Asrar-ut-Tanzil - Al-Qasas : 51
وَ لَقَدْ وَصَّلْنَا لَهُمُ الْقَوْلَ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَؕ
وَلَقَدْ وَصَّلْنَا : اور البتہ ہم نے مسلسل بھیجا لَهُمُ : ان کے لیے الْقَوْلَ : (اپنا) کلام لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَذَكَّرُوْنَ : نصیحت پکڑیں
اور بیشک ہم نے اس (قرآن) بات کو ان کے پاس یکے بعد دیگرے بھیجا تاکہ یہ نصیحت حاصل کریں
آیات 51 تا 60 اسرارو معارف اور پھر قرآن حکیم کے مسلسل اتارے جانے کی حکمت ارشاد ہوئی کہ ہم نے قرآن کریم کو بتدریج نازل فرمایا کہ لوگوں کو بار بار تازہ بتازہ کلام الہی نصیب ہوتا رہے اور مسلسل دعوت الی اللہ دی جاتی رہے نیز ہر آیت کو واقعات اور سوالات کے جواب میں نازل فرما کر یہ سہولت پیدا کردی کہ یاد رکھنے میں بھی آسانی ہو ورنہ اللہ قادر ہے تورات کی طرح ایک ہی دفعہ بھی عطا فرما دیتا۔ اور یہ محض اعتراض ہے ورنہ وہ لوگ جو اہل کتاب میں سے ایمان دار تھے اور اپنی کتاب پر ہی ایمان رکھتے تھے جب ان کے سامنے یہ آیات پڑھی گئیں تو انہوں نے فورا کہا کہ ہم اس پر ایمان لاتے ہیں کہ یہ حق ہے اور ہمارے پروردگار کی طرف سے ہے اور ہم تو اس کے نازل ہونے اور آپ کی بعثت سے پہلے ہی اپنی کتابوں میں پیش گوئیاں پڑھ کر یہ خقیقت تسلیم کیے بیٹھے تھے اب جب آپ کی بعثت کی سعادت سے مشرف ہونے کا موقع نصیب ہوگا تو بھلا کیسے نہ مانیں گے ۔ دوہرا اجر : اور یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کو دوہرا اجر عطا فرمایا جائے گا کہ انہوں نے ایمان پر استقامت دکھائی اور اپنی کتابوں سے پیشگوئی پڑھ کر بھی ایمان لائے اور پھر جب آپ ﷺ مبعوث ہوئے تو تو بھی ایمان پر قائم رہے یہ وعدہ اور لوگوں سے بھی ہے جیسے ازواج مطہرات سے کہ بحثیت نبی آپ ﷺ کی اطاعت کی اور بحثیت خاوند بھی آپ ﷺ کی خدمت کی۔ اسی طرح بعض دوسرے لوگوں کے حق میں بھی اس انعام کا وعدہ ہے گویا جو عمل بھی وہ کریں گے وہ دوبارہ لکھا جائے گا ورنہ ہر عمل پر اجر کئی گنا عطا ہونا تو ویسے بھی اللہ کی رحمت سے ہوگا مگر ایسے حضرات کا ہر عمل دو بار شمار ہو کر کئی گناہ اضافہ پائے گا ۔ استقامت علی الایمان سے توفیق عمل نصیب ہوتی ہے : اور اس استقامت علی الایمان کے سبب انہیں ایسی توفیق نصیب ہے کہ برائی کے جواب میں بھی بھلائی کرتے ہیں اور برے اعمال کی جہ نیک اعمال کو رواج دیتے ہیں اور بجائے دولت کی محبت میں گرفتار ہونے کے مال و دولت کو بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ یعنی اگر ایمان پہ استقامت نصیب ہو تو یہ توفیق عمل نصیب ہوتی ہے ورنہ بندہ برائی میں پھنس جاتا ہے اور دولت کی محبت میں گرفتار ہوجاتا ہے۔ اور انہیں یہ توفیق نصیب ہے کہ کہ جب ان کفار کی خرافات اور اعتراضات سنتے ہیں تو پرواہ نہیں کرتے اور کہتے ہیں میاں تم جو چاہو کرو اس کا بدلہ تمہیں کو ملے گا اور اپنے اعمال کا بدلہ ہم پائیں گے۔ ہم آپ سے معذرت چاہتے اور ایسی جاہلانہ گفتگو میں پڑنا نہیں چاہتے یعنی کافروں کے اعتراضات سے متاثر ہونا اور فضول بحث میں پڑنا بجائے خود بری بات ہے جس سے اللہ انہیں بچاتا ہے۔ آگے ارشاد ہوتا ہے کہ آپ کا کام ہدایت پہنچانا تو ہے مگر ہدایت پر چلانا آپ کا کام نہیں کہ آپ تو چاہتے ہیں سب کفار اسلام قبول کرلیں مگر ایسا نہیں ہوسکتا یہ تو اللہ کی پسند ہے کہ وہ کسے ہدایت بخشتا ہے اور اس نے بتا دیا ہے کہ جس کے دل میں آپ کے ارشادات سن کر ہدایت کی طلب پیدا ہوگی اسے ضرور ہدایت بخشے گا ورنہ نہیں تو وہ ہدایت کے طلب گاروں سے بہت اچھی طرح واقف ہے۔ ابوطالب کے بارہ میں : مفسرین کرام کے مطابق یہ آیت ابو طالب کے بارہ میں نازل ہوئی کہ آپ ﷺ کی بہت خواہش تھی انہیں ایمان نصیب ہو مگر خود وہ آمادہ نہ ہوئے۔ صاھب روح المعانی نے اس موضوع پر بحث سے منع فرمایا ہے کہ آپ ﷺ کو طبعی طور پر دکھ پہنچنے کا احتمال ہے۔ دنیا کے نقصان کا خوف بھی ایمان لانے میں رکاوٹ بن سکتا ہے : ان کفار کے دلوں میں تو دنیا کی محبت ایسے سمائی ہے کہ یہ کہتے ہیں کہ اگر ہم آپ کی بات مان لیں اگرچہ بات تو آپ کی حق ہے مگر ہمیں کفار سخت نقصان پہنچائیں گے اور گھروں تک سے نکال دیں گے یہی حال آج کے مسلمان کہ نماز روزہ تو کرتا ہے مگر عملی زندگی میں مغرب کی کافرانہ اداؤں کا اثر ہے کہ کہیں امریکہ ناراض نہ ہوجائے اور یہ اعتراض اہل مکہ کو تو زیب ہی نہیں دیتا کہ ان کے لیے اللہ نے حرم کو جائے امن بنا دیا ہے جہاں کوئی کسی پر زیادتی نہیں کرتا اور روئے زمین سے ہر قسم کے میوہ جات یہاں کھنچے چلے آتے ہیں حتی کہ سارا سال سارے موسموں کے اور ساری دنیا کہ پھل دستیاب ہوتے ہیں اور کبھی کمی واقع نہیں ہوتی۔ یہ ہمارا بہت بڑا احسان ہے مگر لوگ اس کا شعور ہی نہیں رکھتے۔ پھر دولت دنیا کا بھروسہ کیا ہے کتنے لوگ تھے جو بڑے ٹھاٹھ سے رہا کرتے تھے لیکن جب انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی تعلیمات کا انکار کیا تو اب یہ ان کے گھر ویران پڑے ہیں کہ اس کے بعد وہ زیادہ دیر تک نہ رہ سکے۔ اس لیے کہ یہ دنیا اور اس کی دولت کے مالک اور وارث ہم ہیں جب تک چاہیں دیں اور جب چاہیں واپس لے لیں۔ اور آپ کا پروردگار ایسا کریم ہے کہ جب تک کسی جگی کے باسی ظلم میں ایک خاص حد تک نہ چلے جائیں درگزر فرماتا ہے اور مہلت دیتا ہے لیکن اگر باز نہ آئیں تو ہلاک کردیے جاتے ہیں لہذا جس مال و دولت اور گھر گھاٹ کو یہ بچانا چاہتے ہیں اور جانتے ہیں کہ ایمان لونے سے مالی نقصان نہ ہو وہ محض چند روزہ دنیا کی زندگی کے لیے ان کے پاس ہے مگر ایمان لے آتے تو اس کا اجر جو اللہ کے پاس ہے اس سے بہت بہتر بھی ہے اور وہ ہمیشہ کے لیے بھی کیا ان میں اتنی عقل بھی نہیں۔
Top