Asrar-ut-Tanzil - Aal-i-Imraan : 149
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تُطِیْعُوا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یَرُدُّوْكُمْ عَلٰۤى اَعْقَابِكُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خٰسِرِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اِنْ تُطِيْعُوا : اگر تم اطاعت کرو الَّذِيْنَ : ان لوگوں کی كَفَرُوْا : جنہوں نے کفر کیا يَرُدُّوْكُمْ : وہ پھیر دیں گے تم کو عَلٰٓي اَعْقَابِكُمْ : اوپر تمہاری ایڑیوں کے فَتَنْقَلِبُوْا : تو لوٹ جاؤ گے تم۔ پلٹ جاؤ گے تم خٰسِرِيْنَ : خسارہ پانے والے ہوکر
اے ایمان والو ! اگر تم کافروں کا کہا مانو گے تو وہ تم کو الٹے پاؤں پھیر دیں گے (مرتد کردیں گے) پس تم بہت نقصان میں رہو گے
آیات 149- 155 اسرارو معارف یایھا الذین امنوا………وھو خیر الناصرین۔ مومنین کو ہمیشہ ارشادات نبوی ﷺ کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ اگر کفار کی بات پر کان دھریں گے تو وہ مومنوں کو بھی کھینچ کر کفر کی دلدل میں پھینک دیں گے جو ایک عظیم نقصان ہے اور جس کی عملی صورت احد میں ظاہر ہوئی کہ کفار نے علی الاعلان کہا کہ ہمیں واپس اپنے آبائی دین کی طرف لوٹ جانا چاہیے۔ احد مدینہ منورہ سے کچھ دور نہیں تھا اور منافقین اگرچہ ابن ابی کی سرکردگی میں لوٹ کر چلے گئے تھے مگر پھر بھی دور نزدیک سے جنگ کا تماشہ دیکھ رہے تھے جب مشرکین نے درہ سے حملہ کیا ، اور ان کی ساری فوج پلٹی تو وقتی طور پر ایک افراتفری کا عالم ضرور بپا ہوا اور ہونا بھی چاہیے تھا کہ مسلمان پہلے بھی تعداد میں کم تھے اور سخت جانفشانی سے لڑے تھے کہ مشرکین بھاگ نکلے اور اسی جوش تعاقب میں درہ پر متعین لوگ بھی تعاقب میں شامل ہوگئے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تو ایک طرف متوجہ تھے۔ کہ مشرکوں کے ایک رسالے نے درے سے نکل کر عقب پر حملہ کردیا ، ان کی طرف پلٹے تو بھاگئی ہوئی مشرک فوج پلٹ پڑی اور چکی کے دوپاٹوں میں آگئے اور اس پر آپ ﷺ کی شہادت کی گپ نے ، جو شیطان مردود نے اڑا دی تھی ، کسر ہی نکال دی۔ مگر تائید باری ہے ان خوش نصیبوں کو محروم نہ رکھا پھر فتحمند ہوئے اور بھاگتے ہوئے مشرکوں کا حمر الاسد کے مقام تک تعاقب بھی کیا اور منافقین کو شرمندگی نصیب ہوئی۔ تو جب مسلمان انتہائی مصیبت کی حالت میں دو طرفہ گھرے ہوئے لڑ رہے تھے۔ ان کی صفیں منتشر ہوچکی تھیں اور زخموں سے چور جس میدان میں تڑپ رہے تھے کہ بھاگ دوڑ کر لڑنے والوں کے زخموں پر مزید نمک پاشی منافقین کے قول نے کی ، ” ابن ابی کے پاس جائو ! تمہیں ابو سفیان سے امان حال کردے گا۔ یا آبائی مذہب کو پلٹ آئو کہ اب اس دین میں کیا رکھا ہے ؟ جب نبی ہی قتل ہوچکا “۔ (معاذ اللہ) تو اللہ کریم نے مومنوں کو ان کی خباثت سے مطلع فرما کر حکم دیا کر خبردار ! ان کی بات پر ہرگز کان نہ دھرنا تو پھر کفر کی ذلت اور تباہی میں گرانے کی کوشش کریں گے اور تمہارا مددگار تو اللہ ہے۔ ولی اللہ : اور یہی ولایت ہے کہ ولی اللہ محفوظ ہوتے ہیں۔ اللہ کریم گناہوں کے مقامات اور حالات سے ان کی حفاظت فرماتے ہیں۔ جیسے یہاں ارشاد ہوا کہ اللہ تمہارا مولیٰ اور ولی ہے کہ تمہیں منافقین کے ارادوں سے مطلع فرما کر حفاظت کا سامان کردیا اور وہی سب سے بہتر مددگار ہے۔ یہ بات واضح ہوگئی کہ بدکار اور تارک سنت والی اللہ نہیں ہوسکتا۔ ایسے لوگوں کے پیچھے پھرنا نبوی جہالت ہے نیز شیطان کسی بڑے بڑے آدمی پر بھی وار کرنے سے نہیں چوکتا کہ عین میدان جہاد میں حضور ﷺ کے موجود ہوتے ہوئے نعرہ لگانے سے باز نہ آیا۔ مگر مخلصین کو رحمت باری تھام تھام لیتی ہے اور ابلیس کے یہ دائو صرف ان لوگوں کو متاثر کرتے ہیں جو لوگ اللہ سے کٹ جائیں جیسا کہ ارشاد ہے ، سنلقی فی قلوب الذین کفروا الدعب بما اشرکو باللہ…واللہ ذوافضل علی المومنین۔ کافروں کے قلوب کو مرعوب کردیا جائے گا کہ خود انہوں نے اللہ سے شرک کرکے جس کی کوئی دلیل نہیں اس حال کو دعوت دی ہے کہ شرک کا وبال ہمیشہ انسان کو متعدد دروازوں پر بھٹکاتا رہتا ہے اور ایک ایک شے کا خوف اس کے دل میں بٹھاتا رہتا ہے ۔ بخلاف اس کے توحید اللہ سے ڈرنے کی دعوت بھی ہے اور اعتمادی علی اللہ مخلوق کے ڈر سے فارغ بھی کردیتا ہے۔ یہ حال تو دنیا میں ہے۔ آخرت میں مشرک کا ٹھکانہ دوزخ ہے جو بہت برا ٹھکانہ ہے اور ایسے ظالموں کے لئے سزاوار بھی ہے۔ نیز تمہیں ان کی طرف متوجہ ہونے کی کیا ضرورت کہ اللہ نے تمہارے ساتھ کئے ہوئے وعدے سچ ثابت فرمائے اور باوجود قلت تعداد کے اور سامان حرب کی کمی کے تم محض اللہ کی مدد سے انہیں قتل کر رہے تھے اور ان کے بڑے لشکر کو بھاگنے پر مجبور کردیا تھا کہ تمہاری رائے میں کمزور ی آگئی اور تم میں اختلاف رائے پیدا ہوگیا۔ جو غیر شعوری طور پر عین حصول فتح یا تکمیل فتح کے موقع سے چھوٹ گیا۔ یعنی درہ پر مقررہ پچاس تیر اندازوں میں سے بیشتر نے کفار کے بھاگتے ہوئے لشکر کا تعاقب کرنا چاہا کچھ لوگوں نے وہیں جمے رہنے پر اصرار کیا۔ تھوڑے لوگ وہاں رہ گئے۔ اکثر چلے گئے۔ ان کی رائے یہ تھی کہ آپ ﷺ کا حکم لڑائی تک تھا اب جنگ ختم ہوگئی مشرک بھاگ رہے ہیں ، یہاں کھڑا رہنے کی ضرورت نہیں مگر حقیقتا ً ایسا نہ تھا۔ انہیں وہاں پر پہرہ دینا چاہیے تھا۔ مگر وہ وہاں سے ہٹ گیا تو یہ غیرارادی طور پر سر زد ہونے والی نافرمانی بھی وجہ ابتلاء بن گئی کہ تمہارا فیصلہ بڑی حد تک دنیاوی عظمت کی طلب رکھتا تھا۔ حالانکہ وہاں کھڑے رہنے والے محض آخرت کی طلب میں کھڑے رہے۔ یہاں یہ بات ضرور دیکھ لی جائے کہ اکثر حضرات نے دنیا سے مراد غنیمت کو لیا ہے حالانکہ غنیمت لوٹنے سے نہیں ملتی بلکہ سارا مال ایک جگہ جمع ہو کر باقاعدہ تقسیم ہوتا ہے کوئی بہت لوٹے یا تھوڑا جو حصے میں آئے وہ مل جاتا ہے میری نظر میں یہاں دنیا سے مراد وہ جوش ہے جو تعاقب کرنے والوں میں شامل ہونے کا سبب بنا۔ اس میں کسی حد تک تفاخر کی جھلک بھی ہے جو عظمت صحابہ ؓ کے ساتھ نہیں جچتی ۔ فوراً امتحان میں ڈال دیا اور حالات کو الٹ دیا اب صحابہ ؓ کٹنے لگے ، شہید ہوئے اور زخموں سے چور ہوگئے تو پھر معافی کی اطلاع بھی کردی ، نہ صرف معاف فرمادیا بلکہ بذریعہ وحی آگاہ بھی فرمادیا اور فرمایا کہ اللہ تو مومنین کے حق میں بہت ہی مہربان ہے اسی لئے تم پر فضل کیا ہے۔ یہ آیہ کریمہ صحابہ کرام ؓ کے کمال ایمان پر نص ہے۔ اذتصعدون ولا تلون علی احد…………ان اللہ غفور حلیم۔ اس کے بعد اس وقت کی حالت کا نقشہ کھینچا ہے کہ وہ وقت یاد کرو جب تم جدھر کو منہ اٹھاتے ادھر کو بڑھنے لگتے تھے اور میدان میں تتر بتر ہوچکے تھے حتیٰ کہ رسول اللہ ﷺ کو آوازیں دینا پڑیں۔ یہاں بھی بعض حضرات نے لکھا ہے کہ کچھ لوگ بھاگ گئے تھے۔ مگر یہ بات قرین قیاس نہیں ہے کہ جو لوگ میدان چھوڑ کر بھاگ گئے ہوں انہیں پیچھے سے بلایا جائے اول تو یہ فرار اکبر الکبائر ہے۔ دوسرے شہر قریب تھا بھاگنے والے گھروں میں جارکتے۔ پھر وہ کس کی سنتے ؟ بات صرف اتنی تھی کہ دو طرفہ حملے میں مٹھی بھر صحابہ ؓ کوئی ترتیب قائم نہ رکھ سکے اور میدان میں بکھر گئے جس کے باعث بیشتر شہید اور زخمی ہوئے اور اس پر یہ اعلان سن کر کہ حضور ﷺ شہید ہوگئے اور بھی حالت دگرگوں ہوگئی تھی۔ حتیٰ کہ آپ ﷺ نے آواز دی اور اپنے جمع ہونے کے لئے فرمایا تو سب وہاں جمع ہوگئے بکھری ہوئی قوت سمٹ آئی اور مشرکین کو نہ صرف بھگایا بلکہ تعاقب بھی کیا۔ یہی ارشاد یہاں موجود ہے کہ تمہیں غم پہ غم دیکھنا پڑا۔ غرض اصلی تربیت تھی کہ کامل فنا حاصل ہوجائے اور کسی بھی کام کے ہوجانے پر تمہاری قلبی کیفیت میں فرق نہ آئے۔ یعنی جو واقعہ بھی سامنے آئے تم اس کے پیچھے اس ذات کو دیکھ سکو جو افعال کی خالق ہے اور تمہارے اعمال سے بہت ہی باخبر۔ اسی لئے تو اس تمام امر کے بعد تم پر اونگھ سی نازل کردی جس نے مخلصین کو ڈھانپ لیا۔ یہ استغراقی کیفیت مراد ہے جو نزول تجلیات پر پیش آتی ہے اور صوفی پر بھی جب انوار کی کثرت ہو تو یہ حالت ہوجاتی ہے کہ بیدار بھی ہوتا ہے اور جسم بےحس ہوجاتا ہے جیسے کہ حضرت ابوطلحہ ؓ کا ارشاد ہے کہ احد میں یہ حال ہوا کہ میں تلوار کو مضبوطی سے تھامنا چاہ رہا تھا اور وہ میرے ہاتھ سے گری جارہی تھی۔ رہے منافق ! تو یہ برکات ان کے نصیب کہاں ، بلکہ عین اس وقت جب یہ نزول رحمت ہورہا تھا اور وہ اسی جاہلیت کے دور میں اور وہموں میں مبتلا تھے اور ذات باری سے بدظن ہو رہے تھے کہ جب خزرج کے لوگوں کو شہید ہوتے دیکھا تو ابن ابی نے کہا کیا کسی بات کا فیصلہ ہمارے اختیار میں بھی یا محض دوسروں کے فیصلوں کی وجہ سے ہمارے بھائی کٹتے رہیں گے۔ مراد آپ ﷺ کے فیصلے سے تھی تو ارشاد ہوا کہ کہہ دیجئے ! سب کام اللہ کے دست قدرت میں ہے اور میرا فیصلہ اسی ذات عظیم کا فیصلہ ہے کہ یہی بات انہوں نے دلوں میں چھپا رکھی تھی جسے آپ ﷺ کے سامنے نہیں کہہ پاتے ورنہ ان کے دل میں ہے کہ اگر ہماری بات پر عمل ہوتا تو یہ ہمارے لوگ کٹ کر نہ مرتے۔ انہیں فرمادیں کہ اگر تم اندر چھپ جائو تو بھی جنہیں قتل ہونا تھا۔ انہیں تقدیر وہیں لے آتی۔ جہاں ان کے لئے قتل ہونا مقدر ہوچکا تھا۔ اور یہ جنگ جو تمہارے لئے وجہ امتحان بن گئی کہ منافقین کا بھید کھل گیا ، اور مخلصین کے دل مزید صاف ہوگئے۔ منافقین کے پیدا کردہ وس اس کی بنیاد ہل گی کہ اللہ دلوں کے بھیدوں سے آگاہ ہے اور وہی دلوں میں کیفیات کو پیدا فرماتا ہے اور یہ بات یادرکھو کہ میدان میں جن حضرات کے قدم ڈگمگائے انہیں شیطان نے لغزش دے دی تھی کہ بعض نے مدینہ منورہ میں آپ ﷺ کی منشاء مبارک کے خلاف رائے دے کر اور کچھ لوگوں نے درہ سے ہٹ کر قصور کیا تھا اس غیر ارادی غلطی کی وجہ سے بھی ان کے دلوں سے انوار کی وہ کثرت جاتی رہی جو شیطان کے وساوس کو بےاثر کرتی تھی۔ اس نے لغزش صادر کر اہی دی۔ لیکن اللہ نے ان کو معاف فرمادیا۔ کہ یہ ارادۃً صادر نہ ہوا تھا۔ بلکہ دونوں مقامات پر غیرارادی قصور تھا۔ اللہ کریم نے معاف فرمادیا۔ مگر دنیوی مصائب و تکلیف اس پر بھی مرتب ہوئیں اور ان سے دامن نہ بچایا جاسکا۔ بیشک اللہ بہت بڑا بخشنے والا اور تحمل والا ہے۔ یہاں ایسے لوگوں کو غور کرنا چاہیے جو بدقسمتی سے عمداً ترک سنت میں مبتلا ہیں۔ کیا وہ ایسے افعال پر کسی اچھے نتیجے کی امید کرسکتے ہیں ؟ کہ ان کا شان صحابہ ؓ کا سا ہے ، نہ جذبہ اور نہ خطا اجتہادی۔
Top