہ پر ایمان بھی رکھتے ہیں مگر مشکل یہ نظر آتا ہے کہ کوئی جل گیا کوئی ڈوب مرا کسی کو درندے کھا گئے تو بندے کو برزخ میں عذاب وثواب تو ممکن نہیں لگتا اور جب عذاب وثواب برزخ اور قبر کا کتاب اللہ اور حدیث رسول اللہ ﷺ کے باعث ، ماننا ہی پڑا تو ایک اور ٹھوکر کھائی کہ برزخ میں ایک نیا وجود جسے وجود مثالی کہتے ہیں روح کو عطا ہو کر عذاب وثواب پائے گا ، واہ کیا بات ہے ، بھلا جو وجود نہ دنیا میں آیا نہ اسے حکم ملا نہ اس کی طرف رسول آیا نہ اس نے کفر کیا نہ اطاعت تو اسے عذاب وثواب کس بات کا حق یہ ہے بدن کتنی شکلیں تبدیل کرے مادی ذرات ہی کی صورت میں رہتا ہے اور روح انسانی کا تعلق حیات دنیا کا ختم ہونا ہے کلی طور پر ختم نہیں ہوتا لہذا جب برزخ میں روح کو عذاب یا ثواب پہنچے تو بدن اپنا حصہ پاتا ہے ، بدن کا ہر ذرہ جہاں بھی ہو جس حال میں بھی ہو کافر ہو یا مشرک ہر حال آگ سے حصہ پاتا ہے جیسے آل فرعون کہ ارشاد ہوتا ہے غرق ہوئے اور آگ میں داخل ہوگئے یا ان کو صبح وشام آگ پہ سینکا جاتا ہے تو یہ صرف روحیں غرق نہ ہوئی تھیں انسان روح اور بدن سمیت تھے ، مومن کی روح کا رشتہ بدن سے مضبوط اور شہید کا ایسا ہوتا ہے کہ جیسے وہ مرا ہی نہیں اور زندہ ہے اور اس پر کتاب وسنت کے دلائل کے ساتھ مشاہدات وتجربات بھی درجہ تواتر کو پہنچے ہیں اور پھر انبیاء (علیہ السلام) کی ارواح کا مسکن بھلا ان کے ابدان سے اعلی کہاں ہوگا ہاں حیات دنیا کا وقت ختم ہو کر برزخ میں پہنچے تمام احکام برزخ ہی کے ہوں گے مگر ان کی حیات متغیر نہیں ہوتی ویسی ہی رہتی ہے اور اسی حالت کو حیات النبی کہا جاتا ہے ۔ چناچہ انبیاء کرام (علیہ السلام) نے تھک کر اللہ کو پکارا کہ اے رب اے ضرورتوں کو پورا کرنے والے اب تیری ہی مدد کی ضرورت ہے ان کا انکار حد سے بڑھ چکا ہے تو ارشاد ہوا اب ان کے دن تھوڑے ہیں دیکھو گے کہ کسی رات کا کل انہیں دیکھنا نصیب نہ ہوگا اور انہیں سخت پچھتانا پڑے گا سو ان پر بہت سخت چنگھاڑتا ہوا عذاب مسلط ہوگیا اور اس نے انہیں خس و خاشاک کی طرح سے کچل دیا ، اللہ جل جلالہ کی مار ہو کافروں پر اور ہمیشہ اس کے کرم سے دور اور محروم ہوگئے ۔ پھر ان کے بعد نئی اقوام سے دنیا آباد ہوئی جو اپنے اپنے انجام کو پہنچیں اور کوئی قوم بھی اللہ کریم کے مقرر کردہ وقت کو ٹال سکی نہ تبدیل کرسکی ، سب کو دعوت دی گئی ہدایت کی طرف بلایا گیا اور پے بہ پے رسول بھیجے گئے جنھوں نے ایمان قبول کیا اپنی منزل پائی اور جن اقوام نے اپنے رسولوں کی تکذیب کی اور اپنے جیسے بندوں کی اطاعت کرلی اور خود ہی بعض دوسروں کے راہنما بن گئے تو اللہ کریم نے بھی ان پر ایسی ایسی ہلاکت مسلط کی کہ زمانے میں صرف ان کے فسانے رہ گئے اور وہ اوراق ماضی کا قصہ پارینہ بن گئے جیسے مشہور واقعہ جو ان لوگوں کے علم میں بھی ہے کہ فرعون اور اس کے امراء ومتبعین کی طرف موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا اور انہیں علمی وعقلی دلائل عطا کئے معجزات عطا فرمائے مگر آگے سے فرعونیوں نے اکر دکھائی کہ ان کے سروں میں اقتدار کا نشہ سمایا ہوا تھا تو کہنے لگے کیا اب ہم اپنے جیسے دو بندوں کے پیچھے چلیں گے جو حیثیت میں ہماری برابری کا بھی نہیں سوچ سکتے اور جن کی ساری قوم ہماری غلام ہے بھلا ان کی حیثیت کیا ہے چناچہ انکار پر ڈٹ گئے اور تباہ وبرباد ہوگئے ورنہ یقینا موسیٰ (علیہ السلام) تو ان کے پاس اللہ کی کتاب لائے تھے کہ انہیں ہدایت نصیب ہو اور ایمان لا کر اللہ جل جلالہ کی رضا حاصل کریں ، ان کی بعثت کا مقصد فرعونیوں کی ہلاکت تو نہ تھا ۔ عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ ماجدہ کو کس قدر بڑا معجزہ بخشا وہ بغیر والد کے پیدا ہوئے ، ان کی والدہ نے بغیر کسی مرد کو دیکھے اولاد حاصل کی جو نور نبوت سے مزین تھی پھر انہیں تمام مشکلات سے بچا کر ایک اونچی زمین پر جگہ دی جہاں بہترین رہائش اور صاف پانی تھا ، ان کا پیدا ہونا کلام کرنا ہی بہت بڑا معجزہ تھا مگر اس کے علاوہ بھی بہت معجزات عطا ہوئے ۔
Top