Asrar-ut-Tanzil - Aal-i-Imraan : 110
كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ١ؕ وَ لَوْ اٰمَنَ اَهْلُ الْكِتٰبِ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْ١ؕ مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ اَكْثَرُهُمُ الْفٰسِقُوْنَ
كُنْتُمْ : تم ہو خَيْرَ : بہترین اُمَّةٍ : امت اُخْرِجَتْ : بھیجی گئی لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے تَاْمُرُوْنَ : تم حکم کرتے ہو بِالْمَعْرُوْفِ : اچھے کاموں کا وَتَنْهَوْنَ : اور منع کرتے ہو عَنِ : سے الْمُنْكَرِ : برے کام وَتُؤْمِنُوْنَ : اور ایمان لاتے ہو بِاللّٰهِ : اللہ پر وَلَوْ : اور اگر اٰمَنَ : ایمان لے آتے اَھْلُ الْكِتٰبِ : اہل کتاب لَكَانَ : تو تھا خَيْرًا : بہتر لَّھُمْ : ان کے لیے مِنْھُمُ : ان سے الْمُؤْمِنُوْنَ : ایمان والے وَ اَكْثَرُھُمُ : اور ان کے اکثر الْفٰسِقُوْنَ : نافرمان
تم بہترین جماعت ہو جو لوگوں کے واسطے ظاہر کی گئی ہے تم نیکی کا حکم کرتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان لاتے ہو اور اگر اہل کتاب ایمان لے آتے تو ان کے لئے بہتر ہوتا بعض ان میں ایمان والے ہیں اور اکثر ان میں بدکار (کافر) ہیں
آیات 110- 120 اسرارو معارف کنتم خیرامۃ……………واکثرھم الفسقون۔ تم سب سے اچھی امت ہو کہ آقائے نامدار ﷺ خیرالرسل ہیں اور قرآن کریم سب کتابوں سے اعلیٰ و افضل کتاب ہے۔ تم لوگ جنہیں آپ ﷺ سے نسبت حاصل ہے۔ اور اس کی برکت سے کتاب اللہ کو سمجھنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے ایک ایسی سعادت ہے کہ ارشاد ہوا۔ اتممت علیکم نعمتی۔ کہ میں نے اپنی نعمت تم پر تمام کردی۔ تم ہی بہترین لوگ ہو۔ اتمام نعمت ایک ایسی عطا ہے جس کی حدود متعین کرنا انسان کے بس کی بات نہیں ہے اور اس پر مزید یہ کہ نعمت کا حصول بھی بیشک بہت بڑی بات ہے مگر اس کو دوسروں پر تقسیم کرنا اور بےحدوحساب بانٹنا بہت ہی بڑی شے ہے اور تمہیں تو بھیجا ہی اس لئے گیا ہے کہ تم یہ دولت عظمیٰ لٹائو۔ ظاہر ہی لوگوں کے لئے کئے گئے ہو۔ جیسا کہ سورة بقرہ میں یہ بحث گزر چکی ہے کہ یہ امت معتدل ہے باعتبار اعمال کے بھی اور عقائد کے بھی ، نہ تو کہیں عقائد میں غلو ہے اور اعمال میں شدت۔ عظمت باری کا اقرار ہے تو صاف ستھرا بغیر کسی لگی لپٹی کے۔ رسالت پہ ایمان ہے تو کھرا۔ آخرت ، حشر ونشر اور جملہ ضروریات دین کے متعلق ایسا ٹھوس ، صاف ستھرا نظریہ جو نقلاً ثابت اور عقلاً بھی درست۔ اس کے ساتھ اعمال اور عبادات میں ایسا عمدہ توازن کہ نہ اتنی شدت کہ انسان پر بوجھ بن جائے نہ ایسے کم کہ اس کی روحانی تشنگی باقی رہے۔ غرض حقوق اللہ اور حقوق العباد ہر شے ایک قرینہ اور ایک سلیقہ لئے ہوئے ہے اور اس پر بس نہیں بلکہ اس دولت کو دنیا میں بانٹنے والے بھی ہو ، نیکی کا حکم کرنے والے اور بدی ، ظلم و زیادتی کو مٹانے والے کہ اللہ کریم نے اس امت کو جہاد کی نعمت سے نوازا ہے یعنی جہاں بھی برائی یا ظلم و زیادتی ہو۔ اس کا فرض ہے کہ اس کا سدباب کرے۔ یہی وجہ تھی کہ ہندوستان میں ایک لڑکی کی چیخ صحرائے عرب کو ہلاگئی اور اٹھے تو نہ صرف اپنوں کو آزادی دلائی بلکہ صدیوں کی مظلوم انسانیت کے لئے مژدہ نجات لائے اور کمال یہ ہے کہ کسی کو بھی جبراً اپنا عقیدہ قبول کرنے پر مجبور نہ کیا۔ کافر اگر کفر پر قائم رہنا چاہے تو رہے مگر نہ کسی سے زیادتی کا مرتکب ہو اور نہ کوئی اس پر ظلم کرے اور بحیثیت انسان جو حقوق اسے حاصل ہیں ان سے ضرور بہرہ ور ہو۔ اسی طرح انسانیت نے فارس میں پکارا یا ارض روم میں ، خادمان رسول ﷺ ہی ہیں جو تڑپ کر پہنچے ، سمندروں کے سینے چیر کر افریقہ جیسے تاریک براعظم میں بھی انسانیت کی دستگیری کی اور کمال یہ ہے کہ کسی پر اپنی تہذیب یا نظریہ مسلط نہیں کیا ، ہاں ! اسلام کے کمال سے متاثر ہو کر جس نے قبول کیا وہ پھر گورا کالا یا مغربی ومشرقی نہ رہا بلکہ مسلمان ہوگیا۔ اور وہ تمام حقوق جو ایک مسلمان کو حاصل تھے اسے بھی حاصل ہوگئے۔ کسی مذہب یا قوم کی تاریخ اس کی نظیر پیش نہیں کرسکتی۔ ایسی عادل افواج کہ جنہوں نے ربع صدی میں معلوم دنیا کے تین حصے فتح کئے مگر کسی مفتوح قوم سے ذرا بھر زیادتی کی نہ کسی کا مال لوٹا نہ عزت بلکہ فاتح لشکر نے مفتوحین کے حقوق کا حق ادا کردیا۔ یہ سب کیا ہے ؟ اتمام نعمت باری ہے اور یہ سارا کمال ہے نسبت محمدیہ ﷺ کا۔ اور ارشاد ہوا تو منون باللہ کہ حقیقی ایمان کی لذت پانے والے ہو ، ورنہ اللہ سے ایمان تو تمام امتوں کا تھا۔ توحید و رسالت ہی تو باب اسلام ہے جو بھی جس دور میں بھی داخل اسلام ہو اس نے توحید باری کا اور نبی پاک ﷺ کی نبوت کا اقرار پہلے کیا اور پھر ضروریات دین کا۔ تو خصوصاً امت مرحومہ کو یہ شرف کیوں بخشا گیا ؟ کیا تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو ؟ مفسرین کرام نے اسے کمال ایمان فرمایا ہے کہ نفس ایمان تو سب کو حاصل ہے مگر جو درجہ کمال اس امت کو نصیب ہوا وہ اسی کا حصہ تھا کہ قرآن کریم پر نگاہ کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ تمام امتوں نے دنیا میں اپنے لئے چیزیں طلب کیں ، دولت ، حکومت ، ملک یا غذایہ وغیرہ۔ یہ جرات رندانہ اس امت کو نصیب ہوئی کہ یہ ہمیشہ رضائے باری ہی کی طالب رہی۔ اور اللہ سے اللہ ہی کو مانگا۔ ان کی نگاہ غیر اللہ پہ نہیں ٹھہری۔ زندگی کے دو اصول ہیں تجویز اور تفویض۔ تمام امتیں اصول تجویز سے آگے نہ بڑھ سکیں اور ہمیشہ طالب رہیں کہ یہ نعمت مل جائے وہ دولت حاصل ہو صرف اور صرف اس امت کا کمال تھا کہ اس نے دنیا دے کر ، راحت قربان کر کے حتیٰ کہ جان بھی دے کر صرف اور صرف اللہ کی رضا طلب کی۔ یہ حسن طلب بھی حددرجہ کا کمال رکھتا ہے اس ساری دولت کی اصل آپ ﷺ سے نسبت ہے۔ افسوس ! کہ آج وہی گھٹ گئی۔ سنت کو چھوڑ کر رواج کو اپنایا جارہا ہے۔ ایک چھوٹی سی بات ہے کہ مسلمان اپنے محبوب پیغمبر ﷺ کی سی شکل بنانا خلاف عزت جانتا ہے اور یورپ کی نقل کرکے یہ سمجھتا ہے کہ میں بڑا معزز ہوگیا ہوں ، بھلا اس سے کسی اچھائی کی امید کی جاسکتی ہے۔ آیہ کریمہ کے اصل مخاطب تو صحابہ کرام ؓ تھے اور جملہ امت میں سے سب سے اعلیٰ مقامات کے حامل کہ ارشاد ہوا ، میرے اصحاب ؓ کو گالی نہ دو ۔ کیونکہ تم میں سے اگر کوئی احد کے برابر سونا راہ خدا میں خرچ کرے گا تو ان کے سیر بھر بلکہ آدھے سیر (خرچ کرنے کے درجہ) کو بھی نہیں پہنچے گا ۔ نیز ارشاد رسول مقبول ﷺ ہے کہ میرے صحابہ ؓ میں سے جو کوئی کسی زمین میں مرے گا۔ قیامت کے دن وہ ان لوگوں کے لئے قائد اور نور راہ بنا کر اٹھایا جائے گا۔ (تفسیر مظہری) باقی تمام امت میں سے اگر کوئی سعادت سے بہرور ہوگا تو وہ اتباع صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نیز صاحب تفسیر مشہری فرماتے ہیں کہ گزشتہ اقوام کی نسبت اس امت کے مبلغین اور مرشدین کی ہدایت میں زیادہ اثر ہے کہ لوگ کو کھینچ کر اللہ کی طرف لے جاتے ہیں۔ تقسیم ولایت : پھر لکھتے ہیں کہ حضرت علی ؓ قطب الارشاد اور شاہ ولایت تھے۔ گزشتہ امتوں میں سے کوئی بھی آپ کی روحانی وساطت کے بغیر درجہ ولایت تک نہیں پہنچ سکا۔ یہ بات بہت عجیب ہونے کے ساتھ بالکل درست ہے کہ جب کمالات صحابہ ؓ پہلی کتابوں میں نازل فرمائے گئے تو ظاہر ہے ان امتوں کے لئے ان حقائق کو قبول کرنا جزو ایمان ٹھہرا اور یہی روحانی استفادہ کی راہ ہے جہاں تک مشاہدات کا تعلق ہے تو اس امت میں بھی ولایت کا رجسٹر بارگاہ نبوی ﷺ میں اور حضرت علی ؓ کے سامنے رکھا ہوتا ہے اور سوائے نسبت اویسیہ کے تمام سلاسل اولیاء ان ہی کی ذات سے جاری ہوتے ہیں۔ یہ اکیلی نسبت ہے جو سیدنا صدیق اکبر ؓ سے جاری ہوتی ہے اور پھر یہ بھی حضرت علی ؓ سے ہو کر تقسیم ہوتی ہے کہ اس سلسلہ جلیلہ میں طالب کو روحانی طور پر بارگاہ نبوت میں لاکر آپ ﷺ سے روحانی بیعت کرائی جاتی ہے پھر سیدنا صدیق اکبر ؓ سے اور پھر سیدنا علی ؓ سے۔ گویا باب ولایت وہی ہیں اگرچہ تکمیل کمالات صدیقیت پہ جاکر ہوتی ہے کہ اس سے اوپر نبوت ہوتی ہے بقول حضرت استاذ نالمکرم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ صدیقیت کی چھت نبوت کا صحن ہوتا ہے۔ اگر اہل کتاب بھی تمہاری طرح ایمان لے آتے تو ان کے لئے کس قدر بہتر ہو تاکہ ان کا شمار بھی خیرالامم میں ہوجاتا جس طرح کچھ لوگ ان میں سے ایمان رکھتے ہیں یعنی وہ بزرگ جنہیں حضور ﷺ پہ ایمان لانے کی سعادت نصیب ہوئی۔ جیسے عبداللہ بن سلام ؓ وغیرہ ، کہ یہ ایمان جو اس امت کو نصیب ہے ، کمال ایمان ہے یعنی دل کو ماسوا سے پاک کرنا اور ایسی محبت دل میں جمانا کہ دنیا کی غرض باقی رہے نہ دنیوی لالچ بلکہ ہر قدم صرف اور صرف اللہ کی رضا کے لئے اسی کی طلب میں اٹھے۔ بالکل یہی کمالات ہر اس انسان کو نصیب ہوئے جو اس امت میں داخل ہوا۔ اور اہل کتاب میں سے بہت کم لوگ اس درجہ کو پہنچے ، اکثریت کفر میں بھٹک رہی ہے کہ انہیں خاتم الانبیاء ﷺ پر ایمان لانا نصیب نہیں ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے انعامات کو اسی ایمان پہ تمام فرمادیا اور اس کے بعد کسی نئے نبی پہ ایمان لانے کی ضرورت باقی نہ رکھی نہ رسول خدا ﷺ نے اس کی خبر دی بلکہ لا نبی بعدی۔ فرما کر یہ دروازہ ہی بند فرمادیا۔ اب اگر کوئی نبوت کا مدعی ہو تو کذاب ہوگا۔ خواہ مسیلمہ ہو یا قادیانی ۔ کیونکہ آپ ﷺ کی بعثت سے انعامات تمام ہوچکے ، اور یہ امت خیر الامم ٹھہری۔ لن یضروکم الا ذیٰ……………ثم لا ینصرون۔ یہ آپ کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے سوائے اس کے کہ بہتان تراشی وغیرہ سے اذیت پہنچائیں اور اگر اس سے بڑھ کر انہوں نے جنگ کرنے کی ٹھانی تو ذلت آمیز شکست سے دوچار ہوں گے اور کسی طرف سے انہیں کوئی مدد نصیب نہ ہوگی۔ یہ ایک عظیم پیشگوئی تھی ، جو حرف بحرف پوری ہو کر قرآن کی صداقت اور آپ ﷺ کی نبوت پہ گواہ ثابت ہوئی کہ یہود کے بہت بڑے قبیلے مدینہ منورہ سے خیبر تک شکست سے دوچار ہوئے اور ذلیل کرکے نکالے گئے بعض پہ جزیہ لگا۔ کچھ قتل ہوئے اور بالآخر جلاوطن ہوئے حالانکہ غزوہ خندق میں انہوں نے پورے جزیرۃ العرب کو متحد کرکے مسلمانوں کو نابود کرنے کی ٹھانی تھی اور خود بدعہدی کرکے پشت میں چھرا گھونپنا چاہا مگر اللہ نے انہیں ہمیشہ ذلیل کیا۔ ضربت علیھم الذلۃ……………ذالک بما عصوا وکانوا یعتدون۔ ان پر ذلت مسلط کردی گئی خواہ یہ کہیں ہوں سوائے اس کے کہ اللہ کے عطا کردہ بذریعہ کے مطابق کسی حد تک گزر بسرکریں یعنی ان حقوق کی بناء پر جو زندہ رہنے کے لئے بحیثیت انسان کافر کو بھی حاصل ہیں ، یا دوسروں کی مدد سے زندگی گزاریں۔ صاحب کشاف کے مطابق چونکہ استثناء متصل ہے اس لئے ان مذکورہ دو صورتوں کے علاوہ یہود پر ہمیشہ ذلت مسلط رہے گی۔ یہ اللہ کے غضب کے مستحق قرار پائے اور ان پر مسکنت یعنی حاجتمندی اور پستی مسلط کردی گئی کیونکہ یہ اللہ کی آیات کا انکار کرتے رہے ہیں اور ناحق جانتے ہوئے بھی قتل انبیائ (علیہ السلام) کے مرتکب ہوتے رہے ہیں۔ انہوں نے اطاعت نہ کی اور حد سے نکل گئے۔ یہاں یہودی معاشرے کی پوری تصویر نظر آتی ہے کہ نزول قرآن سے لے کر آج تک ذلیل ہیں اور ایسے مسکنت میں جکڑے ہوئے کہ امیر ہوں تو بھی طبعی کنجوسی کی وجہ سے نہ اچھا کھاتے ہیں اور نہ اچھا پہنتے ہیں بلکہ ہمیشہ سود درسود ہی کے چکروں میں دولت کو بڑھانے کے درپے رہتے ہیں۔ اگر انہیں زمانہ حاضرہ میں آکر یہودی ریاست نصیب ہوئی تو اس کی حیثیت بھی مغربی طاقتوں کی چھائونی سے زیادہ کچھ نہیں۔ روس ، امریکہ اور برطانیہ آج ہاتھ اٹھالیں تو یہ اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتے۔ اور ان کی مدد سے بھی بحیثیت حکومت زندہ نہ رہ سکتے اگر مسلمان اپنی جگہ پر قائم رہتا۔ آج یہ بدی کو مٹانے اور نیکی کو پھیلانے کے لئے مبعوث ہونے والی امت خود بدی کی ذلت میں ڈوبتی جارہی ہے اس کا قبلہ مغرب کی تہذیب بن رہا ہے اور یہ ایمان باللہ کی عظیم دولت کو دنیا کی عارضی چمک پر فروخت کررہی ہے مسلمان کی یہ کمزوری بھی یہود کے ناسور کو پھیلنے کا موقع دے رہی ہے جس جسم میں بھی خون صاف نہ رہے اسے پر پھوڑے نکل آتے ہیں۔ تو یہ ریاست یہود کی ریاست نہیں۔ ہمارے گناہوں اور کوتاہیوں کی مجسم صورت ہے۔ جہاں ایمان کی دولت ہے وہاں چند سرفروش برسوں سے روس کے ریچھ کو تگنی کا ناچ نچا رہے ہیں اور ادھر دس کروڑ عرب پچیس لاکھ یہودیوں سے روز مار کھاتے ہیں اور دہائی دیتے ہیں اس لئے یہ روضہ اطہر کو چھوڑ کر ساحل لبنان پر رہنا پسند کرتے ہیں اور مسلمانوں کی یہی کمزوری کہ اس نے نسبت آقائے نامدار ﷺ کی حفاظت کا حق ادا نہ کیا کفر کو ڈھیل دی گئی اور کفار حتیٰ کے ارذل ترین کافر بھی آج اس پر شیر ہو رہے ہیں۔ اللہ کریم تمام مسلمانوں کو سنت خیرالانام ﷺ پر جمع فرمائے۔ آمین ! لیسوا سوآء ……………… واللہ علیم بالمتقین۔ اہل کتاب سب تو ایک جیسے نہیں بلکہ ان میں سے ایک جماعت ایسی بھی ہے جس نے دین حق کو قبول کیا ہے اور اس کا اثر ان کے کردار پر ظاہر ہے کہ ان کی راتیں تلاوت کلام سے مزین اور نوافل و سجود سے منور ہیں انہیں اللہ پر کامل ایمان نصیب ہوا ہے اور آخرت کے روز پر کہ وہ نیکی کا حکم کرتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں اور خود نیکی کی طرف لپکتے ہیں کہ وہ صالحین میں سے ہیں۔ مانع برکات : گویا یہ وضاحت فرمادی کہ مانع برکات صرف کفر ہے ، اگر کفر کی دیوار ڈھے جائے اور ایمان کی حلاوت نصیب ہو تو ہر شخص اپنی حیثیت کے مطابق خیروصلاح حاصل کرسکتا ہے۔ صاحب تفسیر کبیر فرماتے ہیں کہ صالحین کے معزز لقب سے اللہ کریم نے انبیاء (علیہ السلام) کو نوازا ہے۔ جیسا کہ کتاب اللہ میں متعدد مقامات پر مذکور ہے۔ امتی بھی اپنی حیثیت کے مطابق اس کمال کو حاصل کرسکتا ہے اور یہی مقصود ہے جس کی علامات یہاں گنوادی گئی ہیں کہ فرائض تو بجائے خود یہ لوگ نوافل پہ حریص ہوتے ہیں اور غفلت سے نکل کر ہوشیاری اور بیداری کو اختیار کرتے ہیں ، راتوں کو تلاوت اور سجدوں سے سجاتے ہیں اور نہ صرف خود نیک عمل کی طرف لپکتے ہیں بلکہ سراپا دعوت ہوتے ہیں اور برائی سے نہ صرف خود اجتناب کرتے ہیں بلکہ اس کے خلاف ہمیشہ جہاد کرتے ہیں یہی حاصل سلوک ہے اور ایک ایسا آئینہ ہے جس میں سے ہر شخص اپنے آپ کو دیکھ کر اندازہ کرسکتا ہے کہ جو شخص بھی نیکی کرے گا اس کی ناقدری نہ کی جائے گی۔ ہمارے ہاں ایک جملہ غلط طور پر مشہور ہے کہ عبادت ادھاری محنت ہے اس کی اجرت آخرت میں ملے گی۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ اس آیہ کریمہ نے ایمان اور عبادت کے باعث جوا اجر دنیا میں مرتب ہوتا ہے ارشاد فرمایا اور یہ بھی کہ اللہ نیکی کرنے والوں سے ہر آن باخبر ہے اور کسی کی ذرا سی نیکی بھی ضائع نہیں فرماتا۔ بلکہ دنیا میں اس پر کمال ایمان اور اصلاح احوال کا پھل لگتا ہے اور آخرت میں قرب الٰہی نصیب ہوگا۔ ان الذین کفروا……………ولکن انفسھم یظلمون۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے ایمان قبول نہیں کیا تو اگرچہ وہ دنیاوی اعتبار سے صاحب مال اور صاحب اولاد بھی ہوں یا جاہ واختیار بھی رکھتے ہوں اللہ کی گرفت سے نہیں بچ سکتے۔ اور کوئی شے انہیں عذاب الٰہی سے خلاصی نہیں دلواسکتی کہ زندگی اور شعور کے ساتھ بعثت انبیاء (علیہ السلام) کی نعمت اتنا بڑا احسان ہے کہ جس کا انکار دوزخ میں نہ صرف گرادے گا بلکہ اسی آگ میں ابدالآباد تک رہنا ہوگا اگر وہ دنیا میں کوئی شے خرچ بھی کرتے ہیں تو نہ آخرت کے لئے کرتے ہیں اور نہ اللہ کی اطاعت میں۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی ہرے بھرے کھیت میں کوئی سخت ہوا جس میں تیز سردی ہو چل کر اسے برباد کردے۔ اور کچھ باقی نہ چھوڑے کہ یہ ان کی بدعملی کا نتیجہ ہے یعنی ان کے کفر نے اس فطری استعداد کے ہرے بھرے کھیت کو جو یہ لے کر پیدا ہوئے تھے تباہ وبرباد کردیا۔ انہوں نے کفر اختیار کرکے خود اپنے اوپر ظلم ڈھایا ہے کہ کفر قبول انعامات کو مانع ہے ورنہ اللہ تو کریم ہے وہ کسی پر زیادتی نہیں کرتا۔ یایھا الذین امنوا…………………ان اللہ بما یعملون محیط۔ اے ایمان والو ! سوائے اپنوں کے یعنی سوائے ایمان والوں کے کسی کو اپنا بھیدی اور رازدار مت بنائو کہ یہ تمہیں نقصان پہنچانے سے چوکیں گے نہیں۔ بلکہ تمارے ایمان لانے کا اس قدر دکھ ہے۔ کہ یہ چاہتے ہیں کہ تمہیں زیادہ سے زیادہ تکلیف ہو اور یہ بات ان کی زبانوں سے بھی ٹپک رہی ہے۔ ان کی باتوں سے تمہاری دشمنی کی بو آتی ہے۔ اور جو کینہ انہوں نے دلوں میں چھپا رکھا ہے وہ بہت زیادہ ہے۔ ہم نے تم پر احسان فرما کر ساری بات کھول دی۔ اب تمہیں بھی چاہیے کہ عقل سے کام لو اور اگر پہلے کسی کے ساتھ دوستی یا تعلقات تھے بھی تو ایمان اور کفر نے تمہیں تقسیم کردیا۔ اب تمہارا حال یہ ہے کہ تم ان کا بھی بھلا چاہتے ہو ایمان سے دل صاف ہوگئے اور ان میں محبت ابھر آئی جس کی شدت اپنے تو اپنے بیگانوں کو بھی سیراب کرنے پر تلی ہوئی ہے مگر چونکہ یہ کافر ہیں اور دلوں میں غلظت رکھتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے دل نفرتوں سے بھرے ہوئے ہیں اور ایمان داروں کے لئے سوائے دشمنی کے اور کچھ نہیں رکھتے ورنہ تم تو سب کتابوں پر اور جملہ انبیاء پر ایمان رکھتے ہو ، چاہیے تو یہ تھا کہ تمہارے ساتھ محبت کرتے کہ تم ان انبیاء (علیہ السلام) اور کتب کو بھی مانتے ہو جنہیں ماننے کے یہ مدعی ہیں اور تمہارے نبی اکرم ﷺ اور کتاب کا یہ انکار کرتے ہیں اور تمہیں ان سے نفرت ہوتی مگر معاملہ یکسر الٹ ہے کہ ایماندار سے محبت اور کافر کے دل سے نفرت جھلک رہی ہے۔ اس حد تک کہ تمہارے سامنے تو اپنے مسلمان ہونے کا دعویٰ بھی کر گزرے ہیں مگر علیحدگی میں فرط غضب سے انگلیاں کاٹ کاٹ کر کھاتے ہیں یعنی کوئی بھی کافر بہی خواہ نہیں ہوسکتا خواہ اس پر کتنے احسان بھی کئے جائیں۔ اس لئے انہیں کبھی معتمد اور مشیر نہ بنایا جائے۔ اگرچہ اسلام کی رحمت اور شفقت عالمگیر ہے اور کافر کے حقوق کی حفاظت کا بھی حکم دیا۔ بلکہ رواداری ، ہمدردی اور نفع رسانی کے لئے غیر معمولی تاکید فرمائی ہے وہاں ان کے ساتھ تعلقات کی ایک حد متعین فرمادی ہے کہ اس سے آگے بڑھنا فرد اور قوم دونوں کے لئے باعث ضرر ہے۔ سیدنا فاروق اعظم ؓ کو عرض کیا گیا کہ ایک غیر مسلم لڑکا بہت اچھا کاتب ہے۔ فرمایا ، اگر میں اسے منشی رکھ لوں تو گویا کافر کو معتمد بنالیا۔ اسی طرح تمام نظریاتی ممالک کبھی بھی اپنے نظریہ سے اختلاف رکھنے والے پر بھروسہ نہیں کرتے ، روس اور چین ہی کو لے لیں جو شخص کمیونزم پر یقین نہ رکھتا ہو اسے عہد تو کجا۔ ان ملکوں میں آرام سے رہنا نصیب نہیں۔ تو مسلمان کو بھی کفار پہ اعتماد کرنا گویا اپنے نقصان کو دعوت دینا ہے۔ نیز تمام ایسی تحاریک جو اسلام کے نام پر خلاف اسلام مصروف عمل ہیں وہ کھلے کافروں سے بھی زیادہ خطرناک ہیں جیسے ہمارے ملک میں شیعہ اور قادیانی ، کہ جمل وصفین سے لے کر چونڈا تک روافض کی کارستانیاں بکھری پڑی ہیں اور قادیانیت کی تاریخ ایک گماشتے کی حکایت کے سوا کچھ نہیں۔ اسی قسم کے افراد کا ذکر ہورہا ہے کہ کہتے ہیں ہم مسلمان ہیں مگر مسلمانوں کو تباہی کے ذمہ دار یہی لوگ ہیں۔ انہیں قریب مت پھٹکنے دو بلکہ کہہ دو کہ اسلام کی سربلندی اور مسلمانوں کی آزادی کو دیکھ دیکھ کر جلتے رہو اور غصے کی آگ میں بھسم بھی ہوجائو تو تم کچھ نہیں بگاڑ سکتے کہ اللہ دلوں کے بھید جانتا ہے وہ تمہاری چالوں سے باخبر ہے۔ ہاں ! یہ ارشاد فرمایا کہ تم خود انہیں اپنا مشیر نہ بنا لینا کہ یہ تمہارے دکھوں پہ خوش ہوتے ہیں اور اگر تمہیں راحت نصیب ہو تو انہیں سخت رنج ہوتا ہے یعنی انتہائی حاسد ہیں۔ ہمیشہ مسلمانوں پر بھروسہ کرو کہ جس دل میں ایمان ہو وہ دوسرے مومن کا بھلا سوچتا ہے اس کے دکھ پہ دکھ محسوس کرتا ہے اور اس کی راحت پہ خوش ہوتا ہے اور اے مومنین ! اگر تم صبر کرو یعنی کوئی مشکل بھی سامنے ہو تو بجائے کفار پہ اعتماد کرنے کے صبر کرو ! اور اطاعت الٰہی کو اپنا شعار بنائو تو ان کا فریب تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا کہ ان کے اعمال بھی اللہ ہی کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ ہاں ! اگر تم خود ہی ان کی جھولی میں جاگرو یا اللہ کی نافرمانی شروع کردو تو پھر بات دوسری ہے گویا گناہ صرف آخرت کی مصیبت ہی نہیں لاتا دنیا کی ذلت اور پریشانی بھی عدم اطاعت کا پھل ہے جس طرح اطاعت کا پھل اطمینان اور دلی راحت ہے۔
Top