Asrar-ut-Tanzil - Aal-i-Imraan : 181
لَقَدْ سَمِعَ اللّٰهُ قَوْلَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ فَقِیْرٌ وَّ نَحْنُ اَغْنِیَآءُ١ۘ سَنَكْتُبُ مَا قَالُوْا وَ قَتْلَهُمُ الْاَنْۢبِیَآءَ بِغَیْرِ حَقٍّ١ۙ وَّ نَقُوْلُ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ
لَقَدْ سَمِعَ : البتہ سن لیا اللّٰهُ : اللہ قَوْلَ : قول (بات) الَّذِيْنَ : جن لوگوں نے قَالُوْٓا : کہا اِنَّ اللّٰهَ : کہ اللہ فَقِيْرٌ : فقیر وَّنَحْنُ : اور ہم اَغْنِيَآءُ : مالدار سَنَكْتُبُ : اب ہم لکھ رکھیں گے مَا قَالُوْا : جو انہوں نے کہا وَقَتْلَھُمُ : اور ان کا قتل کرنا الْاَنْۢبِيَآءَ : نبی (جمع) بِغَيْرِ حَقٍّ : ناحق وَّنَقُوْلُ : اور ہم کہیں گے ذُوْقُوْا : تم چکھو عَذَابَ : عذاب الْحَرِيْقِ : جلانے والا
بیشک اللہ نے ان لوگوں کی بات سن لی ہے جو کہتے ہیں کہ اللہ مفلس ہیں اور ہم مالدار ہیں ہم ان کی بات کو لکھ رکھیں گے اور ان کے انبیاء کو ناحق قتل کرنے کو بھی اور ہم کہیں گے کہ آگ کا عذاب چکھو
آیات 181- 189 اسرارو معارف لقد سمع اللہ……………وان اللہ لیس بظلام للعبید۔ اللہ ان کی بات بھی سن رہے ہیں جو صدقات وزکوٰۃ کے احکام کا تمسخر اڑاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم تو مالدار ہیں اور اللہ فقیر اور مفلس ہے کہ اپنے لئے خرچ کرنے کا حکم دے رہا ہے۔ حالانکہ یہ خرچ کرنا بھی مخلوق ہی کو فائدہ پہنچانا ہے اور خود یہود کا بھی ممکن ہے ایسا عقیدہ تو نہ ہو صرف آپ ﷺ کی مخالفت میں ایسی لغوبات کہہ دی جو بداہتہً باطل ہے اور کسی طرح قابل جواب بھی نہیں۔ ارشاد ہوا کہ یہ جملہ کلمات لکھے جا رہے ہیں۔ یہ محض بات نہیں جو کہہ دی اور ختم ہوگئی۔ بلکہ نامہ اعمال کا حصہ ہے جو بالآخر سامنے آجائے گا۔ آپ ﷺ ان کی خرافات کی پرواہ نہ کریں کہ ان کا نامہ اعمال تو اس سے بھی بڑے جرائم سے پر ہے ۔ یہ تو انبیاء کے قتل سے بھی نہیں چوکے۔ حالانکہ خود ان کے نزدیک بھی یہ قتل ناحق تھے۔ گناہ میں شرکت : یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ برائی پہ رضامندی بھی برائی میں شرکت کے برابر ہے۔ جیسا کہ ارشاد نبوی ﷺ کہ کسی کے سامنے جرم ہو مگر وہ اس سے منع کرے اور اس پر راضی نہ ہو تو ایسا ہے گویا وہ تھا ہی نہیں۔ لیکن اگر کوئی شخص وہاں موجود نہ بھی ہو مگر اس جرم پہ راضی ہو تو ویسا ہے جیسے واقعی اس میں شریک تھا ، جیسے یہ یہود کو اپنے آبائو اجداد کے قتل انبیاء پہ راضی ہونے کی وجہ سے شریک جرم ٹھہرے۔ امام فخرالدین رازی (رح) نے لکھا ہے کہ کسی نے امام شبلی (رح) کے سامنے حضرت عثمان غنی ؓ کے قتل کی تعریف کی۔ آپ نے فرمایا ، ” مسرت شریکا دمہ “ یعنی تو بھی ان کے قتل میں شریک ہوگیا۔ اس کے بدلے انہیں جہنم میں داخل کیا جائے گا کہ آگ کے عذاب کی لذت چکھو ، یہ سب تمہارا اپنا کیا دھرا ہے کہ اللہ کبھی بھی بندوں پر زیادتی نہیں کرتا۔ یہ سب عذاب ان گناہوں کی عملی شکل ہیں جو تم نے دنیا میں کئے تھے۔ الذین قالوا………………والکتب المنیر۔ پھر یہ کہتے ہیں کہ کہ اللہ نے تو انبیاء کو یا موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ معجزہ دیا کو جو مال اللہ کی راہ میں پیش کیا جاتا اسے آگ آسمانوں سے آکر جلادیتی اور ہمیں ان کے ماننے کا حکم دیا تھا۔ اب آپ ﷺ یہ مال لے کر دین کی ترویج پر اور غرباء کی امداد پر خرچ کرنا چاہتے ہیں۔ تو گویا آپ ﷺ معاذ اللہ نبی نہیں ہیں۔ ارشاد ہوا ، انہیں فرمادیجئے ! کہ کس قدر انبیاء مجھ سے پہلے تمہارے پاس بہت سے معجزات لائے جن میں یہ باتیں بھی شامل تھیں جن کا تم مطالبہ کرتے ہو۔ مگر تم نے یعنی تمہارے پیشروں نے انہیں قتل کردیا۔ جب تمہیں ان پر ایمان لانا نصیب نہ ہو تو آج اگر یہ چیز بھی ظاہر بھی ہوجائے تو تم کب مانوگے کہ اگر تم اپنی بات میں سچے ہوتے تو ان پر ایمان لے آتے اور چونکہ ہر نبی نے آپ ﷺ پر ایمان لانے کا حکم دیا تھا۔ تمہیں یہ سعادت بھی نصیب ہوتی ، مگر ایسا نہیں ہوا یعنی نہ صرف یہ کہ تم نے نبوت محمدیہ ﷺ کا انکار کیا بلکہ اس انکار کے ذریعے سے تو تم نبوت موسوی کے بھی منکر ٹھہرے۔ پھر آپ ﷺ کو ارشاد ہوا کہ آپ ﷺ ان کی حرکات سے دل گرفتہ نہ ہوا کریں کہ یہ عادی مجرم ہیں اور پہلے بھی بہت سے انبیاء (علیہ السلام) کا انکار کرچکے ہیں۔ جو صیحفے اور روشن کتابیں لے کر ان کے پاس تشریف لائے۔ کل نفس ذائقۃ الموت………………ذالک من عزم الامور۔ دنیوی مال و دولت کے لئے حق سے منہ موڑنے کا کچھ بھی فائدہ نہیں کہ بالاخر ہر متنفس کو مرنا ہے اور اس آیہ کریمہ کا شان نزول بھی یہی ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کو اس یہودی کو مارنے سے منع فرمایا جس سے گستاخی کرتے ہوئے کہا کہ معاذ اللہ ! خدا تو فقیر ہے اور ہم غنی۔ جو ہمیں صدقہ دینے کا حکم دے رہا ہے اس پر سیدنا صدیق اکبر ؓ نے تلوار پر ہاتھ رکھا کہ آپ ﷺ نے منع فرمایا تو یہ آیات نازل ہوئیں۔ غرض یہ کہ صدیق اکبر ؓ کی طرح جان ومال پر ، اعزہ و اقارب پر بھی اور کفار کی بدزبانی پر بھی صبر کیا جائے اور اللہ کے لئے انتقام سے ہاتھ اٹھا لیا جائے کہ بدکار تو برائی کرتا ہی ہے۔ اگر نیک بھی وہی روش اپنالیں گے تو دنیا میں نیکی یا شرافت کا وجود کیسے باقی رہے گا ؟ نیز صبر کے ساتھ تقویٰ کا حکم ہے کہ ایسا رویہ اپنایا جائے جو دوعالم کو خوبصورت بنادے۔ یعنی دنیا میں برائی کم ہو اور آخرت میں نعمتیں بڑھتی رہیں اور یہ بڑی جرات کا کام ہے۔ ہاں ! جہاد بقائے حق اور احیائے دین کے لئے تو ضروری ہے مگر محض اپنی ذات کے لئے جھگڑا کفر کرنا جہاد نہیں اور دین کی حفاظت اور نفاذ کے لئے نیز برائی کو روکنے اور ظلم وجور کو ختم کرنے کے لئے جہاد فرض ہے۔ اس میں بھی ذات اور ذاتی خواہشات پر تو صبر ہی کرنا پڑتا ہے۔ واذاخذ اللہ………………واللہ علی کل شیء قدیر۔ انہوں نے تو آپ اور آپ کے متبعین کو ایذا دینے کے لئے اللہ کے احکام کو بھی پس پشت ڈال دیا ہے کہ اللہ نے اہل کتاب سے تو ان کی کتاب اور نبی کے ذریعے سے یہ عہد لے رکھا ہے کہ آپ ﷺ کے جملہ محاسن جو تورات وانجیل میں بیان ہوئے ہیں وہ لوگوں پر بیان کریں۔ خود ایمان لائیں اور دوسروں کے ایمان لانے کا سبب بنیں مگر انہوں نے اس عہد کی پاسداری نہیں کی اسے پس پشت ڈال دیا اور لوگوں سے دنیا کا مفاد حاصل کرنے کی خاطر آپ ﷺ کی تکذیب کی اور آپ ﷺ کے اوصاف جو ان کی کتابوں میں مذکور تھے ان کو چھپا لیا۔ انہوں نے یہ بہت گھاٹے کا سودا کیا کہ اگر دنیا کی سب نعمتیں بھی حاصل کرلیتے تو بھی فنا ان کے انتظار میں ہے اور آخرت ابدی اور لازوال نعمتوں کی جگہ ہے وہ بھی چھوٹ گئیں اور وہاں کے دائمی عذاب کا شکار ہوئے یہاں سے ظاہر ہے کہ علم اظہار ضروری ہے ۔ جاننے والا شخص اگر خاموش رہا اور لوگ گمراہ ہوتے رہے تو حدیث پاک کے مطابق میدان حشر میں اسے آگ کا لگام دیا جائے گا۔ ایسے ہی اپنے ذاتی مفاد کی خاطر احکام الٰہی ترجمہ قرآن مجید یا دین کے لئے مصائب اٹھانے پہ گھبرانا نہ چاہیے کہ تمام غم وحزن بھی موت آنے پہ ختم ہوجائیں گے اور مرنا تو سب کو ہے اس سب میں بظاہر تو خیال پیدا ہوتا ہے کہ جملہ نفوس پہ موت آئے خواہ وہ جنتی ہوں یا دوزخی کہ سب نفوس ہیں نیز ذات باری کو بھی نفس کہا گیا ہے تو پھر عموم میں وہ بھی داخل ہوا ایسے ہی جمادات وغیرہ۔ صاحب تفسیر کبیر فرماتے ہیں کہ ایسا نہیں ، بلکہ مراد وہ مکلف افراد ہیں جو دار تکلیف میں موجود ہیں کہ اس کے بعد ارشاد ہے کہ فمن زخرح عن النار وادخل الجنۃ فقد فاز۔ کہ جو جہنم سے بچ گیا اور جنت میں داخل ہوا کامیاب ٹھہرا۔ نیز نفس بدن کے علاوہ ہے اور یہی آیت اس کی زندگی اور بقاء پر دلیل ہے کہ وہ تو ذائق ہے ، چکھنے والا ہے اور ظاہر ہے کہ چکھنے والا تو نہ صرف باقی ہوگا بلکہ اسے وہ اوصاف بھی حاصل ہوں گے کہ وہ ذائقہ چکھے گا۔ موت کیا ہے ؟ ظاہر ہوا کہ موت ، حیات جسمانیہ کا خاصہ ہے ارواح مجردہ کا نہیں ، حیات دنیا کا انجام موت ہے اور اس کے بعد حصول اجر کی باری ہے وہ اجر دنیا کی نسبت بہت شدید بھی ہوگا اور نہ ختم ہونے والے عرصے کے لئے ہوگا۔ تو عقلمندی کی بات یہ ہے کہ اس روز کی فکر کی جائے کہ یہی فکر دنیا کے سارے دکھوں کا علاج ہے نگاہ آخرت پر ہو تو دین کی راہ میں پیش آنے والی مصیبتیں بھی پیاری لگتی ہیں کہ آخرت میں بہت بڑے انعام کا سبب بننے والی ہوتی ہیں اور وہاں جو آگ سے بچ گیا عذاب سے چھٹکارا پاکر جنت میں داخل ہوگیا اس نے بہت بڑی کامیابی حاصل کرلی اور یہ نعمت صرف مسلمانوں کو حاصل ہوگی۔ خواہ شروع سے نجات نصیب ہو یا چندے سزا بھگت کر ، مگر یہ بات یقینی ہے کہ ایمان لے کر مرنے والے تمام لوگ ضرور جنت میں داخل ہوں گے اور ابدی نعمتیں پائیں گے۔ اس کے برعکس کافر کو ہمیشہ دوزخ میں رہنا ہے اور اگر اسی چند روزہ زندگی میں مال و دولت بھی مل گیا تو کیا حاصل کہ دنیا کی لذتیں بھی اس کے لئے ابدی کلفت کا سبب ہوں گی کہ دنیا اور اس کی زندگی تو محض ایک دھوکہ دینے والا سرمایہ ہے ۔ نیز اسلام نام ہی امتحان وآزمائش کا ہے کہ جان ومال نثار کرنا پڑے یا باطل فرقوں کی زبانوں سے زخم سہنے پڑیں۔ بلکہ ارشاد ہوا کہ تم اہل کتاب اور مشرکین سے بہت بدگوئی سنو گے۔ یعنی نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بد گوئی یا توہین مشرکین اور یہود کا شیوہ ہے اور یہی امتحان عملاً نیک لوگوں کے پیش آتے ہیں کہ بدکار اپنی زبانوں سے انہیں ایذا پہنچاتے ہیں اور یہ جان ومال نذر کرنے سے زیادہ مشکل کام ہے اور راہ سلوک مشکل ترین گھاٹی ہے لیکن ارشاد ہے کہ تم صبر کرو اور پرہیزگاری اختیار کرو تو یہ بہت بڑی ہمت کا کام ہے۔ اس حدیث پاک میں تبدیلی کرکے یا کوئی حصہ چھپا کر بیان کرنا انتہائی ظلم ہے اور ابدی خسر ان کا باعث ہے۔ نیز ایسے لوگوں کو یہ خوشی راس نہیں آئے گی کہ باوجود اس قبیحہ جرم کے لوگ تو انہیں نیک اور دیندار ہی سمجھتے ہیں اور ان کی تعریف کرتے ہیں کہ انہوں نے دین بیان کیا ہے حالانکہ انہوں نے ایسا نہیں کیا ہوتا بلکہ اپنی خواہش کی تکمیل کے لئے دین کے نام پر اپنی بات کی ہوتی ہے۔ انہیں لوگوں کی تعریف اللہ کی گرفت سے بچا نہیں سکے گی۔ بلکہ ایسے دھوکا بازوں کو تو بڑا درد ناک عذاب ہوگا۔ یہ وصف بنیادی طور پر تو یہود و نصاریٰ کے ان علماء کا ہے جنہوں نے ذاتی مفاد کی خاطر حق کو چھپایا مگر جو بھی اور جب کبھی بھی اپنے مفاد کے لئے لوگوں کو دھوکا دے گا۔ یعنی دین کے نام پر ایسی بات کہے گا جو دین نہیں تو وہ انہی لوگوں میں شمار ہوگا۔ اسی طرح بیشمار لوگ جنہوں نے تصوف و سلوک کے نام پر بیشمار بدعات جمع کررکھی ہیں ، اور جب کوئی پوچھے کہ حضرت ! یہ بات شرعاً جائز نہیں تو بڑی دیدہ دلیری سے کہہ دیتے ہیں کہ شریعت اور شے ہے اور طریقت اور ہے۔ حالانکہ ان کا مقصد صرف دنیا جمع کرنا ہوتا ہے ورنہ شریعت پر عمل کرنے کے لئے اور اس عمل میں خشوع و خضوع پیدا کرنے کے لئے جو محنت اور مجاہدہ کیا جاتا ہے اسی کا نام تصوف ہے تو پھر یہ اور کیسے ہوسکتا ہے ؟ ایسے ہی وہ علماء جو محض حصول دنیا کے لئے خلاف اصل فتویٰ دیتے ہیں یا فروخت کرتے ہیں۔ غرض دنیا کے حصول کا سبب دین کو بنانا یعنی دین کو بیچ کردینا خریدنا انتہائی برافعل ہے اور اس پر بڑا درد ناک عذاب ہوگا ، اعاذنا اللہ منہا۔ پھر اگر کسی نے دنیا جمع بھی کرلی تو وہ اس کا مالک تو نہیں۔ آخر چھوڑ کر چل دے گا کہ ارض وسماء کی ریاست تو اللہ ہی کے لئے ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے اس کا حکم ہمہ وقت نافذ ہے یعنی چاہے تو دین فروش کی رائی بھر فائدہ دنیا کا بھی حاصل نہ کرنے دے یا اسی دولت کو اس کے لئے مصیبت بنادے۔ نیز بالآخر تو سب کو چھوڑ ہی کر ہی جانا ہے۔
Top