Asrar-ut-Tanzil - Ash-Shu'araa : 34
قَالَ لِلْمَلَاِ حَوْلَهٗۤ اِنَّ هٰذَا لَسٰحِرٌ عَلِیْمٌۙ
قَالَ : فرعون نے کہا لِلْمَلَاِ : سرداروں سے حَوْلَهٗٓ : اپنے گرد اِنَّ ھٰذَا : بیشک یہ لَسٰحِرٌ : جادوگر عَلِيْمٌ : دانا، ماہر
اپنے اردگرد کے سرداروں سے کہنے لگ کہ یقینا یہ بڑا ماہر فن جادوگر ہے
آیات 34 تا 51 اسرار و معارف تو فرعون موسیٰ علہی السلام سے مخاطب ہونے کی بجائے اپنے امراء دربار سے کہنے لگا کہ دیکھو کتنا ماہر جادوگر ہے اس کے ارادے تو یہ نظر آتے ہیں کہ جادو کے زور سے ملک ہی چھین لے گا اور تم سب کو یہاں سے بھگا دیگا حالانکہ موسیٰ (علیہ السلام) نے دعوت الی اللہ دی تھی اور بنی اسرائیل کو آزاد کرنے کی بات ارشاد فرمائی تھی۔ ان کی حکومت یا ملک تک کی بات نہ کی تھی۔ فرعون چونکہ دلائل میں لاجواب ہوچکا تھا اس لیے ادھر کی بات بنا کر اپنے امراء کو ساتھ رکھنے کا آرزومند تھا چناچہ کہنے لگا اب آپ لوگ جو مشورہ دیں گے اسی کے مطابق عمل کیا جاسکے گا تو امراء نے مشورہ دیا کہ فی الحال موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو لوٹا دیا جائے اور ان سے کوئی تعرض نہ کیا جائے کیونکہ ملک مصر میں ایک سے ایک اچھا جادوگر موجود ہے تو آپ شاہی حکم روانہ کردیں تاکہ جادوگری کے تمام ماہرین کو جمع کیا جاسکے اور یوں ان کے جادو کا مقابلہ کیا جائے نیز موسیٰ (علیہ السلام) سے وقت طے کرلیا گیا اور کہا گیا کہ ہم آپ کے مقابلہ میں اپنے جادوگر لائیں گے آپ نے بھی وقت طے کرلیا اور اس بات پر اصرار نہ فرمایا کہ یہ معجزہ ہے جادوگری نہیں بلکہ وقت پر فیصلہ چھوڑ دیا کہ جب وقت آئے گا تو جادو اور معجزہ کا فرق از خود ظاہر ہوجائے گا۔ جادو اور معجزہ کا فرق ایک بات تو یہ واضح ہے کہ جس دور میں انسانوں کے پاس جس قسم کے کمالات تھے اسی قسم کے معجزات انبیاء (علیہ السلام) کو عطا ہوئے کہ لوگ جس فن سے واقف ہیں اسی میں پہچان کرسکیں کہ ایسا ہونا محض اللہ کی قدرت سے ممکن ہے ورنہ انسانی بس میں نہیں۔ دوسری بات یہ واضح ہوگئی کہ معجزہ یا کرامت احقاق حق کے لیے ہوتے ہیں اور دین کی حقانیت کی دلیل بنتے ہیں جبکہ جادو یا شعبدہ دنیا کے مفادات کے لیے کیا جاتا ہے اور تیسرے یہ کہ جادو میں شے کی حقیقت تبدیل نہیں ہوتی ویسی ہی رہتی ہے دیکھنے والوں کو بدلی ہوئی نظر آتی ہے جبکہ معجزہ میں جو ظاہر ہوتا ہے وہ واقعی ایسا ہی ہوتا ہے جیسے جادوگروں کی رسیاں اور لاٹھیاں لوگوں کو سانپ نظر آتی تھیں مگر موسیٰ (علیہ السلام) کا عصا صرف نظر ہی نہ آتا تھا واقعی سانپ بن جاتا تھا چناچہ سب اشیاء کو نگل گیا۔ جادوگر وقت مقررہ پر جمع ہوگئے اور فرعونیوں نے خوب ڈھنڈورا پیٹا کہ سب لوگ جمع ہوں اور تماشہ دیکھیں نیز مقابلے میں جادوگروں کی پیٹھ ٹھونکیں اور جب وہ جیت جائیں گے تو ان کا خوب جلوس نکالیں گے کہ ہر جادوگر سانپ بنانے کا دعویدار تھا چناچہ فرعونی سمجھ بیٹھے کہ موسیٰ کا ایک سانپ ان سب کا مقابلہ کب کرسکے گا۔ جادوگروں نے پہلے فرعون کے پاس حاضری دی اور اپنی بات پیش کی کہ مقابلہ جیتنے کی صورت میں ہمیں ایسا ہی انعام بھی ملنا چاہیے جیسا بڑامقابلہ ہے کہ جس نے فرعون کو مجبور کردیا ہے اس لیے کہ حاصل ہی دنیا کے مفادات ہوتا ہے فرعون نے بھی ان کی بہت حوصلہ افزائی کی اور کہا تمہیں امید سے زیادہ ملے گا نہ صرف دولت کے انبار پاؤ گے بلکہ آئندہ کے لیے تمہیں دربار میں جگہ دی جائے گی اور میرے امراء میں شمار کیے جاؤگے۔ چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں پہلے اپنا کمال پیش کرنے کی دعوت دی جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد ہے انہوں نے خود یہ اجازت چاہی تھی کہ یا موسیٰ آپ پہلے اظہار کریں گے یا ہمیں اجازت ہے اور یہ احترام انہوں نے ایک باکمال جادوگر جان کر کیا کہ جس نے فرعون کو مقابلے پر مجبور کردیا تھا مگر نبی کا احترام کرنا انہیں حق سمجھنے کا شعور دے گیا خواہ نبی مانے بغیر کیا تو بھی ثمرات سے خالی نہ رہا انہوں نے اپنی رسیاں لاٹھیاں اور جو کچھ بھی وہ لائے تھے میدان میں پھینک دیں تو میدان اژدہوں سے بھر گیا اور ہر طرف بڑے بڑے سانپ پھنکارنے لگے یہ دیکھ کر کہنے لگے عظمت فرعون کی قسم ہم ضرور جیت جائیں گے اب اتنے بڑے سانپوں کا یہ کیا بگاڑیں گے انہوں نے فرعون کی عظمت کی قسم کھائی ایسے ہی آج کل غیر اللہ کی قسمیں کھانے کا رواج ہے جو سراسر ناجائز ہے۔ قسم صرف اللہ کی کھائی جاسکتی ہے اور جس قدر گناہ جھوٹ پر اللہ کی قسم کھانے کا ہے غیر اللہ کی قسم سچ پر بھی کھائی جائے تو اس سے کم گناہ نہ ہوگا جیسے تمہاری قسم یا تمہارے سر کی قسم یا بیٹے کی قسم وغیرہ۔ موسی (علیہ السلام) نے بھی اپنا عصا مبارک ڈال دیا تو وہ اتنا بڑا اژدہا بن گیا کہ سانپوں کی عادت کے مطابق اپنے سے چھوٹے سانپوں کو نگلنا شروع کردیا اور دیکھتے ہی دیکھتے سارا میدان خالی کردیا سب کو چٹ کرگیا اور جب موسیٰ (علیہ السلام) نے پکڑا تو ویسا ہی عصا تھا اس میں کچھ بڑھا نہ تھا سانپ کا پیٹ ت یقینا پھولا ہوگا اور کتنا بڑا اژدہا ہوگا کہ ہزاروں سانپوں کو نگل گیا مگر جب عصا بنا تو اپنی پہلی ہی صورت پر تھا۔ حضرت جی بحر العلوم (رح) فرماتے تھے کہ جادوگروں نے دیکھا اگر موسیٰ (علیہ السلام) بھی جادو کرتے تو ان کا جادو باطل ہوجاتا اور رسیاں اور لاٹھیاں تو باقی رہ جاتیں جبکہ یہاں کچھ نہ بچا تھا نیز اپنے کمال کا انعام دولت کی صورت میں چاہتے مگر یہاں پر بات اللہ پر ایمان لانے کی تھی تو انہیں یقین ہوگیا کہ یہ نبی کا معجزہ اور اللہ کا فعل ہے چناچہ سب سجدے میں گر گئے اور اپنے ایمان لانے کا اعلان کردیا نیز یہ سب کچھ تو دوسرے سب لوگ بھی دیکھ رہے تھے انہیں نبی کا ادب کرنے کا اجر بھی حق قبول کرنے کی استعداد کی صورت میں نصیب ہوا کہنے لگے ہم پروردگار پر ایمان لاتے ہیں وہی رب جو موسیٰ او ہارون (علیہ السلام) کا رب ہے۔ ایمان باللہ کی تعیین جیسا کہ یہاں مرکوز ہے کہ ہم اسی رب پر ایمان لاتے ہیں جو موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) کا رب ہے ایسا ہی فقہ کے مطابق ضروری ہے کہ بچے کو سکھایا جائے کہ میں اللہ پر ایمان لاتا ہوں جس کی دعوت حضرت محمد رسول اللہ ﷺ بن عبداللہ جو مکہ میں پیدا ہوئے اور مدینہ ہجرت فرمائی نے دی تاکہ متعیین ہوجائے کہ کسی غیر اللہ ہی کو تو اللہ تصور نہیں کر رکھا جب جادوگر سجدے میں گر گئے اور اپنے ایمان لانے کا اعلان کردیا تو فرعون سخت پریشان ہوگیا کہ اس نے بہت سے لوگوں کو اس امید پر جمع کر رکھا تھا کہ جادوگر غالب ہونگے مگر یہاں بات ہی الٹ گئی اور موسیٰ (علیہ السلام) کا غلبہ تو لوگوں کے ایمان لانے کا سبب بن سکتا تھا چناچہ اس نے سب سے پہلے تو یہ الزام لگایا کہ اچھا تو یہ تمہاری سازش تھی اور موسیٰ ہی تمہارے استاد اور بڑے جادوگر تھے اور یوں تم سب مل کر مجھے ناکام کرنے کا منصوبہ بنا لائے تھے تب ہی تو میرے پوچھے بغیر اتنا بڑا اعلان کر گزرے ورنہ تو مجھے بتانا چاہیئے تھا کہ ہم مغلوب ہوگئے اب کیا کیا جائے اور یہ سب الزام تھا اسے خبر تھی کہ موسیٰ (علیہ السلام) جتنا عرصہ مصر میں رہے اسی کے محل میں تھے اور جب نکلے تو ملک مصر سے ہی دور چلے گئے پھر بھلا ان کے استاد کیسے ہوگئے لیکن جہلا عموما تحقیق سے عاری ہونے کے سبب ایسی ہی فضولیات کو مان لیا کرتے ہیں نیز اس نے ان کو بہت سخت سزا دینے کا ارادہ کرلیا کہ اس جھوٹ کے ساتھ جب تشدد کا مظاہرہ ہوگا تو سب لوگ اسی کو ماننے میں عافیت سمجھیں گے چناچہ کہنے لگا کہ میں تمہارا ایک طرف کا ہاتھ اور دوسری طرف کا پاؤں کاٹ دوں گا اور یوں تمہیں تڑپتے ہوئے سولی پہ لٹکا دوں گا کہ تمہیں میری نافرمانی کی سخت سزا کا مزا چکھایا جائے تو انہوں نے فرمایا کہ ہ تو کوئی بات ہی نہیں تم جو کچھ کرسکتے ہو کر گزرو ہم قتل بھی ہونگے تو اپنے رب کی بارگاہ میں پہنچ جائیں گے اور تمہارا یہ ظلم بھی ہمارے لیے نجات اور ترقی درجات کا سبب بن جائے گا یہی ہمارا مقصود بھی ہے کہ رب کریم ہماری خطاؤں کو معاف کردے اور یہ کہ ان تمام حاضرین میں ہم ہی کو سب سے پہلے ایمان لانے کی سعادت حاصل ہوئی۔ یہ مشرکین آپ کی بعثت سے پہلے کہا کرتے تھے کہ ہم تک تو صحیح دین پہنچا ہی نہیں پہلی کتب ہی سلامت پہنچ گئی ہوتیں تو ہم اطاعت کا حق ادا کردیتے اور اللہ کے نہایت مخلص بندے ہوتے مگر جب آپ مبعوث ہوئے آسمانی کتاب لائے تو انکار کردیا انہیں جلدی پتہ چل جائے گا کہ جس طاقت کا انہیں گھمنڈ ہے وہ نبی کا راستہ نہ روک سکے گی کہ یہ تو ہمرا فیصلہ ہے کہ ہمارے رسول ہی ہمیشہ فتح یاب ہوں گے اور ہماری مدد ان کے ساتھ ہوگی اور وہ لوگ جو خود کو اللہ کا سپاہی بنائیں گے کبھی شکست کا منہ نہ دیکھیں گے اور ہمیشہ ان کی کامیابی یقینی ہوگی آپ ذرا انتظار فرمائیے اور دیکھتے رہیے کہ ان کے ساتھ ہوتا کیا ہے یہ خود ہمارے عذاب کو جلدی آنے کی دعوت دے رہے ہیں یعنی آپ کی مخالفت اور ایذا رسانی ہی تو اس کے نزول کا سبب ہے اور جب آئے گا تو ان کا حال بہت ہی برا ہوگا آپ صرف انتظار فرمائیے اور دیکھیے کہ خود انہیں بھی معلوم ہوجائے گا۔ کہ تیرا پروردگار ہی پاک ہے اور بہت بلند ہے اس کی شان ان کی بےہودی باتوں کو اس کی بارگاہ میں گذر نہیں اور سلامتی ہے اللہ کی طرف سے اس کے رسولوں پر اور سب خوبیاں اور سارے کمالات صرف اسی ذات پاک کو سزاوار ہیں۔ نبی کے ساتھ قلبی تعلق علوم نبوت کے حصول کا سبب بن جاتا ہے یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ جادوگروں کو فرعون نے طلب کیا اس سے پہلے تو انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کا نام بھی نہ سنا ہوگا پھر یہاں بھی مقابلے سے واسطہ پڑا اور انہیں بھی جادوگر ہی سمجھے مگر جب حق ظاہر ہوا اور اللہ نے ایمان کی توفیق دی تو اس قدر خلوص اور دل کی گہرائیوں سے ایمان لائے کہ علوم نبوت بغیر ظاہری سبب کے ان کے دل میں وارد ہوگئے اور ان کی زبان پر جاری ہوگیا کہ حق کے مقابلے میں موت کے خوف کی کوئی حیثیت نہیں نیز راہ حق میں موت اللہ کے قرب اور اخروی نجات اور ترقی درجات کا سبب ہے اور یہی ہمارا مقصود ہے آخرت کا تذکرہ اس انداز سے فرمایا کہ گویا اللہ نے حجابات ہٹا دیے ہوں اور وہ ایک ایک حقیقت کا مشاہدہ فرما کر بیان کر رہے ہوں اس لیے کہ بظاہر انہیں ان حقائق کی تعلیم دینے کی نوبت نہ آسکی تھی یہی کمال صحابہ کرام ؓ کو نصیب ہوا کہ برسوں کے جاہل ایمان لاتے ہی علوم دین و دنیا کے فاضل بن گئے اور غازی ، مجاہد اور شہید کہلائے۔
Top