Asrar-ut-Tanzil - An-Naml : 45
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَاۤ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ فَاِذَا هُمْ فَرِیْقٰنِ یَخْتَصِمُوْنَ
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَآ : اور تحقیق ہم نے بھیجا اِلٰى : طرف ثَمُوْدَ : ثمود اَخَاهُمْ : ان کے بھائی صٰلِحًا : صالح اَنِ : کہ اعْبُدُوا اللّٰهَ : اللہ کی عبادت کرو فَاِذَا : پس ناگہاں هُمْ : وہ فَرِيْقٰنِ : دو فریق ہوگئے يَخْتَصِمُوْنَ : باہم جھگڑنے لگے وہ
اور بیشک ہم نے ثمود کے پاس ان کے (قومی) بھائی صالح (علیہ السلام) کو بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو تو وہ دو فریق ہو کر آپس میں جھگڑا کرنے لگے
رکوع نمبر 4 ۔ آیات 45 تا 59 ۔ اسرار و معارف : ورنہ قوم ثمود میں دیکھیے جب ان ہی کا قومی بھائی صالح (علیہ السلام) ہم نے مبعوث فرمایا اور یہی دعوت کہ اللہ ہی کی عبادت کرو انہیں پہنچی تو وہ دو حصوں میں بٹ گئے کچھ لوگ ایمان لانے کے حق میں تھے اور کچھ نہ لانے پر مصر تھے جو ایمان نہ لا رہے تھے بلکہ یہ کہنے لگے کہ جو بھی عذاب آتا ہے آئے ہم ایمان نہ لائیں گے اور آگے بیان ہے کہ اس طرف بڑے بڑے سردار تھے تو صالح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ بھلا یہ کیا دانشمندی ہے کہ توبہ کا موقع نصیب ہے اور تم اللہ کی رحمت کو پا سکتے ہو مگر تم اس سے پہلے عذاب کا مطالبہ لیے بیٹھے ہو تو وہ کہنے لگے کہ یہ ساری بدبختی اور نااتفاقی آپ کے سبب ہے اور آپ کے ماننے والوں کی وجہ سے ہے ورنہ ہم تو بہت اتفاق سے رہ رہے تھے یہ اعتراض آج بھی کیا جاتا ہے کہ جب دین کی بات کی جائے اور برائی سے روکا جائے تو معاشرے میں ناتفاقی کا طعنہ دیا جاتا ہے مگر یاد رہے برائی پر اتفاق اجتماعی خود کشی کا نام ہے اور نیکی پہ قائم رہنا ہی اصل اتفاق ہے خواہ اس پہ چند لوگ ہوں اور برائی پہ اکثریت بھی متفق ہوگی تو فساد ہی لائے گی جیسا کہ مغربی جمہوریت میں کثرت رائے کے نتائج کا مشاہدہ وطن عزیز میں گذشتہ نصف صدی سے ہورہا ہے۔ سو فرمایا کہ بدبختی تمہارے کردار کی وجہ سے کہ اللہ کی نافرمانی پہ جمے ہوئے ہو اور یاد رکھو یہ جو تمہیں چند روز مہلت مل رہی ہے یہ بھی محض آزمائش ہے اگر باز نہ آئے تو نتیجہ بہت سخت ہوگا مگر شہر میں جو نو سردار تھے وہ سب کے سب فسادی تھے اور انہوں نے تو نہ صرف اپنی قوم میں بلکہ گردو نواح میں بھی فساد ڈال رکھا تھا اور کبھی بھلائی کا کام نہ کرتے تھے جب لاجواب ہوئے تو کہنے لگے کہ آپش میں قسمیں کھا کر عہد کرو کہ رات کی تاریکی میں سب مل کر حضرت صالح (علیہ السلام) کو اور ان کے گھر والوں کو قتل کردیں پھر ان کے ورثا سے کہیں گے کہ ہم تو ان دنوں یہاں موجود ہی نہ تھے اور اپنے کاموں سے باہر گئے ہوئے تھے یوں اپنی بات کے سچا ہونے پر اصرار کریں گے اور معاملہ ختم ہوجائے گا انہوں نے یہ خفیہ تدبیر کی اور ہم نے بھی ایک خفیہ تدبیر کی جو وہ نہ سمجھ سکے۔ تفاسیر میں ہے کہ رات کو نکلے تو ایک پہاڑی کے دامن سے گزرتے ہوئے ایک بہت بڑا پتھر لڑھک کر ان پر آگرا اور ہلاک ہوگئے اور پھر قوم بھی اپنے کردار کے باعث ہلاک ہو کر نابود ہوگئی اور ان کے برے کردار نے ان کے گھروں کو اجاڑ دیا جو ویران پڑے ہیں اگر کسی کی بھی عقل سلامت ہو تو اس کے لئے اس واقعہ میں بڑی عبرت ہے جب کہ سب قوم تباہ ہوگئی مگر اہل ایمان کا بال بیکا نہ ہوا کہ وہ اللہ کیا اطاعت کرتے تھے یعنی جس بات پر ایمان لاتے تھے اس پر عمل بھی کرتے تھے۔ ایسا ہی واقعہ لوط (علیہ السلام) کا ہے جب انہوں نے قوم کو برائی سے روکا اور فرمایا کہ تم لوگ کتنے بےحیا ہو کہ کھے بندوں برائی کرتے ہو۔ اور عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے شہوت رانی کرتے ہو تم نہ صرف بےحیا ہو بلکہ تم جاہل ہو۔ عام اخلاق بھی نہیں جانتے۔ مغرب کا معاشرہ : آج یہی تصویر مغرب کے معاشرہ کی ہے کہ کلیسا نے ہم جنس پرستی کی اجازت دے دی ہے اور مرد مرد سے شادی کرتا ہے اور ننگے قلب بن گئے ہیں بلکہ سر بازار برہنہ پھرتے ہیں یہ بےحیائی تو ہے ہی جہالت بھی ہے جن لوگوں کو مغربی تہذیب اپنانے کا بھوت سوار ہے یہ سوچ لیں کہ قرآن کی رائے ان کے بارے کیا ہے۔ تو وہ قوم بھڑک اٹھی اور اس کے سوا ان کا جواب نہ تھا کہ لوط (علیہ السلام) کو اور ان کے ماننے والوں کو شہر سے نکال دو یہ بڑے پاکباز بنے پھرتے ہیں مگر قدرت الہی دیکھئے کہ جنہیں وہ آبادی تک سے نکال باہر کرنا چاہتے تھے انہیں کو اللہ نے بچا لیا اور ساری بستی کو لوط (علیہ السلام) کی اہلیہ سمیت جو دل سے کفار کے ساتھ تھی تباہ کردیا ان پر پتھروں کی بارش ہوئی جس نے تباہی میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ کہ دیجیئے کہ سب تعریف اللہ کو سزاوار ہے اور وہ ذات ہر قسم کے یب سے پاک اور بالاتر ہے اور سلامتی اللہ کے برگزیدہ بندوں کے لیے ہے انبیاء (علیہ السلام) اور ان کے متبعین کے لیے خواہ کافر بظاہر کتنا محفوظ نظر آتا ہو بالآخر عذاب الہی کی زد پر ہے اور ان کی مشرکانہ رسومات سے اللہ کی ذات بہت ہی بلند ہے۔
Top