Asrar-ut-Tanzil - Aal-i-Imraan : 102
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ اٰمَنُوا : ایمان لائے اتَّقُوا : تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ حَقَّ : حق تُقٰتِھٖ : اس سے ڈرنا وَلَا تَمُوْتُنَّ : اور تم ہرگز نہ مرنا اِلَّا : مگر وَاَنْتُمْ : اور تم مُّسْلِمُوْنَ : مسلمان (جمع)
اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور سوائے اسلام کے کسی حالت میں تمہیں موت نہ آئے
آیات 102- 109 اسرارو معارف یایھا الذین امنوا اتقو اللہ……………لعلکم تھتدون۔ جب تمہیں اس قدر اسباب ہدایت حاصل ہیں تو اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرتے رہو جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے تقویٰ دراصل خوف محض کا نام نہیں بلکہ وہ تعلق جو بطفیل نبی کریم ﷺ بندے کو اللہ سے حاصل ہو اس کے ٹوٹ جانے کے ڈر کا نام ہے تعلیمات نبوی ﷺ کے ساتھ وہ کیفیات بھی جو وجود نبوی ﷺ کی برکات میں سے ہیں اور جن کے ورود سے دل بدل گئے ، مزاج بدلے ، خواہشات اور طلب بدل گئی۔ حتیٰ کہ دین پر عمل کرنا مزاج بن گیا اور گناہ طبعی طور پر سخت ناپسندیدہ ہوگیا۔ اب ان نعمتوں کو کبھی ضائع نہ ہونے دو ۔ بیشتر مفسرین کرام نے حضور اکرم ﷺ کا یہ ارشاد نقل فرمایا ہے کہ حق تقویٰ یہ ہے کہ ، ان یطاع فلا یعصی ویذکر فلا ینسی ویشکر فلا یکفر اوکما قال صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ (اطاعت کرے اور نافرمانی نہ کرے ، ذکر کرے اور کبھی نہ بھولے ، شکر کرے اور کبھی ناشکری نہ کرے) شکر بجائے خود ذکر ہی کا نام ہے اور ذکر دوام ، ذکر قلبی کا نام ہے کہ لسانی کو دوام نصیب نہیں ہوسکتا ، اور ذکر قلبی ان فیوضات وبرکات کا نام ہے جو صحبت رسول ﷺ سے خلق خدا کو نصیب ہوئیں۔ جب قلب ذاکر ہوجائے تو اعضا نافرمانی سے رک جاتے ہیں۔ بتقاضائے بشریت اگر خطا سرزد ہو تو دل پہ چوٹ لگتی ہے اور فوراً رجوع الی اللہ نصیب ہوتا ہے۔ حق یہ ہے کہ ان کیفیات کو حاصل کرے اور دل زندہ کے ساتھ زندگی بسر کرے حتیٰ کہ دم واپسیں بھی اسی عقیدے اور ایمان پہ آئے یعنی موت بھی اسلام پر ہی نصیب ہو۔ ثمرات تقویٰ اور مدارج : اور یہ تقویٰ کے ثمرات کے مختلف مدارج ہیں۔ پہلا درجہ کفر اور شرک سے بچنا ہے۔ اگر یہ بھی حاصل نہ ہو تو آدمی سرے سے مسلمان ہی نہیں۔ دوسرا درجہ معاصی سے بچنا ہے اور یہ مطلوب ہے اور تیسرا درجہ سب سے اعلیٰ ہے جو انبیاء (علیہم السلام) کا مقام ہے یا ان کے خاص نائبین اولیاء اللہ کو نصیب ہوتا ہے اور وہ ہے دل کو غیر اللہ سے بچانا اور دل کو ہر آن اللہ کی یاد سے آباد رکھنا۔ انبیائ (علیہ السلام) کو یہ وہبی طور پر نصیب ہوتا ہے اور اہل اللہ کو ان کی تابعداری سے نصیب ہوتا ہے۔ موت بھی اسلام پہ آئے اور تقویٰ کے اعلیٰ مقام کو پانے کی کوشش کرتے ہوئے آئے۔ یعنی انسان کو چاہیے کہ نہ صرف ایمان پر قائم رہے بلکہ تادم مرگ اطاعت پیغمبر ﷺ میں کوشاں رہے اور ارشاد ہے کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے اور سب مل کر پکڑو۔ اتفاق کیسے ممکن ہے ؟ : اختلاف نہ کرو کہ اتفاق صرف اللہ ہی کی بات پر ممکن ہے اگرچہ دنیا میں ہر جماعت اور ہر طبقہ اتفاق کی بات کرتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ دن بدن افتراق و انتشار میں اضافہ ہورہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی ایک یا چند انسانوں کی سوچ پر باقی لوگ جمع نہیں ہوسکتے۔ وہ بھی تو انسان ہیں ان کی بھی تو سوچ ہے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر آدمی یا ہر جماعت اپنے نظام پر متفق ہونے کی دعوت دیتی ہے لیکن سب لوگ اللہ کے بتائے ہوئے راستے پر اور اللہ کی کتاب پر متفق ہوں تو یہ نہ صرف ممکن ہے بلکہ بہت ہی احسن ہے اور مزاج انسانی کے مطابق بھی ہے۔ اب رہی یہ بات کہ یہود و نصاریٰ یا دیگر مذاہب باطلہ بھی تو اپنے اپنے دین کو اللہ کی طرف سے بتاتے ہیں تو اس کا جواب بڑا آسان ہے کہ نہ کوئی محمد ﷺ کی نظیر پیش کرسکتا ہے اور نہ کتاب اللہ کی مثال۔ ذرا جذبات سے علیحدہ ہو کر جو بھی غور کرے گا ، اسے یہی مینارہ نور نظر آئے گا۔ خیر یہاں اس بحث کی گنجائش نہیں ، البتہ مسلمان تو اس بحث سے نکل چکے ہیں انہوں نے اللہ کی وحدانیت اور رسول ﷺ کی اطاعت کا اقرار کرلیا اب انہیں اختلاف زیب نہیں دیتا۔ سب کو چاہیے کہ اللہ کی کتاب کو مضبوطی سے پکڑیں جس کے بارے میں ارشاد ہے ، ان ھذا القرآن ھوحبل اللہ۔ یا اس کے ساتھ متعدد احادیث میں ” جماعت “ کو حبل اللہ کہا گیا ہے جیسے حضرات ابن مسعود ؓ اور ان کے علاوہ دیگر اصحاب ؓ سے منقول ہے۔ ہاں ! کتاب اللہ کے معاملے میں بھی اگر کوئی اپنی رائے ٹھونسنا چاہے گا تو اتفاق ممکن نہیں ہر شخص کا یہ منصب نہیں کہ وہ قرآن بیان کرنا شروع کردے بلکہ قرآن صاحب قرآن سے سیکھنا ہوگا کہ تعلیم قرآن فرائض نبوت میں سے ہے۔ اللہ کی کتاب پر اس کے رسول ﷺ کی بیان کردہ تفسیر کے مطابق متفق ہونا ہی اصل اتفاق ہے اور یہی ممکن بھی ہے ورنہ تفریق ہی ہوگی۔ جس سے اللہ کریم منع فرماتے ہیں۔ ارشاد ہے لاتفرقوا یعنی یہود و نصاریٰ کی طرح دین میں نااتفاقی مت کرو۔ حدیث پاک میں ارشاد ہے کہ جس کا مفہوم یوں ہے کہ یہودو نصاریٰ کے بہتر فرقے بنے تھے اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی۔ سب دوزخی ہوں گے سوائے ایک فرقہ کے۔ عرض کیا گیا ، یارسول اللہ ! ﷺ وہ کون ہیں ؟ ارشاد ہوا ” ما انا علیہ و اصحابی “ یعنی وہ راہ پانے والا ہے جس پر میں اور میرے صحابہ ؓ ہیں۔ فرقوں کا شمار : تفسیر قرطبی نے بہتر فرقے شمار کئے ہیں جن کی اصل چھ فرقے ہیں ، حروریہ ، قدریہ ، جمہیہ ، مرجیہ ، رافضہ ، جبریہ۔ فرماتے ہیں ان میں سے ہر ایک کی بارہ بارہ شاخیں ہیں۔ اس طرح یہ بہتر ہوجاتے ہیں ، یاد رہے کہ عذاب قبر کے منکریا اس بات کے مدعی کہ میت کو قبر میں ثواب و عذاب نہیں ہوتا ، ان ہی میں سے ہیں ، ان کی تفصیل تفسیر قرطبی جلدچہارم 141 تا 163 دیکھی جاسکتی ہے۔ رہی یہ بات ! کہ کیا کسی طرح کا اختلاف جائز بھی ہے یا نہیں ، وہ اختلاف جس میں اپنی خواہش کو دخل ہومذموم ہے لیکن اگر قرآن پر مجتمع رہتے ہوئے اور حضور ﷺ کی ارشاد کردہ تفسیر کو قبول کرتے ہوئے اپنی دماغی صلاحیتوں کی بنا پر فروع میں اختلاف پایا جائے تو اس کے بارے میں ارشاد ہے الاختلاف فی امتی رحمۃ ، صحابہ ؓ تابعین اور فقہا کا اختلاف اسی قسم کا تھا۔ ذرا ان احسانات اور نعمتوں کو یاد کرو کہ جب تم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن تھے۔ قرآن کریم کے سب سے پہلے مخاطب صحابہ کرام ؓ ہیں اور پھر ساری انسانیت۔ تو عرب میں یہ حال تھا کہ قبائل لڑتے چلے جاتے تھے جسے انصار کے دونوں قبیلے اوس و خزرج ایک صدی سے زائد عرصہ تک آپس میں لڑتے رہے یا دیگر قبائل۔ ان آیات کے شان نزول میں یہی واقعہ نقل ہوا ہے کہ شماس بن قیس یہودی نے اوس اور خزرج کے لوگوں کو یکجا دیکھا تو حسد سے جل گیا اور اپنے کسی جوان سے کہا کہ ان میں بیٹھ کر ان کی گزشتہ جنگوں کا ذکر چھیڑو اور وہ اشعار جو انہوں نے جنگوں کے بارے کہے تھے پڑھو ، اس نے ایسا ہی کیا تو بات بڑھ گئی اور دونوں طرف جنگ کے نعرے بلند ہوگئے۔ حتیٰ کہ رسول اکرم ﷺ کو خبر ہوئی تو آپ صحابہ کرام ؓ سمیت تشریف لائے اور فرمایا کیا تم پھر جاہلیت کی طرف پلٹ رہے ہو حالانکہ اللہ نے تمہارے دلوں میں محبت پیدا کردی ہے اور میں تمہارے درمیان موجود ہوں۔ سب نے ہتھیار پھینک دیئے اور ایک دوسرے کے گلے لگ کر روئے۔ اور حضور ﷺ کے ہم رکاب چل دیئے۔ گزشتہ دو آیتوں سمیت یہ آیات نازل ہوئیں۔ علاوہ ازیں چپے چپے پر جنگ وجدل برپا تھا کسی کی عزت محفوظ تھی نہ مال۔ لوٹ مار کر بازار گرم تھا اور ایک نوالے کے لئے انسان ذبح کردیئے جاتے تھے کہ حضور ﷺ تشریف لائے اور دلوں کو محبت سے بھر دیا۔ ڈاکو محافظ بن گئے اور چور عادل بن گئے ، یکسر فضا بدل گئی ۔ عرب کے متفرق افراد اسلام کی سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے ، اللہ کا پیغام لے کر اٹھے اور دنیا پہ چھا گئے۔ اگر ایک پر دکھ آتا تو سب بانٹنے کو لپکتے ، ایک پر چوٹ پڑتی تو دوسرا آگے ہو کر اپنے اوپر لیتا۔ حتیٰ کہ الفت و محبت کا یہ رنگ دنیا نے دیکھا کہ میدان جنگ میں زخموں سے چور ، سکرات موت میں مبتلا غازی کو جب پانی پلایا جانے لگا تو اس نے کا کہ اس دوسرے زخمی کو پہلے پلا دو ۔ یہ محبت والفت یہ ایثار کی نعمت اور بہت بڑا انعام برکات رسول اکرم ﷺ میں سے تھا کہ تم سب بھائی بھائی ہوگئے۔ عرب سے باہر بھی اگر ظہور اسلام کا زمانہ دیکھا جائے تو یہی حال تھا۔ انسان انسان کے خون کا پیاسا ہورہا تھا اور جہاں جہاں اسلام پھیلتا گیا رحمت ورافت پھیلاتا چلا گیا۔ حتیٰ کہ آج تک محبت و خلوص صرف اور صرف دین اسلام کی برکات میں سے ہے ورنہ روئے زمین پر صرف لفاظی ہے ، ظاہر داری ہے اور کوئی کسی کا بہی خواہ نظر نہیں آتا خود مسلمانوں میں سے جن لوگوں کے دل زبان کا ساتھ نہیں دیتے کس قدر سخت مزاج لوگ ہیں اور جن کے دل ذکر الٰہی سے منور ہیں کس قدر پر خلوص اور محبت کرنے والے ہوتے ہیں کہ محبت اغراض سے پاک اور اللہ کے لئے ہوتی ہے ، باقی ساری محبتیں اغراض کے لئے۔ اگر غرض پوری ہوگئی تو محبت ختم یا پوری نہ ہوسکی تو ختم۔ بلکہ الٹ کر دشمنی بن جاتی ہے ، اور جہاں دل صرف اللہ کے لئے ملتے ہیں زمانے کا کوئی انقلاب ان میں تفرقہ نہیں ڈال سکتا۔ خلافت شیخین کی برکات : یہ کمال جس طرح عہد نبوی ﷺ میں موجود تھا۔ خلافت شیخین میں قائم رہا اسی لئے ان کی خلافت کو علی منھاج النبوۃ کہا گیا ہے۔ عہد عثمانی ؓ کے اول چھ سال ایسے ہی گزرے پھر یہ برکات کم ہونا شروع ہوگئیں اور اختلاف در آئے۔ ابن سبا جیسے سازشیوں کو موقع ملا۔ حتیٰ کہ حضرت علی المرتضیٰ ؓ جیسی ہستی کو بھی انہوں نے چین نہ لینے دیا۔ مولانا سید مناظر احسن گیلانی (رح) نے تدوین حدیث کے صفحہ 460 پر اس موضوع کو بیان فرمایا ہے وہاں سے دیکھا جاسکتا ہے۔ اور تم آگ کے گڑھے یعنی دوزخ کے کنارے پر تھے تمہارے اور دوزخ کے درمیان صرف موت کا فاصلہ تھا کہ اے لوگو ! اللہ نے تمہیں اس سے بچا لیا۔ یہ برکت بھی اللہ کے رسول ﷺ اور اس کے وجود مبارک کی تھی اور ہے جس کو اللہ نے اپنی مخلوق کی ہدایت کا ذریعہ بنادیا۔ اور جن کو فیضان صحبت نصیب ہوا وہ خلق خدا کو دنیاوآخرت کے عذابوں سے بچانے والے بن گئے ؎ خود نہ تھے جو راہ پر ، اوروں کے ہادی بن گئے کیا نظر تھی ، جس نے مردوں کو مسیحا کردیا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حق غلامی اس طرح ادا کیا کہ خود ان کی تابعداری ہی اتباع رسول قرار پائی اور کتاب اللہ نے قیامت تک آنے والے انسانوں کو یہ معیار دیا کہ والذین اتبعوھم باحسان یعنی جس نے خلوص قلب سے سابقون والاولون اور مہاجرین وانصار کا اتباع کیا اس نے رضائے باری کو پالیا جس کے ساتھ دنیا وآخرت میں یہ جملہ انعامات حاصل ہوں گے اور برکات نبوی ﷺ سے حصہ پائے گا۔ شیخ کا وصف : ان آیات میں طالبان حق کے لئے دلیل ہے کہ ایسے شخص کو شیخ بنائیں جس کی صحبت میں اتباع سنت اور اتباع صحابہ ؓ جو اتباع سنت ہی کی ایک شکل ہے نصیب ہو۔ نہ ایسا آدمی کہ جو بدعات میں مبتلا کردے ، اللہ ایسوں کی مجلس سے محفوظ رکھے ، آمین۔ اللہ اس طرح دلائل ارشاد فرماتا ہے اور تمہارے لئے ہدایت کی راہ آسان فرمادیتا ہے کہ کوئی بھی شخص جذبات سے الگ ہو کر غور کرے تو ہدایت کو پاسکے۔ ولتکن منکم امۃ………………اولئک لھم عذاب عظیم۔ جب اللہ کی رسی مضبوط تھامنے کا حکم دیا تو پھر اس خدشے کا مداوا بھی کردیا کہ کہیں کسی دور میں تمہارے ہاتھ سے یہ رسی چھوٹ نہ جائے ہمیشہ تم میں ایک جماعت ایسی ہو جو خیر کی طرف بلاتی رہے ، خیر کیا ہے ؟ اس کے بارے میں ارشاد نبوی ﷺ ہے الخیر ھواتباع القرآن وسنتی اور کما قال صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ یعن یخیر سے مراد قرآن اور میری سنت کا اتباع ہے۔ مسلمان جس طرح خود نیکی پر کار بند ہو اور برائی سے بچتا ہو اسی طرح دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرے اور ان بھلائی کے لئے دعا کرے نہ کہ ان پر طنز کرے۔ یہ اصلاح کا عمومی طریقہ ہے اور امت کے ہر فرد پر لازم ہے۔ ہاں ! ہر شخص کی استعداد جدا ہے اس لئے ہر کوئی اپنی استعداد کے مطابق ہی مکلف بھی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اسے معروف ومنکر کا پورا پورا علم ہو ، اگر خود پوری طرح واقف نہ ہوگا تو بجائے نفع کے نقصان کی امید زیادہ ہے جس طرح آج کل جہاں وعظ کہتے پھرتے ہیں اور سنی سنائی بلکہ گھڑی ہوئی روایات و حکایات سنا کر جگہ جگہ فساد پھیلانے کا باعث بن رہے ہیں۔ ضروری ہے کہ بات کہنے سے پہلے اس کے بارے میں معلومات حاصل کرلے پھر امورواجبہ میں معروف کا امر بھی واجب ہوگا اور منکر سے روکنا بھی مثلاً نماز پنجگانہ فرض ہے تو ہر شخص پر واجب ہوگا کہ بےنماز کو نماز کی تاکید کرے اور نوافل مستحب ہیں تو ان میں نصیحت کرنا بھی مستحب ہوگا جو بالکل نرمی سے کی جائے گی اور فرائض میں اول نرمی اور اگر قبول نہ کرے تو ایک حد تک سختی بھی کی جاسکتی ہے مگر آج کل کی طرح نہیں کہ فرائض تو ترک ہو رہے ہیں اور مستحبات کو کفرو اسلام کا معیار قرار دیا جارہا ہے۔ نیز ہر شخص پر یہ فریضہ تب عائد ہوگا جب کوئی کام اس کے سامنے ہو خواہ مخواہ لوگوں کے احوال کی کرید کرنا درست نہیں۔ یہ حکومت اسلامی کا کام ہے کہ رعایا پر نگاہ رکھے اور مجرموں کا قلع قمع کرے۔ یہ تو سب مسلمانوں کی بات تھی۔ اس کے ساتھ ارشاد ہے کہ تم میں سے ایک جماعت ایسی ہو جو ہمیشہ یہی کام کرے کہ لوگوں کو بھلائی کی دعوت دے اور برائی سے منع کرے اور یہ تب ممکن ہے کہ وہ لوگ پہلے مسائل سے پوری طرح آگاہی حاصل کریں اور پورا علم سیکھیں۔ قرآن وحدیث پر نگاہ ہو اور دعوت کا مسنون طریقہ اختیار کریں۔ اس طرح یہ فرض کفایہ ہوگا کہ جب ایک جماعت ایسی ہو تو سب کی طرف سے کفایت کرے ان کی یہ کوشش لگاتار اور مسلسل ہوگی یعنی دعوت الی الخیر ، کہ خواہ منکرات موجود نہ ہوں یا کسی فرض کی ادائیگی کا وقت نہ بھی ہو مثلاً رمضان المبارک نہیں ہے مگر یہ روزہ کی تلقین کرتے رہیں گے۔ اسی طرح کفار کے لئے اسلام کی طرف دعوت اور مسلمانوں کے لئے اطاعت واتباع کی طرف بلانا دعوت الی الخیر شمار ہوگا۔ حکومت اسلامی کا فرض ہے کہ ایسی جماعت کا اہتمام کرے اگر ایسا نہ ہو تو پھر تمام مسلمانوں پر فرض ہوگا کہ ایسی جماعت قائم کریں کہ حیات ملی کی دلیل ہے اور یوں تو جو کوئی بھی ایک کلمہ خیر کسی دوسرے تک پہنچاتا ہے بقدر اپنے حصہ کے اس میں شامل ہے لیکن کلی طور پر یقینا اس کے پہلے مصداق صحابہ کرام ؓ ہیں جو نسیم سحر کی مانند گلشن ہستی میں اس بو کو پھیلانے کا سبب بنے اور پھر وہ افراد اس خطاب کے سزاوار ہیں۔ جنہوں نے زندگیاں وصول الی اللہ کے لئے خرچ کردیں عمریں سفر کرتے اور پڑھتے پڑھاتے بیت گئیں جن کی راتیں اللہ کی یاد میں اور خلق خدا کی اصلاح میں بسر ہوئیں جنہوں نے علم دین حاصل کیا پھر نور قلبی کا اکتساب کیا ایسے مردان خدا کو تلاش کیا جہاں سے دولت پائی اور پھر نہ صرف عمر بھر اس پر عامل وکاربند رہے بلکہ خلق خدا کو دعوت حق پہنچائی اور نور ہدایت کو عام کیا۔ اس کے مصداق ہمیشہ صوفیہ صافیہ رہے ہیں جنہوں نے مملکتوں کو باطل سے ہٹا کر حق کا طالب بنایا۔ صدافسوس ! کہ آج کے دور میں ایسی برگزیدہ ہستیوں سے استفادہ تو کوئی کیا کرے گا۔ آج کے جاہل ان پر کفر کے فتوے لگائے ہوئے ہیں اور حد یہ ہے کہ امام حسن بصری (رح) سے لے کر دو رحاضرہ تک کے صاحب احوال اور مقتداء وپیشوایان نیکوکار ان پر کفر کی توپ داغی جارہی ہے نہ خاندان ولی الٰہی کو بخشا گیا نہ علمائے دیوبند کو معاف کیا گیا نہ متقدمین کی عزت کا خیال اور نہ متاخرین کا پاس ادب ، ایسی مقدس جماعت کو کافر کہنے والا خود اللہ کی گرفت سے کیسے بچ سکے گا ؟ اللہ تمام مسلمانوں کو راہ ہدایت پر قائم رکھے ! آمین۔ اور ان لوگوں کی طرح مت بنو ! جنہوں نے واضح دلائل پالینے کے بعد بھی اختلاف کیا۔ یعنی اہل کتاب کے پہلے ان کی اپنی مذہبی کتب میں حضور اکرم ﷺ کا ذکر اور نشانیاں موجود تھیں پھر انہوں نے یہ سب کچھ دیکھ کر اختلاف کی راہ اپنائی۔ نہ صرف حضور اکرم ﷺ سے پہلے بلکہ اپنے دین کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا کو واضح دلائل کو چھوڑ کر اپنی خواہشات کی پیروی میں لگ گئے اور اہوا واوبام کا اتباع اختیار کرکے دین کی تباہی کا سبب بنے ، یوں دنیا وآخرت میں ذلت سے دوچار ہوئے۔ یہ سابقہ آیات کا تتمہ ہے کہ مرکز و وحدت اعتصام بحبل اللہ ہے ، نہ لوگوں کی آرائ۔ اور یہ اعتصام پوری قوم کو شخص واحد بنادیتا ہے اور اختلاف و انتشار پہلی امتوں کے لئے بھی تباہی کا سبب نا۔ آج بھی اس پر یہی پھل آئے گا۔ یہاں ایک بات یاد رہے کہ اصول دین ہمیشہ واضح اور غیر مبہم ہوتے ہیں اور وہاں اختلاف کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہوتی رہے فروعات ، تو ان میں بھی اگر نفسانیت سے علیحدہ ہو کر دیکھیں تو کوئی تعارض نہیں۔ اجتہاد اور ان کی شرائط : ہاں ! بعض غیر واضح امور میں جہاں نص صریح نہ ہو تو جانبین میں سے ایک جانب کو اجتہاد سے اختیار کرنا اس امید کے ساتھ کہ میرے نزدیک یہ درست ہے اگرچہ خطا کا احتمال بھی ہو اور ممکن ہے اس کے خلاف درست ہو ، یہ جائز ہے اس پر صحیح حدیث دال ہے کہ مجتہد کو ٹھیک حکم دریافت کرنے پر دواجر ملتے ہیں۔ لیکن اگر اجتہاد میں غلطی بھی کر جائے تو ایک اجر پاتا ہے لیکن اس بارے میں فیصلہ اللہ ہی پر ہے۔ نیز کوئی مجتہد یا اس کا مقلد ، دوسرے مجتہدیا اس کے مقلد کو خاطی تصور نہیں کرتا کہ کوئی بھی جانب منکر نہیں ہوتی۔ یہ آج کل کا معاملہ کہ معمولی بات پر کفر کے فتوے اور بحث وتمحیص ، حتیٰ کہ جنگ وجدال۔ یہ ہرگز اجتہاد نہیں ، نیز اجتہاد کے لئے قرآن وحدیث کا مکمل علم ہونا تمام فنون کی مکمل مہارت ، عربی زبان پر کامل عبور ، صحابہ کرام ؓ ، تابعین یعنی سلف کے آثار واقوال سے مکمل واقفیت کے ساتھ عملی زندگی اور اتباع سنت کا کامل نمونہ ہو اور دلی خلوص وغیرہ ذالک نہ یہ کہ لوگ سن پائے ہیں کہ اجتہاد بھی ہوتا ہے اور ساون کے مینڈکوں کی طرح ہر ایک ان امور میں بھی رائے زنی کررہا ہے جن میں مجتہدین نے بھی لب کشائی نہیں کی اور نہ انہیں بولنے کا حق حاصل تھا۔ یوم تبیض وجہ وتسود وجوہ……………والی اللہ ترجع الامور۔ الجمہور علی ان ابیاض وجوہ واسوادھا علی حقیقۃ اللون وابیاض من النور والسواد ھن الظلمۃ ۔ (بحرمحیط) ایمان اور اس کے ثمرات : ایمان ایک نور ہے جو قلب میں پیدا ہوتا ہے اور کفر ظلمت ہے جو قلب پہ چھا جاتی ہے۔ ایمان کا مصدر سینہ اطہر رسول ﷺ ہے اور ہر مسلمان کے دل میں وہاں سے نور مترشخ ہوتا ہے جس میں اتباع اور اطاعت سے زیادتی ہوتی چلی جاتی ہے اور بعض دلوں میں نہریں اور دریا موجزن ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس کفر ظلمت ہے اور کافر کا ہر فعل چونکہ اطاعت سے خالی ہوتا ہے اس لئے ظلمت لاتا ہے ، یوں ظلمت پہ ظلمت بڑھتی چلی جاتی ہے جیسا کہ ارشاد باری ہے ، ظلمات بعضھا فوق بعض۔ اطاعت سے جو نور پیدا ہوتا ہے وہ قلب میں نور کی زیادتی کا باعث تو بنتا ہی ہے ماحول کو بھی اپنی قوت کے مطابق متاثر کرتا ہے اور پوری فضا منور ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ حدیث پاک میں ان لوگوں کی فضیلت بیان ہوئی ہے جنہیں دیکھ کر خدا یادآجائے۔ اور اس کے برعکس کا فریا بدکار کی ظلمت اس کے دل کو بھی متاثر کرتی ہے اور ماحول اور فضا بھی مکدر ہوجاتی ہے حتیٰ کہ اگر یہ ظلمت ایک خاص حد کو پہنچ جائے تو عذاب الٰہی کے نزول کا باعث بنتی ہے اور پھر اس کو لپیٹ میں صرف انسان نہیں آتے بلکہ پورا ماحول متاثر ہوتا ہے جس طرح کہ پہلی قوموں پر عذاب نازل ہوئے تو ان کے نزول کا سبب انسانی اعمال تھے مگر پورے ماحول کو تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔ روز حشر یہی دلوں کا نور یا ظلمت چہروں پر عیاں ہوگی چونکہ وہ دن ہی اعمال کے اظہار کا ہوگا اور پھر سوال ہوگا کہ کیا تم ایمان کے بعد پھر کفر میں جاگرے۔ صاحب ” بحرمحیط “ فرماتے ہیں کہ یہ ارشاد ان کو توبیخ اور ان کے حال پر اظہار تعجب کے لئے ہوگا اور اگر اس سے مراد کفار لئے جائیں تو وہ اس تقدیر پر مراد ہوں گے کہ روز میثاق سب ایمان لا چکے تھے مگر دار تکلیف میں آکر کافر ہوگئے اور اگر مراد یہود و نصاریٰ ہوں گے تو اس تقدیر پر کہ تورات وانجیل پر بھی اور حضور اکرم ﷺ پر بھی ایمان رکھتے تھے کہ آپ ﷺ کی تشریف آوری کی پیشگوئی اور آپ ﷺ کے اوصاف ان کی کتابوں میں مذکور تھے لیکن جب آپ ﷺ مبعوث ہوئے تو انکار کر بیٹھے۔ اگر مراد اہل بدعت ہوں تو ایسے لوگ مراد ہوں گے جن کی بدعات نے انہیں ایمان سے خارج کردیا۔ جیسا کہ گزشتہ اوراق میں بیشتر فرقے شمار کئے گئے ہیں اور اگر منافق مراد ہوں تو ان کا ایمان ظاہری اور کفر قلبی مراد ہوگا۔ ان اعمال کی وجہ سے اپنے حاصل کردہ اجر بھگتو ! یعنی ذات باری کسی پر خواہ مخواہ عذاب مسلط نہیں فرماتی بلکہ لوگ عذاب کماتے اور کسب کرتے ہیں۔ اے کاش ! جو مشقت دخول نار کے لئے کی جاتی ہے وہ حصول قرب الٰہی کے لئے کی جاتی۔ یادرکھو ! جن کے چہرے منور ہوں گے وہ ہمیشہ ہمیشہ اللہ کی رحمت یعنی جنت میں رہیں گے کہ جنت میں داخل ہونے کے بعد کسی کو نکالا نہ جائے گا۔ نیز جنت کو رحمت فرما کر یہ ظاہر فرمایا کہ انسانی عبادات بغیر رحمت باری کے جنت کو حاصل نہیں کرسکتیں کہ انسان اس قدر انعامات وصول کرچکا ہے جن کا وہ شکر بھی ادا نہیں کرسکتا۔ نیز توفیق عبادت اور خلوص فی العبادات خود رحمت باری ہی تو ہے اور کمال رحمت یہ ہے کہ یہاں تمام اہل جنت کے لئے خلود کی بشارت ہے مگر اس کے برعکس تمام دوزخیوں کے لئے نہیں کہ دوزخ میں خلود صرف کفار کے لئے ہے اگر کوئی مومن گناہوں کی پاداش میں گیا بھی تو بالآخر نجات نصیب ہوجائے گی۔ یہ اللہ کی آیات ہیں ، اللہ کی طرف سے دلائل ہیں جو آپ ﷺ پر اتارے جاتے ہیں کہ خلق خدا ان سے ہدایت حاصل کرے حق اور صداقت کے پیکر ہیں۔ اللہ کو یہ پسند نہیں کہ کسی کے ساتھ زیادتی ہو۔ حتیٰ کہ حدیث شریف میں وارد ہے کہ مومن کو نیکی پر دنیا میں بھی اجر ملتا ہے اور آخرت میں بھی۔ اور اگر کافر کوئی اچھا کام کرے تو چونکہ اللہ کے لئے تو نہیں کرتا اس لئے آخرت کے اجر سے محروم رہتا ہے لیکن دنیا میں اپنی نیکی کا بدلہ ضرور پالیتا ہے کہ اللہ کریم کسی سے زیادتی نہیں کرتے ورنہ وہ تو جو چاہے کرلے کسی کو اعتراض کا حق حاصل نہیں کہ جو کچھ زمینوں اور آسمانوں میں ہے سب اسی کا تو ہے اور اپنی ملک میں تصرف پر کسی کا اعتراض کیسا ؟ مگر اس کی حکمت اور اس کا انصاف کہ کوئی محروم نہ رہے اور اس کی رحمت اس وقت تک پہنچتی ہے جب تک کوئی خود کو بالکل محروم نہ کرلے ۔ نیز تمام امور بھی اسی کی طرف پلٹتے ہیں۔ یعنی حقیقی فیصلہ بھی جملہ امور کا اسی کے دست قدرت میں ہے اور اس کے علاوہ کوئی صاحب اختیار نہیں۔
Top