Asrar-ut-Tanzil - Aal-i-Imraan : 10
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَنْ تُغْنِیَ عَنْهُمْ اَمْوَالُهُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُهُمْ مِّنَ اللّٰهِ شَیْئًا١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ هُمْ وَ قُوْدُ النَّارِۙ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا لَنْ تُغْنِىَ : ہرگز نہ کام آئیں گے عَنْھُمْ : ان کے اَمْوَالُھُمْ : ان کے مال وَلَآ : اور نہ اَوْلَادُھُمْ : ان کی اولاد مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ شَيْئًا : کچھ وَاُولٰٓئِكَ : اور وہی ھُمْ : وہ وَقُوْدُ : ایندھن النَّارِ : آگ (دوزخ)
یقینا جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کو نہ ان کے مال اللہ سے ذرہ بھر بچا سکیں گے اور نہ ان کی اولادیں۔ اور یہی لوگ آگ کا ایندھن ہیں
آیات 10- 20 اسرارو معارف ان الذین کفروا………………وبئس المھاد۔ بے شک جن لوگوں نے کفر کیا۔ ان کے مال اور اولاد اللہ کے مقابل ذرہ برابر کام نہ آئیں گے یا وہ یہ سمجھ رکھیں کہ ان کے پاس دولت ہے اولاد ہے تو شاید عنداللہ وہ مقبول ہیں اور یہ اللہ کی خوشنودی کی دلیل ہے ہرگز نہیں ! یہ ایک نظام ہے اللہ کا مقرر کردہ جو چل رہا ہے ہاں ! اللہ کی رضامندی کی دلیل دین ہے۔ اگر دین قبول نہ کیا تو مالدار ہوں یا صاحب اولاد ہوں ، دوزخ کا ایندھن ہیں بلکہ ترجمہ تو یوں ہے کہ یہی لوگ دوزخ کا ایندھن ہیں۔ ان کا رویہ تو آل فرعون جیسا ہے یا ان سے پہلے گزرنے والے کافروں جیسا کہ دولت اور ریاست کے لالچ میں حق کو قبول نہ کیا اور اللہ کی آیات کی تکذیب کی۔ اللہ نے ان کے جرائم کی ان کو سزا دی اور اللہ کی سزا بہت سخت ہے۔ آپ ﷺ کفار سے فرمادیجئے کہ عنقریب تم مغلوب ہوجائو گے اور تمہیں ہنکا کر جہنم کی طرف لے جایا جائے گا۔ یعنی دونوں عالم میں تم داروگیر سے نہ بچ سکو گے کہ دنیا میں تمہیں مسلمانوں کے ہاتھ سے شکست ملے گی اور آخرت میں جہنم۔ جو بہت برا ٹھکانہ ہے۔ مفسرین فرماتے ہیں کہ فتح بدر کے بعد یہودنے کہا تھا کہ مسلمانوں کو کسی آزمودہ کار جنگی قوت سے واسطہ نہیں پڑا۔ مکہ والے ناتجربہ کار تھے اگر کبھی ہم سے مقابلہ ہوا تو خبر ہوجائے گی۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں جن میں ان کو شکست کی پیش گوئی تھی جو حرف بحرف پوری ہوئی۔ بنی قریظہ قتل ہوئے اور بنی نصیر جلاوطن۔ نیز خیر فتح ہوا۔ جس کے بارے یہود سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ اتنی بڑی قوت مسلمانوں کے ہاتھوں مخلوف ہوجائے گی مگر چشم عالم نے دیکھا یہ سب کچھ ہو کر رہا اور یہیں پر بس نہیں۔ نزول اگرچہ خاص ہو مگر آیت کا حکم تو عام ہے۔ یہ کوئی سوچ سکتا تھا کہ وہ چند سرفروش جنہیں مکہ میں زندہ رہنے کا حق بھی نہیں دیا جارہا اور بےکسی وبے بسی کے عالم میں مہاجر بن کر نکل رہے ہیں۔ آئندہ چند سالوں میں بحیثیت فاتح مکہ میں داخل ہوں گے اور اہل مکہ کی گردنیں جھکی ہوئی ہوں گی ، یا صحرا اور ریگ زار سے اٹھنے والے یہ چند خادمان رسول ﷺ مشرق ومغرب کو ہلا کر رکھ دیں گے اور عالمی قوتیں اپنے دور کی واقعی سپر پاورز قیصروکسریٰ کی سلطنتیں ان کی ضرب پا سے چور چور ہوجائیں گی اور دین برحق کی ہر طف نسیم سحر کی طرح اور خوشبوئے محمد ﷺ کو ایک عالم کی مشام جان تک پہنچادیں گے ۔ صحرائوں کی وسعتیں ان کے قدموں میں سمٹ آئیں گی۔ یہاڑ ان کا راستہ نہ روک سکیں گے اور سمندر ان کے لئے پایاب ثابت ہوں گے مگر یہ سب کچھ ہوا۔ یہی تاریخ کا روشن اور سنہرا باب ہے۔ اس پس منظر میں ہم اپنے آپ کو دیکھیں تو معاملہ بالکل برعکس ہے کہ دنیا میں مسلمانوں کے کسی ملک سے خیرت کی خبر نہیں آتی ، ارٹییریا سے لے کر فلسطین تک خون مسلم کی ندیاں بہہ رہی ہیں اور کفر کے عفریت اپنے ہیبت ناک جبڑوں میں انہیں جکڑے ہوئے ہیں تو سوچتے ہیں کہ وعدہ الٰہی کیا ہوئے ؟ صاحب معارف القرآن نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ یہاں دنیا بھر کے کفار مراد نہیں بلکہ عہد نبوی ﷺ کے یہود و مشرکین مراد ہیں جو واقعی مغلوب ہوئے۔ بیان القرآن میں حضرت تھانوی (رح) نے بھی یہی فرمایا ہے میں صرف عہد نبوی ﷺ کے کافر مراد ہیں اور آخرت میں سب۔ مگر یہ شان تو ہمیں صرف خلافت راشدہ میں نظر آتی ہے بلکہ صدیوں تک اس کا مظہرہ ہوتا رہا اور صلاح الدین ایوبی کی ضرب ہو یا غزنوی کی چوص ، سب میں یہی وعدہ کار فرما نظر آتا ہے ۔ اور آج کے چند تہی دست ، غیر تربیت یافتہ فوجی بغیر وردی بلکہ بغیر پگڑی کے اور ننگے پائوں دنیا کی ، دور حاضرہ کی مسلمہ سپر پاور کو افغانستان کی گھاٹیوں میں گزشتہ چھ برس سے رگید رہے ہیں۔ یہاں بھی مادی طاقت کا کوئی مقابلہ نہیں۔ یہی نصرت اللہ ہے کہ ان بادیہ نشینوں کے سینوں میں نور ایمان ہے۔ یہ قدامت پسند عین برستی آگ میں بھی اذان کہتے اور باجماعت نماز ادا کرتے ہیں۔ ان کے چہرے سنت رسول اللہ ﷺ سے مزین ہیں اور دل عشق رسول ﷺ کی آماجگاہ۔ یہ کافی ثبوت ہے کہ نصرت باری تو ہے شاید مسلمان اپنی جگہ سے سرک گیا ہے اور ترقی کے شوق میں بےدینی اور بےحیائی کی طرف بڑھ رہا ہے جس کا سال محرم کی جاں نثاری سے شروع ہو کر ذوالحجہ کی جان سپاری پہ ختم ہوتا تھا ، آج شب بھر کلبوں میں دھت داد عیش دے کر گزشتہ برس کو رخصت کرتا ہے اور نئے سال کو خوش آمدید کہتا ہے اور پھر اس کے ساتھ اپنے کو اس لطف وکرم کا حقدار بھی جانتا ہے جو صرف مسلمانوں کا حق ہے۔ اگر ہمیں آج بھی کفر کی ظلمت کو مٹانا ہے اور دنیا کو دین کے نور سے منور کرنا ہے تو پھر پلٹ کر اپنی اصلی جگہ پر آنا ہوگا۔ اللہ توفیق عطا فرمائے ! آمین۔ قدکان……………ان فی ذالک لعبرۃ لاولی الابصار۔ اللہ کے اس وعدہ کے ساتھ غزوہ بدر کی مثال کو دلیل کے طور پر ارشاد فرمایا کہ تم اس کی مثال کا نظارہ کرچکے ہو کہ میدان بدر میں دو گروہوں کا مقابلہ ہوا تھا۔ جہاں مادی اعتبار سے یا افرادی قوت کے اعتبار سے کوئی مقابلہ نہ تھا کہ اہل مکہ 950 کی تعداد میں اور مکہ کے چنے ہوئے افراد ، جن کے پاس 700 اونٹ 1000 گھوڑے مکمل سامان حرب اور وافر مقدار میں راشن بھی تھا۔ دوسری طرف 313 جان فروش ، جن میں 70 مہاجر اور باقی انصار تھے۔ ان میں بچے بھی تھے اور عمر رسیدہ افراد بھی کل 70 اونٹ ، دو گھوڑے اور سامان حرب میں کل چھ زرہیں اور آٹھ تلواریں تھیں۔ یہ پہلی جنگ تھی جو رمضان 2 ہجری میں خود نبی کریم ﷺ کی قیادت میں کفر کے مقابل لڑی گئی۔ مہاجرین کے علمبردار حضرت مصعب بن عمیر ؓ اور انصار کے حضرت سعد بن عبادہ تھے اور ایک جھنڈا نبی پاک کریم ﷺ نے سارے لشکر کا بنایا جو حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے دوپٹے سے بنایا گیا تھا اور اس کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اٹھائے ہوئے تھے گویا جان پیش کی احباب کی جان پیش فرمائی۔ گھر اور شہر سے ہجرت فرمائی اور میدان بدر اللہ کا رسول ﷺ ناموس رسالت بھی راہ خدا پر لے آیا کہ اللہ ! اگر آج یہ جھنڈا گرے گا تو تیرے رسول ﷺ کی محبوب بیوی کا دوپٹہ ہے جو کفار کے قدموں میں روندا جائے گا۔ بدر میں علم : اب تیرے اختیار میں ہے کہ اسے بلند رکھ ! تاریخ شاہد ہے کہ دوسری دفعہ خیبر کے مقام پر جب لڑتے لڑتے مہینہ بھر سے اوپر دن نکل گئے۔ راشن کے ساتھ سامان حرب بھی کافی نہ رہا۔ تلواریں بیشتر ٹوٹ گئیں اور جو تیری ہود نے پھینکے تھے وہی اٹھا کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ان کی طرف پھینکتے تھے۔ پھر پندرہ سو جاں نثار دس ہزار یہود کے مقابل تھے پشت پر بنوغطفان تھے جن کے لشکر کی تعداد پانچ سو تھی اور یہود سے معاہدہ بھی تھا مگر تاحال دبکے ہوئے تھے۔ جب یہ حال ہوا تو آقائے نامدار ﷺ نے پھر صدیقہ کائنات ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے دوپٹے کا جھنڈا بنایا اور حضرت علی ؓ کو علمبردار مقرر فرمایا ۔ اللہ کی شان کہ ایک ریلے میں خیبر کے قلعے فتح ہوتے گئے اور تیسری دفعہ جب حضور پرنور ﷺ مکہ مکرمہ میں بحیثیت فاتح داخل ہوئے تو جھنڈا صدیقہ کائنات ؓ کے دوپٹے کا بنایا اور وہ علم پھر حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو عطا فرمایا۔ یہ غالباً اظہار تشکر کے لئے تھا کہ رب العزت نے اس پرچم کو کبھی گرنے نہیں دیا۔ بار بار حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو عطا فرمانے کی ممکن ہے یہ وجہ ہو کہ حضرت علی نہ صرف داماد تھے بلکہ آپ ﷺ کے گھر میں ایک بیٹے کی طرح پلے بھی تھے اور ماں کا دوپٹہ اٹھانا بیٹے ہی کا حق ہے واللہ اعلم۔ بات اتنی تھی کہ ایک گروہ اگرچہ تعداد میں ، اسباب میں کم تھا مگر اللہ کی راہ میں لڑ رہا تھا اور دوسرا گروہ تعداد میں زیادہ اسباب سے لدا پھندا۔ مگر تھا کافروں کا اور دونوں گروہ ایک دوسرے کو اپنے سے دوگنا دیکھ رہے تھے اور کھلی آنکھوں دیکھ رہے تھے یعنی جو مسلمانوں سے تین گنا تھے کم نظر آرہے تھے اور مسلمان جو تعداد میں کم تھے زیادہ نظر آتے تھے۔ سورة انفال میں ہے یقلکم فی اعینھم۔ تو اس سے مراد میدان جنگ کی شروع کی کیفیت ہے کہ مسلمان کافروں کو بہت تھوڑے لگے اور وہ جنگ میں کود پڑے مگر جب جنگ چھڑ گئی تو انہیں نظر آیا کہ یہ تو ہم سے دوگنا ہیں۔ ہمت توڑنے کا سبب بن گیا۔ یہ مختلف کیفیات مختلف اوقات کی ہیں۔ نیز اللہ پاک ہر کام کے لئے اسباب پیدا فرماتا ہے۔ ترک سبب مناسب نہیں۔ پھر دیکھا تم نے کہ اللہ جس کی چاہتا ہے مدد کرتا ہے اور اپنی مدد سے قوی کردیتا ہے چند تہی دست مسلمانوں نے اچھی طرح سے مسلح ہوئے لشکر کو کتنی ذلت آمیز شکست سے دوچار کردیا کہ چیدہ چیدہ کفار بھی قتل ہوئے اور قید بھی۔ اہل بصیرت کے لئے تو اس میں بہت بڑی نصیحت ہے اور پیغمبر اسلام ﷺ کی پیشگوئیوں کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت۔ زین للناس حب الشھوات…………واللہ عندہ حسن المآب۔ لوگوں کو مرغوب اور پسندیدہ چیزوں کی محبت بھی بڑی خوشنما معلوم ہوتی ہے حب الشھوت فرمایا کہ شہوت دلیل بہیمت ہے یعنی بالکل جانوروں کی طرح۔ ان اشیاء کے پیچھے لپکتے ہیں اور مکمل طور پر ان کی طلب میں مستغرق ہو کر اللہ کی یاد اور اس کی اطاعت سے کٹ جاتے ہیں۔ یاد رہے اسباب زینت بنانے والا خود اللہ ہے اور ان تمام اشیاء کی طبعی محبت خود اللہ کی پیدا کردہ ہے ۔ لہٰذا دل سے نکل نہیں سکتی۔ ہاں ! جب عقلی محبت پر جو اللہ سے ، اللہ کے رسول ﷺ سے اور دارآخرت سے ہونی چاہیے کہ اگر مقابلہ آجائے تو حب طبعی کو حب عقلی پر قربان کرسکے۔ یہی انسان کا امتحان ہے ورنہ انہی اشیاء سے استفادہ شکر نعمت ہے اور سعادت آخرت ہے نیز انہی کی وجہ سے آدمی کو فرشتوں پر فضیلت حاصل ہے مگر اس وقت تک جب تک یہ سب کچھ اپنی حد کے اندر رہے۔ اگر انہی رسومات یا حب جاہ یا نام ونمود کی نمائش اور خواہش میں اللہ کے احکام کے مقابل کھڑا ہوگیا۔ تو یہی تباہی کا سب سے بڑا ذریعہ ثابت ہوں گے۔ ارشاد ہے کہ عورتوں کی محبت ، اولاد اور مال یعنی سونے چاندی کے ڈھیروں سے محبت اور خوبصورت گھوڑوں اور چارپائوں کی الفت لوگوں کو کھینچ رہی ہے حالانکہ یہ سب دنیا کی قلیل زندگی میں استعمال کی عارضی چیزیں ہیں۔ انہیں فنا ہونا ہے کہ موجودات دنیوی کا مبدء وجود عدم ہے یعنی تمام ممکنات اصلاً معدوم تھے پہلے نہ تھے پھر ہوئے ان کا وجود ظلی ہے ان کی اصل عدم ہے اس لئے ہر شے فنا کی طرف جارہی ہے۔ اسی لئے کہ ہر ممکن حادث ہے۔ اس کا اپنا کوئی وجود نہیں اپنے وجود کے لئے دوسروں کا محتاج ہے اور تمام حقائق کو نیہ کا قترر اور تقدر علم باری تعالیٰ میں ہے۔ اصلاً سب کچھ معدوم جب صفات باری تعالیٰ کا پرتو پڑا تو ہر شے کا وجود ظلی طور پر یا عکسی طور پر نمودار ہوگیا جسے لوگ وجود اصلی جان بیٹھے اور جس شے کی اصل ہی نہ ہو اس میں حسن یا کمال نہیں ہوا کرتا۔ ہاں ! آخرت کی نعمتیں چاہے جانے کے قابل ہیں کہ ان کے تعین اور تحقق کے مبادی صفات خداوندی ہیں۔ یعنی صفات خداوندی آخرت میں بصورت مہروقہر نمایاں ہوگی اسی لئے ان کا ابدی کنارہ کوئی نہیں ، وہ لازوال ہیں ، نعمتیں بھی لازوال اور مصائب بھی لازوال۔ فرمایا واللہ عندہ حسن الماب۔ کہ اللہ کے پاس اچھا ٹھکانہ ہے یعنی دارآخرت بہترین ٹھکانہ ہے دنیا کی جو شے حصول آخرت میں معاون ہوگی وہی محبوب ہوگی۔ انبیاء صحابہ اور اولیاء اللہ کی محبت ، آخرت کی محبت ہے۔ اور آخرت کی محبت اللہ کی محبت ہے اخروی نعمتوں کی رغبت اللہ کی طرف رغبت ہے۔ قل اونبئکم بخیر من ذالکم……………والمستغفرین بالا۔ سحار۔ فرمادیجئے کہ ان تمام لذات سے بدرجہا بہتر نعمتوں کی بابت تمہیں خبر کروں ؟ وہ ان کے لئے ہیں کہ جو لوگ متقی ہوں گے یعنی اپنی زندگی میں مرضیات باری کے حصول کے لئے کوشاں رہیں گے دنیا اور دنیا کی لذتوں کو اللہ کی رضا پہ قربان کرنے کی ہمت رکھتے ہوں گے ان کے پروردگار کے پاس ان کی خاطر جنتیں ہیں باغات ہیں ، جن میں نہریں جاری ہیں اور وہ جنتیں بھی لازوال اور ابدی ہیں ان میں داخل ہونے والے بھی کبھی نہ نکالے جائیں گے بلکہ ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ وہاں ان کے لئے بیبیاں ہیں یعنی جسمانی آلائش حیض ونفاس اور بوں وبراز سے پاک ، اخلاقی آلائش یا بدخلقی سے پاک۔ یہ بات دنیا کی ان عورتوں کو جو جنت میں داخل ہوں گی اور جنت میں وہاں کی مخلوق بیبیوں دونوں کو شامل ہے۔ پھر سب سے بڑی نعمت اللہ کی خوشنودی ہے جو جنت میں رہنے والوں کو حاصل ہوگی۔ مومنین کے جنتی اقرباء اور اولاد سب جنت میں جمع ہوتے رہیں گے اور ہمیشہ کے لئے اللہ کی خوشنودی حاصل ہوگی۔ زوال نعمت کا کوئی کھٹکا نہ ہوگا نیز جو چاہیں گے ملے گا۔ احادیث مبارکہ میں اس قدر نعمتوں کا ذکر ہے کہ آدمی پڑھ کر یہ چاہتا ہے کہ اللہ دنیا سے اٹھائے اور جنت نصیب کرے۔ یہاں بوجہ خوف طوالت احادیث نقل نہیں کی جارہیں۔ فرمایا اللہ سب کو دیکھ رہا ہے کون کس چیز کے لئے کوشاں ہے اور خود ملاحظہ فرمارہا ہے جانتا ہے سب اس کی نگاہ کے سامنے ہے ان کو بھی دیکھ رہا ہے جو یہ عرض کرتے ہیں کہ اللہ ہم ایمان لے آئے۔ ہم نے کفر کو ترک کردیا۔ اب تو ہمارے گناہ ، ہماری لغزشیں معاف فرمادے اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔ یہاں ثابت ہوتا ہے کہ صرف ایمان مغفرت کا استحقاق پیدا کردیتا ہے۔ اولیاء اللہ کے اوصاف : فرمایا ایسے لوگ جو نفس کی مخالفت پہ جم جاتے ہیں الصابرین یعنی بری باتوں سے نفس کو روکتے ہیں اور اطاعت الٰہی اور اچھی باتوں میں لگاتے ہیں۔ یاد رہے یہاں متقین اور اولیاء اللہ کی صفتوں کا بیان ہے سو ہر شخص کو چاہیے کہ کسی کو پیر بنانے سے پہلے یہ اوصاف دیکھے ورنہ بدکار کی بیعت تو سرے سے حرام ہے ۔ یعنی صبر کرنے والے اور والصادقین سچے۔ تمام دعوئوں میں ، احوال میں ، نقل واقعات میں ، نیز سب سے بڑا سچ کلمہ طیبہ ہے کہ اس پر کاربند ہیں۔ اللہ کی عبادت سنت رسول خدا ﷺ کے مطابق کرنے والے۔ یہی مفہوم ہے ” لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ “ کا کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اسی کی عبادت کریں گے بھئی ! کیسے کرو گے۔ تمہیں اس کی پسند کا پتہ کیسے چلے گا ” محمد رسول اللہ ‘ نبی کریم ﷺ کی سنت کے مطابق۔ والقانتین۔ یعنی ہمہ وقت اللہ کی رضا کے طالب۔ والمنفقین۔ اپنی تمام کوششوں کو مال و دولت ہو یا محنت و کاوش۔ سب کو اللہ کی راہ میں لگانے والے اور پھر اس سب طاعت و عبادت کے باوجود سحری کو اٹھ کر اپنی کوتاہی کا اقرار کرکے معافی طلب کرنے والے کہ اللہ ! یہ عبادت ونی کی کی طاقت بھی تو نے بخشی۔ اس کا علم بھی تیری عطا ہے اور یہ تیرے قبول کی محتاج ، کہ تو محض اپنے کرم سے شرف قبولیت عطا فرماتا ہے۔ وقت سحر چونکہ قبولیت کا وقت بھی ہے اور اٹھنے کا اہتمام بھی کرنا پڑتا ہے کسی کام کی اہمیت ہی اس وقت بستر سے نکال سکتی ہے۔ اس میں صوفیہ اور اہل اللہ کی صفات بیان فرمادی ہیں کہ ان لوگوں کے پاس یہ دولت ہوتی ہے اور اسی کے حصول کے لئے ان کی صحبت اختیار کی جاتی ہے۔ جہاں یہ نہ ہو وہاں سے اجتناب اور علیحدگی اختیار کرنا چاہیے۔ شھد اللہ انہ لا الہ الا ھو…………واللہ بصیر بالعباد اللہ خود گواہ ہے کہ اس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں اس کی ذات ، اس کی صفات اور تمام مظاہرو مصنوعات اس کی توحید پر گواہ ہیں۔ اور فرشتے جو اس کے مقرب ہیں اپنے اذکار وتسبیح میں اور اطاعت میں اس کی توحید کے شاہد ہیں۔ اسلام کیا ہے ؟ : ہر دور کے اہل علم نے بھی شہادت دی کہ وہ لاشریک ہے۔ اہل علم سے مراد ایسے لوگ ہیں جو انبیاء سے سیکھ کر یا کائنات عالم میں غور کرکے توحید باری کو پاسکیں خواہ ضابطے کے عالم ہوں یا نہ۔ ورنہ ایسے لوگ جو اللہ ہی کو نہ پہچان سکیں۔ کتنے علوم بھی سیکھ جائیں عنداللہ جاہل ہی ہوں گے کہ سب سے بڑی حقیقت تو اسی کی ذات ہے ا س سے جاہل رہنے والا کب عالم ہوسکتا ہے تو یہ سب گواہ ہیں کہ اللہ واحد ، لاشریک اور معبود برحق ہے اور ہر شے پہ غالب اور حکمت والا ہے۔ یہ بھی یقینی بات ہے کہ اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔ اسلام سے مراد اپنے کو اللہ کے سپرد کردینا اور اس کی اطاعت پر کمر بستہ ہوجانا ہے ہر نبی دعوت لے کر دنیا میں آیا اور ہر نبی کے ساتھ ایمان اور اطاعت کا رشتہ اسلام ہی ہے۔ اسی لئے حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنے دور میں اور سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے زمانے میں اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے وقت میں مسلمان ہونے کا اعلان فرمایا۔ غرضیکہ ہر نبی کا لایا ہوا دین اسلام ہی تھا اور عنداللہ مقبول اور آخر میں خاتم الانبیاء ﷺ کا لایا ہوا دین اسلام کہلایا۔ جو قیامت تک باقی رہے گا۔ باقی انبیاء بھی توحید ، رسالت ، آخرت ، جنت ، دوزخ ، جزاوسزا یا فرشتوں کے بارے میں متفق تھے۔ فرق صرف عبادات کے طریق میں تھا جو ہر دور میں شریعت لانے والے نبی کے ساتھ تبدیل ہوتارہا۔ حتیٰ کو جو جو احکام منسوخ ہوتے گئے اس کے بعد وہ اسلام نہ رہے اور اب آقائے نامدار ﷺ کی شریعت اسلام ہے اور شرائع سابقہ جو منسوخ ہوئے ان پر عمل اب اسلام نہیں رہا۔ بعثت رسول ﷺ کے بعد اسلام صرف وہ ہے جو کتاب اللہ اور آپ ﷺ کی تعلیمات کے مطابق ہے اس سے ثابت ہوگیا کہ رواداری کے نام پر کفر سے مصالحت کرانے والے ملحد ہیں اور یہ نظریہ کہ دنیا کا ہر مذہب یہودیت و نصرانیت ہو یا بت پرستی ذریعہ نجات بن سکتا ہے بشرطیکہ اعمال صالحہ اور اخلاق اعلیٰ ہوں۔ دراصل یہ اسلام پر بہت بڑی چوٹ اور الحاد پھیلانے کی کوشش ہے۔ بات سیدھی سی ہے کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت اور اطاعت نہیں اور اس کا طریقہ سیکھنا ہے محمد رسول اللہ ﷺ سے۔ اگر یہ بات نہیں تو کافر ہے اگر کوئی نیک کام بھی کر گزرے تو نہ اس نے اللہ کے لئے کیا نہ اللہ کے رسول ﷺ سے پوچھا۔ آخرت میں کوئی اجر نہیں اور نہ وہ ذریعہ نجات ہے۔ اب اگر اہل کتاب اس بات میں جھگڑا بھی کریں تو وہ بغاوت کرکے ہوگا ورنہ تو ان کے پاس خود ان کی کتب میں بھی یہی بات موجود ہے اور اسی پر سب دلائل موجود ہیں۔ ایسی کوئی بات نہیں جس میں کوئی شبہ رہ گیا ہے بلکہ مسلمانوں سے حسد اور حب مال وجاہ نے انہیں اختلاف میں مبتلا کردیا ہے۔ جو شخص بھی اللہ کی آیات کا انکار کرتا ہے اسے بہت جلد حساب دینا ہوگا کہ اللہ عنقریب اس سے حساب لینے والا ہے کہ مرتے ہی برزخ میں داخل پر پوچھ گچھ شروع ہوجائے گی اور پھر قیامت کا سب جھگڑوں کی حقیقت سر میدان کھل جائے گی اور اگر اس قدر دلائل وبراہین کے باوجود بھی آپ ﷺ سے جھگڑا کریں تو آپ ﷺ فرمادیجئے کہ میں تو اللہ کا فرمانبردار ہوں۔ اپنے دل ، زبان اور سارے اعضاء کو اس کی اطاعت پر لگادیا اور یہی کام ان سب لوگوں نے کیا جو میرے ساتھ ہیں میرے پیروگار ہیں۔ انہوں نے اپنی ہستی اللہ کے سپرد کردی۔ اب اے اہل کتاب ! اور اے گروہ مشرکین ! کیا تم بھی ایسا کرسکتے ہو ؟ اگر وہ بھی قبول کرلیں تو ہدایت پاگئے سیدھی راہ ان کو بھی نصیب ہوئی اور اگر یہ نہ کرسکیں تو پھر درمیانی راستہ کوئی نہیں۔ وہ کفر میں بھٹکتے ہیں کہ آپ ﷺ کے ذمہ تو بات کا پہنچا دینا تھا۔ اس سے آگے سب کا معاملہ اللہ کے ساتھ ہے اور اللہ بندوں کو دیکھ رہا ہے ۔ سب اس کی نگاہ میں ہیں۔
Top