Asrar-ut-Tanzil - Al-Ahzaab : 21
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ یَرْجُوا اللّٰهَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَكَرَ اللّٰهَ كَثِیْرًاؕ
لَقَدْ كَانَ : البتہ ہے یقینا لَكُمْ : تمہارے لیے فِيْ : میں رَسُوْلِ اللّٰهِ : اللہ کا رسول اُسْوَةٌ : مثال (نمونہ) حَسَنَةٌ : اچھا بہترین لِّمَنْ : اس کے لیے جو كَانَ يَرْجُوا : امید رکھتا ہے اللّٰهَ : اللہ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ : اور روز آخرت وَذَكَرَ اللّٰهَ : اور اللہ کو یاد کرتا ہے كَثِيْرًا : کثرت سے
یقینا تم لوگوں کے لئے یعنی ایسے شخص کے لئے جو اللہ سے اور روز آخرت سے (ملنے کی) امید رکھتا ہو اور کثرت سے ذکر الٰہی کرتا ہو ، اللہ کے پیغمبر (کی ذات) میں ایک عمدہ نمونہ موجود ہے
آیات 21 تا 27 اسرارومعارف اے ایمان والو تمہارے لیے زندگی کا بہترین نمونہ خود رسول اللہ ﷺ کی ذات ستودہ صفات میں ہے کہ آپ ﷺ نے کفر کا اور طاغوطی طاقتوں کا مقابلہ کس جرات اور بلند ہمتی سے کیا مگر یہ ان لوگوں کو نصیب ہوگا جو آخرت کے لیے جیتے ہیں اور اللہ کا ذکر کثرت سے کرتے ہیں یعنی کثرت ذکر کے فوائد میں سے یہ بھی ہے کہ جذبہ جہاد اور شوق شہادت نصیب ہوتا ہے اور آپ ﷺ کا اتباع نصیب ہوتا ہے۔ دنیا کی زندگی کا مقصد آخرت کی کامیابی قرار پاتا ہے۔ صحابہ کرام کے وجود تک ذاکر تھے تو ان کا طرز عمل کیا تھا : صحابہ کرام ؓ جن کے مبرک وجود تک ذاکر تھے انہوں نے جب کفار کے لشکروں کی یلغار دیکھی تو ان کے پائی ثبات میں کوئی لغزش نہ آئی بلکہ انہوں نے تو کہا کہ اللہ نے اور اللہ کے رسول نے اسی دن کا وعدہ کیا تھا آُ ﷺ کی پیشگوئی دوبارہ کفار سچ ہے اور اللہ کا ارشاد بھی سچ ہے آئندہ بھی جو آپ نے فرمایا وہی حق ہے کہ ان پر مسلمانوں کو فتح ہوگی اور ان مشکل گھڑیوں نے ان کے ایمان اور جذبہ تسلیم و رضا میں اور بھی بہت سی زیادتی کردی اور ان کے ایمان مزید مضبوط تر ہوگئے ان ہی ایمان والوں نے اللہ سے جو وعدہ کیا تھا کہ منہ نہ موڑیں گے سچ کر دکھایا اور انہی میں سے کچھ تو شہید ہو کر آپ ﷺ سے وفا کا قرض چکا گئے اور جو زندہ ہیں وہ جان نچھاور کرنے کی آرزو میں گھڑیاں گنا کرتے ہیں یہ ثابت قدم رہے اور ان کے قول و عمل میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ یہ حق و باطل کے معرکے کے صادقین کھرے اور سچے لوگوں کو ان کی سچائی کا انعام دلانے کا سبب بنتے ہیں اور اگر اللہ عذاب کرنا چاہے تو منافقین کے لیے عذاب کا باعث بن جاتے ہیں یا کسی کو توبہ کی توفیق ہوجاتی ہے تو اللہ اس کی توبہ قبول فرماتے ہیں کہ اللہ بہت بڑے بخشنے والے اور رحم کرنے والے ہیں اور کافروں کے لشکر اپنے غیظ و غضب کی آگ اپنے سینوں میں لیے واپس بھاگ گئے اور انہیں ذرہ برابر کامیابی ہاتھ نہ آئی نہ صرف یہ بلکہ مسلمانوں کو لڑنا ہی پڑا اور ان کی جانب سے کفار کو اللہ ہی کافی ہورہا یعنی فرشتوں اور سرد طوفانوں نے ہی بھگا دیا مسلمانوں نے تو معمولی جھڑپوں میں ہی حصہ لیا کہ اللہ بہت طاقتور اور غالب ہے کفار بھاگے تو یہود بنو قریظہ بھی لشکر اسلام سے لڑ نہ سکے بلکہ مرعوب ہو کر اپنے قلعوں اور مورچوں سے باہر آکر ہتھیار ڈال دیے چناچہ حکم شرعی کے مطابق تم نے بہت سوں کو قتل کردیا اور بہت سوں کو قیدی بنا لیا اور یہاں بس نہیں ہوجائے گی بلکہ اللہ نے تو امت مسلمہ کو ان ممالک اور آبادیوں کا فاتح بنا دیا ہے جہاں کبھی تم لوگوں کے قدم نہیں پہنچے مگر اللہ کے علم میں ہے کہ تم ان دور دراز ممالک کو فتح کر کے اسلام کے جھنڈے گاڑو گے یہ اس نے کمال اطاعت رسول کا انعام بخشا ہے اور وہ ہر شے پر قادر ہے جو چاہے کرسکتا ہے ۔ بشارت : اس میں صحابہ کرام کی فتوحات کی بشارت موجود ہے جو ان کے کامل خلوص کے ساتھ اتباع نبوی کی دلیل ہے۔
Top