Asrar-ut-Tanzil - Al-Qasas : 61
اَفَمَنْ وَّعَدْنٰهُ وَعْدًا حَسَنًا فَهُوَ لَاقِیْهِ كَمَنْ مَّتَّعْنٰهُ مَتَاعَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ثُمَّ هُوَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ مِنَ الْمُحْضَرِیْنَ
اَفَمَنْ : سو کیا جو وَّعَدْنٰهُ : ہم نے وعدہ کیا اس سے وَعْدًا حَسَنًا : وعدہ اچھا فَهُوَ : پھر وہ لَاقِيْهِ : پانے والا اس کو كَمَنْ : اس کی طرح جسے مَّتَّعْنٰهُ : ہم نے بہرہ مند کیا اسے مَتَاعَ : سامان الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی ثُمَّ : پھر هُوَ : وہ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت مِنَ : سے الْمُحْضَرِيْنَ : حاضر کیے جانے والے
بھلا وہ شخص جس سے ہم نے ایک پسندیدہ وعدہ کررکھا ہے پس وہ اس (وعدہ کی چیز) کو پانے والا ہے ، اس شخص جیسا ہوسکتا ہے جس کو ہم نے محض دنیا کی زندگی کا (چند روزہ) فائدہ دے رکھا ہے ؟ پھر وہ ان لوگوں میں ہوگا جو قیامت کے دن (بطور مجرم ہمارے سامنے) پیش کئے جائیں گے
آیات 61 تا 75 اسرارو معارف اور بھلا جس شخص کو بہت حسین وعدہ دیا اگیا ہو یعنی آخرت کی کامیابی کا اور وہ اسے پانے والا بھی ہو اس کی برابری وہ شخص تو نہیں کرسکتا جس کے پاس چند روز مال و دولت دنیا تو ہو مگر قیامت کے روز اسے مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا ہونا ہو وہ ایسا دن ہوگا کہ جب ان کفار و مشرکین پر سوال ہوگا کہ جن لوگوں کو تم نے میرا شریک مان رکھا تھا وہ کہاں ہیں تو وہ لوگ جو یہاں دنیا میں ان کے پیشوا بنے ہوئے ہیں اپنے اوپر جرم ثابت ہوچکنے کے بعد یہ عذر کریں گے کہ اے اللہ خود گمراہ تھے لہذا انہیں بھی وہی کچھ بتایا جس پر خود عمل کرتے تھے لیکن انہوں نے ہماری بات اپنے اختیار سے مانی ہم نے ان پر کوئی جبر نہیں کیا حتی کہ شیطان بھی لوگوں سے کہے گا مجھے تم پر کوئی اختیار نہ تھا تم نے اللہ کی بات قبول نہ کی اور میرے جھوٹ کو مان لیا جیسا کہ یہ دوسری جگہ مرکوز ہے۔ چناچہ وہ سب کہیں گے کہ اے اللہ ہم ان سے برات کا اظہار کرتے ہیں یعنی ہمیں ان کا شریک جرم نہ بنایا جائے کہ یہ ہماری پرستش نہ کرتے تھے بلکہ اپنی خواہش نفس کے غلام تھے۔ پھر انہیں حکم ہوگا کہ پکارو اپنے معبودان باطلہ کو اور پکاریں گے مگر انہیں کوئی جواب تک نہ ملے گا اور جہنم کا (علیہ السلام) ذاب سامنے دیکھ رہے ہوں گے کیا ہی اچھا ہوتا کہ انہوں نے ہدایت قبول کرلی ہوتی۔ پھر اعلان کیا جائے گا کہ اب سوچو کہ تم نے اللہ کے فرستادہ نبیوں اور رسولوں کو کی اجواب دیا تھا لیکن عذاب ان کی یادداشتیں تک کھو دے گا آپس میں بھی ایک دوسرے سے پوچھ پاچھ نہ سکیں گے ہاں مگر جو اب توبہ کرلے ۔ توبہ کیا ہے : اور توبہ یہ ہے کہ عقائد درست کرے اور عقائد کے مطابق نیک اعمال بجا لائے سو ایسے لوگوں کے کامیاب ہونے کی امید کی جاتی ہے۔ تیرا پروردگار جس چیز کو چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے اور اپنی مخلوق سے جسے چاہے پسند کرلے یہ پسند و ناپسند ان کے اختیار میں نہیں بلکہ ان کے مشرکانہ عقائد سے اللہ کریم بہت بلند ہے اور اس نے فیصلہ کردیا کہ جس کے دل میں جتنی انابت اور جس قدر خلوص ہوگا اللہ اسے اتنا پسند فرمائے گا۔ فضیلت کا معیار : علما کے نذدیک معیار فضیلت دو چیزیں ہیں ایک اختیاری اور ایک غیر اختیاری۔ غیر اختیاری یہ ہے کہ زمانوں پہ ایک خاص زمانے کو یا زمین پر ایک خاص جگہ کو جیسے بیت اللہ شریف یا دنوں پر جمعہ کے روز کو رمضان کو مہینوں پر یا لیلۃ القدر کو راتوں پر اور دوسری اختیاری جیسے انبیاء کے علاوہ انسانوں کو ان کے خلوص اور کردار پر یا جس جگہ نیک کام کے لیے جائیں ان کے باعث اس جگہ کو دوسرے مقامات پر ایسے ہی عالم کو پھر تابعی اور پھر صحابہ کو اور ان میں بااتفاق علماء حق سب میں خلفائے راشدین کو اور ان سب پر ابوبکر صدیق ؓ کو پھر حضرت عمر ؓ حضرت عثمان ؓ اور حضرت علی ؓ کو۔ یہخیال کرو کہ اگر تم لوگوں پہ ہمیشہ کے لیے رات ہی طاری کردی جاتی تو کتنی نعمتوں سے تمہاری حیات محروم ہوجاتی۔ بھلا کسی میں ہمت ہے کہ رب جلیل کے علاوہ تمہیں روشنی مہیا کرتا اور دن پیدا کردیتا پھر تمہیں کیا ایسی باتیں سنائی ہی نہیں دیتیں اور اگر اللہ ہمیشہ کے لیے دن کردیتے سورج کبھی غروب ہی نہ ہوتا قیامت تک دن ہی دن چلا جاتا تو کوئی ایسا معبود اللہ کے بغیر تھا جو تمہیں رات کے آرام مہیا کرتا اور رات کا سکون واپس لا دیتا۔ کیا یہ حقائق تمہاری نظر میں نہیں آتے ۔ یہ تو اس کا کرم ہے کہ کاروبار حیات کے لیے دن بخشا اور سکون و آرام کے لیے رات عطا فرما دی اور اتنے انعامات اس لیے بخشے کہ تم اس کا شکر ادا کرو۔ وہ دن آنے والا ہے جب اعلان ہوگا کہ لوگو ! کہاں ہیں تمہارے معبودان باطلہ جن کو تم اللہ کے برابر سمجھ بیٹھے تھے۔ اور ہر امت سے ان پر گواہ بھی لائیں گے یعنی ہر امت کا نبی جو تم تک حق کے پہنچنے کی گواہی دے گا اور ارشاد ہوگا کہ اگر تمہارے پاس کوئی دلیل ہے تو پیش کرو تب انہیں معلوم ہوگا اللہ کی بات ہی حق ہے اور جو کچھ انہوں نے زندگی بھر خرافات جمع کی تھیں ان کا کوئی پتہ ہی نہ مل سکے گا۔
Top