Asrar-ut-Tanzil - Aal-i-Imraan : 121
وَ اِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَهْلِكَ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِیْنَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌۙ
وَاِذْ : اور جب غَدَوْتَ : آپ صبح سویرے مِنْ : سے اَھْلِكَ : اپنے گھر تُبَوِّئُ : بٹھانے لگے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) مَقَاعِدَ : ٹھکانے لِلْقِتَالِ : جنگ کے وَاللّٰهُ : اور اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور آپ صبح کو اپنے گھر والوں سے نکل کر مسلمانوں کو لڑائی کے لئے (مختلف) جگہوں پر متعین فرما رہے تھے اور اللہ سننے والے جاننے والے ہیں
آیات 121- 129 اسرارو معارف واذ غدوت من اھلک………………فاتقو اللہ لعلکم تشکرون۔ کفار کی اسلام دشمنی اور جوش غضب کا اظہار ان غزوات سے ہوتا ہے جن میں رحمت عالم ﷺ کو بھی شمشیر بکف ہونا پڑا۔ فرمایا کہ وہ وقت بھی یاد کرنے کے لائق ہے جب آپ ﷺ اپنے گھر والوں کے پاس سے نکلے ، اور مسلمانوں کو کفار سے مقابلہ کرنے کے لئے ترتیب سے جما رہے تھے۔ یہاں مفہوم سے آگاہی کے لئے واقعات جنگ سے آگاہ ہونا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ یہ غزوہ احد کے واقعات ہیں جو 3 ھ میں وقوع پذیر ہوئی۔ 2 ھ میں مقام بدر پر ذلت آمیز شکست کھانے کے بعد مشرکین مکہ نے یہ عہد کیا کہ جب تک مسلمانوں سے اس کا بدلہ نہ لیا جائے تب تک چین حرام ہے۔ چناچہ شام والے تجارتی قافلے کا سارا منافع بھی باتفاق رائے جنگ کی تیاری پر خرچ کیا گیا اور بہت سے قبائل کو ساتھ ملا کر تین ہزار کا لشکر جرار جس کے ساتھ عورتیں بھی تھیں کہ میدان جنگ میں مردوں کو غیرت دلائیں گی۔ یہ لشکر مدینہ منورہ سے باہر جبل احد کے قریب آکر خیمہ زن ہوا۔ آقائے نامدار ﷺ نے مسلمانوں سے مشورہ لیا ۔ آپ کی رائے مبارک یہ تھی کہ شہر کے اندر رہ کر مقابلہ کیا جائے۔ نیز یہ پہلا موقعہ تھا کہ عبداللہ ابن ابی وبظاہر مسلمان تھا۔ مشاورت میں شامل تھا بعض پرجوش مسلمانوں نے جو بدر میں شریک نہ ہوسکے۔ یہ تجویز کیا کہ میدان میں جاکر لڑا جائے۔ چناچہ آپ ﷺ مکان کے اندر تشریف لے گئے اور زرہ پہن کر باہر تشریف لائے۔ اہل بیت نبوی ﷺ: اسی کی طرف اشارہ ہے کہ جب آپ ﷺ گھر سے نکلے۔ صاحب کشاف نے لکھا ہے کہ یہ گھر حضرت عائشہ ؓ کا تھا۔ امام رازی (رح) نے یہاں یہ بحث فرمائی ہے کہ چونکہ آپ ﷺ منزل عائشہ صدیقہ ؓ سے روانہ ہوئے تھے۔ یہ آیت اس بات پر نص ہے کہ عائشہ صدیقہ ؓ آپ کی اہل ہیں اور جیسا کہ ارشاد ہے الطیبات للطیبین والطیبون الطیبات یہ اس بات پر نص ہے کہ آپ ؓ مظہرہ تھیں اور ہر قباحت سے مبرا ومنزہ۔ کیونکہ نوح (علیہ السلام) کا بیٹا کافر تھا تو ارشاد ہوا انہ لیس من اھلک ایسے ہی حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی بھی۔ آپ ایک ہزار آدمیوں کے ہمراہ مدینہ تشریف سے نکلے مگر ابن ابی راستے سے علیحدہ ہوگیا اور تین سو آدمیوں کو ساتھ لے گیا کہ ہمارا مشورہ نہیں مانا گیا لہٰذا ہم اپنے آپ کو ہلاکت میں کیوں ڈالیں ؟ اس کے ساتھی بھی منافقین کا معروف گروہ تھا۔ آپ ﷺ کے ساتھ صرف سات صدجاں نثار باقی رہے۔ جن کی آپ ﷺ نے میدان میں ترتیب سے صف آرائی فرمائی۔ کوہ احد کے پشت پر رکھا۔ حضرت مصعب بن عمیرؓ کو پچاس تیراندازوں کے ساتھ پشت کی جانب درے قر مقرر فرمایا کہ دشمن اس طرف سے حملہ آور نہ ہوسکے۔ یہ طریقہ جنگ آپ ﷺ نے دنیا کے سامنے پیش فرمایا ورنہ عرب تو محض نسور اور قوت کے بل چڑھ دوڑے تھے آج جب فن حرب اپنے عروج پر ہے پھر بھی حضور ﷺ کا انداز جنگ ، میدان جنگ کے نشیب و فراز کی اہمیت اور سپاہ کی تقسیم کے ساتھ سخت نظم وضبط ایسی چیزیں ہیں جنہیں متتشرق بھی نظر انداز نہیں کرسکتے اور مختلف کتب میں اپنے اپنے انداز میں تعریف کرتے ہیں۔ احد میں تیرانداز : غرض جنگ چھڑی اور اہل مکہ کے منہ پھرگئے حتیٰ کہ ان کی فوج کے قدم اکھڑ گئے اور بھاگ کھڑی ہوئی۔ ایسی حالت میں وہ تیرانداز جو درے پر مقرر تھے فتح کے جوش میں درے سے اتر آئے اور حضرت ابن عمیر ؓ کے منع کرنے پر نہ رکے کہ وہ حکم تو اس وقت تھا اب فتح ہوگئی۔ اب اس کی ضرورت نہیں۔ صرف چند جانفروش باقی رہے۔ دوسری طرف حضرت خالد بن ولید ؓ نے جو اہل مکہ کی طرف سے رسالے کے سالار تھے موقع سے فائدہ اٹھایا۔ درہ خالی دیکھ کر بھاگتے ہوئے سواروں کو سنبھالا اور عقب سے آکر حملہ کردیا حضرت مصعب بن عمیر ؓ جاں نثاروں کے ساتھ شہید ہوگئے۔ مسلمان اس غیر متوقع صورت حال سے پریشان ہوگئے اور مشرک فوج نے پلٹ کر حملہ کردیا۔ غرض سخت ابتری پھیل گئی۔ ساتھ کفار نے یہ افواہ اڑا دی کہ نبی کریم ﷺ شہید ہوگئے۔ اس خبر نے مسلمانوں کے حواس گم کردیئے بعض بےجگری سے لڑے کہ اب آپ ﷺ کے بعد زندہ رہ کر کیا کریں گے اور بعض پریشان ہوگئے کہ اب کس لئے لڑیں ؟ نبی کریم ﷺ زخمی ہوئے آپ کے دندان مبارک شہید ہوگئے رخ انور سے خون جاری ہوا اور آپ ﷺ کے ساتھ دس بارہ جاں نثارہ رہ گئے۔ باقی سب میدان میں منتشر ہوگئے۔ امام رازی (رح) نے ساتھ رہ جانے والوں کے چند نام گنوائے ہیں جن میں پہلا نام سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کا ہے۔ فرماتے ہیں۔ لم یبق معہ الا ابوبکر وعلی وعباس وطلحہ وسعد۔ (تفسیر کبیر) کہ ایک انصاری نے آپ ﷺ کو دیکھ کر اعلان کیا کہ آپ ﷺ اس طرف تشریف رکھتے ہیں چناچہ مہاجرین وانصار آپ کے گرد جمع ہوگئے اور مشرکین کو میدان سے بھاگنا پڑا۔ اکثر جلیل القدر صحابہ ؓ شہید ہوئے آپ ﷺ کا رخ انور زخمی ہوا مگر فتح بہرحال اسی لشکر کی شمار ہوگئی جو میدان میں مقیم رہا اور جو بھاگ گیا وہ ہزیمت خوردہ تھا۔ بعض حضرات نے لکھا ہے کہ درہ پر مقررہ صحابہ ؓ نے مال غنیمت لوٹنے کے لئے درہ چھوڑ دیا مگر یہ بات اس وجہ سے درست نہیں کہ غنیمت ہمیشہ ایک جگہ جمع ہوتی تھی۔ اور پھر سب پر تقسیم ہوتی تھی نہ کہ جس نے لوٹ لیا ، وہ مال اسی کا ہوگیا اس لئے یہ تو بات ہی غیر مناسب ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ وہ سمجھے ، فتح ہوگئی۔ اب ہمارا کام ختم ہوگیا اور جوش فتح میں دوسری سپاہ کے ساتھ آملے اگرچہ اتباع رسالت ﷺ کو عمداً نہ چھوڑا۔ اجتہاداً خطا ہوئی مگر دنیا کی تکلیف تو اس پر بھی مرتب ہوئی۔ نیز صحابہ ؓ کے خلوص پر انعامات بھی بےبہا مرتب ہوئے اور شہادت وجاں نثاری کا موقع نصیب ہوا۔ یہاں جو متعدد امور مستفید ہوتے ہیں ان میں سے چند ایک یہ ہیں ، 1 ۔ اذغدوت من اھلک ، یعنی آپ اہل و عیال میں تھے مگر اللہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے کھڑے ہوئے یعنی اولیت دین کو حاصل ہے اور باقی تمام تعلقات درجہ ثانی میں ہیں۔ 2 ۔ ام المومنین حضرت عائشہ الصدیقۃ ؓ اہل بیت رسول پاک ﷺ طاہر بی بی ہیں اگر اس بات میں تردد پیدا ہوا تو ایسا شخص نص قرآنی کا منکر ہو کر کافر ٹھہرے گا۔ مشاروت اور منشائے شیخ : 3 ۔ اگرچہ مشاورت درست ہے مگر منشائے رسول ﷺ کا لحاظ مقدم ہے اگر آپ خلاف منشاء پر راضی ہوجائیں تو دینی نقصان نہ ہوگا مگر دنیاوی تکلیف ضرور مرتب ہوگی اور یہی حال طالب کا شیخ کے ساتھ ہونا چاہیے کہ شیخ کو اس کی منشاء کے خلاف رائے نہ دے یعنی اگر دونوں طرف جواز ہو تو اس طرف کو اختیار کرے جو شیخ کو منظور ہو ورنہ نہ دنیاوی نقصان ہوگا۔ 4 ۔ تبوالمومنین مقاعد للقتال ، کہ آپ ﷺ مومنین کو ترتیب سے جما رہے تھے بلحاظ عہدہ ورتبہ بھی اور بلحاظ فرائض ومناصب بھی اور مناسب اور موزوں مقامات پر بھی۔ یعنی ہر کام میں جنگ ہو یا امن ایک ترتیب ضروری ہے۔ 5 ۔ اس مقررہ نظام کے تابع رہنا بہرحال ضروری ہے عمداً مخالفت دین کے نقصان کا باعث ہوگی اور نادانی سے اگر سرزد ہوئی تو بھی دنیاوی نقصان ضرور ہوگا۔ طالبان طریقت کے لئے یہ جملہ اموراشد ضروری ہیں۔ حفاظت الٰہیہ : فرمایا ، اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے حتیٰ کہ جب دو جماعتوں نے کم ہمتی دکھانے کا قصد کیا ، یعنی بنی سلمہ اور بنی حارثہ نے جب وہ ابن ابی منافق کی اس بات سے اثر پذیر ہوئے کہ یہ لڑائی تو اپنے آپ کو خواہ مخواہ ہلاکت میں ڈالنا ہے تو اللہ نے انہیں سنبھال لیا۔ اور ایسی نامردی سے محفوظ فرمایا۔ واللہ ولیھما اللہ ان کا مددگار تھا۔ یہ برکت ان کے خلوص کی اور حضور ﷺ کی معیت کی ظاہر فرمائی کہ اگرچہ حالات ظاہر ی نے ان کے ذہنوں میں یہ بات ڈال دی کہ یہاں سے پلٹ جانا چاہیے مگر چونکہ وہ مخلص تھے اللہ نے ان کی حفاظت فرمائی اور انہیں ثابت قدم رکھا۔ حالانکہ منافقین پلٹ کر چلے گئے تھے انہیں اس سعادت سے محروم کردیا کہ وہاں نفاق تھا۔ سو ولایت خلوص کا نام ہے اور ایسے لوگ معصوم نہیں ہوتے مگر محفوظ ضرور ہوتے ہیں۔ اللہ جل شانہ ان کی حفاظت فرماتے ہیں۔ لہٰذا بدکاروں کو ولی تسلیم کرنا جہالت ہے۔ نیز مومنین کا بھروسہ تو اللہ پر ہوتا ہے یعنی جملہ اسباب ظاہری پر پوری محنت ودیانت سے عمل کرنے کے بعد نتائج کو اللہ کے سپرد کردیتے ہیں۔ ترک سبب تو کل نہیں ہے بلکہ اسباب اختیار کرکے ذات باری پر بھروسہ کرے اور نتائج کی امید اس کی ذات سے رکھے۔ وہ ایسا قادر ہے کہ بغیر اسباب کے بھی اور اسباب کی کمی کے باوجودبھی جس طرح چاہے نتائج مرتب فرما سکتا ہے جیسے یوم بدر اس نے تمہاری مدد فرمائی حالانکہ کفار کے مقابلے میں تم لوگ بہت کمزور تھے۔ یہ واقعہ 17 رمضان المبارک 2 ھ کو پیش آیا۔ بدر مکہ معظمہ سے آتے ہوئے مدینہ کی طرف راستے میں ایک مقام ہے ۔ جہاں مشرکین مکہ اور مسلمانوں کے درمیان سب سے پہلا معرکہ بپا ہوا۔ مشرکین تعداد میں ایک ہزار چنے ہوئے۔ جنگ جو بہادروں کا لشکر لائے تھے ، بہترین اسلحہ وافر راشن ، غرض ہر لحاظ سے مکمل تیاری کے ساتھ آئے تھے۔ اور مسلمان تعداد میں تین سو تیرہ ، اسلحہ نہ ہونے کے برابر سواریاں بہت کم ، اور یہی حال راشن کا تھا۔ پھر ان تین سو تیرہ میں کچھ کمسن تھے تو کچھ حضرات عمر رسیدہ بھی۔ لشکر کفار نے پہلے پہنچ کر میدان کے جنگی اعتبار سے مفید حصے پر قبضہ جمالیا تھا۔ غرض باعتبار اسباب کے ہر لحاظ سے کفار مضبوط تھے مگر نصرت الٰہی کا کیا کہنا کہ اس قدر ذلت آمیز شکست سے دو چار ہوئے کہ ان کے چیدہ چیدہ افراد میں سے ستر نامور سردار قتل ہوئے اور اتنے ہی مسلمانوں کے ہاتھوں قید ہوئے جبکہ مسلمان شہداء کی تعداد صرف چودہ تھی۔ یہ بظاہر تو ایک چھوٹی سے اور مقامی سطح کی جنگ تھی مگر اپنے اثرات کے لحاظ سے اس نے پوری دنیا کو متاثر کیا اور بقول ہٹی ، یہ اسلام کی پہلی فتح مبین تھی۔ (ہسٹری آف عریبیہ) اور ارشادات رسول ﷺ کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس مختصر سے لشکر پر اسلام کی فتح کی بنیاد رکھی گئی جیسا کہ آپ ﷺ نے دعا میں عرض کیا تھا کہ اے بار الٰہا ! اگر یہ لوگ آج یہاں کھیت رہے تو کبھی کوئی شخص تیری عبادت نہ کرسکے گا کہ آج میں سارے کا سارا اسلام کفر کے مقابلے پر لے آیا ہوں۔ اللہ کریم نے عظیم الشان فتح نصیب فرمائی اور اسلامی ریاست کی بنیاد مضبوط تر بنیادوں پر استوار ہوئی۔ اللہ سے ڈرتے رہو اور تقویٰ اختیار کرو کہ اصل طریقہ شکر یہی ہے قرآن کریم نے مسلمان کو تمام مصائب کا علان اور جملہ پریشانیوں کا حل ایک لفظ میں ارشاد فرمادیا ہے اور وہ ہے تقویٰ میں صبر اور صلوٰۃ میں شکر اور کہیں ذکر۔ موقع کی مناسبت سے یہ تمام امور بتلائے گئے ہیں جو درحقیقت تقویٰ کے حصے ہیں اور لفظ تقویٰ تمام امور کو شامل ہے۔ یہاں تقویٰ میں شکر فرع کے طور پر بیان ہوا ہے یعنی شکر کرنے کی عملی صورت خلوص دل سے اللہ کی اطاعت میں اپنی پوری کوشش صرف کرنے کا نام ہے اور یہی سب کچھ تصوف و سلوک کا محاصل ہے۔ اذتقول للمومنین…………فینقلبوا خائبین۔ جب آپ ﷺ بدر کے موقع پر ارشاد فرما رہے تھے کہ کیا تمہاری تقویت کے لئے یہ امر کافی نہیں کہ تمہارا رب تمہاری مدد تین ہزار ملائکہ کے لشکر جرار سے کرے جو صرف اسی غرض سے آسمان سے نازل ہوں یعنی یہ کام وہ فرشتے انجام نہ دیں جو پہلے ہی مختلف امور کی انجام دہی کے لئے زمین پر موجود ہیں بلکہ ایک خاص مقام کے حامل فرشتے جو صرف اس کام کو انجام دینے کے لئے نازل ہوں جو تمہیں کرنا ہے اور فرمایا اس سے بھی زیادہ کہ اگر تم صبر اور تقویٰ پر بدستور قائم رہو۔ کیونکہ یہ تو ظاہر ہے کہ پہلے بھی وصف تقویٰ اور صبر سے متصف تھے تو نزول ملائکہ ہوا۔ اب اگر یہ وصف کمال کی طرف بڑھتا رہے تو ملائکہ کی تعداد بھی زیادہ کردی جائے گی کہ اگر کفار یکبارگی تم پر ٹوٹ پڑیں تو پانچ ہزار کا لشکر جو نشان زدہ گھوڑوں پر سوار ہو تمہاری مدد کو پہنچ جائے۔ یہ مختلف مدارج اور کیفیات ہیں فنا فی اللہ کی ، کہ جس قدر قرب بڑھتا جائے ، برکات میں زیادہ ہوتی چلی جاتی ہے۔ فرشتے لڑائی کے لئے مکلف نہ تھے بلکہ یہ کام مسلمانوں کو انجام دینا تھا مگر ان کے قلوب اس قدر مستغرق تھے جمال باری میں کہ ان کا کام ملائکہ کے سپرد ہوا اور وہ بھی خاص درجہ کے فرشتے مقرر ہوئے۔ اب صورت یہ ہوتی ہے کہ انسان اگر ذات باری سے دور ہوتا چلاجائے تو دل انوارت سے خالی ہو کر شیطان کی قرار گاہ بن جاتا ہے پھر جوں جوں دور ہو شیطان کو کھل کھیلنے کا موقع ملتا ہے کہ ظلمت بڑھتی چلی جاتی ہے لیکن قرب الٰہی کی صورت میں ابتداء ہی نورانیت کے ظہور سے ہوتی ہے اور جوں جوں ترقی نصیب ہو نورانیت بڑھتی چلی جاتی ہے جس کی وجہ سے ملائکہ مقربین کا نزول قلب پر ہوتا ہے۔ اور اس کے لئے بشارت ، سکون اور اطمینان کا باعث بنتے ہیں۔ یہاں بھی نزول ملائکہ کا سبب یہی ارشاد ہوا ہے کہ ، بشریٰ لکم ولتطمئن قلوبکم۔ تمہارے لئے بشارت کا سبب ہوں اور دلوں کو قرار بخشیں ، نیز شیاطین اور ان کے مسکن قلوب پریشان ہوں ورنہ تو اللہ قادر ہے اصل غلبہ اور مدد اسی کی ہے جو حکیم ، دانا بھی اور زبردست اور قادر بھی ہے۔ اور یہ سب نزول برکات اور ملائکہ اس نے اس لئے فرمایا ہے کہ کفار میں سے بعض کو ہلاک کرے اور باقیوں کو ذلت آمیز شکست سے دو چار کرکے خائب و خاسر لوٹا دے۔ کرامات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین : میدان بدر میں بعض کفار فرشتوں کے ہاتھوں بھی ہلاک ہوئے کہ بعض صحابہ ؓ فرماتے ہیں جب میں نے کافر پہ وار کرنا چاہا تو اس سے پہلے کہ میری تلوار اس پر پڑے اس کا سر تن سے کٹ چکا ہوتا۔ اسی طرح بعض جسمانی طور پر کمزور صحابہ ؓ نے بڑے طاقتور مشرکوں کو قیدی بنا لیا جس کے بارے وہ کفار بھی کہتے تھے کہ میں نہیں جان سکتا کہ اس نے مجھے کس طرح باندھ لیا ہے بس اتنی خبر ہے کہ میں اس کے ہاتھوں میں ہل نہیں سکتا تھا۔ اسی طرح میدان احد میں بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بہت سے مشاہدات بیان ہوئے ہیں جیسے حضرت انس بن نصرؓ نے فرمایا کہ پہاڑ کے دامن سے جنت کی خوشبو آرہی ہے اسی طرح لپکے اور شہید ہوگئے ، یا حضرت مصعب بن عمیر ؓ کی شہادت پر ایک فرشتے نے بڑھ کر جھنڈا تھام لیا اور گرنے نہ دیا۔ جب حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اے مصعب ؓ ! آگے بڑھو تو فرشتے نے کہا میں مصعب ؓ نہیں ہوں اور آپ ﷺ نے دیکھا کہ فرشتہ ہے یا حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کا بیان کہ میں تیر پھینکتا تھا تو ایک سفید رنگ کا جوان مجھے واپس لادیتا تھا۔ یہ واقعات تفسیر کبیر میں صفحہ 33 پر ارشاد ہوئے ہیں۔ صفحہ 35 پر امام رازی (رح) فرماتے ہیں ، کہ رویت ملائکہ کے بارے جسے شبہ گزرے وہ قرآن اور نبوت کا منکر ہے۔ اور اگر اقرار کرنے والا ہے تو ایسا شبہ اس کے دل میں نہیں آسکتا اور نزول ملائکہ کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ تمام مفسرین اور جملہ مورخین متفق ہیں۔ ان جملہ امور میں معجزات نبوی ﷺ اور کرامات صحابہ ؓ واضح ہیں اور یہ سب قرب الٰہی کی برکات کا ظہور ہے۔ نیز غیر نبی کو یہ مقام حاصل ہوسکتا ۔ کہ فرشتوں کو دیکھے یا ان سے کلام کرے یا کسی کو اس درجہ کی فناء تمام نصیب ہو کہ وہ جس کی طرف متوجہ ہو وہ کام اللہ کی طرف سے انجام پاجائے اور اسی طرح صوفیا توجہ اور القا سے طالبین کے دلوں کو مضبوط اور روشن کرتے ہیں اور یہ کام نبی کی اطاعت کے سبب اپنی حیثیت کے مطابق نصیب ہوتے ہیں۔ لیس لک من الا مرشیئ………………واللہ غفور رحیم۔ حضور نبی کریم ﷺ جب احد میں زخمی ہوئے تو آپ ﷺ کو بہت رنج ہوا۔ اور ارشاد فرمایا کہ وہ قوم کیسے فلاح پاسکتی ہے جس نے اپنے نبی کا چہرہ (رخ انور) خون آلود کردیا۔ درآں حالیکہ وہ ان کو اللہ کی طرف بلاتا ہے تو ارشاد ہوا ہر فرد کا معاملہ رب العٰلمین سے ہے اور آپ ﷺ کو اس میں کچھ دخل نہیں ۔ اگر چاہے تو توبہ کی توفیق ارزاں کردے اور چاہے تو انہیں عذاب کرے کہ وہ ناحق پر تو ہیں ہی۔ آپ ﷺ کو صبر کرنا ہی سزاوار ہے کہ یہی عبدیت کامل ہے کہ انسان ہر حال میں اظہار عجز کرے اور اس کی مملکت کو جاننے کا مدعی نہ ٹھہرے۔ یہی ظاہر ہوا کہ بعض کو تو مثالی تو بہ نصیب ہوئی جیسے حضرت خالد اور حضرت عکرمہ بن ابوجہل ؓ جلیل القدر صحابہ اور عالی قدر سالار ہوئے اور بعض کفر میں بھٹکتے ہوئے ہلاک ہوگئے۔ دراصل ہر شخص کی کیفیات قلبی اور اللہ کے ساتھ تعلق باطنی پر اجر مرتب ہوتے ہیں جن کی حقیقت کو جاننا صرف اللہ ہی کو سزاوار ہے کہ ارض وسماء اور جو کچھ ان میں ہے سب کا مالک وہی ہے اور وہی منتظم بھی ہے جسے چاہے بخش دے اور جسے چاہے عذاب میں مبتلا کردے۔ بخش دینے میں تو کوئی حیرت کی بات نہیں کہ وہ غفور اور رحیم ہے اس کی رحمت ہر چیز سے سابق ہے ، اور مبتلائے عذاب کرنے کا سبب پہلے ارشاد ہوا کہ فانھم طلمون۔ کہ وہ خود ناحق کرنے والے ہیں۔ شیخ کا کام صرف توجہ دینا ہے : یہ بات واضح ہوئی کہ شیخ توجہ تو دے سکتا ہے مگر اثر تب مرتب ہوگا جب طالب کے دل میں بھی خالص طلب ہو ورنہ اللہ دلوں کے حال جانتا ہے جنہیں جاننا شیخ کے لئے ضروری نہیں اور اکثر وہ معاف فرمادیتا ہے اور دلوں کو خلوص عطا فرمادیتا ہے مگر بعض بدنصیب اپنے قلبی اثرات کے باعث تباہی کے گڑھے میں بھی گر جاتے ہیں۔ اللہ کریم ہم سب کو اپنے عذابوں سے محفوظ رکھے ! آمین۔
Top