Asrar-ut-Tanzil - Yaseen : 68
وَ مَنْ نُّعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِی الْخَلْقِ١ؕ اَفَلَا یَعْقِلُوْنَ
وَمَنْ : اور جس نُّعَمِّرْهُ : ہم عمر دراز کردیتے ہیں نُنَكِّسْهُ : اوندھا کردیتے ہیں فِي الْخَلْقِ ۭ : خلقت (پیدائش) میں اَفَلَا يَعْقِلُوْنَ : تو کیا وہ سمجھتے نہیں ؟
اور جس کہ ہم بڑی عمر دیتے ہیں تو اس کو طبعی حالت میں الٹا کردیتے ہیں تو کیا یہ نہیں سمجھتے ؟
رکوع نمبر 5 ۔ آیات 168 تا 83: اسرار و معارف : اگر انہیں یہ خیال گزرتا ہوں کہ بھلا ان کے ہاتھ پاؤں کون چھین سکتا ہے یا ان کی بینائی کوئی نہیں لے جاسکتا تو کسی عمر رسیدہ بوڑھے کو دیکھ لیں کہ جس شخص کو ہم بڑھاپا دیتے ہیں اس کی ساری قوتیں زائل کردیتے ہیں نہ آنکھ کام کرتی ہے اور نہ ہاتھ پاؤں میں سکت رہ جاتی ہے۔ کیا اتنی سی عقل نہیں رکھتے کہ اسے دیکھ کر سبق حاصل کریں۔ ان باتوں کو سن کر جواب میں ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہوتی تو کہہ دیتے ہیں کہ ان کی باتیں ایک شاعرانہ کلام ہے جو ہمیشہ ذہنوں کو متاچر کیا کرتا ہے۔ اگرچہ شعر و شاعری پہ بات گزر چکی مگر یہاں یہ بات ایک دوسرے مفہوم میں آئی ہے کہ شاعرانہ باتوں میں حقیقت کی جگہ پر تصورات اور تخیلات سجا دئیے جاتے ہیں۔ رزمیہ نغموں میں شاعر بجلی کی طرح تلوار چلاتا ہے اگرچہ عملی زندگی میں دستہ پکڑنا نہ آتا ہو ایسے جنگل بادل ، دریا ، صحرا سب کی سیر کرلیاتا ہے خواہ زندگی بھر جھونپڑے سے نہ نکلا ہو تو یہاں بھی ان کی مراد یہ تھی کہ یہ باتیں شاعرانہ تعلی ہے تو ارشاد ہوا کہ آپ ﷺ خاتم الانبیاء اور انسانیت کے لیے اللہ کے رسول ہیں بھلا آپ شاعرانہ تعلی کے طور پر کلام فرمائیں گے تو حق کون بیان کرے گا۔ آپ کا مقام اس بات سے بہت بلند ہے۔ یہ شاعرانہ کلام آپ کو زیب ہی نہیں دیتا نہ اللہ نے آپ کو سکھایا ہے بلکہ جو کلام آپ پر نازل ہوا ہے تو یہ سراپا نصیحت اور آسمانی کتاب ہے قرآن ہے جو بہت روشن دلائل سے بات سمجھاتا ہے لیکن اس کی بات بھی تو زندہ لوگوں کو ہی فائدہ دے گی جن کے دل مردہ ہوچکے ضمیر مرچکے وہ اس سے فائدہ حاصل کرنے کی استعداد ہی کھو چکے ہاں ان پر حجت قائم ہوجائے گی کہ انہیں حق پہنچایا گیا مگر انہوں نے اپنے لیے کفر کی راہ اپنائی۔ انہیں غور کرنا چاہیے کہ آخر روئے زمین پر کس قدر حیوانا تبستے ہیں وہ بھی تو ہماری مخلوق اور ہمارے دست قدرت کا شاہکار ہیں ان میں جان بھی ہے توالد و تناسل بھی مگر ہم نے ان کو انسان کی ملکیت بنا دیا ہے اور ان کے تابع کردیا ہے کسی پر سواری کرتے ہیں تو کسی کو ذبح کرکے کھالیتے ہیں کسی سے کھیتی باڑی کی خدمت لیتے ہیں تو کسی سے گاڑی کھنچواتے ہیں حتی کہ انہیں بیچ دیتے ہیں کہ ان کی ملکیت ہیں۔ ملکیت کا اصول۔ یہاں بات انسانی عظمت کی ارشاد ہوئی ہے اصول ملکیت زیر بحث نہیں مگر چونکہ ملکیت کا تذکرہ ہے تو بہتر ہے کہ بات عرض کردی جائے۔ دنیا میں دو بڑے نظام ہیں سرمایہ دارانہ یا اشتراکیت۔ پہلے کا فلسفہ یہ ہے کہ ملکیت کی بنیاد سرمایہ ہے جبکہ دوسرے کا فلسفہ ہے محنت یعنی ملکیت کی بنیاد محنت ہے مگر اسلام کا اپنا فلسفہ ہے جو حق ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو بحیثیت انسان ان اشیاء کا مالک بنا دیا ہے اب یہ تقسیم کہ کونسی شے کس کی ملکیت ہے اس کے لیے حصول اشیاء کے اسلامی ضابطے موجود۔ جو اس طرح حاصل کرے حق ہے ورنہ غاصب کہلائے گا۔ اور جانوروں میں ان کے مالی منافع غذا اور پینے کے لیے دودھ کے ذخائز سمو دیے۔ انہیں تو چاہیے تھا کہ ہمیشہ اللہ کا شکر ادا کرتے رہتے اور ان بحثوں میں نہ پڑتے مگر ان نادانوں نے اللہ کی عظمت سے منہ پھیر کر غیر اللہ سے اور بعض اوقات انہی جانوروں سے امیدیں وابستہ کرلی ہیں اور ان کو اپنا معبود قرار دے رکھا ہے جبکہ کوئی بھی اللہ کے سوا ایسی ہستی نہیں جو کسی کی مدد کرسکے ان کی مدد کی امیدوار پھر معبودانِ باطلہ سے کتنی حماقت ہے کہ حق یہ ہے کہ وہ ان کی مدد تو نہ کرسکیں گے البتہ میدان حشر میں ان کے خلاف گواہی دیں گے اور بطور ثبوت پیش ہوں گے کہ واقعی یہ لوگ غیر اللہ کی عبادت کرتے تھے۔ آپ ﷺ ان کی باتوں سے آزردہ خاطر نہ ہوں کیا شان کرم ہے کہ آپ ﷺ کفار کے کفر سے اس لیے آزردہ خاطر ہوجاتے کہ بھلا ایک انسان ہے اور پھر یہ جہنم میں کیوں جائے جبکہ میں انسانوں ہی کو جہنم سے بچانے اور سیدھی راہ دکھانے کے لیے مبعوث ہوا ہوں تو آپ ﷺ ہم مسلمانوں کی خطاؤں پہ کس قدر دکھی ہوتے ہوں گے۔ فرمایا آپ پریشان نہ ہوں اللہ سب جانتا ہے کہ یہ آپ سے کیا کہتے ہیں اور ان کے دلوں میں کیا ہے کہ بظاہر تو جھگڑا کرتے کہ ہم حق پر ہیں مگر اندر سے جانتے تھے کہ حق تو ادھر ہے مگر ہم عیش و عشرت کیسے چھوڑیں خواہشاتِ نفس میں پھنسے ہوئے تھے۔ انسان اگر غور کرے تو اس کی اصل تو نطفہ ہے ایک قطرہ پانی میں سارا انسانی وجود اور اس کے اجزا روئے زمین سے جمع کرکے سمو دئیے اور پھر اس بوند سے انسان بنا کر پیدا کردیا اب یہ بھی اللہ سے جھگڑا کرنے میدان میں اترا ہے اور بڑھ بڑھ کر باتیں کرتا ہے کہتا ہے بھلا ان بوسیدہ ہڈیوں کو جو خاک ہوچکیں کون زندہ کرے گا آپ فرم ادیجیے وہی ذات جس نے پہلے ذرات سے قطرہ اور قطرے سے وجود پیدا کردیا تھا پھر سے ان سب کے ذرات کو انسانی روپ عطا کردے گا کہ وہ ہر طرح کی صنعت پہ قادر اور سب سے زیادہ جاننے والا ہے بھلا بکھرے ذرات کو جمع کرنا اتنا مشکل تو نہیں جتنا سرسبز آنے والے درختوں میں آگ کو رکھ دینا ہے کہ تم سبز ٹہنیاں رگڑ کر آگ پیدا کرلیتے ہو۔ سبز درختوں میں آگ : عرب تو ویسے بھی صحرا سے دو قسم کے درخت لاتے جن کو آپس میں رگڑ کر آگ پیدا کرلیتے ویسے بھی آج کل تو باٹنی والوں نے ثابت کردیا ہے کہ ہر پتے میں بھٹی لگی ہوئی ہے جہاں غذا پک کر پودے یا درخت کو تقسیم ہوتی ہے۔ اور یہ تو ایک بات ہے ارض و سما کی یہ وسیع کائنات اور اس میں بیشمار مخلوق پیدا فرمانے والا خالق کیا اس بات پہ قادر نہیں ہوسکتا کہ ان کو پھر سے پیدا کردے یقیناً وہ جتنی بار چاہے ایسا کرسکتا ہے وہ قادر ہے ہر طرح کی تخلیق پر اور اس کے علم میں ہے ہر ذرہ اسے پیدا کرنے کے لیے صرف حکم دینا ہوتا ہے کہ دنیا سے معدوم شے اس کے علم میں حاضر ہے خود اسی کو حکم دے دیتا ہے جب چاہے کہ ہوجا اور وہ بلا تاخیر ہوجاتی ہے۔ اور اس کی ذات ہر کمی سے بالا تر اور پاک ہے ہرچیز کی حکمرانی اسی کے دست قدرت میں ہے ہر ذرہ اسی کے حکم کے تابع ہے اور ہر ایک کو واپس اسی کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے۔
Top