Asrar-ut-Tanzil - Al-Qasas : 14
وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗ وَ اسْتَوٰۤى اٰتَیْنٰهُ حُكْمًا وَّ عِلْمًا١ؕ وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ
وَلَمَّا : اور جب بَلَغَ اَشُدَّهٗ : وہ پہنچا اپنی جوانی وَاسْتَوٰٓى : اور پورا (توانا) ہوگیا اٰتَيْنٰهُ : ہم نے عطا کیا اسے حُكْمًا : حکمت وَّعِلْمًا : اور علم وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح نَجْزِي : ہم بدلہ دیا کرتے ہیں الْمُحْسِنِيْنَ : نیکی کرنے والے
اور جب وہ اپنی جوانی کو پہنچے اور (قوت جسمانیہ اور عقلیہ سے) درست ہوگئے (تو) ہم نے ان کو حکمت اور علم (نبوت) عطا فرمائے اور ہم نیکوکاروں کو ایسا ہی حوصلہ دیا کرتے ہیں
آیات 14 تا 21 اسرارو معارف جب موسیٰ (علیہ السلام) جوانی کو پہنچے تو وہ بہت سمجھدار اور باعلم تھے ہم نے انہیں علم و احکمت کہ فطرت سلیمہ قبل از بعثت نبی کو نصیب ہوتی ہے عطا فرمائی۔ اور نیکی کے کرنے والے مخلص لوگوں کو ایسا ہی بدلہ دیا جاتا ہے۔ نیکی سے دنیا کے امور کو سمجھنے کی استعداد بھی زیادہ ہوجاتی ہے : یہ ثابت ہوا کہ خلوص کے ساتھ نیک اعمال کرنے سے دنیا کے معاملات کو بہتر سمجھنے کی صلاحیت عطا ہوتی ہے ہمارے ہاں جو نیک لوگوں کے زیادہ بھولے ہونے کی بات ہے تو غالبا یہاں نیکی صرف عبادت کو سمجھ لیا گیا ہے جبکہ نیکی سے مراد عبادت اور پوری عملی زندگی میں بھرپور حصہ لینا ہے۔ اللہ کرے ہمارے عبادت گزار لوگ بھی عملی زندگی میں شریک ہوجائیں کہ نیکی غالب آسکے۔ ایک روز آپ ایسے وقت شہر میں آئے جب اکثر لوگوں کے آرام کا وقت تھا تو آپ نے دیکھا کہ دو آدمی آپس میں لڑ رہے تھے ایک تو ان کے گروہ یعنی بنی اسرائیل میں سے تھا اور دوسرا ان کے دشمن یعنی قبطیوں کے گروہ سے۔ لفظ شیعہ : موسی (علیہ السلام) ابھی مبعوث نہ ہوئے اور اسرائیلی ابھی اسلام سے واقف نہ تھے محض ان کا گروہ تھے کہ وہ ان کی حمایت کرتے تھے لہذا یہاں بھی لفظ شیعہ استعمال ہوا۔ قبول اسلام کے بعد انہیں کہیں بھی شیعہ نہیں کہا گیا۔ چنانچہ اسرائیلی جو مار کھا رہا تھا وہ مدد کے لیے چلایا موسیٰ (علیہ السلام) نے قبطی کو روکنا چاہا وہ ان سے الجھ گیا انہوں نے اسے مکہ دے مارا اور ایسا سخت پڑا کہ اس کا کام ہی تمام ہوگیا۔ آپ نے فورا فرمایا کہ یہ کام شیطان کا ہے کہ اس نے یہ فساد کھڑا کرکے میرے لیے مشکلات پیدا کردیں۔ اور اے میرے پروردگار مجھ سے بھی بہت بڑی غلطی ہوگئی تو مجھے معاف فرمادے لہذا اللہ نے معاف فرما دیا کہ وہ بہت بڑا بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ موسی (علیہ السلام) کی توبہ : یہاں علماء نے موسیٰ (علیہ السلام) کی توبہ قبطی کے قتل سے بیان فرمائی ہے اور لکھا ہے کہ اگر چہ آپ نے قتل کے ارادہ سے نہ مارا تھا کہ جرم قرار پاتا محض اتفاقا اس کی موت کا سبب بن گیا پھر بھی انبیاء کی شان ہے کہ مباحات میں بھی توبہ کرتے ہیں مگر ایک پہلو اس بات میں یہ بھی ہے کہ شیطان نے اس اسرائیلی اور قبطی کو لڑا کر موسیٰ (علیہ السلام) کو الجھا دیا تو آپ نے غصہ میں مکہ مارا تو قبطی مرگیا یوں آپ کے لیے بلاوجہ قبل بعثت ہی ایک مصیبت کھڑی ہوگئی تو آپ نے فرمایا یہ سب شیطان کا کیا دھرا تھا اللہ کریم مجھے معاف کردے تو آئندہ میں کسی مجرم یعنی منہادی کی مدد نہ کروں گا کہ یہ اسرائیلی بھی تو کوئی جھگڑالو قسم کا آدمی تھا اور اس پر شیطان کا قابو چل گیا لیکن اللہ کارساز ہے۔ شیطان نے دشمنی کی انہیں شہر چھوڑنا پڑا مر شعیب (علیہ السلام) کی جمعیت میسر آگئی اور شبانی سے کلیمی پہ جا پہنچے۔ آپ دوسرے روز پھر شہر سے گزرے تو خوف بھی تھا کہ کل کا واقعہ کسی کے علم میں نہ آگیا ہو اور کوئی فساد کھڑا نہ ہوجائے کہ اچانکوہ آدی جس کی پہلے مدد فرمائی تھی پھر ایک قبطی سے الجھا ہوا ملا۔ آج پھر وہ مار کھا رہا تھا اور مدد کے لیے چلا رہا تھا آپ نے فرمایا کہ تو بھی اچھا آدمی نہیں ہے اور خود بےراہ آدمی ہے اور فسادی ہے اور اسے چھڑانے کے لیے آگے بڑھے ۔ جھوٹا آدمی الزام تراشی کرتا ہے : اس نے سمجھا کہیں مجھے بھی مکہ نہ جڑ دیں تو کہنے لگا کہ موسیٰ کیا آج آپ مجھے مار دینا چاہتے ہیں جیسے کل ایک آدمی کو قتل کرچکے ہیں آپ بھی محض دنیا پہ اپنی دھاک بٹھانا چاہتے ہیں نیکی یا اصلاح کرنے کا آپکا ارادہ نہیں۔ جھوٹا تھا اس لیے ان پر الزامات لگائے مگر قبطی کے قتل والی بات اہل دربار تک جا پہنچی فرعون پہلے ہی ان کی طرف سے مطمعن نہ تھا قتل کا حکم صادر کردیا تو دربار میں کوئی آدمی ان کو چاہنے والا بھی تھا وہ دوڑا اور موسیٰ (علیہ السلام) کو خبر دی اور کہ کہ امراء دربار آپ کے قتل کی سازش کر رہے ہیں اور میں آپ کی بھلائی چاہتا ہوں لہذا میں یہ عرض کروں گا کہ آپ فورا شہر بھی چھوڑ دیں اور حکومت مصر کی حدود سے چلے جائیں۔ آپ بڑے خوفناک انداز میں بہت احتیاط کے ساتھ نکل ھڑے ہوئے یہ دعا بھی کرتے جاتے تھے کہ اے اللہ مجھے ظالموں سے بچا لے اور میری حفاظت فرما۔
Top