Asrar-ut-Tanzil - Al-Muminoon : 51
یٰۤاَیُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعْمَلُوْا صَالِحًا١ؕ اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌؕ
يٰٓاَيُّهَا : اے الرُّسُلُ : رسول (جمع) كُلُوْا : کھاؤ مِنَ : سے الطَّيِّبٰتِ : پاکیزہ چیزیں وَاعْمَلُوْا : اور عمل کرو صَالِحًا : نیک اِنِّىْ : بیشک میں بِمَا : اسے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو عَلِيْمٌ : جاننے والا
اے پیغمبرو ! (آپ اور آپ کی امتیں) پاکیزہ چیزیں کھائیں اور نیک کام کریں جو عمل آپ لوگ کرتے ہیں یقینا ہم ان سے خوب واقف ہیں
(رکوع نمبر 4) اسرارومعارف اور تمام رسولوں کو اللہ جل جلالہ نے ایک طریق حیات عطا فرما کر حکم دیا کہ پاکیزہ اور نفیس چیزیں کھاؤ اور اللہ جل جلالہ کے بتائے ہوئے قواعد پر عمل کرو کہ می تمہارے تمام اعمال سے باخبر ہوں یہ قوم جس کی طرف تم مبعوث ہوئے ہو تمہاری جماعت ہے جو ایک ہے اور متفق ومتحد ہے اور میں تمہارا پروردگار ہوں لہذا میری عظمت کو ہر حال میں پیش نظر رکھو۔ (غذا اور عمل) یہاں انبیاء کرام (علیہ السلام) ورسل کو ارشاد فرما کر تمام قوموں کو ایک اصولی ضابطہ بتایا گیا ہے کہ حلال اور پاکیزہ غذا سے توفیق عمل نصیب ہوتی ہے اور اگر غذا ہی حلال نہ ہو تو نیک عمل کی توفیق بھی نہیں ہوتی ، اگر کر بھی لے تو قبول نہیں ہوتا ، صاحب نظر لوگوں کا ارشاد ہے کہ اسی فیصد تعمیر غذا سے پندرہ فیصد ماحول سے اور پانچ فیصد تربیت سے ہوتی ہے اور غذا کے حلال ہونے کی بنیادی شرط اس کا طریق حصول ہے کہ معروف ذرائع سے حاصل کی جائے اور پھر شریعت کے حکم کے مطابق استعمال میں لائی جائے ۔ نیز تمام ادیان میں ایک متفقہ لائحہ عمل دیا گیا جس کے اصول ہمیشہ ایک تھے ہاں فروعات کا مدار فہم انسانی پر ہے لہذا مجتہدین کا فروعی اختلاف محض کہنے کو اختلاف ہوتا ہے حقیقی اختلاف وہ ہے جو اصولوں کو تقسیم کر دے یا نقصان پہنچائے جیسے توحید و رسالت یا کتاب وآخرت کے بارے عقیدوں میں اختلاف اور ایسے اختلافات ہر امت میں دین کو نقصان پہنچانے والوں اور اپنی خواہشات کی تکمیل کے طلب گاروں نے پیدا کیے اور دین وملت کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور جو کچھ جس کے ہاتھ لگا اسی پر خوش ہوگیا کہ کچھ پیروکار تو مل گئے اور عیش کرنے کا موقع ملا ساتھ میں دین پر چلنے کی شہرت بھی مگر ایسے لوگوں کا انجام بڑا خراب ہوتا ہے کہ دین حق ہی باقی رہتا ہے باطل اپنے ماننے والوں سمیت تباہ ہوجاتا ہے اگرچہ وقتی طور پر انہیں کچھ دنیاوی فائدے بھی حاصل ہوں تو انہیں اس وقت تک ان کے حال میں مست رہنے دیجئے اور اسی غلط فہمی کا اسیر رہنے دیں کہ انہیں مال و دولت اور اولاد وپیروکار مل رہے ہیں ، شاید ان پر بڑا انعام ہو رہا ہے اور اللہ جل جلالہ ان سے بہت خوش ہے ہرگز نہیں یہ تو شعور ہی سے عاری ہیں کہ اللہ جل جلالہ کی خوشنودی سے اللہ جل جلالہ کا قرب اور اطاعت نصیب ہوتی ہے ، مال و دولت تو کافر کے پاس بھی ہوتا ہے مگر ایسے لوگ جن پر اللہ کریم راضی ہوتے ہیں اور جنہیں اس کا قرب نصیب ہوتا ہے وہ تو اس کی محبت کے اس قدر اسیر ہوجاتے ہیں معمولی ناراضگی کے خوف سے بھی لرز جاتے ہیں ۔ ّ (اللہ جل جلالہ کی رضا مندی اور قرب الہی کی نشانی) اور اس کی نازل کردہ باتوں پر دل کی گہرائیوں سے یقین حاصل کرلیتے ہیں اور کبھی سوال نہیں پیدا ہوتا کہ اس کی صفات میں کسی کو اس جیسا سمجھیں اور اس کے علاوہ کسی سے امید وابستہ کریں اور اللہ نے انہیں جو دیا ہے وہ اسی کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ، مال ، اولاد ، جان اقتدار عقل وخرد غرض ہر نعمت کو اللہ جل جلالہ ہی کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ۔ اس کے باوجود ان کے قلوب تک لرزاں وترساں رہتے ہیں کہ میرے اعمال حقیر اور بےحیثیت اس کی ذات بہت عظیم اور بلند بھلا میں کیسے اس کی بارگاہ میں حاضری دے سکوں گا جبکہ مجھے ہر حال واپس اسی کے حضور جانا ہے اور وہ نیکی کی طرف لپکتے ہیں اور انہیں کوئی خدشہ اور وسوسہ نیک کام کرنے ہیں متامل نہیں کرتا بلکہ دوسروں سے پہلے پہنچتے ہیں اور ہاں یہ بھی سن لیجئے کہ جو کام بندے کے بس کا نہ ہو ہم اسے وہ کرنے کا حکم ہی نہیں دیتے نہ اس کے بارے میں اس سے باز پرس ہوگی اور نامہ اعمال تو ہمارے پاس ہے جو بندے کی استعداد کار بھی اور عمل بھی سامنے رکھ دے گا ، سچ سچ اور کھرا کھرا لہذا کسی کے ساتھ کوئی زیادتی ہرگز نہ ہوگی ۔ (قلب کی مدہوشی) اور منکرین کے دل ہی مدہوش ہوگئے اور جب کیفیات قلبی سے محروم ہوئے تو الٹے کاموں میں پڑگئے ، یہاں تک کہ برائی اور غلط کاری ان کا اوڑھنا بچھونا بن گئی اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آخر ایک روز یہ سب بڑے بڑے بھی پکڑے جائیں گے اور جب اللہ جل جلالہ کا عذاب انہیں اپنی گرفت میں لے گا تب چلائیں گے تو ارشاد ہوگا کہ مت چلاؤ اب تمہیں عذاب الہی سے کوئی نہیں چھڑا سکتا کہ جب تم کو اللہ جل جلالہ کے احکام اور اس کے ارشادات سنائے جاتے تھے تو تم الٹے بھاگتے تھے اور اکڑتے تھے کہ ہم اس کی پرواہ نہیں رکھتے اور یہ محض قصے کہانیاں ہیں نیز بیہودہ بکواس اور یا وہ گوئی اختیار کرتے تھے ، ۔ (توہین آمیز کلمات ہمیشہ کی محرومی کا باعث) یہ حال مشرکین مکہ نے دنیا میں بدر ہی میں دیکھ لیا اور برزخ میں بھی بھگت رہے ہیں اور قیامت کو بھگتیں گے یہاں قابل غور بات یہ ہے اہل مکہ بلکہ بدر میں مخالف لڑنے والوں میں بھی ایسے خوش نصیب تھے جنہیں بعد میں اسلام نصیب ہوا اور شرف صحابیت سے نوازے گئے مگر یہ وہ لوگ تھے جو اگرچہ ایمان نہ لائے تھے مگر بدکلامی نہ کرتے تھے جن لوگوں نے آپ ﷺ کی شان میں بدکلامی کی انہیں کبھی توبہ نصیب نہ ہوئی اور یہی بدکلامی انہیں عذاب الہی میں پھنسانے کا سبب بن گئی لہذا اہل اللہ سے اگر اتفاق نہ بھی ہو تو انہیں برا بھلا نہ کہا جائے گا اور بات شرافت سے اور ایک حد میں رہتے ہوئے کی جائے ورنہ ہمیشہ کی محرومی کا ڈر ہوتا ہے ۔ کیا ان بدبختوں نے دعوت پر غور ہی نہیں کیا کہ اس میں کس قدر دلائل عقلیہ بھی اور نقلیہ بھی موجود تھے یا آپ ﷺ کی بعثت کوئی ایسا انوکھا واقعہ تھا جس سے واقف نہ ہوں اور انہیں یہ پتہ نہ ہو کہ اللہ جل جلالہ کی طرف سے انبیاء کرام (علیہ السلام) مبعوث فرمائے جاتے رہے ہیں یعنی یہ خوب جانتے ہیں یا ان کا خیال ہے کہ معاذ اللہ آپ ﷺ کی ذہنی حالت صحیح نہیں تو کیا ایسے لوگوں کی باتیں اتنی قیمتی اور بےمثال ہوتی ہیں بھلا ، بلکہ آپ تو ان کے پاس حق لائے ہیں ، ہاں ان کے مزاج اتنے بگڑ چکے ہیں کہ حق کو قبول ہی نہیں کر پاتے ورنہ کیا یہ اپنے رسول ﷺ کو جانتے نہیں کیا یہ ان کے حسب ونسب اور حیات عالی سے بیخبر ہیں ۔ یہ خوب جانتے ہیں مگر ماننے میں ان کے دل کی تباہ شدہ حالت دیوار بنی ہوئی ہے اور مانیں گے کیا یہ تو چاہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اور دین ان کی خواہشات کو مانیں انہیں یہ بھی شعور نہیں کہ اگر اللہ جل جلالہ بھی ان کے مشورے ماننے لگے تو نظام کو چلا رہا ہے انہیں تو چاہیے تھا کہ اللہ جل جلالہ کی طرف سے بھیجے جانے والی نعمت کی قدر کرتے اور اسے دل وجان سے قبول کرتے مگر یہ بدنصیب تو اس کا نام تک لینے سے بیزار ہیں کیا آپ ﷺ ان سے بدلہ میں مال و دولت مانگ رہے ہیں یا دین پر انہیں کچھ خرچ کرنا پڑ رہا ہے ، ہرگز نہیں مال و دولت تو پروردگار ہی کا بہتر ہے جو سب سے بہتر رزق دینے والا ہے ۔ (تبلیغ دین اور چندے) یہاں ثابت ہے کہ انبیاء کرام (علیہ السلام) کبھی دین کو چندوں پہ نہیں پھیلاتے بلکہ حصول رزق کی امید اپنے رب سے وابستہ رکھتے ہیں اور جائز و حلال ذرائع سے رزق حاصل کرتے ہیں لہذا علماء حق کو بھی معروف ذرائع اختیار کرکے رزق پیدا کرنا چاہیے نہ کہ محض چندوں پہ عمر بسر کردی جائے ۔ آپ تو نہایت پیارا اور خوبصورتی سے بہت ہی سیدھے راستے کی طرف بلاتے ہیں اور جن کی سمجھ میں بات نہیں آتی وہ آخرت کا انکار کرتے ہیں خود انہی کی عقل الٹ ہوگئی ہے اور وہ راہ حق سے دور ہوگئے ہیں جب کبھی مصیبت میں پھنستے ہیں اور اللہ جل جلالہ ان پر رحم کردے ۔ انہیں دنیا کی مصیبت سے نجات دے تو پھر اپنی شرارت ہی میں لگ جاتے ہیں بلکہ برائی ہیں اور آگے بڑھ جاتے ہیں جیسے اہل مکہ کو بدر میں سزا ملی پھر ان پر قحط مسلط ہوگیا تو خدمت عالی میں حاضر ہو کر دعا کے طالب ہوئے ، آپ ﷺ کی دعا سے قحط رفع ہوئے تو پھر جنگ کی تیاری میں لگ گئے مگر کب تک آخر بہت سخت عذاب میں پکڑے جائیں گے جو اس قدر شدید ہوگا کہ انہیں منت سماجت کرنے اور گڑگڑانے کا ہوش میں نہ رہے گا گویا آسمان سے بلاؤں کا دروازہ کھل جائے گا جو انہیں ہر طرح اپنی لپیٹ میں لے لیں گی اور یہ تباہ وبرباد ہوجائیں گے ۔
Top