Asrar-ut-Tanzil - Aal-i-Imraan : 31
قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
قُلْ : آپ کہ دیں اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو تُحِبُّوْنَ : محبت رکھتے اللّٰهَ : اللہ فَاتَّبِعُوْنِيْ : تو میری پیروی کرو يُحْبِبْكُمُ : تم سے محبت کریگا اللّٰهُ : اللہ وَيَغْفِرْ لَكُمْ : اور تمہیں بخشدے گا ذُنُوْبَكُمْ : گناہ تمہارے وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان
کہہ دیجئے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کریں گے اور تمہارے گناہ معاف کردیں گے اور اللہ بخشنے والے مہربان ہیں
آیات 31- 41 اسرارو معارف قل ان کنتم تحبون اللہ………………لا یحب الکفرین۔ رہا مذاہب عالم کا یہ دعویٰ کہ ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں اللہ کی محبت اور اس کی طلب میں کرتے ہیں۔ یہ دعویٰ اہل کتاب سے لے کر مشرکین تک سب میں مشترک ہے۔ محبت ، محب اور محبوب : اللہ کریم نے اس کا صحیح اور درست طریقہ ارشاد فرمادیا کہ میاں اگر تمہیں اللہ کی ذات بابرکات سے محبت ہے تو محبت ایک کیفیت ، ایک جذبہ ہے ، جو کسی کے بارے دل میں جاگزیں ہو پھر محبت کرنے والے کا دل خیال محبوب میں مستغرق ہوجاتا ہے اور ایسا بےبس کردیتا ہے کہ محبوب کی یاد اور اس کے اشتغال کے سوا چارہ ہی نہیں رہتا ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے محبت کی اپنی کوئی پسندوناپسند نہیں رہتی جو محبوب کی پسند ہو ، وہ طبعاً پسند ہوجاتی ہے اور جو شے محبوب کو پسند نہ ہو وہ طبعاً ناپسند ہوجاتی ہے بلکہ انتہا یہ ہوتی ہے کہ نہ ثواب کا لالچ رہتا ہے اور نہ عذاب کا خوف۔ اگرچہ طبعاً اس کی طلب میں طمع اور خوف کی آمیزش ہوتی ہے مگر آسائش نہیں ہوتی یہ محبت ذاتیہ ہے۔ اور رہی محبت صفاتیہ ، وہ کسی کا کوئی کمال دیکھ کر پیدا ہوتی ہے مگر اس کی بنیاد ذات پر نہیں ، اس وصف پہ پیدا ہوتی ہے کہ اگر وہ وصف موجودنہ ہو تو محبت بھی نہ ہو۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ طالب الدنیا کلب دنیا مردار اور فناء کا مقام ہے اس کا طالب کتا ہے اور طالب العقبیٰ مونث آخرت اور جنت کا طالب مونث ہے کہ حصول جنت کے لئے عبادت کرتا ہے اگر حصول جنت عبادت کے سوا ممکن ہو تو عبادت چھوڑ بیٹھے گا مگر طالب المولیٰ ھذکر اللہ کا طالب مرد ہے کہ جس طرح شفیع الامم آقائے نامدار ﷺ کے پائوں مبارک عبادت میں کھڑے کھڑے متورم ہوجاتے ہیں اور اگر یہ سے ریش مبارک اور سینہ اقدس تر۔ تو عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ ! آپ بھی ؟ حالانکہ دنیا آپ کی شفاعت کی امیدوار ہے تو ارشاد ہوا افلا اکون عبداً شکورا کہ میں اپنے رب کا شکر گزار بندہ کیوں نہ بنوں۔ گویا ذات باری کی طلب ہے اور مکالمہ باری مقصود۔ ارشاد ہو کہ جو بھی اللہ سے محبت کا مدعی ہے اگر وہ اپنے دعویٰ میں سچا ہے تو اسے محبوب کی رضا پہ چلنا چاہیے اور وہ کام کرے جو محبوب کو پسند ہو اور محبوب کی پسند ہے اطاعت محمدرسول اللہ ﷺ ۔ اے لوگو ! اگر اللہ کے طالب ہو تو میری غلامی کرلو ، میری پیروی کرو ، جب تم میری اطاعت کرو گے تو پھر اللہ تم سے محبت کرے گا۔ تم کو پسند فرمالے گا۔ ایسے الفاظ جب ذات باری کی طرف منسوب ہوں تو معنی بعید مراد ہوا کرتا ہے یعنی جو کچھ نتیجتاً صادر ہو تو محبت کا معنی بعید پہ ہوگا کہ محبوب کی پسند اس کے ہر طرح کے آرام اور خوشی کا خیال رکھا جائے اور اہل جنت سے اللہ کا یہی وعدہ ہے کہ تم پر رحم کروں گا۔ اپنی رضا اور دائمی خوشنودی عطا کروں گا جو ہر طرح کے ابدی آرام کا باعث ہوگی ورنہ اللہ کسی کی یاد میں آہیں بھرنے سے بہت بلند ہے۔ اللہ کی محبت یہ ہے کہ اپنی رضا اور اپنے رحم سے نوازے اور یہی ارشاد ہے کہ تمہاری خطائیں بخش دے گا وہ بہت بڑا بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ پس یہ قاعدہ ارشاد ہوا کو جو مدعی بھی محبت الٰہی کا دعویٰ کرے اگر اتباع سنت میں ثابت قدم ہے اور پوری طرح کوشاں ہے تو درست بحیثیت انسان جو کوتاہیاں اس سے سرزد ہوجاتی ہیں اللہ وہ بخش دینے والا ہے لیکن اگر سنت رسول ﷺ کا تارک ہے تو اپنے دعویٰ میں جھوٹا ہے۔ ارشاد ہوا کہ اللہ کی اطاعت کرو اس طرح کہ اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرو۔ مرضیات باری کو پانے کا واحد راستہ ہے آقائے نامدار ﷺ کی اطاعت۔ حدیث شریف میں ارشاد ہے کہ جس نے محمد ﷺ کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے محمد ﷺ کی نافرمانی کی ، اس نے اللہ کی نافرمانی کی ، محمد ﷺ نے ہی اللہ کے فرمانبرداروں اور نافرمانوں میں امتیاز قائم کردیا۔ (مظہری) فنانی الرسول ﷺ اور منازل سلوک : صوفیاء اسی کو فناء فی الرسول ﷺ کہتے ہیں کہ روحانی طور پر ان کی ارواح بارگاہ رسالت پناہ میں حاضری سے مشرف ہوتی ہیں اور ظاہراً ہر موئے جسم اتباع رسالت کے لئے کوشاں ہوتا ہے اور یہ فناء فی الرسول ہی فنا فی اللہ اور بقاباللہ کا راستہ ہے اگر کسی نے بقاباللہ کو پالیا تو سلوک کے ابجد سے واقف ہوگیا۔ گویا اس میں سالک بننے کی استعداد اللہ نے مہیا فرمادی اب ہمت مردانہ سے آگے بڑھے اور کسی مرد خدا کو پاسکے تو ان عظمتوں کے لئے کوشاں ہوجائے کہ مکاں رہے اور نہ لا مکاں باقی۔ بلکہ یہ دونوں عالم اس کے راستے کے نشاں ہوں کہ کوئی عاشق یہاں سے بھی دامن کشاں گزرا ہے۔ آپ ﷺ کی صداقت پہ عقلی ونقلی دلائل اور معجزات قاہرہ اور دلائل باہر جمع ہوچکے۔ اگر کسی کو اب اتباع رسالت میں اعتراض ہے اور وہ رو گردانی کرتا ہے تو اللہ ایسے کافروں کو پسند نہیں کرتا۔ گویا فیصلہ ہوگیا کہ اللہ کی محبت مومنوں کے لئے مخصوص ہے اور مومن وہ ہے جو محمد رسول اللہ ﷺ کا غلام ہو۔ یہاں ایک بات سمجھ لیں کہ بعض نادان محبت کرنے کے لئے اپنی طرف سے کئی اعمال ایجاد کرلیتے ہیں اور بدعات میں مبتلا ہو کر نگاہ رسالت پناہ میں گر جاتے ہیں۔ یادرکھیں ! اس بارگاہ میں عشق و محبت بھی آداب سے آزاد نہیں ہیں۔ بلکہ محبت کے لئے بھی وہی کچھ کرنا ہوگا جو محبوب کا ارشاد ہو۔ ورنہ کسی بھی کام کا اگر اپنی طرف سے کوئی طریقہ ایجاد کرو گے تو وہ اس کام کے کرنے کے اس طریقے کو مٹانے والا ہوگا جو محبوب نے ارشاد فرمایا ہے اور اس طرح حضور پر نور ﷺ فداہ ابی وامی کی ناپسندیدگی کا سبب بن جائے گا۔ ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر نفس گم کردہ می آیند جنید (رح) وبایزید (رح) اینجا نیز اللہ کی رضا کے لئے نبی ﷺ کے اتباع کا ضروری قرار دیا جانا کوئی حیرت کی بات نہیں کہ نبی ہی تو وہ ہستی ہے جو اللہ کی بات اس کے بندوں تک پہنچاتا ہے اور اللہ کی پسند وناپسند سے بندوں کو آگاہ کرتا ہے نیز نبی کا ہر فعل اللہ کی اطاعت ہوتا ہے اور یہ تاریخ مذاہب میں موجود ہے۔ ان اللہ اصطفیٰ ادم……………واللہ سمیع علیم۔ اللہ نے آدم (علیہ السلام) ک ومنتخب فرمایا ، یعنی نبوت سے سرفراز فرمایا اور ان کی اطاعت ہی اللہ کی اطاعت قرار پائی۔ ایسے ہی نوح (علیہ السلام) کو اور ابراہیم (علیہ السلام) کو اور ان کی اولاد کو جیسے حضرت اسماعیل ، اسحاق ، یعقوب اور انبیائے بنی اسرائیل (علیہم السلام) یا آقائے نامدار حضرت محمد رسول اللہ ﷺ اور عمران کی اولاد یعنی عیسیٰ علیٰ بنیاد (علیہ السلام) صاحب مظہری فرماتے ہیں کہ عمران بن ماثان تھے اور ماثان حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی اولاد میں سے تھے اور عمران حضرت مریم (علیہا السلام) کے والد تھے۔ یہاں حضرت عمران اور حضرت مریم ، پھر عیسیٰ (علیہ السلام) کا پیدائش سے رفع سماوی تک مفصل ذکر فرمادیا کہ کسی کو کوئی غلط فہمی نہ رہے اور نصاریٰ اپنے غلط عقائد کو نہ پھیلاتے پھریں۔ نیز آپ ﷺ کے بعد کوئی نیا نبی تو آنے کا نہیں جو امت کو تعلیم فرمائے اور عیسیٰ (علیہ السلام) نے آسمانوں سے نزول فرمانا ہے۔ ان مفصل حالات سے اس آخری امت کو مطلع کردیا جائے کہ گمراہی کا اندیشہ نہ رہے۔ نہ مرزا قادیانی جیسے نقال گمراہ کرسکیں۔ نہ نزول عیسیٰ کا انکار ہو اور نہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی پہچان میں کوئی مشکل۔ فرمایا ان تمام حضرات کو تمام جہانوں پر فضیلت عطا فرمائی کہ آدمی (علیہ السلام) کو فرشتوں سے سجدہ کروایا اور آپ کا دشمن ابلیس مردود ہوا۔ اسی طرح نوح (علیہ السلام) کے دشمن تباہ ہوئے۔ ابراہیم (علیہ السلام) کو بھی ہجرت کرنا پڑی مگر پھر غلبہ عطا ہوا یہی حال تقریباً سب انبیاء کا ہے کہ یا تو ان کے دشمن عذاب الٰہی کی زد میں آکر تباہ ہوئے جیسے قوم نوح (علیہ السلام) یا قوم ہود عادوثمود اور یا پھر انبیا نے ہجرت فرمائی اور کچھ عرصہ بعد سای ملک پر غلبہ نصیب ہوا ، جیسے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ، گویا اس بات کی طرف بھی اشارہ یہاں موجود ہے کہ ایسے ہی حضور ﷺ کو بھی غلبہ نصیب ہوگا۔ اور وہ سب کی سنتا ہے کہ اس کے انتخاب پہ کافرکس طرح سے اعتراض کرتے ہیں اور علیم ہے جانتا ہے کہ کس کو کس کام کے لئے مامور کیا جانا ہے۔ یہاں سے عیسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر بالتفصیل شروع فرمایا۔ اذقالت امراۃ عمران……………بغیر حساب۔ کہ جب عیسیٰ (علیہ السلام) کی نانی اور عمران کی بیوی نے یہ نذر مانی کہ اللہ جو بچہ میرے پیٹ میں ہے میں نے تیری نذر کیا۔ مفسرین فرماتے ہیں کہ یہ بوڑھی ہوچکی تھی مگر اولاد نہ تھی۔ ایک روز کسی پرندے کو دیکھا ، بچے کو چوگا دے رہا تھا۔ تو دل سے ہوک سی اٹھی اور بچے کے لئے دعا کی جب حاملہ ہوگئیں تو بطور تشکر یہ نذر مانی کہ میں نومولود کو بیت الٰہی کی خدمت کے لئے وقف کردوں گی اور دنیا کے جھمیلوں میں نہ ڈالوں گی۔ یہ نذر اس امت میں جائز تھی۔ عرض کیا کہ اللہ ! تو باتوں کو سنتا ہے اور دلوں کے بھید سے آگاہ ہے میری یہ نذر قبول فرما۔ لیکن جب بچے کی پیدائش ہوئی تو وہ لڑکی تھی ، پریشان ہوگئی کہ اللہ ! یہ تو بچی پیدا ہوئی ہے لڑکا اور لڑکی ایک سے تو نہیں ہوتے۔ کہ وہ مضبوط بھی ہوتا ہے اور نسوانی عوارض سے دور بھی۔ لڑی یہ خدمت کیسے کرسکے گی ؟ مگر اللہ نے فرمایا کہ میری ذات خوب جانتی ہے کہ کیا پیدا ہوا۔ میں تو خود پیدا کرنے والا ہوں۔ اس موقعہ پر اگر لڑکا ہوتا تو یہ رتبہ نہ ہوتا جو اس لڑکی کا ہے کہ اس سے ایک عظیم الشان رسول کو پیدا کرنا اور ایسے طریقے سے پیدا کرنا مقصود ہے کہ مخلوق پر اللہ کی حجت ہو۔ انہوں نے عرض کیا کہ اللہ ! میں نے اس کا نام مریم رکھا جس کا معنی عابدہ ہے اور آپ کی خاص رحمت کی امیدوار ہے۔ کہ حضرت عمران (علیہ السلام) دوران حمل فوت ہوچکے تھے۔ حضرت مریم (علیہا السلام) یتیمہ پیدا ہوئیں۔ میں اس کو اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔ ایک ولیہ کی دعا کا اثر : حدیث شریف میں وارد ہے کہ ہر بچے کو پیدائش کے وقت شیطان ضرور مس کرتا ہے مگر حضرت مریم اور اس کا بچہ اس سے محفوظ رہے۔ یہ ایک ولیہ کی دعا کا اثر تھا۔ اللہ نے اس بچی کو حسن قبول بخشا۔ پیدا ہوتے ہی قبول فرمایا اور بہت اعلیٰ پرورش فرمائی کہ براہ راست اپنی قدرت سے غذا عطافرماتا تھا اور حضرت زکریا (علیہ السلام) جیسی پاکباز ہستی کو ان کا کفیل مقرر فرمایا۔ جب حضرت مریم (علیہا السلام) کو بیت المقدس لایا تو ہر شخص ان کو لینے کے لئے دوڑ پڑا۔ مگر حضرت زکریا (علیہ السلام) نے فرمایا۔ میرے گھر ان کی خالہ ہے وہ بمنزلہ ماں کے ہوتی ہے مگر لوگوں نے نہ مانا اور قرعہ اندازی ہوئی جس کا ذکر آگے ہے تو اس میں بھی حضرت ذکریا (علیہ السلام) ہی حقدار ٹھہرے۔ انہوں نے حجرہ حضرت مریم کے لئے خاص کردیا۔ اللہ نے ایسی پرورش فرمائی کہ انہیں دایہ یا دودھ پلانے والی کی حاجت ہی نہ رہی اور وہ بہت جلد چلنے پھرنے لگیں ۔ عیب سے رزق عطا ہوتا تھا۔ حضرت مریم علیھا السلام کی کرامت : حضرت زکریا (علیہ السلام) کہیں جاتے تو کمرہ مقفل کرجاتے مگر جب آتے تو دیکھتے کہ وہاں پھلوں کے ڈھیر ہیں اور موسم کی بھی قید نہیں جس پھل کا موسم نہیں وہ بھی وہاں رکھا ہے تو فرمانے لگے اے مریم ! یہ پھل کہاں سے آتے ہیں ؟ فرمانے لگیں ، ” اللہ کے پاس سے ! “ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ملتا ہے کہ ان کا رزق جنت سے آتا تھا۔ فرمایا اللہ جسے چاہتا ہے اس قدر رزق عطا فرمادیتا ہے کہ وہ اس کا حساب بھی نہیں جان پاتا۔ یا یہ مطلب کہ اپنی عطا اور مہربانی سے بغیر کسی استحقاق کے عطا فرمادیتا ہے نہ وہ موسموں کا محتاج ہے نہ ذرائع کا۔ یہاں کرامت ولی کا بہت بڑا ثبوت ہے۔ ھنالک دعا ذکریا……………وسبح بالعشی والابکار۔ جب رحمت باری کو یوں ٹھاٹھیں مارتا ہوا دیکھا تو حضرت ذکریا (علیہ السلام) سے نہ رہا گیا جو خود بےاولاد تھے اور بہت بوڑھے ہوچکے تھے۔ پکار اٹھے اللہ ! مجھے صالح اور نیک اولاد نصیب فرما کہ تو ہی دعائوں کو سننے والا ہے۔ صالح اور نیک اولاد کے لئے دعا کر صالحین کی سنت ہے یعنی ایک طرف تو خاندان ختم ہورہا ہے اور کوئی نبوت اور علم کا وارث نہیں اور دوسری طرف لوگوں کی گمراہی کا اندیشہ۔ بے موسم کے پھل ، بند حجرے میں حضرت مریم علیھا اسلام کے پاس دیکھ کر ایسی تحریک پیدا ہوئی کہ کمرہ بند کرکے اللہ کے حضور التجا کی ، اللہ ! مجھے نیک اور پاکیزہ اولاد عطا فرما۔ ابھی محراب میں کھڑے تھے کہ ملائکہ نے پکارا ، آپ نماز پڑھ رہے تھے کہ فرشتے نے صدا دی جو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) تھے چونکہ وہ سیدالملائ کہ ہیں عموماً ان کے ساتھ فرشتوں کی جماعت ہوتی ہے اس لئے یہاں فنادتہ الملائکہ فرمادیا کہ اللہ نے آپ کو حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کی بشارت دی ہے جو کلمۃ اللہ یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) کی تصدیق کرنے والے ہوں گے۔ حضرت عیسیٰ بغیر باپ کے صرف اللہ کے حکم سے پیدا ہوئے اس لئے انہیں کلمۃ اللہ کہا گیا ہے اور حضرت یحییٰ (علیہ السلام) ہی وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تصدیق فرمائی۔ سید کون ؟ : سیدا ، اور سردارہوں گے۔ یعنی علم ، عبادت اور تمام خصائل خیر میں سب کے سردار ہوں گے اسی لئے خانوادہ نبوی ﷺ کو سید کہا جاتا ہے مگر وہ لوگ جو اتباع رسالت چھوڑ چکے اور حضور ﷺ کی غلامی سے نکل گئے ، سید کہلانے کے ہرگز مستحق نہیں رہے۔ آپ ﷺ کا ارشاد انا سیدولہ ادم موجود ہے مگر رشتہ اطاعت سے ثابت ہوگا۔ عورت کا قرب کا اثر : وحصورا ، یعنی عورتوں کے پاس نہ جائیں گے۔ یہاں ایک عجیب بات یہ ہے کہ نکاح سنت انبیاء ہے اور یہاں نکاح نہ کرنا باعث فضیلت بیان ہوا ہے۔ تو حقیقت اس طرح ہے کہ ان پر عشق الٰہی ایسا غالب تھا کہ انہیں ان امور کا قطعاً خیال نہ تھا۔ جہاں حدیث شریف میں نکاح کی ترغیب ہے وہاں من استطاع کے الفاظ ہیں کہ استطاعت بھی رکھتا ہو ، اگر حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کی طرح ہو تو پھر نکاح نہ کرنا ہی بہتر ہے اور تجربہ ہے کہ عورت کا قرب بیشک جائز ہو مگر ساری توجہ جذب کرلیتا ہے جو سالک کے لئے چند لمحے ٹھہرائو کے ضرور پیدا کردیتی ہے کہ دنیا کا کوئی کام اس طرح ساری توجہ سلب نہیں کرتا۔ اپنی مرضی سے شہوات کو روک لینا اور مباح اور جائز خواہشات سے بھی بچ جانا بہت بڑا کمال ہے بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ آپ پیدائشی نامرد تھے ، مگر یہ درست نہیں کہ نامرد کے لئے عورت سے مباشرت نہ کرنا کون سی مدح کی بات ہے اور پھر نبی نامرد نہیں ہوا کرتا۔ بلکہ انبیاء میں دوسرے لوگوں کی نسبت بہت زیادہ قوت ہوتی ہے وہ تو صالحین میں سے ، نیک خاندان میں سے انبیاء کی اولاد میں سے ، اللہ کے نبی تھے۔ تو عرض کیا اللہ ! میرے لڑکا کس طرح ہوگا ؟ کہ میں تو بوڑھا ہوچکا ہوں اور میری بیوی صرف بوڑھی ہی نہیں کہ اولاد کے قابل نہ ہو بلکہ ساتھ بانجھ بھی ہے۔ یہ سب تبقاضائے بشریت صادر ہوا اور بعض دفعہ طبیعت بشری علم اور عقل پر غالب آجاتی ہے جیسے موسیٰ (علیہ السلام) کہ وعدہ کرنے کے بعد پھر حضرت خضر (علیہ السلام) پہ اعتراض فرمایا۔ ارشا د ہوا کہ اللہ قادر ہے ۔ تمہارے بڑھاپے اور بیوی کے بانجھ پن کے باوجود لڑکا ہوگا کہ اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے پھر عرض کرنے لگے کہ اللہ ! استقرار حمل کی نشانی مقرر فرمادے کہ جیسے حمل ٹھہرئے ، مجھے اطلاع ہوجائے اور تیرا شکر ادا کرسکوں فرمایا نشانی یہ ہے کہ تو باوجود ذکر الٰہی کے تین روز تک لوگوں سے کوئی بات نہ کرسکے گا اور اشارہ سے اپنی بات سمجھا سکے گا۔ جب ایسا ہو تو کثرت سے اللہ کا ذکر کر اور صبح وشام ۔ یعنی مسلسل اللہ کی تسبیح بیان کرتارہ۔ ان کا مقصد تھا کہ شکر ادا کروں۔ اللہ نے نشانی ایسی مقرر فرمادی کہ وارے نیارے ہوگئے۔ یعنی ذکر پہ ایسا لگا دیا کہ اور کوئی کلام ہی نہ کر پائیں کہ کثرت سے شکر ادا کریں۔ یادرکھیں کہ کلام کرنا بھی دل کو متاثر کرتا ہے اگرچہ کلام نیک ہی ہو۔ دل ز پر گفتن بمیرد در بدن گرچہ گفتارش بود در عدن بات کا اثر : اگر کلام ہی نیک نہ ہو تو اس کا اثر ظاہر ہے لیکن نیکی کی بات بھی کسی انسان ہی سے کرے گا۔ مخاطب کی ظلمت خواہ مخواہ اس کی طبیعت کو متاثر کرے گی جیسے جھاڑو دینے والے کا لباس خاک آلود ہوجاتا ہے اس سے منازل میں کمی نہیں آتی کہ یہ کار ثواب ہے اور ثواب سے منازل میں ترقی ہوتی لیکن مشاہدات بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ اسی لئے ان حضرات سے جو گزشتہ نشین رہتے ہیں مشاہدات بکثرت روایت ہوئے ہیں اور جنہوں نے مخلوق خدا کو بات پہنچائی عموماً انہیں کشف کم ہی ہوا اگرچہ مقامات علیا تک رسائی ہوگئی۔ یہاں ان حضرات کی بات نہیں کررہا جو سلوک سے ہی ناآشنا ہیں۔ یہ بات مردان خدا کی ہے۔ ہر نعمت پہ شکر اور کثرت ذکر واجب ہے۔
Top