Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Asrar-ut-Tanzil - Aal-i-Imraan : 121
وَ اِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَهْلِكَ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِیْنَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌۙ
وَاِذْ
: اور جب
غَدَوْتَ
: آپ صبح سویرے
مِنْ
: سے
اَھْلِكَ
: اپنے گھر
تُبَوِّئُ
: بٹھانے لگے
الْمُؤْمِنِيْنَ
: مومن (جمع)
مَقَاعِدَ
: ٹھکانے
لِلْقِتَالِ
: جنگ کے
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
سَمِيْعٌ
: سننے والا
عَلِيْمٌ
: جاننے والا
اور آپ صبح کو اپنے گھر والوں سے نکل کر مسلمانوں کو لڑائی کے لئے (مختلف) جگہوں پر متعین فرما رہے تھے اور اللہ سننے والے جاننے والے ہیں
آیات 121- 129 اسرارو معارف واذ غدوت من اھلک………………فاتقو اللہ لعلکم تشکرون۔ کفار کی اسلام دشمنی اور جوش غضب کا اظہار ان غزوات سے ہوتا ہے جن میں رحمت عالم ﷺ کو بھی شمشیر بکف ہونا پڑا۔ فرمایا کہ وہ وقت بھی یاد کرنے کے لائق ہے جب آپ ﷺ اپنے گھر والوں کے پاس سے نکلے ، اور مسلمانوں کو کفار سے مقابلہ کرنے کے لئے ترتیب سے جما رہے تھے۔ یہاں مفہوم سے آگاہی کے لئے واقعات جنگ سے آگاہ ہونا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ یہ غزوہ احد کے واقعات ہیں جو 3 ھ میں وقوع پذیر ہوئی۔ 2 ھ میں مقام بدر پر ذلت آمیز شکست کھانے کے بعد مشرکین مکہ نے یہ عہد کیا کہ جب تک مسلمانوں سے اس کا بدلہ نہ لیا جائے تب تک چین حرام ہے۔ چناچہ شام والے تجارتی قافلے کا سارا منافع بھی باتفاق رائے جنگ کی تیاری پر خرچ کیا گیا اور بہت سے قبائل کو ساتھ ملا کر تین ہزار کا لشکر جرار جس کے ساتھ عورتیں بھی تھیں کہ میدان جنگ میں مردوں کو غیرت دلائیں گی۔ یہ لشکر مدینہ منورہ سے باہر جبل احد کے قریب آکر خیمہ زن ہوا۔ آقائے نامدار ﷺ نے مسلمانوں سے مشورہ لیا ۔ آپ کی رائے مبارک یہ تھی کہ شہر کے اندر رہ کر مقابلہ کیا جائے۔ نیز یہ پہلا موقعہ تھا کہ عبداللہ ابن ابی وبظاہر مسلمان تھا۔ مشاورت میں شامل تھا بعض پرجوش مسلمانوں نے جو بدر میں شریک نہ ہوسکے۔ یہ تجویز کیا کہ میدان میں جاکر لڑا جائے۔ چناچہ آپ ﷺ مکان کے اندر تشریف لے گئے اور زرہ پہن کر باہر تشریف لائے۔ اہل بیت نبوی ﷺ: اسی کی طرف اشارہ ہے کہ جب آپ ﷺ گھر سے نکلے۔ صاحب کشاف نے لکھا ہے کہ یہ گھر حضرت عائشہ ؓ کا تھا۔ امام رازی (رح) نے یہاں یہ بحث فرمائی ہے کہ چونکہ آپ ﷺ منزل عائشہ صدیقہ ؓ سے روانہ ہوئے تھے۔ یہ آیت اس بات پر نص ہے کہ عائشہ صدیقہ ؓ آپ کی اہل ہیں اور جیسا کہ ارشاد ہے الطیبات للطیبین والطیبون الطیبات یہ اس بات پر نص ہے کہ آپ ؓ مظہرہ تھیں اور ہر قباحت سے مبرا ومنزہ۔ کیونکہ نوح (علیہ السلام) کا بیٹا کافر تھا تو ارشاد ہوا انہ لیس من اھلک ایسے ہی حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی بھی۔ آپ ایک ہزار آدمیوں کے ہمراہ مدینہ تشریف سے نکلے مگر ابن ابی راستے سے علیحدہ ہوگیا اور تین سو آدمیوں کو ساتھ لے گیا کہ ہمارا مشورہ نہیں مانا گیا لہٰذا ہم اپنے آپ کو ہلاکت میں کیوں ڈالیں ؟ اس کے ساتھی بھی منافقین کا معروف گروہ تھا۔ آپ ﷺ کے ساتھ صرف سات صدجاں نثار باقی رہے۔ جن کی آپ ﷺ نے میدان میں ترتیب سے صف آرائی فرمائی۔ کوہ احد کے پشت پر رکھا۔ حضرت مصعب بن عمیرؓ کو پچاس تیراندازوں کے ساتھ پشت کی جانب درے قر مقرر فرمایا کہ دشمن اس طرف سے حملہ آور نہ ہوسکے۔ یہ طریقہ جنگ آپ ﷺ نے دنیا کے سامنے پیش فرمایا ورنہ عرب تو محض نسور اور قوت کے بل چڑھ دوڑے تھے آج جب فن حرب اپنے عروج پر ہے پھر بھی حضور ﷺ کا انداز جنگ ، میدان جنگ کے نشیب و فراز کی اہمیت اور سپاہ کی تقسیم کے ساتھ سخت نظم وضبط ایسی چیزیں ہیں جنہیں متتشرق بھی نظر انداز نہیں کرسکتے اور مختلف کتب میں اپنے اپنے انداز میں تعریف کرتے ہیں۔ احد میں تیرانداز : غرض جنگ چھڑی اور اہل مکہ کے منہ پھرگئے حتیٰ کہ ان کی فوج کے قدم اکھڑ گئے اور بھاگ کھڑی ہوئی۔ ایسی حالت میں وہ تیرانداز جو درے پر مقرر تھے فتح کے جوش میں درے سے اتر آئے اور حضرت ابن عمیر ؓ کے منع کرنے پر نہ رکے کہ وہ حکم تو اس وقت تھا اب فتح ہوگئی۔ اب اس کی ضرورت نہیں۔ صرف چند جانفروش باقی رہے۔ دوسری طرف حضرت خالد بن ولید ؓ نے جو اہل مکہ کی طرف سے رسالے کے سالار تھے موقع سے فائدہ اٹھایا۔ درہ خالی دیکھ کر بھاگتے ہوئے سواروں کو سنبھالا اور عقب سے آکر حملہ کردیا حضرت مصعب بن عمیر ؓ جاں نثاروں کے ساتھ شہید ہوگئے۔ مسلمان اس غیر متوقع صورت حال سے پریشان ہوگئے اور مشرک فوج نے پلٹ کر حملہ کردیا۔ غرض سخت ابتری پھیل گئی۔ ساتھ کفار نے یہ افواہ اڑا دی کہ نبی کریم ﷺ شہید ہوگئے۔ اس خبر نے مسلمانوں کے حواس گم کردیئے بعض بےجگری سے لڑے کہ اب آپ ﷺ کے بعد زندہ رہ کر کیا کریں گے اور بعض پریشان ہوگئے کہ اب کس لئے لڑیں ؟ نبی کریم ﷺ زخمی ہوئے آپ کے دندان مبارک شہید ہوگئے رخ انور سے خون جاری ہوا اور آپ ﷺ کے ساتھ دس بارہ جاں نثارہ رہ گئے۔ باقی سب میدان میں منتشر ہوگئے۔ امام رازی (رح) نے ساتھ رہ جانے والوں کے چند نام گنوائے ہیں جن میں پہلا نام سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کا ہے۔ فرماتے ہیں۔ لم یبق معہ الا ابوبکر وعلی وعباس وطلحہ وسعد۔ (تفسیر کبیر) کہ ایک انصاری نے آپ ﷺ کو دیکھ کر اعلان کیا کہ آپ ﷺ اس طرف تشریف رکھتے ہیں چناچہ مہاجرین وانصار آپ کے گرد جمع ہوگئے اور مشرکین کو میدان سے بھاگنا پڑا۔ اکثر جلیل القدر صحابہ ؓ شہید ہوئے آپ ﷺ کا رخ انور زخمی ہوا مگر فتح بہرحال اسی لشکر کی شمار ہوگئی جو میدان میں مقیم رہا اور جو بھاگ گیا وہ ہزیمت خوردہ تھا۔ بعض حضرات نے لکھا ہے کہ درہ پر مقررہ صحابہ ؓ نے مال غنیمت لوٹنے کے لئے درہ چھوڑ دیا مگر یہ بات اس وجہ سے درست نہیں کہ غنیمت ہمیشہ ایک جگہ جمع ہوتی تھی۔ اور پھر سب پر تقسیم ہوتی تھی نہ کہ جس نے لوٹ لیا ، وہ مال اسی کا ہوگیا اس لئے یہ تو بات ہی غیر مناسب ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ وہ سمجھے ، فتح ہوگئی۔ اب ہمارا کام ختم ہوگیا اور جوش فتح میں دوسری سپاہ کے ساتھ آملے اگرچہ اتباع رسالت ﷺ کو عمداً نہ چھوڑا۔ اجتہاداً خطا ہوئی مگر دنیا کی تکلیف تو اس پر بھی مرتب ہوئی۔ نیز صحابہ ؓ کے خلوص پر انعامات بھی بےبہا مرتب ہوئے اور شہادت وجاں نثاری کا موقع نصیب ہوا۔ یہاں جو متعدد امور مستفید ہوتے ہیں ان میں سے چند ایک یہ ہیں ، 1 ۔ اذغدوت من اھلک ، یعنی آپ اہل و عیال میں تھے مگر اللہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے کھڑے ہوئے یعنی اولیت دین کو حاصل ہے اور باقی تمام تعلقات درجہ ثانی میں ہیں۔ 2 ۔ ام المومنین حضرت عائشہ الصدیقۃ ؓ اہل بیت رسول پاک ﷺ طاہر بی بی ہیں اگر اس بات میں تردد پیدا ہوا تو ایسا شخص نص قرآنی کا منکر ہو کر کافر ٹھہرے گا۔ مشاروت اور منشائے شیخ : 3 ۔ اگرچہ مشاورت درست ہے مگر منشائے رسول ﷺ کا لحاظ مقدم ہے اگر آپ خلاف منشاء پر راضی ہوجائیں تو دینی نقصان نہ ہوگا مگر دنیاوی تکلیف ضرور مرتب ہوگی اور یہی حال طالب کا شیخ کے ساتھ ہونا چاہیے کہ شیخ کو اس کی منشاء کے خلاف رائے نہ دے یعنی اگر دونوں طرف جواز ہو تو اس طرف کو اختیار کرے جو شیخ کو منظور ہو ورنہ نہ دنیاوی نقصان ہوگا۔ 4 ۔ تبوالمومنین مقاعد للقتال ، کہ آپ ﷺ مومنین کو ترتیب سے جما رہے تھے بلحاظ عہدہ ورتبہ بھی اور بلحاظ فرائض ومناصب بھی اور مناسب اور موزوں مقامات پر بھی۔ یعنی ہر کام میں جنگ ہو یا امن ایک ترتیب ضروری ہے۔ 5 ۔ اس مقررہ نظام کے تابع رہنا بہرحال ضروری ہے عمداً مخالفت دین کے نقصان کا باعث ہوگی اور نادانی سے اگر سرزد ہوئی تو بھی دنیاوی نقصان ضرور ہوگا۔ طالبان طریقت کے لئے یہ جملہ اموراشد ضروری ہیں۔ حفاظت الٰہیہ : فرمایا ، اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے حتیٰ کہ جب دو جماعتوں نے کم ہمتی دکھانے کا قصد کیا ، یعنی بنی سلمہ اور بنی حارثہ نے جب وہ ابن ابی منافق کی اس بات سے اثر پذیر ہوئے کہ یہ لڑائی تو اپنے آپ کو خواہ مخواہ ہلاکت میں ڈالنا ہے تو اللہ نے انہیں سنبھال لیا۔ اور ایسی نامردی سے محفوظ فرمایا۔ واللہ ولیھما اللہ ان کا مددگار تھا۔ یہ برکت ان کے خلوص کی اور حضور ﷺ کی معیت کی ظاہر فرمائی کہ اگرچہ حالات ظاہر ی نے ان کے ذہنوں میں یہ بات ڈال دی کہ یہاں سے پلٹ جانا چاہیے مگر چونکہ وہ مخلص تھے اللہ نے ان کی حفاظت فرمائی اور انہیں ثابت قدم رکھا۔ حالانکہ منافقین پلٹ کر چلے گئے تھے انہیں اس سعادت سے محروم کردیا کہ وہاں نفاق تھا۔ سو ولایت خلوص کا نام ہے اور ایسے لوگ معصوم نہیں ہوتے مگر محفوظ ضرور ہوتے ہیں۔ اللہ جل شانہ ان کی حفاظت فرماتے ہیں۔ لہٰذا بدکاروں کو ولی تسلیم کرنا جہالت ہے۔ نیز مومنین کا بھروسہ تو اللہ پر ہوتا ہے یعنی جملہ اسباب ظاہری پر پوری محنت ودیانت سے عمل کرنے کے بعد نتائج کو اللہ کے سپرد کردیتے ہیں۔ ترک سبب تو کل نہیں ہے بلکہ اسباب اختیار کرکے ذات باری پر بھروسہ کرے اور نتائج کی امید اس کی ذات سے رکھے۔ وہ ایسا قادر ہے کہ بغیر اسباب کے بھی اور اسباب کی کمی کے باوجودبھی جس طرح چاہے نتائج مرتب فرما سکتا ہے جیسے یوم بدر اس نے تمہاری مدد فرمائی حالانکہ کفار کے مقابلے میں تم لوگ بہت کمزور تھے۔ یہ واقعہ 17 رمضان المبارک 2 ھ کو پیش آیا۔ بدر مکہ معظمہ سے آتے ہوئے مدینہ کی طرف راستے میں ایک مقام ہے ۔ جہاں مشرکین مکہ اور مسلمانوں کے درمیان سب سے پہلا معرکہ بپا ہوا۔ مشرکین تعداد میں ایک ہزار چنے ہوئے۔ جنگ جو بہادروں کا لشکر لائے تھے ، بہترین اسلحہ وافر راشن ، غرض ہر لحاظ سے مکمل تیاری کے ساتھ آئے تھے۔ اور مسلمان تعداد میں تین سو تیرہ ، اسلحہ نہ ہونے کے برابر سواریاں بہت کم ، اور یہی حال راشن کا تھا۔ پھر ان تین سو تیرہ میں کچھ کمسن تھے تو کچھ حضرات عمر رسیدہ بھی۔ لشکر کفار نے پہلے پہنچ کر میدان کے جنگی اعتبار سے مفید حصے پر قبضہ جمالیا تھا۔ غرض باعتبار اسباب کے ہر لحاظ سے کفار مضبوط تھے مگر نصرت الٰہی کا کیا کہنا کہ اس قدر ذلت آمیز شکست سے دو چار ہوئے کہ ان کے چیدہ چیدہ افراد میں سے ستر نامور سردار قتل ہوئے اور اتنے ہی مسلمانوں کے ہاتھوں قید ہوئے جبکہ مسلمان شہداء کی تعداد صرف چودہ تھی۔ یہ بظاہر تو ایک چھوٹی سے اور مقامی سطح کی جنگ تھی مگر اپنے اثرات کے لحاظ سے اس نے پوری دنیا کو متاثر کیا اور بقول ہٹی ، یہ اسلام کی پہلی فتح مبین تھی۔ (ہسٹری آف عریبیہ) اور ارشادات رسول ﷺ کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس مختصر سے لشکر پر اسلام کی فتح کی بنیاد رکھی گئی جیسا کہ آپ ﷺ نے دعا میں عرض کیا تھا کہ اے بار الٰہا ! اگر یہ لوگ آج یہاں کھیت رہے تو کبھی کوئی شخص تیری عبادت نہ کرسکے گا کہ آج میں سارے کا سارا اسلام کفر کے مقابلے پر لے آیا ہوں۔ اللہ کریم نے عظیم الشان فتح نصیب فرمائی اور اسلامی ریاست کی بنیاد مضبوط تر بنیادوں پر استوار ہوئی۔ اللہ سے ڈرتے رہو اور تقویٰ اختیار کرو کہ اصل طریقہ شکر یہی ہے قرآن کریم نے مسلمان کو تمام مصائب کا علان اور جملہ پریشانیوں کا حل ایک لفظ میں ارشاد فرمادیا ہے اور وہ ہے تقویٰ میں صبر اور صلوٰۃ میں شکر اور کہیں ذکر۔ موقع کی مناسبت سے یہ تمام امور بتلائے گئے ہیں جو درحقیقت تقویٰ کے حصے ہیں اور لفظ تقویٰ تمام امور کو شامل ہے۔ یہاں تقویٰ میں شکر فرع کے طور پر بیان ہوا ہے یعنی شکر کرنے کی عملی صورت خلوص دل سے اللہ کی اطاعت میں اپنی پوری کوشش صرف کرنے کا نام ہے اور یہی سب کچھ تصوف و سلوک کا محاصل ہے۔ اذتقول للمومنین…………فینقلبوا خائبین۔ جب آپ ﷺ بدر کے موقع پر ارشاد فرما رہے تھے کہ کیا تمہاری تقویت کے لئے یہ امر کافی نہیں کہ تمہارا رب تمہاری مدد تین ہزار ملائکہ کے لشکر جرار سے کرے جو صرف اسی غرض سے آسمان سے نازل ہوں یعنی یہ کام وہ فرشتے انجام نہ دیں جو پہلے ہی مختلف امور کی انجام دہی کے لئے زمین پر موجود ہیں بلکہ ایک خاص مقام کے حامل فرشتے جو صرف اس کام کو انجام دینے کے لئے نازل ہوں جو تمہیں کرنا ہے اور فرمایا اس سے بھی زیادہ کہ اگر تم صبر اور تقویٰ پر بدستور قائم رہو۔ کیونکہ یہ تو ظاہر ہے کہ پہلے بھی وصف تقویٰ اور صبر سے متصف تھے تو نزول ملائکہ ہوا۔ اب اگر یہ وصف کمال کی طرف بڑھتا رہے تو ملائکہ کی تعداد بھی زیادہ کردی جائے گی کہ اگر کفار یکبارگی تم پر ٹوٹ پڑیں تو پانچ ہزار کا لشکر جو نشان زدہ گھوڑوں پر سوار ہو تمہاری مدد کو پہنچ جائے۔ یہ مختلف مدارج اور کیفیات ہیں فنا فی اللہ کی ، کہ جس قدر قرب بڑھتا جائے ، برکات میں زیادہ ہوتی چلی جاتی ہے۔ فرشتے لڑائی کے لئے مکلف نہ تھے بلکہ یہ کام مسلمانوں کو انجام دینا تھا مگر ان کے قلوب اس قدر مستغرق تھے جمال باری میں کہ ان کا کام ملائکہ کے سپرد ہوا اور وہ بھی خاص درجہ کے فرشتے مقرر ہوئے۔ اب صورت یہ ہوتی ہے کہ انسان اگر ذات باری سے دور ہوتا چلاجائے تو دل انوارت سے خالی ہو کر شیطان کی قرار گاہ بن جاتا ہے پھر جوں جوں دور ہو شیطان کو کھل کھیلنے کا موقع ملتا ہے کہ ظلمت بڑھتی چلی جاتی ہے لیکن قرب الٰہی کی صورت میں ابتداء ہی نورانیت کے ظہور سے ہوتی ہے اور جوں جوں ترقی نصیب ہو نورانیت بڑھتی چلی جاتی ہے جس کی وجہ سے ملائکہ مقربین کا نزول قلب پر ہوتا ہے۔ اور اس کے لئے بشارت ، سکون اور اطمینان کا باعث بنتے ہیں۔ یہاں بھی نزول ملائکہ کا سبب یہی ارشاد ہوا ہے کہ ، بشریٰ لکم ولتطمئن قلوبکم۔ تمہارے لئے بشارت کا سبب ہوں اور دلوں کو قرار بخشیں ، نیز شیاطین اور ان کے مسکن قلوب پریشان ہوں ورنہ تو اللہ قادر ہے اصل غلبہ اور مدد اسی کی ہے جو حکیم ، دانا بھی اور زبردست اور قادر بھی ہے۔ اور یہ سب نزول برکات اور ملائکہ اس نے اس لئے فرمایا ہے کہ کفار میں سے بعض کو ہلاک کرے اور باقیوں کو ذلت آمیز شکست سے دو چار کرکے خائب و خاسر لوٹا دے۔ کرامات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین : میدان بدر میں بعض کفار فرشتوں کے ہاتھوں بھی ہلاک ہوئے کہ بعض صحابہ ؓ فرماتے ہیں جب میں نے کافر پہ وار کرنا چاہا تو اس سے پہلے کہ میری تلوار اس پر پڑے اس کا سر تن سے کٹ چکا ہوتا۔ اسی طرح بعض جسمانی طور پر کمزور صحابہ ؓ نے بڑے طاقتور مشرکوں کو قیدی بنا لیا جس کے بارے وہ کفار بھی کہتے تھے کہ میں نہیں جان سکتا کہ اس نے مجھے کس طرح باندھ لیا ہے بس اتنی خبر ہے کہ میں اس کے ہاتھوں میں ہل نہیں سکتا تھا۔ اسی طرح میدان احد میں بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بہت سے مشاہدات بیان ہوئے ہیں جیسے حضرت انس بن نصرؓ نے فرمایا کہ پہاڑ کے دامن سے جنت کی خوشبو آرہی ہے اسی طرح لپکے اور شہید ہوگئے ، یا حضرت مصعب بن عمیر ؓ کی شہادت پر ایک فرشتے نے بڑھ کر جھنڈا تھام لیا اور گرنے نہ دیا۔ جب حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اے مصعب ؓ ! آگے بڑھو تو فرشتے نے کہا میں مصعب ؓ نہیں ہوں اور آپ ﷺ نے دیکھا کہ فرشتہ ہے یا حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کا بیان کہ میں تیر پھینکتا تھا تو ایک سفید رنگ کا جوان مجھے واپس لادیتا تھا۔ یہ واقعات تفسیر کبیر میں صفحہ 33 پر ارشاد ہوئے ہیں۔ صفحہ 35 پر امام رازی (رح) فرماتے ہیں ، کہ رویت ملائکہ کے بارے جسے شبہ گزرے وہ قرآن اور نبوت کا منکر ہے۔ اور اگر اقرار کرنے والا ہے تو ایسا شبہ اس کے دل میں نہیں آسکتا اور نزول ملائکہ کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ تمام مفسرین اور جملہ مورخین متفق ہیں۔ ان جملہ امور میں معجزات نبوی ﷺ اور کرامات صحابہ ؓ واضح ہیں اور یہ سب قرب الٰہی کی برکات کا ظہور ہے۔ نیز غیر نبی کو یہ مقام حاصل ہوسکتا ۔ کہ فرشتوں کو دیکھے یا ان سے کلام کرے یا کسی کو اس درجہ کی فناء تمام نصیب ہو کہ وہ جس کی طرف متوجہ ہو وہ کام اللہ کی طرف سے انجام پاجائے اور اسی طرح صوفیا توجہ اور القا سے طالبین کے دلوں کو مضبوط اور روشن کرتے ہیں اور یہ کام نبی کی اطاعت کے سبب اپنی حیثیت کے مطابق نصیب ہوتے ہیں۔ لیس لک من الا مرشیئ………………واللہ غفور رحیم۔ حضور نبی کریم ﷺ جب احد میں زخمی ہوئے تو آپ ﷺ کو بہت رنج ہوا۔ اور ارشاد فرمایا کہ وہ قوم کیسے فلاح پاسکتی ہے جس نے اپنے نبی کا چہرہ (رخ انور) خون آلود کردیا۔ درآں حالیکہ وہ ان کو اللہ کی طرف بلاتا ہے تو ارشاد ہوا ہر فرد کا معاملہ رب العٰلمین سے ہے اور آپ ﷺ کو اس میں کچھ دخل نہیں ۔ اگر چاہے تو توبہ کی توفیق ارزاں کردے اور چاہے تو انہیں عذاب کرے کہ وہ ناحق پر تو ہیں ہی۔ آپ ﷺ کو صبر کرنا ہی سزاوار ہے کہ یہی عبدیت کامل ہے کہ انسان ہر حال میں اظہار عجز کرے اور اس کی مملکت کو جاننے کا مدعی نہ ٹھہرے۔ یہی ظاہر ہوا کہ بعض کو تو مثالی تو بہ نصیب ہوئی جیسے حضرت خالد اور حضرت عکرمہ بن ابوجہل ؓ جلیل القدر صحابہ اور عالی قدر سالار ہوئے اور بعض کفر میں بھٹکتے ہوئے ہلاک ہوگئے۔ دراصل ہر شخص کی کیفیات قلبی اور اللہ کے ساتھ تعلق باطنی پر اجر مرتب ہوتے ہیں جن کی حقیقت کو جاننا صرف اللہ ہی کو سزاوار ہے کہ ارض وسماء اور جو کچھ ان میں ہے سب کا مالک وہی ہے اور وہی منتظم بھی ہے جسے چاہے بخش دے اور جسے چاہے عذاب میں مبتلا کردے۔ بخش دینے میں تو کوئی حیرت کی بات نہیں کہ وہ غفور اور رحیم ہے اس کی رحمت ہر چیز سے سابق ہے ، اور مبتلائے عذاب کرنے کا سبب پہلے ارشاد ہوا کہ فانھم طلمون۔ کہ وہ خود ناحق کرنے والے ہیں۔ شیخ کا کام صرف توجہ دینا ہے : یہ بات واضح ہوئی کہ شیخ توجہ تو دے سکتا ہے مگر اثر تب مرتب ہوگا جب طالب کے دل میں بھی خالص طلب ہو ورنہ اللہ دلوں کے حال جانتا ہے جنہیں جاننا شیخ کے لئے ضروری نہیں اور اکثر وہ معاف فرمادیتا ہے اور دلوں کو خلوص عطا فرمادیتا ہے مگر بعض بدنصیب اپنے قلبی اثرات کے باعث تباہی کے گڑھے میں بھی گر جاتے ہیں۔ اللہ کریم ہم سب کو اپنے عذابوں سے محفوظ رکھے ! آمین۔
Top