Asrar-ut-Tanzil - Aal-i-Imraan : 172
اَلَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِلّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ مِنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَصَابَهُمُ الْقَرْحُ١ۛؕ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا مِنْهُمْ وَ اتَّقَوْا اَجْرٌ عَظِیْمٌۚ
اَلَّذِيْنَ : جن لوگوں نے اسْتَجَابُوْا : قبول کیا لِلّٰهِ : اللہ کا وَالرَّسُوْلِ : اور رسول مِنْۢ بَعْدِ : بعد مَآ : کہ اَصَابَھُمُ : پہنچا انہیں الْقَرْحُ : زخم لِلَّذِيْنَ : ان کے لیے جو اَحْسَنُوْا : انہوں نے نیکی کی مِنْھُمْ : ان میں سے وَاتَّقَوْا : اور پرہیزگاری کی اَجْرٌ : اجر عَظِيْمٌ : بڑا
جن لوگوں نے زخم کھانے کے بعد اللہ اور رسول کے حکم کو قبول کیا ان میں ان لوگوں کے لئے جو نیکی اور پرہیز گاری اختیار کرتے ہیں بہت بڑا ثواب ہے
آیات 172- 180 اسرارو معارف الذین استجابوا للہ والرسول………………ان کنتم مومنین۔ یہ جملہ فضائل ان لوگوں کو حاصل ہیں جنہوں نے لاکھوں مشکلات کے باوجود اللہ اور رسول ﷺ کی اطاعت سے منہ نہ موڑا۔ یہی لوگ نیک بھی ہیں اور پرہیزگار بھی۔ ان کے لئے بہت بڑا اجر ہے۔ قرآن حکیم ساری انسانیت کے لئے اور ہمیشہ کے لئے اللہ کی آخری کتاب ہے۔ اس لئے اصولی باتیں بیان فرماتا ہے کہ مصائب دنیا بھی دراصل ترقی درجات کا سبب بن جاتے ہیں کہ جس قدر مشکلات میں اطاعت کرے گا اسی قدر اجر میں زیادتی ہوگی۔ چونکہ مثالی اور معیاری مومن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں اس لئے ذکر ان کا کیا جاتا ہے ، جیسے یہاں ارشاد ہے۔ صاحب تفسیر کبیر فرماتے ہیں کہ احد کے دوسرے روز حضور اکرم ﷺ نے تعاقب کا حکم دیا تو جاں نثاران رسول ﷺ زخموں سے چور تھے ۔ ستر شہید ہوچکے تھے اور زخموں کا یہ حال تھا کہ دو دو مل کر چلے۔ تھوڑی دور ایک دوسرے پر بوجھ ڈال کے چلتا تو پھر کچھ دور اس کو سنبھالتا اور وہ اس پر بوجھ ڈال کر چلتا۔ مگر تعاقب سے باز نہ آئے اور حمرالاسد تک پہنچے۔ جو مدینہ منورہ سے تقریباً تین میل کا فاصلہ تھا۔ نہ صرف مرد بلکہ بیبیوں کا یہ حال تھا کہ بقول امام رازی (رح) ایک عورت کا باپ ، شوہر ، بھائی اور بیٹا میدان میں شہید ہو کر پڑے تھے مگر وہ آپ ﷺ کو تلاش کررہی تھی۔ جب رخ انور کو دیکھا تو پکار اٹھی کل مصیبۃ بعدک ھدرۃ ۔ حضرت صفیہ ؓ تشریف لائیں تو حضور ﷺ نے حضرت زبیر ؓ سے فرمایا کہ انہیں روکیں ، کہیں بھائی کی لاش کے بکھرے ہوئے اعضاء کو دیکھ کر واویلا نہ کریں۔ تو انہوں نے فرمایا ، میں جانتی ہوں کہ حمزہ ؓ کا مثلہ کیا گیا ہے۔ تشریف لائیں اور دیکھ کر فرمایا ، اس قیمت پر بھی اطاعت نصیب ہو تو یہ سودا مہنگا ہرگز نہیں۔ یہاں جملہ مفسرین کرام نے ” من “ بیانیہ لکھا ہے۔ کہ جملہ صحابہ ؓ ان اوصاف عالیہ سے متصف تھے کہ احسنوا ھنھم واتقوا سے پہلے للذین استجابوا ارشاد ہوا ہے اور یہ استجابت بغیر احسان وتقویٰ کے ممکن ہی نہیں۔ اس من کا محاصل ہوگا کہ وہ سب لوگ جنہیں شرف استجابت نصیب ہوا۔ احسان وتقویٰ سے متصف تھے اور اجر عظیم کو پانے والے ۔ نیز اطاعت کے لئے خلوص درکار ہے کہ کوئی بھی کام بظاہر کتنا ہی اعلیٰ ہو اگر خلوص قلب سے نہ کیا جائے تو عنداللہ مقبول نہ ہوگا کہ محض بہادری سے لڑنا تو کفار سے بھی ثابت ہے۔ یہاں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بہادری ، مکمل اطاعت اور اس کے ساتھ احسان وتقویٰ یعنی کمال خلوص بھی بیان ہورہا ہے۔ احسان کا مفہوم تو حدیث جبرئیل (علیہ السلام) سے یوں ارشاد ہوا کہ اللہ کی عبادت کرو گویا تو اللہ کو دیکھ رہا ہے۔ گویا مراد حضوری ہے اور تقویٰ اعمال میں اسی حضوری کے باعث حد درجہ احتیاط کا نام ہے اور یہ اطاعت رسول اللہ ﷺ کی ہے کہ تعاقب کا حکم آپ ﷺ نے دیا تھا۔ اس کے لئے نئی وحی نازل ہوئی مگر یہاں آپ ﷺ کے ارشاد کو اللہ کا حکم قرار دیا گیا ہے جس سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی صوابدید پر جو حکم دیں و ہ بھی وہی درجہ رکھتا ہے جو اللہ کے نازل کردہ احکام کا ہے منکرین حدیث کو غور کرنا چاہیے۔ دوسرا کمال یہ ارشاد ہوا کہ لوگوں نے یعنی منافقین ومشرکین نے خوفزدہ کرنا چاہا اور کہا کہ اہل مکہ پلٹ رہے ہیں ان سے بچنے کی تدبیر کرو ، مگر صحابہ ؓ کا ایمان اور مضبوط ہوا کہ ان کا ایمان تو اول روز لے کامل تھا۔ یہ بھی خوب جانتے تھے کہ جس راہ کو انہوں نے اختیار کیا اس میں کس قدر مصائب اور تکالیف آئیں گی۔ آنے والی ہر مصیبت ان کے جوش ایمان کو اور بڑھا دیتی تھی۔ نیز اعمال بھی تو ایمان ہی کا حصہ ہیں کہ ایمان ایک دعویٰ ہے جس کی گواہی اعمال ہی مہیا کرسکتے ہیں۔ ہر طاعت زیادتی ایمان کا باعث ہے۔ اور ہر گناہ اس میں کمی کا سبب ، حتیٰ کہ مسلسل گناہ کرنے والے لوگ ایمان ضائع کردیتے ہیں اور اسلام کے نام پر کسی کفر کا نوالہ بن جاتے ہیں۔ مگر یہاں یہ حال ہے کہ فرماتے ہیں کہ ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ بہت اچھا کارساز ہے۔ سبحان اللہ ! کس قدر تقیہ کی نفی ہورہی ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ ، بھی موجود تھے مگر کسی نے تقیہ کا سہارا نہ لیا اور خدا نے اس عمل کو ایمان کی زیادتی قرار دیا اور ساری انسانیت کے سامنے بطور نمونہ پیش کیا پھر اس پر اجر ملاحظہ ہو کہ وہ اللہ کی نعمت اور اس کے ساتھ لوٹے اور انہیں کوئی تکلیف نہ پہنچی۔ مشرکین مکہ خوفزدہ ہو کر بھاگ گئے۔ صحابہ ؓ نے حمر الاسد کے بازار میں خریدوفروخت کرکے منافع بھی حاصل کیا۔ اور اطاعت کا حق بھی ادا کردیا پھر سب سے بڑھ کر رضائے الٰہی حاصل ہوئی جو سب سے بڑی نعمت ہے اور اللہ تو ہے ہی بڑے فضل والا۔ یہاں تو کل علی اللہ کا بہت اعلیٰ مقام ارشاد ہوا ہے ۔ مگر اس کے ساتھ یہ دیکھ لیا جائے کہ حضور اکرم ﷺ نے جس قدر اسباب ظاہری ممکن تھے اختیار فرمائے۔ اسلحہ ساتھ لیا۔ احباب اگرچہ زخمی تھے مگر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ نہ رہے بلکہ تعاقب میں روانہ ہوئے اور کہا حسبنا اللہ ونعم الوکیل۔ توکل یہ ہے کہ جائز اسباب اختیار کرے اور بغیر کسی خوف وخطر کے اطاعت پر ثابت قدم رہے کہ غیر اللہ سے ڈرنا مومن کو زیبا ہی نہیں ، یہ تو شیاطین کا کام ہے کہ وہ اپنے دوستوں کو مختلف حیلوں بہانوں سے خوفزدہ کرکے برائی پر آمادہ کرتا رہتا ہے شیطان جنوں میں سے ہو یا انسانوں میں سے اس کا بڑا ہتھیار یہ ہے کہ غیر اللہ کا خوف دل میں ڈال دیتا ہے اور خوفزدہ انسان صرف اس کی گرفت سے بچنے کے لئے ہاتھ پائوں مارتا رہتا ہے لیکن مومن کو ارشاد ہے کہ تم کسی سے ہرگز مت ڈرو۔ کمال ایمان یہ ہے کہ اللہ سے ڈرتے رہو۔ ارشاد ہے کہ وخافون یعنی مجھ سے ڈرو ، میری نافرمانی سے ڈرو ! اس خطاب میں کس قدر حضوری ہے کہ گویا ذات باری روبرو ہے اور ارشاد ہورہا ہے تم تو میرے بندے ہو میری رضا کو اپنا مقصد بنائو اور میری نارضامندی سے ڈرتے رہو۔ جب تم میری بارگاہ میں حاضر ہو تو پھر کسی سے کیا اندیشہ ؟ اور تقیہ کرکے یعنی جھوٹ بول کر زندگی کی بھیک مانگنا ، چہ معنی دارد ؟ یہ بات بھی واضح ہوئی کہ شیطان کی اطاعت کرکے کبھی سکون نصیب نہیں ہوسکتا کہ اس کا قرب بھی انسان کو خوفزدہ ہی رکھتا ہے۔ ہاں ! اس سے دوری مختلف خطرات سے بےنیاز کردیتی ہے اور سکون صرف اتباع سنت میں نصیب ہوتا ہے۔ دور حاضرہ کے لوگ شیطانی ہتھکنڈوں سے مال یا اقتدار حاصل کرکے آسودہ حالی کو تلاش کرتے ہیں مگر ایسی دلدل میں پھنس جاتے ہیں جہاں سے واپسی کا راستہ بھی نہیں پاتے۔ سو ارشاد ہوا خافون ان کنتم مومنین کہ شان ایمان یہ ہے کہ صرف اور صرف اللہ کی ناراضگی سے ڈرتا رہے جس سے مراد محض آنسو پونچھنا نہیں بلکہ ان امور کو چھوڑ دینا ہے جن پر اللہ کریم ناراض ہوتے ہیں۔ ولا یحزنک الذین یسارعون فی الکفر……………ولھم عذا ب مھین۔ آپ ﷺ ایسے لوگوں کے لئے متفکر نہ ہوا کریں جو بات بےبات کفر میں جا پڑتے ہیں ، کفار کی طاقت کو بڑھانے کا سبب بنتے ہیں۔ یہ اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ نہ ان کی حرکات بداللہ کے دین کو کوئی ضرر پہنچا سکتی ہیں اور نہ ہی یہ اندیشہ کریں کہ یہ بیچارے کیوں جہنم کی طرف رواں ہیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ ان کی بری حرکتوں کی وجہ سے اللہ نے ارادہ فرمالیا ہے کہ آخرت کی نعمتوں سے انہیں یکسر محروم رکھا جائے اور مزید یہ کہ اس محرومی کے ساتھ ان کو بہت بڑا عذاب بھی ہوگا کہ ان کا جرم بہت بڑا ہے کہ ایمان کو چھوڑ کر کفر کو اپنا رکھا ہے جس کی دردناک سزا ان کی منتظر ہے یہ اللہ کے دین کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ اور انہیں یہ خیال بھی نہ رہے کہ دنیا میں انہیں جو مہلت نصیب ہے وہ ان کے حق میں بہتر ہے۔ ایسا بھی ہرگز نہیں کہ مال اولاد یا اقتدار و حکومت دے کر ان پر مہربانی کی جارہی ہے دراصل یہ بھی ان کے لئے عذاب ہی کی ایک صورت ہے کہ ان متذکرہ بالا تمام نعمتوں کے باوجود نہ انہیں دنیا میں سکون قلب نصیب ہے اور نہ اخروی آرام کی امید ، بلکہ یہ مال وزر یا اقتدار واختیار انہیں مزید گناہوں میں گرفتار کرتا جارہا ہے اور اللہ کی نافرمانی میں بڑھتے جا رہے ہیں۔ جس کا نتیجہ ایک رسوا کن عذاب ہوگا۔ گناہ دراصل ایک زہر ہے جو ہضم ہوجائے تو موت کا سبب ہے اور اگر قے وغیرہ شروع ہوجائے تو وقتی تکلیف کے بعد جان بچ جاتی ہے۔ ایسے ہی گناہ پہ اگر تھوڑی بہت تنبیہہ ہوتی رہے تو اجتناب معاصی کا باعث بنتی ہے لیکن اگر ڈھیل مل جائے تو تباہ کردیتی ہے اس ڈھیل پہ خوش ہونا نادانی ہے۔ ماکان اللہ لیذرا المومنین………………فلکم اجر عظیم۔ رہی یہ بات کہ مسلمانوں پہ یہ تکالیف کیوں آتی ہیں جیسا کہ حالیہ واقعہ احد میں پیش آئیں تو یہ مشیت باری ہے مومن ومنافق میں امتیاز ہوجائے ظاہر میں تو سب ایک جیسے نظر آتے ہیں مگر مصیبت یا تکلیف میں صرف مومن ثابت قدم رہتا ہے منافق کے لئے ایسا ممکن نہیں کہ وہ تو دعویٰ اسلام ہی دنیا کے لالچ میں کئے بیٹھا ہے ۔ جب دنیا جاتی دیکھی یا جان ہی کی بازی لگانا پڑی تو بھاگ کھڑا ہوا ، جیسے احد میں منافق بھاگ گئے تھے۔ نیز آئندہ کا وعدہ بھی مذکور ہے کہ منافقین ذلیل ہوں گے اور اسلام ومومنین کو غلبہ اور عزت نصیب ہوگی۔ بعد کے حالات نے کتاب اللہ کی پیشگوئی کے ساتھ خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین اور صحابہ کبار ؓ کے کمال ایمان کی تصدیق بھی کردی کہ ان مقدس وجودوں کو اللہ نے غلبہ اسلام کا سبب بنایا۔ یعنی مصائب وشدائد ایک طرف مومنین کی ترقی کا باعث بنے تو دوسری طرف منافقین کا نفاق کھل کر سامنے آگیا اور قرآن پاک کی اصطلاح میں طیب کو خبیث سے جدا کردیا گیا۔ سبحان اللہ ! یہ کام تو اللہ کے بتائے سے بھی ہوسکتا تھا کہ منافقین ومومنین کے نام گنوادیئے جاتے۔ تو ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ ہر کسی کو غیب پر مطلع نہیں فرماتا۔ اگر ایسا ہو تو پھر نبی اور غیر نبی میں امتیازی کیا رہا نیز منافق یہ بھی تو کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں خواہ مخواہ منافق قرار دیا گیا ہے ہم تو پکے مسلمان ہیں مگر اب وہ کس منہ سے کہیں جب کہ ان کے کردار نے ان کا نفاق کھول دیا۔ نیز مومنین کو ان سے قطع روابط بھی آسان ہوگیا اور امور غیبیہ پر اللہ کریم ہر ایک کو اطلاع بھی نہیں دیتے بلکہ اپنے انبیاء (علیہ السلام) کا انتخاب کرکے بذریعہ وحی اطلاع دیتے ہیں اور ان ہی کی شریعت لوگوں کے امستحان کا سبب بنتی ہے کہ کھرا اور کھوٹا جدا ہوجاتا ہے۔ یہاں یہ گمان نہ کیا جائے کہ پھر تو انبیاء (علیہم السلام) عالم الغیب ہوگئے کہ یہ علم غیب نہیں بلکہ امور غیبیہ پر اطلاع دینا ہے اور جو علم اللہ کا ہے اس میں دو اوصاف ہیں ایک ، وہ ذاتی ہے کہ کسی اطلاع پر اس کا مدار نہیں۔ دوسرے محیط ہے کہ ماضی اور مستقبل سب کو شامل ہے اور اس سے کسی ادنیٰ شے کا علم بھی مخفی نہیں ہے ان اوصاف میں کسی کو بھی شریک ماننا شرک ہے۔ ہاں ! جن امور غیبیہ پر چاہے انبیائ (علیہ السلام) کو مطلع فرمادیتا ہے اور یہ اطلاع علی الغیب ہے علم غیب نہیں۔ دوسرے یہ بھی واضح ہوگیا کہ منافقین کو حضور ﷺ پر بذریعہ وحی واضح اور ظاہر کردیا تھا۔ یہ عام مسلمانوں کے سامنے ابتلاء میں ظاہر ہوئے تو پھر جن حضرات کو آپ ﷺ نے خود اپنی جگہ امت کا امام مقرر فرمایا ہو۔ ان پر کسی طرح سے معمولی شبہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ العیاذ باللہ ! تم لو گ اللہ پر یقین رکھو اور تمام انبیاء (علیہ السلام) کے ساتھ ایمان لائو ! یعنی آپ ﷺ کی نبوت پر ایمان تمام انبیاء پہ ایمان لانا ہے کہ سب انبیاء (علیہ السلام) نے اپنی امتوں کو اس کا حکم دیا تھا۔ یہ معمولی کام نہیں کہ توفیق ایمان نصیب ہوجائے اور اس پر عمل کرنا بھی نصیب ہوجائے تقویٰ یہی تو چیز ہے اور یہی بہت بڑے اجر کامل ہے۔ ولاتحسبن الذین………………واللہ بما تعملون خبیر۔ اور اس فتنہ کی اصل تو یہودونصاریٰ کے وہ علماء ہیں جو آپ ﷺ کے اوصاف کو ظاہر نہیں کرتے حالانکہ کتب سابقہ میں مفصل مذکور ہیں۔ لیکن انہوں نے بات چھپا کر سخت بخل کیا ہے اور لوگوں کو اضطرابی کیفیت میں مبتلا کرنے کا سبب بن گئے ہیں انہیں اس بات پر مطمئن نہ ہوجانا چاہیے کہ اس سب کے باوجود ان کے مال و دولت یا اولاد و ریاست وغیرہ ہے تو شاید یہ اللہ کی رضامندی کی دلیل ہے ہرگز نہیں ! دنیا کی دولت واقتدار ان لوگوں کے لئے نعمت ہے جنہیں اس کے ساتھ دین بھی نصیب ہو ورنہ تو یہ مال ومنال بھی سخت مصیبت اور ذلت کا باعث ہے۔ چہ در دنیا وجہ در آخرت۔ بخل سے مراد واجبات سے اعرض کرنا ہے جیسے زکوٰۃ نہ دے یا علم کو چھپائے ، یا جہاد میں باوجود قدرت ہونے کے شامل نہ ہو۔ غرض کوئی بھی شے جس کا دینا یا اظہار واجب تھا مگر اس نے ایسا نہ کیا تو بخل ہوگا جو حرام ہے اور اس پر جہنم کی وعید ہے ، ہاں ! تطوع اس میں داخل نہیں یعنی جس کام کا کرنا یا جس شے کا دینا مستحب ہو یا محض افضل ہو اس کے ترک پر نہ وعید ہے اور نہ وہ بخل ہے۔ جان اور مال کے چھپانے سے حق کا چھپانا بہت ہی برا فعل ہے اور ایسے لوگوں کی گردنوں میں یوم حشر طوق ڈالے ہوئے ہوں گے۔ اگر مال میں بخل کیا تو سانپ بن کر گلے کا طوق بنا ہوا ہوگا اور ساتھ لے کر دوزخ میں جائے گا یا آگ کے طوق ہوں گے جن کے بارے ارشاد ہوتا ہے کہ سب لوگ ان سے پناہ مانگیں گے مگر بخیل کے گلے میں ہوں گے اور اسے جہنم میں گرانے کا سبب بنیں گے۔ نیز ارض وسماء کی تمام املاک بھی تو اللہ کی ملکیت ہیں۔ اگر وقتی طور کسی کے قبضہ میں کوئی دولت ہو بھی تو کیا ، بالآخر تمام لوگوں کو چھوڑ کر جانا ہے حقیقی ملک تو اللہ کریم ہی کی ہے اور وہ ہر شخص کے جملہ اعمال سے باخبر ہے۔
Top