Asrar-ut-Tanzil - Al-Furqaan : 61
تَبٰرَكَ الَّذِیْ جَعَلَ فِی السَّمَآءِ بُرُوْجًا وَّ جَعَلَ فِیْهَا سِرٰجًا وَّ قَمَرًا مُّنِیْرًا
تَبٰرَكَ : بڑی برکت والا ہے الَّذِيْ جَعَلَ : وہ جس نے بنائے فِي السَّمَآءِ : آسمانوں میں بُرُوْجًا : برج (جمع) وَّجَعَلَ : اور بنایا فِيْهَا : اس میں سِرٰجًا : چراغ (سورج) وَّقَمَرًا : اور چاند مُّنِيْرًا : روشن
وہ ذات بڑی برکت والی ہے جس نے آسمان میں بڑے بڑے ستارے (برج) بنائے اور اس میں ایک چراغ (سورج) اور روشن چاند بنایا
(رکوع نمبر 6) اسرارومعارف وہ ذات بہت ہی برکت والی ہے جس نے انسان کو حیات کا اتنا وسیع نظام ایک بہت ہی خوبصورت انداز سے ترتیب دے کر ہر شے کو حتی کہ اجرام فلکی کو بھی انسان ہی کی خدمت پہ لگا دیا جو مدتوں سے اپنے اپنے کام کو پوری باقاعدگی سے انجام دے رہے ہیں اس نے آسمانوں کو پیدا فرمایا اور فضا سے آسمانی بروج یعنی اجرام فلکی کے ٹھکانے اور ان کی راہیں مقرر کردیں ، یہ علم ہیئت ، ستارے اور سیارے ان کی رفتار اور اس کے اثرات ان کا وجود اور اس کی تعمیر اور خصوصیات اس میں بہت لمبی بحث ہے خصوصا اس دور میں جبکہ انسانی قدم چاند تک جا پہنچے ہیں اور وہاں کی فضا اس کے اثرات اور ان کی رفتار اور اس کے اسباب وعلل پہ بات ہو رہی ہے ۔ تو اس کی تفصیل میں پڑنے کی یہاں گنجائش نہیں اتنی بات ضرور عرض کی جاسکتی ہے کہ یہ ساری تحقیق کیا ان کا اختیار یا ان کی خصوصیات پہ کوئی اختیار انسان کو دے سکی ہرگز نہیں بلکہ ان کے وجود رفتار اس کے اثرات اور ان میں توازن نے اللہ کی قدرت کاملہ پر مزید دلائل مہیا کردیئے اور یہ ثابت کردیا کہ اتفاقات اس قدر مربوط اور منظم اور اتنی مدتوں نہیں چلا کرتے ، یہ نظام اتفاقات کی پیداوار نہیں اسے پیدا کرنے والے نے پیدا کیا اور وہی اسے چلا رہا ہے قائم رکھے ہوئے ہے ۔ رہا یہ سوال کہ پھر اس تحقیق میں حصہ لیا جائے یا نہیں تو اسلام انسانیت کا مذہب ہے اور اس کے فائدے اور ضرورت کی بات کرتا ہے جس تحقیق سے انسانی فوائد وابستہ ہوں وہ ضرور کی جائے اور جو کام محض انسانیت کی تباہی کے لیے اور لوگوں کو دھمکا کر اپنا غلام بنانے کے لیے بھی اس تکنیک کو جاننا ضروری ہے لہذا علوم جدیدہ سیکھنا اور کفر کا غلبہ اور کافروں کا تسلط توڑنا مسلمان کا فرض ہے ۔ سو ہم نے ان میں سورج کو چراغ بنا دیا کہ اجسام میں حیات اور زندگی کی روشنی بانٹتا ہے اور چاند کو اسی روشنی دوسرے انداز میں پھیلانے پہ لگا دیا ، سورض سے براہ راست آنے والی شعاع پھل پکا دیتی ہے تو چاند سے منعکس ہو کر آنے والی شعاع اس میں مٹھاس پیدا کردیتی ہے اور اللہ ہی وہ عظیم ذات ہے جس نے شب وروز کا خوبصورت نظام ترتیب دیا ہے اور زندگی کی بیشمار ضرورتوں کی تکمیل کا سبب بنا دیا ، اگر کوئی اللہ کی عظمت کو جاننا چاہے تو ان میں ہی غور کرکے دیکھ سکتا ہے کہ اس قادر مطلق نے کس خوبصورتی سے یہ نظام ترتیب دیا ہے اور کتنے اہتمام سے یہ نظام چلایا جا رہا ہے اور بقاء حیات کا سبب بنایا گیا ہے اگر کوئی اس کا شکر ادا کرنا چاہے تو اس کی تخلیقات پہ غور وفکر اس کے احسانات بتانے کا سبب بن جاتا ہے ۔ (عباد الرحمن) ان منکرین کو تو رحمن کی ذات سے اس کے نام سے اس کی عبادت سے کوئی نسبت ہی نہیں رہی مگر جو رحمن کے بندے ہیں وہ زمین پر ظالمانہ اور جابرانہ تسلط نہیں چاہتے بلکہ وہ تو خود کو بندہ ثابت کرنے اور کسی کا مملوک ثابت کرنے میں کوشاں رہتے ہیں اور اپنی پسند کو تج کر مالک کی پسند کو اپناتے ہیں چناچہ ان کا دوسرا وصف یہ ہوتا ہے زمین پر اٹھنے والے قدموں میں بھی تواضع اور اعتدال ہوتا ہے نہ اکڑ کر چلتے ہیں اور نہ متکبرانہ انداز میں اور تیسری علامت ان میں یہ پیدا ہوجاتی ہے کہ جہلا سے یعنی خواہ پڑھے لکھے ہوں اللہ جل جلالہ کی اطاعت سے دور سب کو جاہل کہا جائے ، بات ہوتی ہے تو ان کے جاہلانہ اعتراضات کا جواب خوبصورت انداز میں اور سلامتی کی بات سے یعنی ایسے انداز سے دیتے ہیں کہ اس میں جہلا کے لیے بھی سلامتی ہوتی ہے اگر وہ قبول کریں ، چوتھا وصف ان کا یہ ہوتا ہے کہ جب دوسرے لوگ تھک ہار کر سو جاتے ہیں تب بھی وہ اپنے پروردگار کی عبادت ، اس کے ذکر اور شب بیداری میں کوشاں ہوتے ہیں اور پانچواں وصف یہ کہ شب بیداری اور عبادت ان میں فخر پیدا نہیں کرتی بلکہ اللہ کی عظمت سے مزید آگاہ کرتی ہے اور اپنی عبادت کو بھی اس کی شان کے لائق نہیں جانتے لہذا سے درخواست کرتے ہیں کہ انہیں اپنی ذات سے دور نہ کرے اور جہنم کے عذابوں سے پناہ دے ، چھٹا وصف ان کا یہ ہوجاتا ہے کہ دولت دنیا جو اللہ نے دی ہوتی ہے نہ اسے فضول کاموں میں ضائع کرتے ہیں اور نہ بخیل بن کر قابض ہو کر بیٹھ رہتے ہیں بلکہ اللہ کے حکم کے مطابق اعتدال سے اور خوبصورت انداز میں خرچ کرتے ہیں ، ساتویں بات یہ کہ وہ اللہ کے برابر کسی کو جانتے ہیں نہیں کہ کسی اور کی پسند کا کام کریں یا اس کی خوشی کے لیے خرچ کریں وہ سب کچھ اللہ کی رضا مندی کے لیے کرتے ہیں اور جن امور سے اللہ نے روک دیا ہے رک جاتے ہیں کسی کو بغیر اللہ کی اجازت یا حکم کے قتل نہیں کرتے ، یہ آٹھواں وصف ہے اور نواں یہ کہ زنا کے مرتکب نہیں ہوتے کہ انسان میں دو جبلی خصلتیں بہت طاقتور ہیں ، قوت غضبیہ کو اس مجبور ہو کر آدمی دوسروں کو قتل تک کر گذرتا ہے یاقوت شہوانیہ کہ بندہ جنسی خواہش سے بےبس ہو کر بدکاری کر گذرتا ہے مگر رحمن اپنے بندوں کو ان قوتوں پہ بھی غلبہ عطا کرتا ہے اور ان سے مغلوب ہو کر ان کے مرتکب نہیں ہوتے یعنی کافر قتل و غارت بھی کرے گا اور ہمیشہ ظالم ہوگا کہ ظلم نہ کرنا مسلمانوں کا شیوہ ہے اور کافر معاشرہ جنسی بےراہ روی کا شکار بھی رہے گا کافر حکومتیں چاہیں بھی تو روک نہیں سکتیں کہ یہ صفت بھی مومن کی ہے اور ایمان کے سبب نصیب ہوتی ہے اور جو لوگ جو معاشرے جو تہذیبیں ایسے گھناؤنے جرائم میں ملوث ہوتی ہیں وہ بھلائی سے محروم اور ہدایت سے بہت دور ہوجاتی ہیں اور ان پر عذاب کو دوچند کردیا جاتا ہے کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے یوم حشر تو سخت ترین عذاب میں نہ صرف گرفتار ہوں گے بلکہ انہیں ہمیشہ ہمیشہ اسی میں رہنا ہوگا جیسے دنیا میں سارا وقت کفر اور بدکاری میں رہے ۔ (توبہ) ہاں دنیا کی زندگی میں اس دلدل سے نکلنے کا راستہ بھی موجود ہے اور وہ ہے توبہ یعنی گذشتہ پر اظہار ندامت یا اپنی غلطی کا احساس اور آئندہ کے لیے اپنے کردار کی اصلاح اور کردار ہمیشہ نظریات کے تابع ہوتا ہے لہذا عقیدہ اور عمل کو ٹھیک کرنے کا نام توبہ ہے جس نے اپنے کردار سے ثابت کیا وہی صحیح توبہ کرنے والا شمار ہوگا اور اللہ جل جلالہ کے نزدیک اس کے بندوں میں شمار کرلیا جائے گا نہ صرف ایسی توبہ گناہوں کو معاف کرواتی ہے بلکہ اللہ ایسا کریم سے کہ سیات کو حسنات سے بدل دیتا ہے اور گناہوں کے بدلے نیکیاں نصیب ہوتی ہیں ان کا دسواں وصف یہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ جھوٹی مجالس اور باطل کے کاموں میں شریک نہیں ہوتے جیسے کفر وشرک اور خلاف شریعت امور کے ارتکاب کی مجالس مثلا شیعہ کی مجالس یا مشرکین کے میلے ٹھیلے یا راگ رنگ اور ناچ گانے کی مجلسیں یا پینے پلانے والی پارٹیاں یا جھوٹی گواہی بھی شہادت زور ہی شمار کی گئی ہے اور گیارھویں صفت کہ اگر اتفاق کسی ایسی مجلس پہ گذر ہو بھی جائے تو اس کی طرف توجہ کئے بغیر متانت اور سنجیدگی سے گذر جاتے ہیں نہ اس کی طرف التفات کرتے ہیں اور نہ شراکت کی خواہش اور بارہواں وصف یہ کہ جب اللہ کی بات سنائی جائے تو اندھوں بہروں کی طرح نہیں کرتے ایک تو یہ کہ توجہ ہی نہ دیں جیسے کوئی اندھا ہو اور بہرہ ، دوسرا یہ کہ بلاتحقیق اور بغیر سمجھے محض اللہ کی بات کہنے سے اندھوں کی طرح اس کے ہاتھ کو پکڑ کر چلنا شروع نہیں کردیتے کہ آج کل کی مصیبت یہی ہے جس کا جو جی چاہے وہی کہہ دے کہ قرآن میں ایسا ہی لکھا ہے تو کتاب کو سمجھنا بھی بہت ضروری ہے اور یہ جاننا ضروری ہے کہ کیا نبی کریم ﷺ نے یہی مفہوم ارشاد فرمایا اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین نے یہی سمجھا تھا سلف صالحین اسی پر عمل کرتے تھے تو دین پر ڈاکے مارنے والوں کا راستہ بند ہو سکتا ہے اور اللہ جل جلالہ کے بندے جنہیں اپنے رب سے خلوص ہو ایسا ہی کرتے ہیں اور تیرھواں وصف ان کا یہ ہوتا ہے کہ رب جلیل سے ہمیشہ دعا کیا کرتے ہیں کہ ازواج واولاد اور دنیا کے رشتوں کو بھی ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک یعنی قرب الہی کے حصول میں مددگار بنا دے یہ نہ ہو کہ بیوی بچے اللہ کی راہ میں دیوار بن جائیں اور رشوت ستانی یا چوری ڈکیتی کی طرف لے جائیں یا دوسرے گناہوں میں پھنسا دیں بلکہ انہیں نیک صابر شاکر اور اپنا طالب بنا کر وہ بھی تیرا دین سیکھیں تیری عبادت کریں اور یوں ہمیں نیک لوگوں کا پیش رو بنا دے ۔ (امام) گویا نیکی میں اور نیک اولاد اور احباب کی رہنمائی کے لیے ہر مومن پیشرو اور امام ہونے کی درخواست اور طلب رکھتا ہے کہ پہلے بھی گذر چکا امام سے مراد لیڈر یا پیشرو ہے اگر نیکوں میں ہوگا تو ان کا امام اور اگر بدکاروں یا کفار کا لیڈر ہوگا تو امام الکفر بھی کہلائے گا کہ قرآن نے ایمۃ الکفر سے قتال کا حکم دیا ہے لہذا امام کوئی شرعی منصب نہیں جیسا کہ روافض کا عقیدہ ہے ، اگر منصب شرعی ہوتا تو کافروں کے لیڈروں پہ اس کا اطلاق نہ کیا جاتا ایسے لوگ عملی زندگی میں ان اوصاف کے حامل ہوتے ہیں اور انہیں اوصاف کے حصول کی کوشش میں زندگی بسر کرتے ہیں ان کا بہت اچھا بدلہ دیا جائے گا اور جنت کے بالا خانوں میں انہیں ٹھہرایا جائیگا جو اللہ کریم کے قرب کے مظہر بھی ہوں گے اور ان کی بہترین نعمتوں سے بھی بھرے ہوں گے اس لیے انہوں نے دنیا میں صبر اختیار کیا اپنی خواہشات اور آرزوؤں کو اللہ جل جلالہ کے احکام کے مقابلے میں اہمیت نہ دی یا تکالیف بیماری اور مشکلات سے گھبرا کر اللہ کی اطاعت اور اس کے نبی کی غلامی سے منہ نہ موڑا اس کی یاد اس کے ذکر پر قائم رہے اس کی طلب میں جئے اور اس کی رجا کو طلب کرتے ہوئے موت سے ہمکنار ہوئے انہیں ایسے بلند مقامات ومنازل عطا ہوں گے اور انہیں وہاں مبارک باد دی جائے گی اور سلامتی ان پر نچھاور کی جائے گی کہ فرشتے مبارکبادیں بھی دیں گے اور سلام بھی کریں گے ونیز ہمیشہ کی سلامتی کی نوید اور اس کا وارد ہونا زندگی بھر کی نہ صرف تھکن اتارنے والا ہوگا بلکہ تمنا پیدا کر دے گا کہ کاش دنیا میں تھوڑا سا مجاہدہ اور کام اور بھی کرلیا ہوتا ، آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ اہل جنت کو کوئی حسرت نہ ہوگی بجز اس کے کہ کچھ اور ذکر کرلیا ہوتا یا مجاہدہ اور نیکی کرلی ہوتی یا کوئی بھی سانس اللہ کے ذکر سے خالی کیوں چھوڑا اور ان بلند منازل میں وہ نہ صرف داخل ہی ہوں گے بلکہ وہ ان کے مستقل ٹھکانے اور گھر ہوں گے اور وہ ان خوبصورت آرام دہ گھروں کے مالک ہو کر ان میں ہمیشہ رہیں گے ۔ آپ ﷺ کفار سے کہہ دیجئے کہ میرا پروردگار تمہاری عبادت کی راہ نہیں دیکھ رہا اسے تمہاری بندگی کی ضرورت نہیں بلکہ یہ تمہاری ضرورت ہے کہ اس کی عبادت کرو جس سے تم انکار کیے بیٹھے ہو تو عنقریب اس کا نتیجہ تمہیں بھگتنا پڑے گا اور اس کفر و انکار کا وبال تمہارے گلے کا ہار ثابت ہوگا اور تمہیں دوزخ کے دائمی عذاب میں مبتلا کر کے چھوڑے گا ۔ اللہ کریم دوزخ کے عذاب اور اپنی ناراضگی سے اپنی ہی پناہ میں رکھیں آمین ۔ فقیر محمد اکرم 93۔ 3۔ 23 28 رمضان المبارک 1413 ھ۔
Top